سلیم انصاری کے مطالعہ کا سفر :- ڈاکٹر سید اسرارالحق سبیلی

Share
ڈاکٹرسید اسرارالحق سبیلی

سلیم انصاری کے مطالعہ کا سفر

ڈاکٹر سید اسرارالحق سبیلی
Mob: 9346651710

سلیم انصاری (پ: ۱۹۶۲) کا تعلق ۱۹۸۰ ء کے ما بعد جدید ادبی نسل سے ہے۔وہ بنیادی طور پر غزل اور نظم کے شاعر ہیں اور شاعر کی حیثیت سے ہی اپنی شناخت رکھنا چاہتے ہیں،لیکن ان کا خیال ہے کہ ہر ادبی نسل کو اپنا ناقد خود پیدا کرنا چاہئے،اس لئے انہوں نے اپنی ادبی نسل کی تخلیقی سمت و رفتارکے مطالعے کا سفر بھی ساتھ ساتھ جاری رکھا ہے اور اپنے مطالعے کو رسائل و جرائد کی زینت بھی بخشتے ہیں۔ ان کی کتاب ”مطالعے کا سفر” ایسے ہی مضامین کا انتخاب ہے۔

کتاب کا عنوان بڑا دلچسپ اور سبق آموز ہے،ایک طالب علم، معلم، ادیب،نقاد، محقق اور شاعر کے لئے مطالعہ ہی سب کچھ ہے۔مطالعہ کے بغیر وہ ادھورا ہے،بلکہ ڈاکٹر گیان چند جین کے مطابق وہ مردہ ہے۔کتاب کے عنوان سے اندازہ ہوتا ہے کہ مطالعہ سلیم انصاری کی دلچسپی،زندگی اور کمزوری بھی ہے۔کاش یہ کمزوری اسمارٹ فون کی جگہ لے لے تو اب بھی ہم راہِ راست پر آکر علم و ادب میں ہو رہے خلا کو پر کر سکتے ہیں۔
”مطالعے کا سفر“میں کل ۷۲ مضامین شامل ہیں،جن میں بیشتر مضامین کا تعلق ما بعد جدید نسل کے نمایاں شاعروں سے ہے،جیسے غضنفر،خالد جمال،کبیر اجمل،عطا عابدی،شہناز نبی،جاوید ندیم اور ظفر گورکھپوری وغیرہ، نیز مابعد جدید نظم اور شاعری سے متعلق دو مضامین شامل ہیں۔ان کے علاوہ آفاقی شاعر غالب و اقبال اور پیش رو نسل کے شاعر ستیہ پال آنند (لہو بولتا ہے)،اور کرشن کمار طور (خاک خمیر)کی شاعری پر عقیدتمندانہ اظہارِ خیال کیا گیا ہے،نئی صدی کے اہم ناول نگار نورالحسنین،شموئل احمد اور مشرف عالم ذوقی کے ناولوں بالترتیب ”ایوانوں کے خوابیدہ چراغ“،”گرداب“اور ”لے سانس بھی آہستہ“پر تاثرات اور تنقیدی اظہار کیا گیا ہے۔علاوہ ازیں ”دکن کی پیش رو غزلیں“(اسلم مرزا)، ”میخانہئ اردو کا پیرِ مغاں۔نارنگ ساقی“ (نذیر فتح پوری)اور حیدر قریشی کے افسانوں اور رتن سنگھ کے افسانچوں (مانک موتی) پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔
اس طرح سلیم انصاری کے مطالعے کے سفر میں قدیم و جدید کا حسین امتزاج اور عصر حاضر کی مروجہ اصناف کا متوازن و دلچسپ جائزہ و مباحثہ شامل ہے، جس کے مطالعہ کے بعد قلب و نگاہ کو مسرت و بصیرت اور شعور و آگہی کے نئے چراغ روشن ہوتے ہیں اور اظہار و بیان کے نئے نئے اسالیب و انداز،تفہیم و ترسیل کے نئے نئے زاویے اور تنقید و تمییز کے نئے نئے گوشے سامنے آتے ہیں۔
