انقلاب اور انقلابی ادب :- عثمان غنی رعؔد

Share
عثمان غنی رعؔد

انقلاب اور انقلابی ادب

عثمان غنی رعؔد
استاد شعبئہ اردو، نمل،اسلام آباد

دنیا کےہرادب میں انقلاب کی لہر کسی نہ کسی حد تک ضرور ملتی ہے اور اس کا ذکر بھی ان کی تحقیق و تنقید میں نظر آتا ہے۔جس کی بڑی مثا لیں ارجنٹینین نژاد کیوبین شاعر اورانقلابی لیڈرارنسٹو چے گویرا(1928 تا1967)، روس کے انقلابی شاعر الیگزنڈر پشکن(1799 تا 1837)،امریکی گلوکار اور شاعر باب ڈِلن(1941 تا حال) ،برطانوی نژاد امریکی گلوکار اور شاعر جان لینن(1940 تا 1980)،ایرانی شاعر و ادیب علی شریعتی)1933 تا1977 ) اور قرۃ العین طاہرہ (1817 تا 1852) اور مصری شاعر وادیب سید قطب شہید(1906 تا 1966)کی ہیں۔

چے گویرا کو اس کی انقلابی سوچ کی وجہ سے گولیاں مار کر ہمیشہ کی نیند سلا دیا گیا اور اس کے دونوں ہاتھ بھی کاٹ لیے گئے۔ڈِلن کو وطن کی محبت میں نغمے لکھنے کے صلے میں ادب کا نوبل انعام بھی دیا گیا ، لینن کو امن ومحبت کی انقلابی آواز بننے کے عتاب میں 8 دسمبر 1980 کو نیویارک سٹی میں گولی مار دی گئی اور سید قطب شہید کو اپنے ہی ملک میں قید کر کے کتوں کے آگے ڈالا جاتا رہا اور آخر کار انھیں پھانسی دے دی گئی۔طاہرہ وہ پہلی انقلابی شاعرہ ہے کہ جسے عورتوں کے حق میں آواز بلند کرنے پر پھانسی کے پھندے پر جھولنا پڑا۔انقلابی اور باغیانہ سوچ کے حامل سینکڑوں شاعر دنیا بھر کے ادب میں ڈھونڈے جا سکتے ہیں جنھوں نے اپنے عہد کے آمر،مطلق العنان سامراج اور غاصب حکمرانوں کے سامنے کلمہء حق کہا اور سزائیں پائیں مگر اپنے مقصد کے حصول سے پیچھے نہیں ہٹے بل کہ جان تک دے دی۔
اردو ادب میں بھی انقلابی شاعروں اور ادیبوں کی کمی نہیں۔ وہ جو انگریز سامراج کے خلاف رمز وکنائے میں بات کرتے تھے 1857 کے قریب اور بعد میں کھلم کھلا انقلاب اور بغاوت کے گیت الاپنے لگے۔گوپی چند نارنگ کے مطابق 1850 میں صرف دہلی میں تقریباً تین سو شاعر موجود تھے۔اس ناکام انقلاب کے بعد تو باقاعدہ طور پر اردو ادب میں انقلابی لہر نے جوش کھایا اور مصلحت کی سیاست کے علاوہ اعلانیہ سیاستی پلیٹ فارم بھی تیار کیا گیا۔سرسید نے قوم کی اصلاح کےلیےاور سوچ کو بدلنے کے لیےعلمی انقلاب برپا کر دیا ،دیکھتے ہی دیکھتے پورے ہندستان میں ان کی اس علمی انقلابی کاوش نے ان کی سوچ پر مبنی ایک جماعت تیارکر دی جو سب کے سب ادیب یا شاعر بھی تھے۔ شبلی نعمانی،الطاف حسین حالی ،علامہ محمد اقبال،محمد علی جوہر،مولانا ظفر علی خان، مولانا شوکت علی جوہر،چکبست نارائن ،تلوک چندمحروم ، حسرت موہانی اور جوش ملیح آبادی کے علاوہ بھی کئی اور انقلابی شاعرو ادیب سرخیل کا درجہ رکھتے ہیں۔ شاعروں اور ادیبوں کی مسلسل کاوشوں کی بدولت عوام میں بیداری اور شعور کی اہمیت اجاگر ہوئی،روشن خیالی نے اپنے قدم جمائے اور پاکستان جیسی دھرتی کا وجود ممکن ہوا۔شاید اسی اہمیت سے جناح واقف تھے جو انھوں نے اقبال کے بارے کہا کہ میں ایک ملک کے بدلے بھی اقبال کو دینے پر راضی نہیں ہو سکتا۔
