گجراتی کہانی ۔ آر’و (Aaru)
مصنفہ: دھیرو بہن پٹیل
مترجم : ڈاکٹر صفیہ بانو۔ اے۔ شیخ
Email:
”ماں ! تم دوبارہ اس کمرے میں چلی گئیں؟“
”نہیں تو ! میں تو یوں ہی ذرا دھول جھٹک رہی تھی ! “
” کس لیے؟ “
” ارے، گھر میں ذرا صاف صفائی تو کرنی ہی پڑتی ہے نا ؟ “
” کس لیے؟ کیا یہ گھر تمہاراہے؟ انہوں نے اور ان کے گھر والوں نے کبھی تمہیں اس گھر کی مالکن سمجھا ہے؟تم صرف ایک باندی ہو،اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ تم کب سمجھوگی کہ اس طرح زندگی نہیں گزاری جاسکتی؟“ کچھ نہیں۔ جا،تجھے جو اچھا لگے وہ کر۔ مجھے اس سے کیا؟“
آرُو کا غصہ نفرت میں بدل گیا۔ اُس نے اپنے ہاتھ میں موجود پاکٹ کو زور سے پلنگ پر پٹکا اور غسل خانے کی طرف چل پڑی۔
’ اب وہ ایک گھنٹے تک باہر نہیں آنے والی۔‘ مالتی(MALTI) نے ٹھنڈی آہ بھری ۔
ماں اور بیٹی کے درمیان ہمیشہ یوں ہی تُو تُو میں میں ہوا کرتی تھی لیکن اب اُن کے درمیان میلوں کا فاصلہ ہوگیا تھا۔ بیٹی کواعلیٰ تعلیم دلانے کے لیے اُسے ہوسٹل (Hostel) بھیجنے کا خیال تو شوہر آست (AASIT) کا ہی تھا۔لیکن اس کا یہ نتیجہ نکلے گا،ایسا اس نے خواب میں بھی نہیں سوچا تھا۔ ایک طرح سے وہ کامیاب ہوا یوں کہا جاسکتا ہے۔ آرُو اب ماہانہ لاکھ روپئے کمانے لگی تھی اور کمپیوٹر انجینئر (Computer Engineer) کی حیثیت سے وہ مشہور بھی ہوچکی تھی۔ ایک زمانہ وہ تھا جب باپ اوربیٹی کے درمیان ایک ایسا بندھن تھا کہ دونوں مل کر مالتی کا تمسخر بھی اڑایا کرتے تھے لیکن اب یہ سب کچھ بھُلا دیا گیا تھا۔اب دن بھر میں مشکل سے پانچ سات لفظوں کا لین دین ہوتا تھا۔ آمنا سامنا ہونے پر یا ایک دوسرے کے رو برو ہونے پر دونوں اپنی نظریں پھیر لیتے تھے۔ اب وہ دونوں ایک دوسرے کے دوست نہ رہے تھے۔وہ اب باپ بیٹی بھی نہیں بلکہ ایک ہی گھر میں رہنے والے دو اجنبی انسان تھے۔ اس کا سبب کسی کی سمجھ میں نہیں آتا تھا۔
اُن دونوں کے بیچ تکرار کرنے جتنا قرب بھی کہاں بچا تھا؟
بیٹی کی گونگی نفرت کو آست ہر لمحہ محسوس کرتا تھا، پھر بھی اس بارے میں کبھی بولتا نہ تھا۔ اُس کی تمام تر خاموشی کا دہرا بوجھ صرف اور صرف مالتی کو سہنا پڑتا تھا۔
مالتی نے اپنی پوری زندگی ایک ہندوستانی گھریلو عورت کی مانند گزاری تھی۔ آرُو کے اِس بے وجہ غصے کو نہ تو وہ سمجھ سکتی تھی اور نہ ہی قبول کرسکتی تھی۔ باپ اور بیٹی کے مابین پائی جانے والی الفت میں غیر متوقع کمی واقع ہوئی تھی،جس کو لے کر مالتی سخت حیرت میں تھی ۔ بعض مرتبہ وہ آست سے پوچھ بیٹھتی ’’ایک مرتبہ اُس سے پوچھو تو سہی کہ آخر ہوا کیا ہے؟“ ” اُسے کہنا ہوگا،تب وہ کہہ دے گی۔
” پھر بھی……“
مالتی، ’ پریت زبردستی سے نہیں کی جاتی۔ ہمیں انتظار کرنا ہوگا۔ آ رُر کئی بار سوچتی تھی کہ مجھے تو اب یہ گھر ہی چھوڑ دینا چاہیے۔ماں کی کمزوری جب اُس سے برداشت نہ ہوتی تب وہ اپنے پیارے ابّوکی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر لیا کرتی تھی۔ باوجود اِس کے وہ کبھی گھر کو چھوڑنہیں پائی۔ یہ اندونی کرب وہ کب تک سہہ پائے گی خود اُسے معلوم نہ تھا۔ اُس کی آنکھوں کے سامنے وہ منظر ہمیشہ گھومنے لگتا،جب وہ اپنے باپ آست کی آفیس میں بِنا دستک دیے داخل ہوگئی تھی۔ اُس نے سیکرٹری (Secretary) ڈیزی (Daisy) کو اپنے ابّو کے سامنے بلاؤز (Blouse)کی آستین اُتار کر کھڑی دیکھا تھا۔کاش! وہ پوچھ پاتی۔ کاش! اُس کے دل میں بھی ہمدردی کا جذبہ امڈ پڑا ہوتا۔ آخر کار ایک جوان عورت کے کندھے پر رکھا ہاتھ زندگی کے خاتمے تک لے جانے والی علامت کی مانند لگ سکتا ہے۔ اس خوف زدہ حالت میں وہ کسی سرپرست کی رہنمائی کی متلاشی ہوسکتی ہے….. بہت کچھ ممکن تھا لیکن ایسا سوچنے کی طاقت کیسے یکجا جائے؟
آرُو نے بذات خود اپنے ارد گرد تنہائی اور بے لطفی کی دیوار چُن رکھی تھی،جس سے باہر نکلنے کاکوئی راستہ نہ تھا۔ اچانک وارد ہونے والی کسی آفت کے تھپیڑوں سے مسمار ہوتی تو الگ بات تھی۔ تینوں ( ماں، باپ اور بیٹی) اپنے اپنے طور سے زندگی گزار رہے تھے۔ آست اس انتظار میں تھا کہ کب اُس کی لاڈلی بیٹی اس سے بات کرے گی؟، مالتی دل ہی دل میں کُڑھتی رہتی تھی۔وہ بھی اِس انتظار میں تھی کہ گھر میں کب تازہ ہوا جھونکا آئے گا جو گھر کے ماحول کو پہلے کی طرح خوشگوار کردے گا۔سب سے بڑا مسئلہ تو یہ تھاکہ کیا آرُو اپنے دل کی بات کہہ پائے گی؟ یاپھر اپنے دل میں پیدا شک کی آگ میں یوں ہی جلتی رہے گی ؟
——
Dr. SufiyaBanu.A. Shaikh
C- Ground Floor Tajpalace, Kumbharwada
380001. ,Jamalpur Ahmedabad
Mob: 9824320676,6354980992