سلیم انصاری نے اپنے مضمون کی ابتدا ”اقبال کی شاعری میں ہندوستانی تہذیب کے عناصر“سے کی ہے۔اس میں انہوں نے واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ یوروپ میں قیام کے دوران مسلسل غور و فکر اور تہذیبوں کے تقابلی مطالعہ کے زیرِ اثر اقبال اس نتیجہ پر پہنچے کہ ہندوستان میں صدیوں پرانی تہذیبی روایتوں اور وراثتوں کے علاوہ اصلاحی افکارو نظریات کے revival کی ضرورت ناگزیر ہے،چنانچہ یوروپ سے واپسی کے بعد رام اور نانک جیسی شہرہئ آفاق جیسی نظمیں لکھ کر ہندوستانی تہذیب و ثقافت کی عظیم روایتوں اور وراثتوں سے اپنی وابستگی کو اور بھی واضح کردیا۔ان کو احساس ہے کہ ہندوستان کے صوفیوں، سنتوں اور فقیروں نے اپنی تعلیمات کے ذریعہ قومی یکجہتی،بھائی چارگی ور امن ومحبت کا پیغام دیا ہے جو سرحدوں کے حصار سے نکل کر مغرب میں فیض کا سرچشمہ بنی ہوئی ہے،جس کی آج ہندوستانیوں کو سخت ضرورت ہے۔
”غالب کی شاعری میں امیجری کی تلاش“سلیم انصاری کا دوسرا مضمون ہے،امیجری دراصل ایسی اصطلاح ہے جو انگریزی ادب کی تنقیدی تحریروں میں کثرت سے مستعمل ہے،اس کے لغوی معنی لفظوں کی مدد سے تصویر بنانے اور پیکر سازی کا عمل ہے۔سلیم انصاری کے مطابق غالب ایک کامیاب مصورِ جذبات ہیں،انہوں نے محبوب کی بے وفائی،ہجر و وصال،امید و ناامیدی اور زندگی کے دیگر مسائل کے اظہار کے لئے غیر شعوری طورپر امیجری کی کئی اقسام کا استعمال کیا ہے جس میں سادہ امیج،مجرد امیج اور منتشر امیج وغیرہ اہم ہیں۔(صفحہ ۱۹ تا ۲۲)
تیسرا مضمون ”ستیہ پال آنند کا تخلیقی شعور اور عالمی عصری آگہی“(لہو بولتا ہے کی روشنی میں)ہے۔سلیم انصاری کو یہ اعتراف کرنے میں کوئی تکلف نہیں کہ عالمی سطح پر اردو نظموں کو متعارف کرانے میں ستیہ پال آنند کی کوششوں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا،سلیم انصاری کا مطالعہ،دقتِ نظر،تجزیہ،استحسانِ ادب،تنقیدی شعور اور حسنِ انتقاد کا اندازہ ذیل کے اقتباس سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے:
”ستیہ پال آنند کی نظموں کے سنجیدہ مطالعے سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ ان کے یہاں نظموں کی تخلیقی فضا میں ایک طرح کا کھلا پن ہے،ان کے ڈکشن میں نظموں کے مرکزی خیال کو مختلف جہتوں میں روشن کرنے کی صلاحیت ہے،اور ان کی سوچ کی زیریں لہروں میں نظم کے ساتھ ساتھ سفر کرنے کی ہنر مندی موجود ہے۔ان کے یہاں جدید اردو نظموں میں مسلسل استعمال ہونے والے لفظ ہر بار نئی معنویت خلق کرنے پر قادر ہیں۔“ (صفحہ ۲۴)
جیسا کہ شروع میں عرض کیا گیا کہ مصنف نے مابعد جدیدیت پر دو مضامین شامل کئے ہیں،یہ دونوں مضامین ما بعد جدیدیت کی افہام و تفہیم،افادیت اور اس کی وسعت کو سمجھنے میں بہت ممد و معاون ہیں۔ترقی پسندی سے انحراف کے نتیجے میں جدیدیت کے علم برداروں کو کھلی فضا کا احساس ہوا،موضوعات،فارم اور اسلوب کی سطح پر نئے تجربات کے مواقع میسر آئے،مگر جدیدیت نے بھی رفتہ رفتہ وجودیت اور اجنبیت کے منشور کو غیر شعوری طور پر لاگو کرنا شروع کردیا، جس کے نتیجے میں ذات کے خول میں بند مایوسی، تنہائی،داخلی انتشاراور قنوطیت کے شکار جدیدیت گزیدہ تخلیق کاروں کا رشتہ نہ صرف اپنے عہد کے سیاسی،سماجی،اور تہذیبی شعور و آگہی سے کٹ گیا اور اس نام نہاد فیشن پرست جدیدیت سے بیزار ہوکر ادب کا سنجیدہ قاری بھی کنارہ کش ہو گیا،یہیں سے جدیدیت کا زوال اور مابعد جدیدیت کا آغاز ہوا۔(صفحہ ۳۰۔۳۱)
1980ء کے بعد کی نئی نسل کے بیشتر شعراء کے یہاں مابعد جدیدیت ایک غالب رحجان کی شکل میں نمو پذیر ہوئی،اور اس نئی نسل کی اپنی علاحدہ اور آزاد عصری فکر و شعور کے زاویے سامنے آئے۔اس نسل نے سائبر،کمپیوٹر اور انٹرنیٹ عہد کے مسائل و مصائب کو اپنے طور پر سمجھنے کی کوشش کی ہے،تاہم سلیم انصاری کو اعتراف ہے کہ مابعد جدیدیت کے نظم نگارشاعروں نے عصری تقاضوں کو کماحقہ پورا کرنے میں یقیناً کوتاہی برتی ہے۔
مصنف نے اس بات پر اطمینان کا اظہار کیا ہے کہ ۱۹۸۰ء کے بعد ادبی افق پر نمایاں ہونے والی نسل کے یہاں نہ تو اپنی پیش رو نسل کی فکر کا عکس ہے اور نہ ہی کسی نظریاتی وابستگی کا احساس ہوتاہے،بلکہ کھلے ذہن اور وسیع تناظر میں مشاہدات اور محسوسات کی ایک نئی تخلیقی،سچائی کا احساس اور عصری مسائل و مصائب کا آزادانہ اور فطری اظہار ہوتا ہے۔سلیم انصاری نے مابعد جدید نظموں کے تخلیقی حوالوں سے ۱۹۸۰ء کے بعد کے چند شعراء کے نام درج کئے ہیں،جیسے عالم خورشید،خورشید اکبر،خورشید طلب،اکرام خاور،کوثر مظہری،جمال اویسی،غضنفر،جینت پرمار، ریاض لطیف،ابراہیم اشک، ساجد حمید،شاہد کلیم، شبنم عشائی،شاہد جمیل، عنبر بہرائچی،نعمان شوق،شیخ خالد کرار،معراج رعنا، راشد انور راشد،راشد جمال فاروقی،سہیل اختر،عذرا پروین،ترنم ریاض،عطا عابدی، مشتاق صدف، خالد عبادی،امیر حمزہ ثاقب،شارق کیفی اور عطاء الرحمٰٰن وغیرہ۔مصنف نے مضمون کے آخر میں اس بات کی ضرورت پر زور دیا ہے کہ نئی نسل کے ان تخلیق کاروں کی نگارشات کا ایمانداری سے تجزیہ کیا جائے اور ایوانِ ادب میں گونجتی ان پر امید آوازوں کو شناخت کے عمل سے گزاراجائے، انہوں نے پیش رو نسل کے ناقدینِ ادب سے مطالبہ کیا ہے کہ چشم پوشی کے بجائے اس نسل کی تخلیقی صلاحیتوں کا غیر جانبدارانہ اورپر خلوص جائزہ لیا جائے،تاکہ ان کے شعری سرمایے کی قدر و قیمت کا تعین کیا جا سکے۔،،(صفحہ۳۸۔۴۸)
سلیم انصاری نے کرشن کمار طور کے تازہ ترین مجموعے ”خاک خمیر“کا اچھا تجزیاتی اور تنقیدی مطالعہ پیش کیا ہے کہ ان کی فکر کا کینوس بے حد وسیع ہے،ان کی شاعری میں اسلوب اور اظہار کی سطح پراگرچہ کلاسیکی رچاؤ ہے،مگر لہجے کی تازہ کاری،منفرد ڈکشن اور انوکھی تراکیب ِ کے علاوہ طرزِ اظہار کی شگفتگی اور اسلوب کی ندرت نے ان کی عشقیہ شاعری کو نئے رنگ و آہنگ سے ہم کنار کیا ہے۔ان کی انفرادیت یہ ہے کہ انہوں نے اپنا مخصوص ڈکشن خود وضع کیا ہے اور یہی ڈکشن ان کی تخلیقی شناخت کا معتبر حوالہ ہے۔(صفحہ ۴۹۔۵۰)
شموئل احمد کے ناول ”گرداب“ان کے دوسرے ناولوں کی طرح مرد و عورت کے درمیان نا معلوم جنسی رشتوں کی ضرورت اور اس کی نفسیات پر مبنی ہے،جو جسم سے شروع ہو کر ذہن و روح تک اپنی تمام تر پیچیدگیوں اور الجھنوں کے ساتھ پھیلتا چلا جاتا ہے۔
