اسلام کو سیاسی لحاظ سے غالب کرنے میں
مولانا سید ابو اعلیٰ مودودیؒ کی قربانی
مفتی کلیم رحمانی
پوسد ۔ مہاراشٹر
موبائیل:09850331536
حکومتِ وقت کے عتاب کا نشانہ بننے والی ماضی قریب کی ایک اسلامی شخصیت مولانا سید ابواعلیٰ مودودیؒ کی ہیں چنانچہ جب مولانا مودودیؒ نے اپنی تحریروں اور تقریروں کے ذریعہ اسلام کو ایک مکمل نظام زندگی کی حیثیت سے پیش کیا اور اس کی حقّانیت تمام غیر اسلامی نظاموں پر ثابت کی اور تمام غیر اسلامی نظاموں کا باطل اور غلط ہونا اسلام اور عقل دونوں سے ثابت کیا تو،اشتراکی،جمہوری،وطنی،قومی نظاموں کے حامل اور حامی آپ کے مخالف اور دشمن ہو گئے –
پہلے آپ پر طرح طرح کے غلط الزامات لگا کر آپ کو بد نام کیا،اور پھر کچے اور نیٖم علماء کی ایک پوری فوج تیار کرکے آپ کے خلاف کھڑے کردی جو اپنی تحریر و تقریر کے ذریعہ مولانا مودودی ؒ کو بے دین،گمراہ،کافر ٹھہرانے،چنانچہ ان نیٖم عُلماء نے اپنے آقاؤں کی سونپی ہوئی اس خدمت کو بڑے اخلاص اور خوبی کے ساتھ انجام دیا،میں نے نیٖم علماء کا لفظ بہت سوچ سمجھ کر استعمال کیا ہے،ورنہ جہاں تک کامل علماء کی بات ہے تو بے شمار علماء مولانا مودودی ؒ کے حامی رہے ہیں اور آج بھی ہیں۔ اورجو علماء کامل ہونے کے بوجود آپ کی فکر کے حامی نہیں رہے ہیں بلکہ ان کو اختلاف رہا ہے تو یہ اختلاف اسلامی نظام کے قیام کے طریقہ کار میں رہا ہے،اور یہ اسی طرح کا اختلاف ہے جو عبادات اور معاملات میں فقہ کے چاروں ائمہ کے درمیان رہا ہے۔اسی طرح مسئلہ قومیت کے متعلق علماء دیوبند کے اکابر میں رہا ہے،چنانچہ مولانا حسین احمد مدنی اور ان کے ساتھی جہاں متحدہ قومیت کے حامی تھے تو وہیں،مولانا اشرف علی تھانوی،مولانا شبیر احمد عثمانی،مفتی محمد شفیع صاحب متحدہ قومیت کے مخا لف اور جدا گانہ قومیت کے حامی تھے،مولانا مودودی ؒ بھی قومیت کے مسئلہ میں جدا گانہ قومیت کے موقف کے حامی تھے اورمتحدہ قومیت سے انہیں شدید اختلاف تھا،البتہ جدا گانہ قومیت کی حمایت کے باوجود مُسلم لیگ اور اس جیسی مسلم پارٹیوں سے انہیں شدید اختلاف تھا، اور دراصل یہ اختلاف ان کا ذاتی اختلاف نہیں تھا بلکہ اسلام کی بنیاد پر تھا،کیونکہ اسلام کے نزدیک مسلمان صرف ایک قوم نہیں ہیں بلکہ ایک
