اقبال بہ چشمِ خیر
مصنف : ڈاکٹر رؤف خیر
مبصر: ڈاکٹر عزیز سہیل
حیدرآباد دکن کے چندنامور اور متحرک ادیبوں میں ڈاکٹررؤف خیر کاشمار ہوتا ہے جو ایک حقیقی تحقیق کار ہیں۔مسلسل اپنے قلم کی جنبش سے شعری اور نثری تخلیقات کو جنم دیتے آرہے ہیں۔ ڈاکٹررؤف خیر حیدرآباد دکن سے جاناپہچانا نام ہے جوملک گیر سطح پر گونجا۔ ان کی تخلیقات اکثرہندوپاک کے معیاری رسائل میں شائع ہوتی آرہی ہیں اور ہرماہ ملک کے کسی نہ کسی معیاری رسالہ واخبار میں ان کی تخلیقات رسائل کے مشمولات میں شامل رہتی ہیں۔
ڈاکٹر رؤف خیر بہت ہی متحرک قلمکار ہیں ساتھ ہی ان کی بیباکی‘بے خوفی‘بے لاگی‘ان کی انفرادیت کو ظاہر کرتی ہے۔ ہر بار نت نئے موضوعات کے ساتھ ڈاکٹر روف خیر حاضر ہوتے ہیں اس دفعہ انہوں نے علامہ اقبال پر قلم چلایا ہے اور ” اقبال بہ چشم خیر “کووجودیت بخشی ہے۔
” اقبال بہ چشم خیر “ رؤف خیر کی پندرہویں تصنیف ہیں۔اس سے قبل ان کی چودہ کتابیں شائع ہوچکی ہیں جن میں شعری مجموعے اور نثری تخلیقات شامل ہیں جو اس طرح ہیں۔ اقراء(1977ء شعری مجموعہ)‘ ایلاف(1982ء شعری مجموعہ)‘ شہداب (1993ء شعری مجموعہ)‘ حیدرآباد کے خانقاہیں (1994ء تحقیقی مقالہ)‘ خطِ خیر (1997ء تنقیدی مضامین)‘ قنطار (2001ء علامہ اقبال کے 163فارسی خطاط لالہ طور کا منظوم ترجمہ)‘ سخن ِ ملتوی(2004ء شعری مجموعہ)‘دکن کے رتن اورارباب فن (2005ء تنقیدی مضامین)‘ بہ چشم خیر (2007ء تنقیدی مضامین)‘خیریات (2010ء شعری مجموعہ)‘حق گوئی وبیباکی(2013ء تنقیدی مضامین)‘دکن کی چند ہستیاں (2014ء تنقیدی مضامین)‘ مشاہیر خطوط کے حوالے سے (2015ء) ‘عزیز احمدقلمکارخوش قد (2016تحقیق و تنقید)۔
ڈاکٹررؤف خیر تصنیف”اقبال بہ چشم خیر“کا پیش لفظ ڈاکٹر رؤف خیر نے خود لکھا ہے،جو مضامین اس کتاب میں باندھے گئے ہیں وہ کچھ اس طرح ہیں۔’اقبال اور مادہ تاریخ‘،’اقبال کے فکر وفن کا گراف‘،’دامن کے چاک اور گریبان کے چاک میں‘،’بچوں کا اقبال‘،’فضائل اقبال‘،’اقبال اورہم‘،’بہ فیض اقبال‘،کیٹس اور اقبال کے اسلوب کا تقابلی مطالعہ‘،’اقبال ادب اسلامی کا نقیب‘، اقبال کے اسلوب کا ارتقاء‘،’اقبال کا فلسفہ خودی‘،’اقبال یوروپ جانے سے پہلے،‘ضرب کلیم کا مردمسلماں‘،’گوئٹے اوراقبال‘‘،’طنز وظرافت اقبال‘ شامل ہیں۔ڈاکٹر روف خیر نے اس کتاب کا انتساب”علامہ اقبال کے شیدائی جناب مقبول رضوی(امریکہ)“کے نام معنون کیاہے۔ رؤف خیر نے بڑے ہی بیباک انداز میں اس کتاب کا پیش لفظ لکھا ہے۔اقبال کے متعلق ان کاکہنا ہے کہ”اقبال کے بعد شاعری کا دعویٰ کرنا نبوت کا دعویٰ کرنے کے برابر ہے۔زیادہ سے زیادہ اولیائے غزل یا اوصیائے نظم ہوسکتے ہیں۔اقبال کے بالمقابل بعض شاعر اپنے آپ کو خاتم الشعراء یا شاعر آخرالزماں سمجھیں توان کی حیثیت مسلمہ نہیں بلکہ مسیلمہ (کذاب) جیسی ہے“۔
علامہ اقبال کوادب اسلامی کا نقیب قراردیتے ہوئے ڈاکٹر رؤف خیر نے اپنے پیش لفظ میں لکھا ہے کہ”اقبال کواگرہم ادب اسلامی کا نقیب سمجھیں تواس میں کوتاہی کیاہے کہ اقبال کے آفاقی شاعر ہونے پردال ہے کیوں کہ اسلام کے بجائے خود آفاقی فکر وفلسفہ غماز ہے۔یہ کوئی نام نہادمسلمان کی جاگیر نہیں۔“