آج کی تیز رفتار مشینی زندگی میں افسانچے جیسے مختصر ترین فن پاروں کا تخلیقی جواز اور اس کی اہمیت و افادیت سے انکار کی گنجائش نہیں ہے۔مشہور ترقی پسند افسانہ نگار رتن سنگھ کا ”مانک موتی“ان کے ایک سو افسانچوں پر مشتمل ہے،جسے افسانچوں کے سفر میں ایک سنگِ میل کی حیثیت حاصل ہے۔مجموعی طور پر رتن سنگھ کے افسانچے زندگی کے وسیع تر کینوس پر پینٹ کی گئی ایسی تصویریں ہیں جن میں اپنے احساس و ادراک کی آنکھوں سے معاشرے کی موجودہ سیاسی اور سماجی صورتِ حال کا عکس بھی دیکھ سکتے ہیں۔
مشرف عالم ذوقی نے بے شمار افسانوں کے علاوہ کئی عمدہ ناول بھی تحریر کئے ہیں،جن کے موضوعات موجودہ عہد کی سیاسی اور سماجی بصیرت کے آئینہ دار ہیں۔ ان کا ناول ”لے سانس بھی آہستہ“کا مرکزی خیال بھی ان کے عصری،سماجی اور سیاسی شعور و آگہی کا آئینہ دار ہے۔ اس ناول میں ہندوستان کی آزادی کے بعد پیدا ہونے والی صورتِ حال اور تہذیبوں کے تصادم اور نسلوں کے ٹکراؤ اوراخلاقیات سے انحراف کو نہایت عمدگی سے بیان کیا گیا ہے۔ذوقی کے مطابق یہ ناول تہذیب کا مرثیہ نہیں بلکہ گلوبل سماج کی بدلتی ہوئی تصویر کا آئینہ ہے،سلیم انصاری کے مطابق ”اس ناول کا شمار ایک کامیاب ناول کے طور پر کیا جائے گا کیونکہ اس میں کہانی کا سفر بیک وقت کئی سطحوں اور متعدد دشاؤں میں ہوتا ہے،اور خاص بات یہ ہے کہ کہانی کے ساتھ ساتھ اپنے عہد کی تہذیبی،سیاسی اور سماجی تاریخ بھی رقم کرتے چلے جاتے ہیں۔ (صفحہ۷۷۔۸۴)
سلیم انصاری نے ”وحشی سعید کے افسانوں میں زندگی کی تلاش“ ان کے افسانوی مجموعہ ”سڑک جارہی ہے“کے حوالے سے کی ہے،جس میں ۰۳ افسانے ہیں،انصاری صاحب کے بقول:یہ افسانے عام قاری سے رشتہ استوار کرنے کی بھر پور صلاحیت رکھتے ہیں اور افسانہ نگار کی تخلیقی توانائی اور اسلوب کی انفرادیت کے مظہر ہیں۔
”حیدر قریشی کے افسانوں کی حقیقت“کا اظہار سلیم انصاری نے،،روشنی کی بشارت،،کے حوالے سے کیا ہے،حیدر قریشی کے یہاں روشنی ایک کلیدی استعارہ ہے جو ان کی کہانیوں کو تہ در تہ معنویت سے ہم کنار کرتا ہے،یہ روشنی جب باطن سے منعکس ہوتی ہے تو درویشوں،قلندروں اور صوفیوں کے قلوب کو منور اور معطر کرتی ہے اور انسانوں کو تاریکیوں سے نکال کر ایمان افروز روحانی عقیدوں اور جذبوں کے روشن جہانوں میں لے جاتی ہے۔غرض حیدر قریشی ایک ایسے افسانہ نگار ہیں جن کے یہاں موضوعات کا تنوع اور اسلوب کی رنگا رنگی دونوں موجود ہیں جو ان کی کہانیوں کو معانی و مفاہیم کے نئے ذائقوں سے روشناس کراتے ہیں۔
”دکن کی پیش رو غزلیں۔ایک مختصر جائزہ“میں سلیم انصاری نے اسلم مرزا کی تازہ ترین تحقیقی کتاب ”دکن کی پیش رو غزلیں“کا مختصر جائزہ پیش کیا ہے،اس کتاب میں کثیر الجہت قلم کار،محقق،نقاد،شاعر اور مترجم اسلم مرزا نے دکنی اردو کے ایک سو سترہ نمائندہ اور اہم شعراء کا اجمالی تعارف مع نمونہئ کلام مستند اور معتبر حوالوں کے ساتھ رقم کیا ہے۔انہوں نے اپنی تحقیق کا دائرہ گول کنڈہ اور بیجا پور کے علاوہ آصف جاہی عہدکے دکنی شعراء تک پھیلا دیا ہے،جس کے سبب اس کی اہمیت و افادیت کا کینوس وسیع ہو گیا ہے۔کتاب میں شامل شعراء کا کلام پڑھنے سے دکنی اردو میں لسانی سطح پر بتدریج ہونے والی تبدیلیوں اور سمت ورفتار کا اندازہ ہوتا ہے۔اس کتاب میں شامل غزلیں ہماری تہذیبی اور تاریخی وراثت کاناقابلِ فراموش حصہ ہیں۔(صفحہ ۱۰۰۔۱۰۳)
