افسانہ : آرزو
ڈاکٹر صفیہ بانو .اے .شیخ
ایک آرزو ہی تھی کہ وہ پوری ہو کر بھی نہیں پوری ہو پائی۔ ہم دونوں صرف بہنیں ہی نہیں بلکہ ایک دوسرے کی ہم راز تھیں۔ مگر قسمت کا کھیل کہے کہ نصیب کا کھیل کہے، ہم دونوں کی زندگی سب کچھ تھا،نہیں تھا تو بس شوہر کی پیار ی عزت بھری توجہ۔
ناہیدہ نے اپنے دل کے راز فرزانہ سے کہے اور فرزانہ نے اپنے دل کے درد ناہیدہ سے بانٹے۔ ناہیدہ ہر بات کو کسی سے کہنے ڈرتی تھی جبکہ فرزانہ اس سے پوری طرح مختلف تھی۔ فرزانہ ایک سگھٹر،سلجھی ہوئی اور سنجیدہ مزاج لڑکی تھی لیکن قسمت نے آج اسے سب سے زیادہ بولنے والی باتونی بنا دیا تھا سسرال جانے سے قبل فرزانہ اپنے بڑوں کی خوب خدمت کیا کرتی تھی اور بدلے میں دعائیں لیتی۔ ایک لڑکی کی زندگی میں اچھا شوہر اور گھر بار مل جائے تو وہ نصیبوں والی بن جاتی ہے۔ گھر کی پہلی اولاد فرزانہ تھی اس لیے اس کی شادی بہت جلدی کر دی گئی کیونکہ فرزانہ کے بعد اس کی اور چار بہنیں قد کاٹھی سے جلدی جلدی بڑ رہی تھی۔ فرزانہ کی زندگی کا فیصلہ اس کے ماں باپ اور رشتے داروں نے مل کر کیا تھا۔ اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ فرزانہ کی قسمت اتنی بدل جائے گی۔ فرزانہ کے شوہر ساجد میاں جو ایک سرکاری آفیس میں ڈرائیورکی حیثیت سے ملازم تھے۔ فرزانہ جب سے سسرال گئی تب سے اس کی زندگی میں سوائے دکھ کے اور کچھ نصیب نہ ہوا۔ ساجد میاں کا روز شراب پی کر آنااور پیسوں کی دلالی کرنا۔ فرزانہ کو بالکل پسند نہ تھا۔فرزانہ اس بات کو لے کر بعض دفعہ جھگڑا بھی لی لیتی تھی مگر اس بات کا کوئی فرق ساجد میاں پر نہیں ہوتا تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے چار بچے بھی ہوگئے۔زندگی بس کٹ رہی تھی یک بعد دیگر چھوٹے چھوٹے بچوں کوسنبھالنا فرزانہ کے لیے لوہے کے چنے چبانے جیسا تھا۔ اگر اولاد کی تربیت اچھی نہ کی جائے تو سب لوگ عورت کو ہی قصوروا ٹھہراتے ہیں ہمارا معاشرہ جو ہم سے بنا اور ہمارے ہی خلاف ہو اٹھتا ہے اس شخص کو (ساجد میاں کو)شراب جیسی بری لت چھڑانے کے لیے کسی نے قدم نہ اٹھایا مگر فرزانہ کو ضرور اس بات کا طعنہ دیا گیا تمہاری زندگی کو جیسے تیسے کٹ گئی مگر اپنی اولاد کی تربیت اچھے سے کرنا وہ آنے والی نسل کے رہبر بنیں گے۔ فرزانہ تو ویسے ہی سنجیدہ مزاج لڑکی تھی مگر گھر کے ماحول نے اسے بولنے پر مجبور کردیا وہ اپنی آرزو کر ہر روز مرتا ہوا دیکھتی تھی مگر اب اس نے اپنے بچوں کی خاطر جینا سیکھ لیا تھا۔فرزانہ کی قسمت میں آرزو کے معنی بدل گئے اوروہ تھے ذمہ داریاں اور ضرورتیں پوری کرنا۔ فرزانہ جب بھی اپنے میکے آتی صبح سے شام تک ہی ساجد میاں رہنے دیتے۔فرزانہ اپنے دل کے راز ناہیدہ سے کہنا چاہتی تھی کئی بار زبان پر باتیں آتیں اور پھر ساجد میاں کا چہرہ دیکھتے ہی زبان سے وہ ساری باتیں عیاں ہوتے ہوتے رُک جاتی تھیں۔میں نے زندگی کے خوشگوار لمحوں کو کبھی یاد نہیں کیا کیونکہ وہ میری آرزوؤں میں دبتے چلے گئے۔اس روز کو بھول کر بھی نہیں بھولنا چاہتی ہوں۔ وہ اتوار کا دن تھا اور میرے اور ساجد میاں کے درمیان کسی دعوت کی تقریب کو لے کر کہا سُنی ہوگی تھی اور وہ اسی غصے میں باہر چلے گئے اور ایک کلب میں جاکر خوب شراب پی کر اسکوٹر لے کر نکلے ہی تھی کہ اچانک تیز آتی ہوئی روشنی کے باعث راستہ نظر نہ آیا اور ایکسیڈنٹ ہوگیا۔اس بات کی خبر ملتے ہی فرزانہ کے ہوش اڑ گئے۔ وہ کیا کہتی، کس سے کہتی، کچھ بھی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔ جیسے ہی ہسپتال پہنچے تھوڑی دیر کے بعد ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ آپ کے شوہر اب اس دنیا میں نہیں رہے۔ میرے تو پیروں تلے زمیں کھسک گئی۔مجھے ان سے بھلے ہی گلے شکوے رہے ہو، مگر مجھے ان سے محبت ہوگئی تھی ویسے بھی محبت اچھا برا کہا دیکھتی ہے۔ میں ان کی اچھی باتوں کو یاد کر کے رو رہی تھی۔ میرا اس دنیا میں اچھا برا دیکھنے والا کوئی نہیں رہا سوائے اب خدا کے۔ مجھے گھر لے جا کر عدّت میں بیٹھا دیا گیا۔ میں نے اپنے بچوں کو تڑپتے ہوئے سیسکتے ہوئے دیکھا۔یہ سرکاری ملازم تھے ان کے آفیس سے لیٹر آیا۔اس وقت یہ ہوتا تھا کہ کوئی ملازم فوت ہوجائے تو اس کے گھر والوں میں سے کسی ایک کو اس کی جگہ یا کوئی اور نوکری پر ملازمت دے دی جاتی تھی۔ میں نے عدّت کے دن جیسے تیسے پورے کیے اور میں نے نوکری کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ مجھے اس وقت اپنے شوہر کی بہت یاد آئی وہ چاہتے تھے،میں اور آگے تعلیم حاصل کرو، مگر سسرال میں ساس، نند، بھاوج کی وحشت نے مجھے میرے قدم کو بڑھانے سے روک دیا۔کاش میں پڑھ لیتی کرکے افسوس کر رہی تھی کیونکہ مجھے تیسرے درجے کے آفیس میں کام کانا پڑا۔ میری آرزو نے دم توڑ دیا۔ کیونکہ ایک جوان بیوہ کو لوگ کئی طرح سے تاکنتے رہتے ہیں۔ میرے لیے اپنے بچوں کی ذمہ داری سنبھالنے سے زیادہ اپنی عزّت کی رکھوالی کرنا میرے لیے بڑا چیلینج تھا۔ میرے لیے میری آرزو چیلینج تھی اور اب اس ادھوری آرزو کے ساتھ زندگی کو گزر بسر کرنا میرے لیے سب سے بڑا چیلینج تھا۔میں اپنی بہن ناہیدہ کی شادی میں نہیں جاسکی کیونکہ میں ایک بیوہ تھی شادی بیاہ کی تقریبوں میں بیوہ کو شامل نہیں کیا جاتا تھا آج زمانہ بدل گیا مگر بیوہ کو آج بھی خوش دل سے شامل نہیں کیا جاتا ہے ہاں رسماً انہیں شریک ضرور کیا جاتا ہے۔ میری ہم راز ناہیدہ کی شادی کے مجھے کتنے ارمان تھے مگر وہ سب ریزہ ریزہ ہو کر رہ گئے۔ ناہیدہ کی شادی ہوگئی مگر اس کی آرزو بھی میری طرح نامکمل ہی رہی۔ میری زندگی کے اتارچڑھاؤ صرف میں نے ہی محسوس کیے۔ میں کس سے کہتی؟ ناہیدہ شادی کے تین برس بعد جب وہ مجھ سے ملنے آئی تو جیسے زندگی نے زندگی سے ملاقات کی ہو۔ ناہیدہ خوبصورت لگ رہی تھی اس کی پہنی ہوئی لال رنگ کی ساری مجھے احساس دلا رہی تھی کہ میں ایک بیوہ ہوں۔ ناہیدہ کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ناہیدہ نے مجھ سے کہا میں آج سارا دن تیرے پاس رہوں گی تمہیں کوئی اعتراض تو نہیں؟ فرزانہ نے کہا مجھے بھلا کیا اعتراض ہو سکتا ہے اب اس گھر میں میرے اور میرے بچوں کے علاوہ تھا ہی کون؟ ساس کا انتقال ہوگیا اور نندیں اپنے اپنے سسرالوں میں زندگی گزر بسر کر رہی ہیں۔کبھی کوئی تقریب رکھی جاتی جب ملاقاتیں ہو جاتی ہیں۔ بچے بڑے ہوگئے تھے۔ مجھے اس بات کی فکر لگی رہ تھی کہ میں نے بھلے ہی زندگی میں دہری ذمہ داریوں اور ضرورتوں کو پورا کیا ہو،مگر اپنے بچوں کو میں اتنا پیار اور توجہ نہ دے پائی۔جس کے سبب میرے بچے کسی سے جڑ کر بھی نہیں جڑ سکے۔اب مجھے خدشہ ہونے لگا تھا اب میرے بچوں کا کیا ہوگا؟ ایک آرزو کے پیچھے کئی آرزوئیں دم توڑ رہی تھیں۔ میری آرزو شوہر سے شروع ہو کر اب بچوں کی پرورش کی طرف بڑھ رہی تھی۔ فرزانہ نے اپنی کہانی کو سناتے ہوئے کہا کہ تم نے میری کہانی تو سن لی۔ناہیدہ اب تم اپنی کہانی تو سناؤ۔ ناہیدہ ایسی ڈری جیسے میں نے اس کی زندگی کے رنج و غم کو تاڑ لیا ہو۔ ناہیدہ کہنے لگی ایسا کچھ بھی تو نہیں ہے میری زندگی بہت ہی خوشگوار ہے یہ کپڑے، گہنے سب تیرے بھائی جان جلال پاشا کی پسند ہے۔ فرزانہ نے کہا تم سب سے جھوٹ بول سکتی ہوں مگر مجھ سے کبھی جھوٹ مت بولنا اور کوشش بھی مت کرنا۔ ناہیدہ نے کہا جب سے جلال پاشا سے شادی ہوئی میری تو زندگی گھر کے کام کاج میں ہی گزر رہی ہے۔ انہوں نے شادی سے لے کر اب تک مجھے ایک آنکھ بھر کر بھی نہیں دیکھا۔ انہوں نے کبھی یہ پوچھا ہی نہیں تمہاری کیا پسند ہے؟ یا پھر کہیں سیرو تفریح کے لیے بھی نہیں لے کرگئے۔گویا حد تو تب ہوگئی جب انہوں نے ساتھ رہتے پر بھی یہ کہا کہ تمہاری زندگی تم جانو۔ اس کا کیا مطلب؟ زندگی دو لوگوں سے اور گھر والوں سے بنتی ہیں۔ میری زندگی اوران کی زندگی الگ ہوگئی۔ شادی سے پہلے امّی اور ابّو نے یہ سمجھایا تمہاری زندگی ہم نہیں کوئی اور ہے۔ آخر کار ناہیدہ نے روتے ہوئے کہا آخر زندگی کیا ہے؟ کیوں ہے؟ کیا زندگی کا سارابوجھ عورت کے نصیب میں لکھا گیا ہے؟ مجھے بتا فرزانہ آپی میں کیا کرو؟ میری آرزو اس وقت ہی دم توڑ چکی تھی جس وقت جلال پاشا سے میری شادی ہوئی۔ یہ شادی نہیں محض ایک سمجھوتا تھا۔اس کو نبھانا میں نے اپنی قسمت کا لکھا سمجھ لیا ہے۔ یہ ساری باتیں سننے کے بعد فرزانہ نے بھی پے در پے اپنے دل کے راز کھولنے شروع کیے۔ میری بھی اپنے شوہر کے تعلق سے آرزو تھی کہ وہ نیک شریف النفس انسان ہو، جس کو کوئی بری عادت نہ ہو، اور وہ حق حلال کی کمائی کماتا ہو۔مگر دیکھو میری قسمت میری آرزو سے منفر دشخص ساجد میاں سے میری شادی ہوگئی۔فرزانہ ناہیدہ سے کہتی ہے کہ تم زندگی کو لے کر رو رہی ہو، میں سمجھتی ہوں زندگی محض نام ہے اصل تو آرزوئیں ہیں جو ہمیں توڑتی بھی اور سنبھالتی بھی ہیں۔ آرزو کے بغیر زندگی ذرّہ برابر تنکے کی مانند ہے جو نہ تو بھوک پوری کرسکتاہے اور نہ ہی بھوک کو پوری طرح مٹا سکتاہے۔ ناہیدہ نے فرزانہ سے مل کر اپنا دل ہلکا کر لیا اور وہیں فرزانہ نے اپنے دل میں دبی آرزو کوناہیدہ کے ساتھ بانٹ کر اپنا برسوں پرانا بوجھ اتار دیا۔
——
Dr. Sufiyabanu. A. Shaikh
C- Ground Floor Tajpalace, Kumbharwada
380001. ,Jamalpur Ahmedabad
Mob: 9824320676
Email: