کالم : بزمِ درویش
مایوسی ہی کیوں
پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
ای میل:
ویب سائٹ: www.noorekhuda.org
وہ میرے سامنے رونی صورت بنائے پچھلے ایک گھنٹے سے بیٹھا تھا اور مایوسی رونے پیٹنے کی باتیں کیے جا رہا تھا۔ میں بار بار اس کو حوصلہ اور ہمت دینے کی کوشش کررہا تھا لیکن وہ سوال پر سوال داغے جا رہا تھا میری مثبت بات کو منفی رنگ دے رہا تھا۔ میں پوری کوشش کر رہا تھا کہ اس کو کسی طرح مطمئن کر سکوں لیکن وہ بے تکے سے بے تکا مایوسی اور مرنے مارنے والے سوال جواب کئے جارہے تھے
آخر تنگ آکر میں نے اس سے کہا کہ آخر آپ چاہتے کیا ہیں تو وہ بولا میری زندگی کی ساری پریشانیاں، ناکامیاں اور دکھ دور کردیں کوئی ایسا وظیفہ یا چلہ بھی آپ خود یعنی میں کروں تاکہ میری زندگی ناکامیوں اور نامرادیوں کی بجائے خوشیوں کا گہوارہ بن جائے اس کی باتوں سے میں آخر کار یہ اندازہ لگا چکا تھا کہ وہ پوری دنیا کو ریمورٹ پر چلانا چاہتا تھا۔ تصوراتی دنیا میں رہنے والا ایک بے عمل، حساس اور فل آف ڈپریشن، زندگی کی تمام آسائشوں کے باوجود وہ اس نے رونا پیٹنا لگا ہوا تھا۔ اس کی ماں بے بسی کی تصویر بنے میرے سامنے بیٹھی تھی ماں کی آنکھوں میں امید کے دیپ روشن تھے وہ امید بھری نظروں سے میری طرف دیکھ رہی تھی کہ میں کوئی کرامت کر کے اس کے مایوس اور مسلسل تنگ کر نے والے بیٹے کو چشم زدن میں ٹھیک کر دوں گا۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ایسے مایوس نوجوان روزانہ میرے پاس آکراپنا اور میرا وقت بر باد کر تے ہیں اور میں اپنی فطری شفقت کی وجہ سے کوشش کر تا ہوں کہ شاید میرے اللہ کو میرے اوپر اور اِن پر ترس آجائے۔ جبکہ حقیقت یہ ہوتی ہے کہ اِن مایوس نوجوانوں اور خواتین میں اکثریت ایسی ہو تی ہے جن کو کوئی بھی حقیقی پریشانی یا غم نہیں ہوتا یہ ناشکرے لوگ اللہ تعالی کی موجود نعمتوں کو Enjoyنہیں کرتے اور خواہ مخواہ خود سے گھر والوں سے معاشرے ملک اور خدا سے بھی ناراض نظر آتے ہیں آج میرے سامنے جو نازک مزاج نوجوان بیٹھا تھا اِس کا مسئلہ یہ تھا کہ موصوف نے شادی کی پہلی رات ہی اپنی دلہن پر پہلا حکم یہ چلایا کہ فوری طور پر واش روم جا اپنے تمام زیورات اتا ر کر اچھی طرح منہ دھو کر تما م میک اپ اتا ر کر آ۔ دلہن کی کاجل لگی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں کیونکہ وہ تو سہانے سپنے سجائے بیٹھی تھی اِس پاگل پن اور احمقانہ حرکت کے لیے بلکل تیا ر نہیں تھی لیکن شوہر کے بار بار کہنے اور آخر کار گرجنے پر بیچاری واش روم گھس گئی واپسی پر فرعون کی اولاد دلہا صاحب نے کہا تم نے میک اپ نہیں اتارا اب اس کو لے کر خود واش روم گھس گیا اور اب جلاد کی طرح اپنے سامنے اچھی طرح اس کا میک اپ اتروایا اور پھر کمرے میں آکر کمرہ عدالت سجا کر خود جج بن کر بیٹھ گیا اب وہ بیچاری دلہن جو اِس پاگل پن کے لیے بلکل بھی تیا ر نہیں تھی مجرم بنے سر جھکائے جلاد صاحب کے سامنے کھڑی تھی۔ شادی اور سہاگ رات کے سہانے خواب چکنا چور ہو چکے تھے آنسو کاجل لگی آنکھوں سے ٹپ ٹپ فرش پر گر رہے تھے دلہا صاحب کو معصوم اور بیچاری پر رحم آنے کی بجائے غصہ آرہا تھا کہ اس کی غلطی پکڑی گئی ہے اِس لیے اب یہ رو رہی ہے دلہن بے چاری ہکا بکا حیران پریشان کہ کس جرم کی پاداش میں اس کی تفتیش ہو رہی ہے وہ حیرت اور پریشانی کی دلدل میں ڈوبتی جا رہی تھی کہ میرے کس جرم کی سزا مجھے ملنے جارہی ہے۔ دلہا کے چہرے پر طنز اور غصہ برس رہا تھا۔ اب اس نے زور زور سے قہقہ لگایا اپنا دلہن کا بازو پکڑا اور کمرے سے باہر آگیا۔ اور اپنی نئی نویلی دلہن کو گھر والوں کے سامنے بطور مجرم کھڑا کر دیا اور چیخ چیخ کہ کہنے لگا ہمارے ساتھ فراڈ ہو گیا ہے میں اِس دلہن کو ماننے سے انکار کرتا ہوں۔لڑکی کا جرم یہ تھا کہ اس کے چہرے پر معمولی دانے تھے اور رنگ زیادہ صاف نہیں تھا الزام یہ تھا کہ جب بھی اِس کو دیکھنے گئے یہ تیز اور بھاری میک اپ کرتی تھی تا کہ اِس کے دانے نظر نہ آسکیں۔ ماں باپ قدرے شریف تھے انہوں نے اپنے اکلوتے بیٹے کو بہت سمجھایا کہ بیٹا یہی لڑکی ہے اور دانے زیادہ نہیں ہیں رنگ بھی برا نہیں ہے۔ اب دلہا صاحب نے دلہن کے ساتھ ماں باپ کو بھی کٹہرے میں کھڑا کر لیا کہ اِس جرم اور سازش میں میرے ماں با پ بھی شامل ہیں۔ ماں باپ نے اپنے بیٹے کو بہت سمجھایا لیکن ساری رات کی عدالت کے بعد دلہا صاحب نے حکم صادر فرمایا کہ میں پوری تسلی کروں گا مجھے اور بھی بہت سارے اعتراضات ہیں محترم قارئین وہ ایسے اعتراض تھے کہ شرم سے میں آپ سے Share نہیں کر سکتا۔ بہر حال ایک ماہ تک یہ جنگ دلہن، دلہا اور ماں باپ میں ہوتی رہی پھر کسی نے اِن کو میرا بتا یا تو آج یہ دلہا صاحب میرے پاس آئے ہوئے تھے یہاں بھی اپنی نفسیاتی منفی سوچ اور فطرت کی وجہ سے انہوں نے مجھے بھی عدالت میں کھڑا کرلیا اور مجھ سے بھی سوال جواب جاری تھے۔ اِس دوران اس کی ماں نے مجھے الگ لے جاکر کہا کہ بچپن سے آج تک اِس نے ہمیں سولی پر لٹکایا ہوا ہے۔ اعتراض اعتراض اور بس اعتراض یہ کبھی خوش نہیں ہو تا۔ اب لمبی چوڑی نشست کے بعد یہ بار بار مجھ سے پوچھ رہا تھا کہ مجھے خو شیا ں کب ملیں گی میں CSP افسر کب بنوں گا۔ مجھے اس بوڑھی ماں پر ترس آرہا تھا جو برسوں سے اِس کو بر داشت کر رہی تھی میں نے دونوں کو حوصلہ دے کر بھیج دیا لیکن مجھے اکثر ایسے ناشکرے لوگوں سے مل کر دکھ اور مایوسی ہوتی ہے۔دکھ سکھ زندگی کا لازمی حصہ ہے تاریخ انسانی کا کونسا انسان ایسا ہے جس پر دکھ، بیماری، بڑھاپا اور موت نہ طاری ہو ئی ہو۔ بیاری، صحت اِسی کا نام زندگی ہے۔ سکھی لوگوں پر بھی مشکل وقت آجا تا ہے۔ لیکن کچھ لوگ پیدا ہوتے ہیں موت اور رونے کا سامان کر نے لگتے ہیں۔ زندگی اِن کے لیے بوجھ اور غمستان بن جاتی ہے۔ جوانی میں اِن کو بڑھاپے کا غم لگ جا تا ہے اِس طرح یہ جوانی کے لطف بھی محروم رہتے ہیں۔ اِن کو صحت کے ساتھ بیماری کا وہم چپکا رہتا ہے تو صحت کو کس طرح Enjoyکریں گے موت بر حق ہے لیکن زندگی بھی تو اللہ تعالی کی بہت بڑی نعمت ہے بیماری بلا شبہ ایک آفت ہے لیکن صحت کتنی بڑی الٰہی عنایت ہے اِس پر انسان کو مسرور مطمئن شکر گزار ہو نا چاہیے۔ دکھ پریشانی اگر زندگی میں لکھے ہیں تو ضرور آئیں گے لیکن اِس سے پہلے سکھ اور خوشیوں کا دکھوں اور غم میں بدل دینے اپنے اوپر ہر وقت حالت مرگ اور مایوسی کی چادر تان لینا نا شکری بھی ہے اور بے حوصلگی بھی، اللہ اور اسلام اپنے پیروکاروں کو امید سے بھر پور حوصلہ مند دیکھنا چاہتا ہے۔