”میخانہئ اردو کا پیرِ مغاں“نذیر فتح پوری کی ایسی کتاب ہے،جو کے۔ایل نارنگ ساقی کی ذات،اردو سے ان کی بے لوث و بے پناہ محبت،ادبی بزم آرائیوں اور اردو کی تہذیبی،ثقافتی اور ادبی صورتِ حال کا عصری منظر نامہ پیش کرتی ہے۔اس کتاب کے مطالعہ سے نارنگ ساقی کی شخصیت کے کئی پہلو اجاگر ہوتے ہیں،ان کی مہمان نوازی،خلوص،اخلاق،بھائی چارگی اور انسان دوستی سرحدوں کی قید و بند سے آزاد ہیں۔پاکستان سے آنے والے شعراء اور ادباء ہی نہیں بلکہ دیگر پاکستانی بھی ان کی مہمان نوازی سے یکساں طور پر فیض یاب ہوتے ہیں۔وہ اپنی مہمان نوازی کے دوران پورے ہندوستان کی ادبی، تہذیبی اور ثقافتی قدروں کی نمائندگی کرتے ہیں۔نذیر فتح پوری نے نارنگ ساقی صاحب کی تالیف کردہ کتب ”ادیبوں کے لطیفے “ اور،، خوش کلامیاں قلم کاروں کی“ کے حوالے سے ان کی محبت، خلوص اور ظرافت پر بھر پور روشنی ڈالی ہے۔
غضنفر ایک کامیاب ناول نگار اور افسانہ نویس کی حیثیت سے شہرت رکھتے ہیں،لیکن جب مصنف کو ان کی شاعری کا مجموعہ ”آنکھ میں لکنت“ موصول ہوا تو وہ ایک خوشگوار حیرت سے دو چار ہوئے،غضنفر کی شاعری براہِ راست زندگی کے مسائل و مصائب سے مکالمہ کرتی نظر آتی ہے،سلیم انصاری کے مطابق غضنفر کی شاعری میں ایک ایسے انسان کا تصور ہے جو مثالی نہیں بلکہ اپنے مسائل و مصائب سے نبرد آزما،زندگی سے برسرِ پیکار،اپنی ضرورتوں کے حصول میں ناکام ہوکر ذہنی انتشار کا شکار،گھر،دفتر اور سڑکوں پر بکھرا ہوا ایسا انسان ہے جسے بیک وقت اپنی معاشرتی اور انفرادی ذمہ داریوں کا احساس ہے،یہی نہیں بکھرتی ٹوٹتی تہذیبی قدروں کے درمیان زندگی کرتا ہوا ایک ایسا فرد غضنفر کی شاعری میں نظر آتا ہے جو جہدِ مسلسل کی ایماندارانہ کوشش کرتا ہے۔
دفتر میں ذہن،گھر میں نگہ،راستے میں پاؤں
جینے کی کوششوں میں بدن ہاتھ سے گیا

”خالد جمال کی شاعری کا فکری اور تخلیقی نظام“ایک اہم مضمون ہے، خالد جمال ۱۹۸۰ کے نمایاں طور پر اپنی شناخت قائم کرنے والے شاعر ہیں،ان کا اولین شعری مجموعہ حال ہی میں منظرِ عام پرآیا ہے،انہوں نے اپنے مجموعے کی اشاعت میں جلد بازی نہیں کی،بلکہ غیر شعوری طور پر اپنے تخلیقی وجدان کو اپنے جذب و احساس سے ہم آہنگ ہونے اور اپنی فکر کو فطری طور پر تخلیقی مراحل سے گزارنے کے مواقع فراہم کئے ہیں۔خالد جمال کی شاعری کی جس خصوصیت نے مصنف کو متاثر کیا ہے وہ ان کی شاعری کا وہ لہجہ ہے جو درویشانہ خود کلامی سے عبارت ہے،برسوں کی تخلیقی ریاضت اور شعری مراقبے کی بدولت انہوں نے نہایت انہماک اور ارتکاز سے اپنی شاعری اور زندگی کو ہم آہنگ کردیا ہے۔
عرصہئ ہجر کی شب تاب شعاؤں سے جمال