مگر افسوس کی بات ہے کہ اردو ادب میں انقلاب اور انقلابی ادب پر تحقیقی کام نہ ہونے کے برابر ہے۔کچھ محقق اس کا ہلکا ساذکر ترقی پسند تحریک کے ضمن میں ہی کر کے آگے بڑھ جاتے ہیں اور کچھ مارکسی ادب کے تحت اس کا حوالہ پیش کرتے ہیں۔ حال آں کہ مزاحمتی،باغیانہ اور انقلابی ادب علاحدہ سے اپنا وجود رکھتا ہے اور یہ بات خوش آیند ہے کہ اردو میں مزاحمتی ادب پر کافی کام ملتا ہے۔ڈاکٹر انورسدید نے اپنی تحقیق ” اردو ادب کی تحریکیں“ میں بھی انقلابی ادب کی تحریک کا ذکر نہیں کیا۔ابوالاعجازحفیظ صدیقی نے بھی اپنی کتاب” ادبی اصطلاحات کا تعارف“ میں انقلابی ادب کا ذکر کیا مگر ترقی پسند تحریک کے حوالے کے ساتھ۔ڈاکٹر اختر حسین رائے پوری نے ” ادب اور انقلاب“ کے نام سے مضامین پر مشتمل ایک کتاب 1943 میں چھپوائی مگر وہ بھی کوئی جامع انقلابی ادب پر کتاب نہیں بل کہ بنگال،سوویت یونین،روس،ترقی پسند کے ادب پر تبصرے کے ساتھ عورت اور زبان کے مسئلوں پر مشتمل ہے۔اقبال پر شورش کاشمیری کی ایک غیر سندی تحقیق بعنوان” اقبال پیامبرِ انقلاب“ ملتی ہے۔جوش کی انقلابی فکر پر کچھ مضامین شاہد ماہلی نے جمع کیے ہیں اور وہ بھی کچھ زیادہ نہیں ہیں اور باقی جتنے مضامین جوش پر ملتے ہیں وہ مختلف رسائل کے جوش نمبروں میں ملتے ہیں۔یہ بات بھی حیران کن ہے کہ اردو شاعری میں سب سے زیاد انقلابی کام جوش ملیح آبادی پر ہوا ہے مگر ابھی تک ایک بھی منظم اور مربوط کام اردو ادب بالخصوص شاعری پر انقلاب کے حوالے سے نہیں ملتا۔
انقلابی سوچ اور فکر پر ایک اچھی کتاب حسن شہیر کی ” ذہن اور انقلاب “ ملتی ہے جو 1960 میں الہ آباد سے شائع ہوئی۔ اردو نظم کی ایک باقاعدہ انقلابی روایت ہے جس پر ابھی تحقیقی کام نہیں ہوا جس کا عروج 1915 تا 1947 کا عرصہ ہے اس میں ہندو اور مسلم دونوں شاعر اچھی خاصی تعداد میں موجود ہیں۔
اردو میں انقلاباتِ عالم پر تاریخی کتابیں تو ملتی ہیں مگر اپنےانقلابی ادب کی تاریخ اور روایت پر فی الحال کوئی تحقیقی و تنقیدی مستند کتاب یا تحقیق سامنے نہیں آئی۔شاید اسی وجہ سے اردو ادب میں یہ طے نہیں ہو پایا کہ کن اصولوں کے تحت ہم کسی شاعر کو انقلابی کہہ سکتے ہیں اور کن کے تحت نہیں۔انقلاب ،انقلابی ادب،انقلابی شاعر،بغاوت،باغیانہ ادب اور مزاحمتی ادب کی تعریفیں نئے سرے سے متعین کرنے کی ضرورت ہے۔

Share
Share
Share