کالم : بزمِ درویش
شہید کا باپ
پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
ای میل:
ویب سائٹ: www.noorekhuda.org
انسان کا خمیر اِسی مٹی سے اٹھا ہے اِس لیے جب بھی آپ فطرت کے حسین ترین مناظر کے قریب ہو تے ہیں ایسی جگہ جہا ں پر فطرت اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ جلو ہ گر ہو تی ہے اوپر سے جنگل فطرت کی پراسرار تنہائی جہاں پر آپ ہوں اور فطرتی مناظر اور خالق کی خالقیت کے خوبصورت سحر انگیر مظاہر اپنے چاروں طرف صدیوں پرانے دیوقامت درخت درختوں کے تنوں کے پھیلاؤ جنگلی جڑی بوٹیاں جنگلی پھلوں کے درخت ’
قدرتی چشموں کے ٹھنڈے پانی پہاڑوں سے گرتے آبشار اِن آبشاروں کی شبنمی پھوار جھرنوں کی سریلی آوازیں کوئل کی سریلی آواز باقی پرندوں کی صاف آسمان تلے پرواز اور مستی آسمان پر سرمئی سیاہ گھنے بادلوں کے اِدھر اُدھر رقص کر تے غول کے غول آسمان پر سورج اور بادلوں کی آنکھ مچولی صاف شفاف ہوا جس میں نمی کا تناسب زیادہ اور جنگل جھرنوں پانی کی خوشبو۔
انسان دنیا کی مادیت پرستی سے کٹ کر اُسی منظر کا حصہ بن جاتا ہے میں بھی پچھلے ایک گھنٹے سے سطح سمندر سے ساڑھے سات ہزار فٹ بلند کوہ مری سے ایوبیہ کی طرف جاتے ہوئے باڑیاں کینٹ کے گھنے جنگلوں میں آوارہ گردی کر رہا تھا اوپر نیچے راستوں پر بلندی پر آکسیجن کی کمی کی وجہ سے اب شوگر لیول کم اور جسم ناتوانی کا شکار ہو نے لگا تو میں آرمی باڑیاں آفیسر میس کے سامنے وسیع و عریض گراسی لان کی طرف بڑھنے لگا اوپر نیچے راستوں کے بعد اب باقی واک میں ہموار لان میں کر نا چاہتا تھا لان کا سرسبز و شاداب نرم و گداز گھاس میرے قدموں تلے بچھا جارہا تھا اطراف میں پھولوں اور پھلوں کے پودوں درختوں کی ہوا کو اللہ نے مہک کی سوغات عطا کر رکھی تھی اب میں نے وسیع و عریض لان گراؤنڈ کے دو چکر لگائے دوسرے چکر میں سٹاف کو اورنج جوس کا کہہ کر میں آکر آرام بینچ پر بیٹھ گیا مسلسل واک کے بعد میرا جسم ہلکا پھلکا ہو گیاتھا جسم پر پسینے کے قطرات ابھر آئے تھے آسمان پر گھنے سیاہ بادل کبھی کبھی سُچے مو تیوں کی بوندا باندی شروع ہو جاتی‘ میں بینچ پر بیٹھ کر لمبے لمبے سانس لے کر پھیپھڑوں کو صحت مند ہوا دے رہا تھا کہ اِسی دوران سٹاف نے مزے دار مشروب کا گلاس میرے سامنے لا کر رکھ دیا مسلسل واک کی وجہ سے پیا س کی وجہ سے حلق میں کانٹے اگ آئے تھے میں نے گلاس پکڑا اور دو تین لذیذ مزیدار ٹھنڈے جو سے کے گھونٹ حلق سے اتار دئیے میٹھا ٹھنڈا جوس جیسے ہی معدے میں اُترا رگوں میں توانائی کا احساس دوڑتے لگا۔ میں بینچ پر نیم دراز ہو کر جسم کو آرام کی حالت میں لانے لگا پھر سارا جوس کا گلاس معدے میں اتار کر نیم دراز ہو کر آسمان پر جھائے گھنے سیا ہ بادلوں کو دیکھنے لگا اونچائی کی وجہ سے قریب تھے جو س کی وجہ سے جسم اب آرام دہ حالت میں جا رہا تھا کئی سالوں کے بعد جنگل کی سیر نے نشہ سا طاری کر دیا تھا میں جنگل کی سیر کو محسوس کر نے لگا اچانک مجھے پرندوں کی سریلی آواز نے اپنی طرف متو جہ کیا یہ شاید مور کی آواز تھی جو وہ رقص کے وقت نکالتا ہے میں نے آواز کی سمت کا پتہ چلانے کی کو شش کی تو قریب کے جنگل کے پاس ایک بوڑھا شخص ایک جوان اور چند بچے محویت سے کسی کو دیکھتے ہو ئے پائے گئے اسی دوران پھر مور نے فضاؤں کو اپنی آواز سے ارتعاش بخشا میں اٹھا اور تیزی سے آواز کی سمت بڑھنے لگا اِسی دوران زیا دہ پرندوں یا موروں کی آوازیں سناٹوں کو سحر بخشنے لگیں اور پھر میں جیسے ہی جنگلے کے پاس پہنچا تو میری آنکھیں حیرت سے پھیلتی چلی گئیں میری آنکھوں کے سامنے میری زندگی کا سب سے خوبصورت سحر انگیز منظر تھا میرے قدم جم گئے آنکھیں پتھرا گئیں سانسیں رک سی گئیں پلکیں جھپکنا بھول گیا میرے سامنے ایک نہیں دو نہیں تین مور سبز نیلا اور سفید پنکھ پھیلائے رقص کر رہے تھے اپنے وجود سے بہت حد تک بڑے بڑ ے پنکھ پھیلائے وہ دائروں میں گھوم گھوم حالت وجد میں رقص کر رہے تھے نیلے اور سبز مور کے پھیلے ہو ئے پروں میں سکے برابر بہت سارے خوبصورت پھول نما دائرے بنے تھے ان دائروں میں بھی مختلف رنگوں کی قو س قزح بنی ہوئی تھیں ان پھولوں کی ترتیب اور تنوع دیکھنے والے کو سحر انگیز کر دیتی تھی دنیا میں بڑے سے بڑا ملحد بھی خدا کے وجود کا اقرار کر لے نیلے اور سبز موروں کے پنکھوں میں رنگوں میں کی برسات اُتری ہو ئی تھی رنگوں کا سیلاب تھا جو بارش کی طرح بر سا ہوا تھا اوپر سے سرپر قلفی نما تاج اور میرے خدایا تو عظیم تیری تخلیق عظیم تو واقعی خالق عظیم ہے تیرے جیسا کو ئی نہیں اور پھر جب سفید مور پر نظر پڑی مکھن کی طرح برف کی طرح روئی کی طرح سفید سر سے پاؤں تک کسی ملکوتی فرشتے کی طرح رقص کر رہاتھا میں نے سنا تھا جنگل میں مور ناچا کس نے دیکھا لیکن میرے سامنے ہزاروں فٹ کی بلندی پر گھنے جنگل کے بیچوں بیچ تین خوبصورت ترین مور حالت وجد میں رقص کر رہے تھے حسن کا نقطہ عروج پر میرے اوپر بھی وجد کیف سرور مستی چھا نے لگی میری نظر دماغ فہم اِس درجے کی خوبصورتی کو جذب نہیں کر رہے تھے میں جو سالوں سے خدا کے عشق اُس کی قدرتی مناظر کا دیوانہ آج تو اخیر ہی ہو گئی تھی جنگل میں گھنے بادلوں کے اور بوندا باندی میں تین خوبصورت ترین مور ناچ رہے تھے اور میں انہیں دیکھ کر وجد انگیز کیفیت میں دنیا و مافیا سے