گھر کی دہلیز میں کچھ روشنی کی ہے میں نے
زندگی سے مکالمہ کرنے والا شاعر خوشبیر سنگھ شاد کے بارے میں سلیم انصاری کی شگفتہ بیانی ملاحظہ ہو:
”خوشبیر سنگھ شاد موجودہ شعری منظر نامے پر نقش ایک ایسا نام ہے جس نے اپنی شاعری میں خوش گوار حیرتوں اور زندگی رنگ خوابوں ایک نیا ذائقہ تخلیق کیا ہے۔ان کی تخلیقی انفرادیت نے بہت کم عرصہ میں سرحدی اور جغرافیائی لکیروں کو مٹاکر عالمی سطح پر اپنی شناخت کے نئے موسم تحریر کئے ہیں۔شاد کی شاعری ایک ایسا حیرت کدہ ہے جس میں ان کی سوچ کے مختلف رنگوں کے آئینے نصب ہیں اور جن میں ان کی فکر و شعور اور عصری آگہی کے رنگ برنگے عکس چمکتے نظر آتے ہیں۔“ (صفحہ۔۱۲۷)
جمالیاتی تنقید کے اس طرح کے بے شمار نمونے کتاب کے ورق ورق میں چمکدار موتیوں کی طرح نگا ہ و دل کو اپنی طرف کھینچتے ہیں اور مصنف کی گہری ریاضت،وسعتِ مطالعہ،تنقیدی بصیرت،الفاظ کا برمحل وخو بصورت استعمال،پر اعتماد و پروقار تنقیدی لہجہ اور خوبصورت و شیریں تنقیدی بیان سلیم انصاری کو جمالیاتی و اسلوبیاتی تنقید نگاروں کی فہرست میں شامل کرتے ہیں۔
”ایک آنسو کہ جو آنکھوں کو منور کردے“کے عنوان سے شامل مضمون میں شاہد میر مرحوم کی شعری کائنات کا مختصر جائزہ پیش کیا گیا ہے،سلیم انصاری کے نزدیک شاہد میر نئے تخلیقی تجربوں اور مشاہدوں کے حساس شاعر ہیں،انہیں آنسوؤں سے آنکھوں کو منور کرنے کا ہنر بھی آتا ہے اور زخموں سے روشنی کشید کرنے کا عمل ان کے یہاں شدید ہے:
دل لبھاتے ہوئے خوابوں سے کہیں بہتر ہے
ایک آنسو کہ جو آنکھوں کو منور کردے
”منتشر لمحوں کا نور“کے شاعر کبیر اجمل کو سلیم انصاری نے خوشگوار حیرتوں کا شاعر قرار دیا ہے اور اس کا راز یہ ہے کہ انہوں نے تخلیقی تجربات اور رومانی جذبات و احساسات کے اظہار میں شائستگی اور خوش سلیقگی کا ثبوت فراہم کیا ہے:
لے کے پہنچی ہے کہاں سیم ِبدن کی خواہش
کچھ علاقہ نہ رہا سود و زیاں سے آگے
سلیم انصاری نے نذیر فتح پوری کی نظموں کا جائزہ ان کی کتاب ”نظمِ سفر“کے حوالے سے لیا ہے۔نذیر فتح پوری کے یہاں تخلیق کے نئے نئے گوشے منور ہیں،ان کی نظموں کے موضوعات کا دائرہ بے حد وسیع ہے اور فکر واسلوب کی سطح پر ان کے یہاں تنوع پایا جاتا ہے،وہ اپنی نظموں کے لئے خام مواد اپنے گردو پیش کے ماحول،سیاسی و سماجی منظر نامے اور اپنے ماضی کے خزانے سے حاصل کرتے ہیں۔ماضی کی یادوں سے متعلق ان کی نظمیں فتح پوراسلامیہ اسکول،گاؤں،پونہ اور ماں جیسی شاہکار تاثراتی نظمیں ہیں، تو عصری پس منظر میں کشمیر کی فریاد،جدید آدمی کا المیہ،بارود کی تلواراور لہو کے چراغ جیسی جذباتی نظمیں ہیں،جن میں دہشت گردی،سیاسی خوں ریزی،انسانی رشتوں کی پامالی،اور ٹوٹتی بکھرتی تہذیب واخلاقی قدروں پر فکر وتشویش کا بے باکانہ اظہار کیا گیا ہے۔