امّت ہیں جس کی بنیادقرآن و حدیث ہے،لہذا جس مسلم پارٹی کی بنیاد قرآن حدیث پر نہ ہو وہ مسلمانوں کی پارٹی تو کہلاسکتی ہے لیکن اسے مسلمانوں کی نمائندہ جماعت ہونے کا حق حاصل نہیں ہو سکتا اور نہ وہ اسلامی پارٹی ہو سکتی ہے،اور مسلمانوں کوتو اسلامی پارٹی بنانے کا حکم ہے اور اسلامی پارٹی ہی کا ساتھ دینے کا حکم ہے۔اب میدان ِ سیاست میں اسلام کے ٹھیٹھ اور واضح مَوقف کی حمایت کے نتیجہ میں مولانا مودودی ؒ دونوں گروہ کی لعنت و مخالفت کی زَد میں آگئے،اور کمیونزم کی مخالفت کی وجہ سے تو آپ پہلے ہی سے کمیونشٹ پارٹی کی مخالفت کے نشانہ پر تھے،تو اب اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کانگریس پارٹی جو متحدہ وقومیت یعنی ہندو مسلم، ایک قوم کے نعرہ کو لیکر چل رہی تھی وہ آپ کی دشمن ہوگئی اور چونکہ کانگریش کے ساتھ علماء کی بھی ایک ٹیم تھی وہ بھی آپ کے مخالف ہوگئی، اسی طرح مسلم لیگ بھی آپ کی دشمن ہوگئی جو ’مسلم قوم‘ کے نعرہ کو لیکر چل رہی تھی اور چونکہ مسلم لیگ کے ساتھ بھی علماء کی ایک ٹیم تھی وہ بھی آپ کی مخالف ہوگئی،اورپھر ہندوستان کی تقسیم و آزادی کے بعد چونکہ ہندوستان میں گانگریس پارٹی کی حکومت بنی اور پاکستان میں مُسلم لیگ کی حکومت بنی تو مولانا مودودیؒ ایک طرح سے دونوں ملکوں کی حکومت کے نشانہ پر آگئے۔اور اب تک یہ مخالفت جو سیاسی سطح پر ہو رہی تھی وہ حکومتی سطح میں تبدیل ہو گئی اور جب کسی مسلمان کی مخالفت حکومتی سطح سے ہو رہی ہو تو ماضی و حال کا علم رکھنے والے اچھی طرح جانتے ہیں کہ اس کی حمایت جُرم ہو جاتی ہے چاہے وہ حق پر ہی ہو۔جیسے آج عالمی سطح پر حکومتوں کی نظر میں، حمّاس، طالبان، اخوان المسلمون،دہشت گرد تنظیمیں شمار ہوتی ہے،تو یہ جاننے کے باوجود کہ یہ تنظیمیں دہشت گرد نہیں ہیں پھر بھی زیادہ تَر لوگ انہیں دہشت گرد سمجھتے ہیں۔یہی حال ہندوستان،پاکستان،بنگلہ دیش میں مولانا مودودی ؒ اور ان کی بنائی ہوئی جماعتِ اسلامی کا ہوا لیکن حکومتی سطح کی مخالفت کے باوجود مولانا مودودی ؒ اپنے موقف پر جمے رہے یہاں تک کہ انہیں کئی بار پاکستان کی حکومت نے جیل میں ڈالا،اور قادیانیوں کے خلاف ایک رسالہ لکھنے کی پاداش میں پاکستان کی ایک عدالت نے پھانسی کی سزا بھی سُنائی لیکن چند اسلامی سربراہوں خصوصاً شاہ فیصل کے حکومتِ پاکستان پر دباؤ ڈالنے کی وجہ سے حکومت ِپاکستان مولانا مودودی ؒ کو پھانسی کی سزا نہیں دے سکی،،لیکن
دراصل اللہ کی طرف سے جب تک کسی کی موت کا فیصلہ نہیں ہوتا تب تک دنیا کی کوئی طاقت کسی کو موت نہیں دے سکتی، چنانچہ مولانا مودودی کی موت کا فیصلہ تو دنیا کی عدالت نے ۳۵۹۱ ء میں سنا دیا تھا مگر مولانا مودودیؒ کا انتقال اس کے چھبّیس (۶۲)سال بعد ۹۷۹۱ ء میں اپنی فطری موت سے ہوا اور اس عرصہ میں انہوں نے اپنی شہرہ آفاق تفسیر،تفہیم القرآن کی تکمیل کی اور بھی بہت سی کتابیں لکھیں اور جماعتی سرگرمیاں انجام دیں،اور جب سعودی حکومت نے شاہ فیصل ایوارڈ کی بنیاد ڈالی تو دنیا کے بڑے بڑے جید علماء کے مشورہ سے مولانا سید ابولاعلی مودودیؒ سب سے پہلے اس ایوارڈ کے مستحق قرار دئے گئے۔