بے خبر ہو چکا تھا نشہ سرور مستی وجد کیفیت اوپر خدا نیچے خدا کی خوبصورت ترین تخلیق او میرے خدا میں تجھ پر قربان تیری تخلیق پر قربان منظر ایسا کہ بڑے سے بڑا منکر خدا کے ہونٹوں پر بھی کلمہ حق جاری ہو جائے یہ تو تھا ایک قدرتی مناظر اب خدا مجھے ایک اور منظر دکھا نا چاہتا تھا پتہ نہیں کتنی دیر ہم لوگ موروں کے دیوانہ واررقص سے لطف اندوز ہو تے رہے پھر بارش تیز ہو ئی تو موروں نے رقص بند کیا اور ہم بھی برآمدے میں پڑی کر سیوں کی طرف بڑھے میرے ساتھ بوڑھا شخص اور اُسکا جوان بیٹا تھا اب بارش کی وجہ سے ہم مجبور تھے ایک دوسرے سے باتیں کر تے تعارفی گفتگو میں پتہ چلا کہ بوڑھا شخص اور اُس کا بیٹا سکردو گلگت سے ہیں بوڑھا شخص نیم فالج زدہ تھا وہ ٹوٹے پھوٹے الفاظ ادا کر رہا تھا جوان نے بتایا وہ باپ کا تیسرا بیٹا ہے ہم تینوں پاک فوج میں ہیں وہ فخریہ بتا رہا تھا کہ میرا باپ پاک فوج میں مزدور تھا کبھی پلمبر کبھی بیرا کبھی کک دوران ملازمت جب میرا باپ فوجی افسران کو دیکھتا تو خواب دیکھتا کہ وہ بھی اپنے بیٹوں کو پاک فوج میں بھرتی کرائے گا‘ گاؤں کی زمین بیچ کر بیٹوں کو تعلیم دلائی محنت مزدوری بھی کرتا رہا پھر اپنی محنت مزدوری سے تینوں بیٹوں کو پڑھا کر آرمی میں آفیسرکرایا بچپن میں مولوی صاحب کی بات سنی شہید اور شہادت بہت بڑا اعزاز ہے خود تو شہید نہ ہو سکا لیکن اِس آرزو کی تکمیل میں تینوں بیٹوں کو آرمی میں بھرتی کرایا‘ دن رات ایک ہی دعا اور خواب کہ بیٹوں کو شہادت کی موت نصیب ہو تین سال پہلے ہمارا بڑا بھائی دشمن سے لڑتا ہوا شہید ہو گیا اب ہم دو بھائی باپ کی وصیت اور خواہش ہے کہ ہم دونوں بھی وطن عزیز کی حفاظت میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر دیں جس دن شہید بھائی کا جسد خاکی گاؤں آیا باپ فخریہ انداز میں کھڑا تھاکہ وہ شہید کا باپ ہے اِسی دوران باپ کو فالج ہوگیا اب ہم دونوں بھائیوں میں سے ایک باپ کی خدمت میں ہو تا ہے آجکل بڑا بھائی محاذ ِ جنگ میں اگلی صفوں میں لڑ رہا ہے اور میں باپ کی خدمت میں ہو میرا باپ روزانہ مجھے کہتا ہے میں زندہ رہ لوں گا تم بھی محاذ جنگ پر جاکر اگلی صفوں میں دشمن کو للکارو‘ میں دنیا کے عظیم ترین باپ کو دیکھنے کی سعادت حاصل کر رہا تھا جو ایک بیٹا راہ حق میں دینے کے بعد باقی دونوں بیٹوں کو بھی ملک کی حفاظت کے لیے میدان جنگ میں بھیجنا چاہتا تھا بارش رک گئی میں نے عظیم باپ کا ہاتھ چوما گلے اِس دعا کے ساتھ ملا کہ اِس عظیم باپ کے صدقے شاید میری آنے والی نسلوں میں بھی اللہ کسی کو شہادت کا اعزاز دے۔ آمین ایسے عظیم باپوں سے وطن عزیز کا وجود قائم ہے۔