”اگلے پڑاؤ سے پہلے“کلکتہ کی قابلِ ذکر شاعرہ اور ادیبہ پروفیسر شہناز نبی کی نظموں کا ایک خوشگوار تخلیقی تجربہ ہے،شہناز نبی کے یہاں بیک وقت زندگی سے محبت بھی ہے اور زندگی کی سفاکیوں کے خلاف احتجاج بھی۔ان کی نظموں میں تہذیبی قدروں سے محبت کا جذبہ بھی ہے اور فرسودہ روایات سے بغاوت کا حوصلہ بھی۔نسوانی جذبات و احساسات کی ترجمانی کے ساتھ ساتھ ان کی تخلیق کا ایک بڑا حصہ عصری شعور و آگہی سے عبارت ہے۔وہ بار بار اپنے بچپن کی یادوں کے جھروکے سے اپنے ماضی میں جھانکتی ہیں اور بچپن کی خوشگوار یادوں سے رہنمائی حاصل کرتی ہیں۔شہناز نبی نے بچوں کے لئے بنگلہ زبان کے کئی ڈراموں کے اردو میں ترجمے کئے ہیں،وہ بچوں کی ایک کامیاب مترجم کی حیثیت سے بچوں کے ادب کی تاریخ میں یاد کی جائیں گی،اگر وہ بچوں کی شاعری میں تجربہ کریں تو بچوں کی کامیاب شاعرہ بن سکتی ہیں۔
سلیم انصاری نے عطا عابدی کو زخم، زندگی اور خواب کا شاعر قرار دیا ہے کیوں کہ ان کے یہاں زندگی، زخم،خواب اور سفر ایسے ترجیحی الفاظ ہیں جو ان کی شاعری کی عمومی فضا قائم کرتے ہیں۔وہ زندگی سے براہِ راست مکالمہ کرنے اور اپنے غموں اور زخموں سے توانائی حاصل کرکے زندگی کے مسائل و مصائب سے نبرد آزما رہتے ہیں:
کیا خبر تھی جذبہئ عیش و طرب لے جائے گا
زندگی کا غم مرا ذوقِ ادب لے جائے گا
سلیم انصاری نے عطا عابدی کو زخم، زندگی اور خواب کا شاعر قرار دیا ہے کیوں کہ ان کے یہاں زندگی، زخم،خواب اور سفر ایسے ترجیحی الفاظ ہیں جو ان کی شاعری کی عمومی فضا قائم کرتے ہیں۔وہ زندگی سے براہِ راست مکالمہ کرنے اور اپنے غموں اور زخموں سے توانائی حاصل کرکے زندگی کے مسائل و مصائب سے نبرد آزما رہتے ہیں:
کیا خبر تھی جذبہئ عیش و طرب لے جائے گا
زندگی کا غم مرا ذوقِ ادب لے جائے گا
عطا عابدی بچوں کے بھی خوش فکر اور کامیاب شاعر ہیں،اس کے علاوہ وہ ایک عمدہ نثر نگار اور نقاد بھی ہیں،اور ادب میں صحت مند تنقیدی رویوں کے طلبگار بھی۔
سلیم انصاری نے جاوید ندیم کے ”موجِ خیال“ کے فکری اور تخلیقی نظام پر بحث کی ہے۔موجِ خیال،جاوید ندیم کی نثری نظموں پر مشتمل ہے جو ۱۹۸۵ سے ۲۰۰۰ء کے درمیان قلم بند کی گئی ہیں۔موجِ خیال میں جاوید ندیم اپنی فکر و جذبے کی شدت اور احساس کے سیلاب کے سبب اپنی غزلوں سے یکسر مختلف نظر آتے ہیں۔ ان کے مطابق آج پوری دنیا ایک منڈی بن گئی ہے اور تہذیب و الفاظ بازاری ہوگئے ہیں،آج جب کہ مابعد جدید شعری تناظر میں غیر مشروط ذہنی وابستگی اور تخلیقی اظہار کی مکمل آزادی کی حمایت میں ایک پوری نسل کھڑی ہے،جاوید ندیم یہ سوال کرتے ہیں کہ کیا ادب کی حیثیت،زندگی کے ڈرائنگ روم میں رکھے ایک خوبصورت گلدان کی سی ہے،جو صرف ہمارے جمالیاتی ذوق کی تسکین کے لئے رکھا گیا ہے،اس ضمن میں جاوید ندیم نے اپنی صحت مند نظریاتی اور ذہنی وابستگی کے حوالے سے مادی اور روحانی زندگی کے درمیان،کشمکش اور تضادات کو سمجھنے کی نہایت مخلصانہ اور ایماندارانہ کوشش کی ہے،جو یقینی طور پر لفظ کی روحانی جمالیات تک رسائی کا موئثر وسیلہ ہے۔بطور نمونہ صرف ایک فن پارہ ملاحظہ ہو:
تمہاری یہ زندگی
