حضرت شاہ ولی اللہ آزادی ہند کے پہلے ہیرو :- ڈاکٹر محمد عطا اللہ خان

Share
ڈاکٹر محمد عطا اللہ خان

حضرت شاہ ولی اللہ آزادی ہند کے پہلے ہیرو

ڈاکٹر محمد عطا اللہ خان
سابق پرنسپل ‘ اورینٹل اردو پی جی کالج ‘ حیدرآباد

ہندوستان کی آزادی کی تحریک انیسویں صدی کے وسیع آخر میں شروع ہوئی اس سے ڈیڑھ سو سال قبل ہندوستان کو آزاد مملکت بنانے کا خواب حضرت شاہ ولی اللہ نے دیکھا تھا اٹھارویں صدی کے وسیع اول میں یعنی اورنگ زیب کے انتقال کے بعد ہی شاہ ولی اللہ کی ولادت 1702 عیسوی میں دہلی میں ہوئی آپ کے والد شاہ عبدالرحیم نے شاہ ولی اللہ کی تعلیم وتربیت بہت دل جوئی سے کی۔

ابتدائی تعلیم کے بعد مولانا ادھم اور مولوی جامی کے فارسی تصانیف کا مطالعہ کیانوجوانی میں شاہ ولی اللہ اپنی علمی مصروفیت کے ساتھ ساتھ ہندوستان کے راجاؤں اور نوابوں کے ظلم وستم سے واقف تھے انہیں اورنگ زیب کی نجی زندگی پسند تھی لیکن شاہ صاحب بادشاہت کو پسند نہیں کرتے تھے اورنگ زیب1697ء میں انتقال کرگئے اس کے بعد دہلی کی مغلیہ سلطنت میں جونشیب و فراز آتے رہے ان حالات پر تاریخ کی تصانیف بھری پڑی ہیں شاہ صاحب دہلی کے تخت وتاج پردس بادشاہوں کو بیٹھتے اترتے دیکھا صبح ایک بادشاہ تخت طاوس پر بیٹھتا تو شام تک اس کا قتل ہوجاتا دوسرا بھائی بادشاہ بن جاتا۔ اس طوفان بدتمیزی سے شاہ صاحب سخت برہم تھے مگر وہ اس کے لئے کیا کرسکتے تھے ملک میں جگہ جگہ بلوے لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم تھا ہندوستان کی سرزمین پر برطانوی‘ فرانسیسی اپنا اثر بڑھا رہے تھے بھائی بھائی کا دشمن تھا راجا دوسرے بھائیوں کو قتل کروانے کی ترکیب سونچتا تھا۔ ہر طرف افراتفری کا عالم تھا ایسے پرآشوب ماحول میں شاہ صاحب ہندوستان کو آزادی سے ہمکنار کروانا چاہتے تھے۔ وہ پہلے مجاہد آزادی ہند ہیں جبکہ دیگر عوام آزادی کا تصور بھی نہیں کیا تھا شاہ صاحب کہتے ہیں ہندوستان کوآزادی ملنی ہی چائیے۔ یہاں کے راجہ اور نوابوں کی وہ پرواہ کرتے تھے۔ ان حالات کا وہ گہرائی سے مطالعہ اور مشاہدہ کررہے تھے۔شاہ صاحب دہلی میں اپنے خیالات پھیلانا شروع کیا ان کی رائے میں اس زمانے کی تمام برائیوں کی جڑیں دور کرنی ہے شاہ صاحب کا پہلا کام یہ تھاکہ وہ ہندووں اور مسلمانوں دونوں مذہب کے ماننے والوں میں سچا مذہبی جذبہ پیدا کرنا تھا تمام دیگر مذاہب کے لوگ آپس میں تمام ہندوستان میں ایک ساتھ میل ملاپ سے رہے۔ ہر شہری اور دیہاتی اپنی آزادی ضمیر کا مکمل حق دار ہے اپنے یا اپنے گھر کے نجی فائدے کو قربان کردے۔ دوسری اہم بات شاہ صاحب نے کہی امیر اور رئیسوں اور سرداروں نے نیچی ذات کے لوگوں پر اپنی عیش وآرام کی زندگی کااتنا بڑا بوجھ لاد دیاتھا کہ وہ ان سے حیوانوں کی طرح کام لیا کرتے ہیں ایسا ظلم نہ کریں شاہ صاحب اپنی ایک تصنیف حجتہ البالفہ میں رقم طراز ہیں جو فارسی زبان میں لکھی ہے وہ لکھتے ہیں کہ۔ اگر کسی قوم میں دھن ودولت کی لگاتار ترقی جاری رہے تو اس کو صنعت وحرفت میں مشغول کردے اسکے بعد حکومت عوامی ہو اور جو حکومت عوامی ہوگی وہ تمام ہندو ستانیوں کی آرام وآسائش کا انتظام کرے کوئی بھوکا نہ رہے امیر اپنی دولت پرگھمنڈ نہ کرے غریب کی عزت کی جائے۔ انسانیت سے اجتماعی اخلاق اور سماجی مساوات رکھی جائے۔
مندرجہ بالا اصول اسی وقت شاہ صاحب نے بیان کئے جب تک دنیا میں اور خاص کر یوروپ میں نہ کال مارکس پیدا ہوا تھا اور نہ سوشلزم کی کوئی تحریک چلی تھی شاہ صاحب چاہتے تھے کہ عام ہندوستانی آگے بڑھیں اور ہندوستان میں ایک جمہوری عوامی حکومت قائم ہو اپنی تصنیف میں لکھا ہے کہ مغلیہ سلطنت کا شیرازہ بکھر رچکا ہے۔ مغلیہ سلطنت میں قیصر وکسرٰی کی حکمرانوں کی خرابیاں پیدا ہوگئی ہیں اس سے مصلحت یہی ہے ان خرابیوں کو توڑ دیا جائے اور عوامی حکومت قائم کی جائے شاہ صاحب قران شریف کا ترجمہ بھی کیا تاکہ لوگوں میں سچی مذہبی زندگی گزارنے قران شریف میں جو جمہوری اصول بنائے گئے ہیں اس کو عام کیا جائے اس ترجمہ سے عام مذہبی خدامت پسند عالم ان کے دشمن ہوگئے تھے۔ یہاں تک کہ آپ کو قتل کرنے کی سازش بھی کی گئی مگر کامیاب نہیں ہوئے۔ قران مجید کے ترجمہ کے بعد انہوں نے کئی تصانیف لکھیں جس میں انہوں نے اپنے انقلابی پروگرام کو بیان کیا۔آج کے اس دور میں ان کی تصانیف مشعل راہ ثابت ہوتی ہے اس میں انہوں نے اپنے انقلابی پروگراموں کو بیان کیا تھا انہوں نے سیاسی خیالات پر بہت اعلیٰ اور معیاری روشنی ڈالی ہے آج ہندوستان میں جو مذہبی جنوں پیدا ہوگیا ہے اور چند مفاد پرست لیڈر عوام کا استحصال کررہے ہیں اس دور سے دوسوسال قبل ہی شاہ صاحب نے اپنی تصانیف میں آگاہ کردیا تھا۔ شاہ صاحب نے اپنی تصنیف میں تین اصولوں کوبہت خاص اہمیت دی ہے پہلا اصول یہ تھاکہ ہندوستان دنیا کا ایک طاقتور ملک بنے ان کی رائے یہ ہیکہ ہندوستان مضبوط ملک بن کردنیا کو دکھانا دوسرا اصول شاہ صاحب اپنی کتاب ”بدور بازتم“ میں لکھتے ہیں ہندوستان میں ہندو مسلمان سکھ عیسائی سب ملکر رہیں ہر ایک مذہبی آزادی کو استعمال کرے ساتھ ساتھ دوسروں کے مذاہب کا احترام کرے تیسرا اصول شاہ صاحب کا یہ تھاکہ ہر طریقہ کے مزدور پیشہ اور کاریگر کوصحیح حق دلائے جائیں ان پر کم سے کم بوجھ رکھا جائے اسی موضوع پر شاہ صاحب نے بہت زیادہ بحث کی ہے انہوں نے مغلیہ سلطنت کی سب سے بڑی کمزوری کی وجہہ یہی بتلایا ہے شاہ صاحب ایک ایسی حکومت چاہتے تھے جس میں کسی بھی ہندوستانی کو اپنی زندگی کی ضرورتوں کے لے ترسنانہ پڑے انہوں نے اپنی کتاب میں لکھا ہے۔ الغرض انسانوں کی اجتماعی زندگی کے لے اقتصادی توازن ایک ضروری بات ہے ہر انسان و سیاسی جماعت کو ایک ایسے اقتصادی نظام کی ضرورت ہے جولوگوں کی زندگی کی سب ضرورتوں کا کفیل ہوجب دوسروں کو اپنی اقتصادی ضرورتوں سے اطمینان نصیب ہوتا ہے تو پھر کہیں وہ اپنے وقت میں جو انسانیت کا اصل جوہر ہے شاہ صاحب متذکرہ بالا تینوں اصولوں کی پابندی کے لئے اپنی تصنیف کے ذریعہ علمی قابلیت سے ہندوستانیوں کو تبلیغ کرتے ہیں۔ اسی معاملہ میں وہ پکے سوشلسٹ تھے اور جمہوریت ان کی فطرت میں تھی۔
شاہ صاحب اپنی تصانیف اور تقریروں سے ہندوستان میں اپنے خیالات کوعملی جامعہ پہنانا چاہتے تھے اسی تحریک کے نفاذ کے لئے انہوں نے/5 مئی 1731عیسوی کو ایک باقاعدہ سیاسی جماعت بنائی تھی جس کامقصد ہندوستان میں ایک سیاسی انقلاب لاناتھا۔ اس جماعت کے چاربنیادی اصول تھے۔
پہلا’ خداپرستی دوسرا انصاف‘تیسرا تربیت وتعلیم‘ چوتھا ضبط نفس ہو۔ اس جماعت کا نام انھوں نے”جمعیت مرکزیہ“رکھاتھا اور سارے ہندوستان میں ان کی شاخیں قائم کی گئی تھیں ان میں نجیب آباد کا مدرسہ‘ بریلی میں شاہ علم اللہ کاتکیہ اور سندھ کے شہر ٹِھٹھ میں ملا محمد معین کا مدرسہ خاص اہمیت رکھتا ہے ان شاخوں کے ذریعہ سارے ہندوستان میں شاہ ولی اللہ صاحب کے جمہوری خیالات کی تشریح ہوتی تھی شاہ صاحب کے خاص شاگردوں میں مولانا محمدحسین‘مولوی نوراللہ سربانوی‘مولانی محمد امین کشمیری تشریح کا کام انجام دیتے تھے اور امیروں اور غریبوں مُلاّ مولویوں اور عام لوگوں سب میں ایک بیداری پیدا کردی تھی کچھ مسلمانوں نے اعتراض کیاکہ جب سکھ اور مرہٹے دیگر اقوام مسلمانی حکومت پر حملہ کررہے ہیں اس کے جواب میں شاہ صاحب نے کہاکوئی بھی حکومت صرف اس لئے اسلامی حکومت نہیں ہوجاتی کہ اس کا بادشاہ مسلمان ہے اس کے برعکس انصاف کے سہارے چلنے والی کوئی ایسی حکومت بھی اچھی حکومت ہوسکتی ہے جس کا بادشاہ مسلمان نہ ہو۔
ان بالا تفصیلات کی روشنی میں شاہ ولی اللہ صاحب جنہیں عرف عام میں شاہ صاحب کہتے ہیں 1862 عیسوی میں اپنی جماعت کا تمام کام اپنے فرزند شاہ عبدالعزیز کے ذمہ دے کرہی دنیا سے رخصت ہوئے او رمالک حقیقی سے جاملے آج شاہ صاحب کے اصول اور جنگ آزادی کے پہلے ہیرو شاہ صاحب کو ہندوستانی عوام او رخواص بھلا بیٹھے جنہوں نے آج سے تین سوسال قبل آزادی کا پرچم لہرایا تھا۔

Share
Share
Share