مذکورہ چند صفحات میں جن اسلامی شخصیات کا تذکرہ کیا گیا ہے اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ میدانِ سیاست میں اسلام کو غالب کرنے اور کُفر کو مغلوب کرنے کی جدوجہد کتنی عظیم اور کتنی کٹھن ہے،اور اس سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ اسلامی تحریکات اور اسلامی شخصیات کو اسکے لئے رخصتوں اور گنجائشوں کا راستہ چھوڑ کر عزیمتوں اور قربانیوں کا راستہ اختیار کرنا پڑتا ہے،اور اس میں تحریکِ اسلامی کے ذمہ داروں ہی کو پیش پیش رہنا پڑتا ہے تب اس کے مثبت اثرات تحریک کے نیچے درجہ کے افراد پر پڑتے ہیں،اور ساتھ ہی اس کے مثبت اثرات عام مسلمانوں پر بھی پڑتے ہیں،اور یوں پوری امت اسلام کے غلبے کے لئے عزیمت و قربانی کی راہ پر چل پڑتی ہے۔اور اگر تحریکاتِ اسلامی کے ذمہ داران، اسلام کے مغلوبیت کے دور میں دینی رخصتوں اور گنجائشوں کے راستہ اختیار کریں، تو اس کے منفی اثرات تحریک کے نیچے درجہ کے افراد پر پڑتے ہیں اور یوں پوری امّت رخصتوں کے راستہ سے نیچے اُتر کر منکرات کے راستہ پر چل پڑتی ہے،کیونکہ یہ فطری اور نفسیاتی حقیقت ہے کہ کسی قوم کے ذمہ دار افراد سو فیصد درجہ کی قربانی دے رہے ہوں تو وہ عوام سے پچاس فیصد درجہ کی قربانی کی ہی توقع رکھ سکتے ہیں، اور اگر ذمہ دارافراد ہی دس فیصد درجہ کی قربانی دے رہے ہوں تو وہ عوام سے ایک فیصد درجہ کی قربانی کی توقع بھی نہیں رکھ سکتے۔اور پھر یہ بھی حقیقت ہے کہ صرف دورِ ماضی کے عزیمتوں اور قربانیوں کے تذکرہ سے دور حاضر کی امت مسلمہ کو اسلام کے سیاسی غلبہ کے لئے تیار نہیں کیا جا سکتا بلکہ اس کے
لئے دورِ حاضر میں عزیمتوں اور قربانیوں کے نمونوں کی بھی ضرورت پڑتی ہے،اور جس ملک و معاشرہ میں اسلام کو غالب کرنا ہے اسی ملک و معاشرہ کے نمونوں کی ضرورت پڑتی ہے۔
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ دورِ حاضر کا سب سے بڑا شرک اور سب سے بڑا فتنہ جمہوری نظام اور اس کا اقتدار ہے،اس کو دورِ حاضر کا سب سے بڑا انسانی مرض بھی کہہ سکتے ہیں جو بلڈ کینسر سے بھی زیادہ خطر ناک ہے اور اس کا علاج یہ ہے کہ مسلمان خصوصاً تحریکاتِ اسلامی اسلام کو نظامِ زندگی کی حیثیت سے قبول کرے اور لوگوں کے سامنے پیش کرے، اور اسی کو ملک و معاشرہ میں غالب کرنے کی جدوجہد کرے،اور جمہوری نظام اور اس کے انتخابات سے بیزاری اور بے رُخی کا رویہ بنائے رکھے اور اس کی وجہ سے آنے والی آزمائشوں پرثابت قدم رہیں۔