پیش لفظ کے مطالعہ کے بعد ڈاکٹررؤف خیر کی علامہ اقبال سے بے انتہا عقیدت کا اظہار ہوتا ہے۔ ڈاکٹر رؤف خیر نے علامہ اقبال کی فارسی نظم کا منظوم اردو میں ترجمہ بھی کیاہے۔انہوں نے اقبال کی علم ابجد پردسترس کوبھی اپنی اس کتاب میں بیان کیا ہے اورساتھ ہی ان کے قرآنی اسلوب کی نشاندہی بھی حسن انداز سے کی ہے۔ یہ کتاب اقبالؔ سے متعلق ایک نئی تحقیق کوپیش کرتی ہے جس میں بیبکانہ انداز شامل ہے۔ اس کتاب کا پہلا مضمون اقبال اور مادہ تاریخ کے عنوان سے شامل ہے جس میں ڈاکٹر رؤف خیر نے اقبال کی مسدس کے فارم میں لکھی نظموں کا تذکرہ کیا ہے‘ساتھ ہی اقبال نے جومادہ تاریخ نکالی ہے ان کا جائزہ اس مضمون میں لیاہے اورلکھا ہے کہ علامہ اقبال نے بڑی آسانی سے بعض مادہ تاریخ نکالی ہیں حریت اسلام سرحادثہ کربلا (رموز بے خودی) میں اقبال کہتے ہیں:
دشمناں چوں ریگ صحرا لاتعد
دوستان اوبہ یزداں ہم مدد
اقبال ؔنے یزداں کے ہم مدد دوست کہہ کر ابجدی معمہ پیش کیاتھا۔یزداں کے اعداد بہترہوتے ہیں۔ڈاکٹررؤ ف خیر نے اپنے اس مضمون میں اقبال کی مادہ تاریخ کے حوالے بھی تحقیق کے ذریعے پیش کیے ہیں۔ اس مضمون کے اختتام پر مختلف کتابوں کے ماخذ کو حوالے کے طورپرپیش کیاگیاہے۔ اس کتاب کا دوسرا مضمون اقبال کے ”فکر وفن کا گراف“ کے عنوان سے شامل ہے جس میں فاضل مصنف نے اقبال کی ادب‘ آرٹ‘ شعری اد ا اور اسلوب پر خوب گفتگوکی ہے اوراقبال کے اشعار سے ان کے اسلوب کی انفرادیت کو بیان کیاہے۔ رؤف خیر نے اقبال کی نظموں اور غزلوں کے حوالے سے اقبال کے فکر وفن کا بہت ہی بہتر جائزہ اس مضمون میں پیش کیاہے۔ اس کتاب کا تیسرا مضمون دامن کے چاک اور گریباں کے چاک کے عنوان سے شامل کتاب ہے جو کہ ڈاکٹرجاوید اقبال کی خود نوشت سوانح حیات کے حوالے سے’اقبال کی فکر وفن ان کی حیات اور فن شاعری‘پر سیرحاصل بحث کی گئی ہے اور اقبال کے عقائد پر تفصیلی روشنی ڈالی گئی ہے۔ اس کتاب میں شامل چوتھا مضمون ”بچوں کا اقبال“کے عنوان سے شامل ہے جس میں ڈاکٹر صاحب نے اقبال کے بچوں سے متعلق کلام پر اپنی رائے زنی کی ہے۔ انہوں نے علامہ اقبال کی آسان وسلیس زبان میں بچوں کے لیے لکھی نظموں کی اہمیت کواجاگرکیاہے اورلکھا ہے کہ علامہ اقبال نے جو بچوں کے لیے نظمیں لکھی ہیں اس میں سے بیشتر نظمیں انگریزی ادب سے ماخوذ ہیں۔دلائل کے ساتھ انہوں نے ان نظموں کے حوالوں کوپیش کیاہے۔ آخر میں لکھا ہے کہ”اقبال کی اپنی کوشش یہ لگتی ہے کہ نئی نثرمیں وہ تمام اعلیٰ صفات پیدا ہوں جوایک انسان کامل کے لیے ضروری ہے‘اس طرح بچوں کواقبال نے محض کھلونا دے کربہلانے کی کوشش نہیں کی ہے بلکہ انہیں زمانے کا نرم وگرم سمجھایا ہے اور زندگی میں ان کی اہمیت کواجاگر کیا ہے“۔ بہرحال ڈاکٹررؤ ف خیر کی اس کتاب میں شامل دیگرمضامین بھی کافی اہمیت اور انفرادیت لیے ہوئے ہیں۔انفرادیت اس لیے ہیکہ ڈاکٹر رؤف خیر کاانداز عام قلمکاروں سے جداگانہ ہے اور وہ جب اپنا قلم چلاتے ہیں توکسی کی پرواہ نہیں کرتے اور اپنی رائے تحقیق کی روشنی میں ثابت کرتے ہیں۔رؤف خیر ایک اسلامی فکر کے شاعر وادیب ہیں اور انہوں نے اقبال کو اپنی نظر اور اندازسے اس کتاب میں پیش کیاہے جس میں ڈاکٹر صاحب کا بے لاک‘بیباک انداز شامل ہے۔ اس کتاب کی اشاعت پر ڈاکٹررؤف خیر کو تہہ دل سے مبارک باد پیش کی جاتی ہے اوران سے اس بات کی امید ہے کہ وہ اسلامی فکر کے دیگرشعراء کی تخلیقات کوبھی اپن نظریہ اور فکر کے ساتھ مسلسل پیش کرتے رہیں گے۔ یہ کتاب دارالاشاعت مصطفائی دہلی نے شائع کی ہے۔192صفحات پرمشتمل اس کتاب کی قیمت 200 روپئے رکھی گئی ہے جو ڈاکٹررؤف خیر‘موتی محل‘گولکنڈہ حیدرآباد سے حاصل کی جاسکتی ہے۔
——