(پیدائش سے موت تک)
کیا مکمل زندگی ہے؟
نہیں یہ تمہاری زندگی کا لمحہ بھر ہے
مجھے افسوس ہے
کہ آکاش کی حدوں کو چھونے والا انسان
ابھی تک اپنی ذات کی بلندیوں کو نہیں چھو پایا

جاوید ندیم کے فکر پاروں میں قرآن مجید کے حکیمانہ اسلوب اور تمثیلی اندازِ تخاطب کی جھلک نظر آتی ہے،کیوں کہ وہ اپنی جڑیں اسلامی روایات کی تہذیبی زمینوں میں تلاش کرتے دکھائی دیتے ہیں۔وہ کبھی ایک عابد کی طرح خود سپردگی کی لذتوں سے سرشار ہوتے ہیں،کبھی مصلحِ قوم اور واعظ بن کر خیر وشر،گناہ و ثواب،علم و جہل اور نور و ظلمت کے درمیان فلسفیانہ اسا س پر حدِ فاصل کھینچتے ہیں، کبھی درویش، صوفی اور قلندر بن کر فقر و غنا اور انجذاب کی کیفیتوں سے ہم کنار ہوتے ہیں۔
اڑیسہ کے عبد المتین جامی کی کتاب ”نئی تنقیدی جہات“ عملی تنقیدوں پر مشتمل ہے،جس میں انہوں نے غزل نما کے بانی ظہیر غازی پوری،شفق کے ناول کانچ کا بازیگر،سعید رحمانی،احتشام اختر،منیر سیفی،عالم خورشید،خاور نقیب،اظہرمنیراور سلیم انصاری جیسے مابعد جدید شعراء کی شاعری پر اظہارِ خیال کیا ہے۔اس مضمون کے مطالعہ سے مجھے سلیم انصاری کی شاعری کا بھی علم ہوا،جس سے میں ناواقف تھا،عبد المتین جامی کے الفاظ میں ”سلیم انصاری ہمارے عہد کے ایک معتبر شاعر ہیں،انہوں نے نہ صرف یہ کہ نظم وغزل دونوں ہی صنفوں پر کامیابی سے طبع آزمائی کی ہے،بلکہ انہوں نے نظم کے شاعر کی حیثیت سے اپنا لوہا منوایا ہے۔(صفحہ ۱۶۹۔ ۱۹۷)
”ایوانوں کے خوابیدہ چراغ“ نورالحسنین کا ۱۸۵۷ء کی پہلی جدو جہدِ آزادی کے پس منظر میں لکھا گیا ناول ہے،جس میں تاریخی واقعات کی صحت کا التزام رکھا گیا ہے۔ناول نگار نے تاریخی واقعات کو رقم کرتے ہوئے فکشن کے اصول و ضوابط کا پورا لحاظ رکھا گیا ہے۔
آخری مضمون ”کوئی صورت تو خرابے میں نمو کی نکلے“میں سنجے مرزا شوق کی غزل، نظم اور رباعی گوئی کا تنقیدی جائزہ لیا گیا ہے۔شوق کا تعلق بھی مابعد جدید نسل سے ہے۔شوق کی شاعری محض تفننِ طبع کا ذریعہ نہیں،بلکہ ذات و کائنات کے مطالعے اور مشاہدے کی روشنی میں زندگی کو سمجھنے کی ایک ایماندارانہ کوشش ہے اور اس کوشش و ریاضت میں وہ کافی حد تک کامیاب بھی ہوئے ہیں،بلکہ اپنا ایک الگ لہجہ بھی تلاش کر لیا ہے:
کوئی آساں نہیں اردو غزل میں گفتگو کرنا
لہو تھوکا ہے میں نے رات دن لہجہ بنانے میں

ظاہری و معنوی اعتبار سے ”مطالعے کا سفر“بڑی عمدہ تصنیف ہے۔کتاب کا ورق ورق جمالیاتی و اسلوبیاتی تنقید کا بہترین نمونہ ہے۔
ہر ادیب و شاعر اور ناقد کے لئے مطالعہ ہی سب سے اہم ہے،اس لئے مطالعہ کا سنجیدہ ذوق رکھنے والے سلیم انصاری سے امید کرتے ہیں کہ وہ اپنے مطالعہ کے سفر میں تھکاوٹ کا شکار نہ ہوں گے اور اپنی ادبی و تنقیدی ریاضت و بصیرت سے ہمیں مزید فیض یاب ہونے کا موقع دیں گے-
——
ڈاکٹر سید اسرارالحق سبیلی
اسسٹنٹ پروفیسر و صدر شعبہئ اردو
گورنمنٹ ڈگری اینڈ پی جی کالج سدّی پیٹ۔
ریاست تلنگانہ ،پن 502103

Share
Share
Share