محمد حسن اشرفی کی کتاب
” محرم اسر ار “کی تقریبِ رونمائی
حافظ ؔشیرازی فارسی غزل گویوں کے امام تھے : خان حسنین عاقبؔ
پونہ : (نامہ نگار)
”اردو زبان و ادب کا تعلق فارسی زبان وادب سے بہت دیرینہ ہے۔ اردو کی رگوں میں عربی اور ہندی کے ساتھ ساتھ فارسی کا بھی خون دوڑتا ہے۔ کلاسیکی اردو غزل کے شاہکار نمونے اگر کسی فارسی شاعر سے سب سے زیادہ متاثر نظر آتے ہیں تو وہ ہیں فارسی غزل گویوں کے امام حافظ شیرازی۔“
یہ خیالات تھے اردو، فارسی، انگریزی اور ہندی زبان کے معروف شاعر و ادیب، مترجم اور محقق جناب خان حسنین عاقبؔ کے۔ موقع تھا پونہ شہر کی معروف شخصیت جناب محمد حسن اشرفی کی کتاب ’محرمِ اسرار‘کی تقریبِ رونمائی کا۔ یہ کتاب حافظ شیرازی کی فارسی غزلوں کے اردو منظوم تراجم کا انتخاب ہے۔
’ محرم اسرار‘ (اردو منظوم ترجمہ از د یوانِ حافظؔ) کی رسم رونمائی کی تقریب بروز بدھ، ۲۱، جون، ۹۱۰۲ .ء بعد نماز مغرب بمقام جامعہ اشرفیہ حسامیہ شیخ صلاح الدین، اشرف نگر،کونڈوا، پونہ میں جناب خان حسنین عاقبؔ کے دستِ مبارک سے عمل میں آئی جو اس تقریب میں مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے مدعو کئے گئے تھے۔ دیگر مہما نان میں جناب سیّد آصف (سابق رکن، اردو اکادمی، مہاراشٹر، ساکن پونہ) قائد اہلسنت محترم مولانا محمد ایوب اشرفی صاحب موجود تھے۔
تقریب کا آغاز جامعہ اشرفیہ کے طالب علم حافظ تراب اشرفی کی تلاوت کلام پاک سے ہوا۔ کرسیِ صدارت قائد اہل سنت مولانا محمد ایوب اشرفی کو پیش کی گئی۔ تقریب کے باقاعدہ آغاز میں جناب حسن خان اشرفی نے اپنی کتاب محرم اسرار کا تعارف مختصر مگر جامع انداز میں پیش کیا اور کہا کہ مجھے خود پتہ نہیں کہ یہ ترجمہ کیسے ہوا، اور میں اس عظیم کام کا اپنے آپ کو اہل نہیں پاتا،بس میں یہی کہوں گا کہ ” ایں سعادت بزورِ بازو نیست “۔ جناب سید آصف نے مختصراً چند جملوں میں حسن اشرفی صاحب کی محنت اور لگن کی تعریف کی۔اس کے بعد مہمان ِ خصوصی جناب خان حسنین عاقب صاحب نے حالات حاضرہ پر علم و ادب اور خصوصاً اردو سے ہماری بے رغبتی، بے اعتنائی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ”دنیا کے وہ ممالک جو آج بہت زیادہ ترقی یافتہ ہیں اور معاشی و اقتصادی اعتبار سے بہت مضبوط ہیں انھوں نے نہ اپنی ثقافت چھوڑی اور نہ اپنی زبان، یہاں تک کہ اس ٹکنالوجی کے ترقی یافتہ زمانے میں بھی وہ کمپیوٹر پر انگریزی کا نہیں بلکہ اپنی زبان ہی کا استعمال کرتے ہیں۔ پھر بھی وہ تمام ممالک آج ہر محاذ میں سب سے آگے نظر آتے ہیں۔ حسنین عاقب نے اپنے منفرد، نہایت دلچسپ اور پر لطف انداز میں بتایا کہ فارسی ہندوستان میں آٹھ سو سال تک دفتری زبان رہی ہے اور مسلمان حکمرانوں کے ساتھ ساتھ براہمن پنڈت بھی اس زبان کے ماہر ہوا کرتے تھے۔ ایک کہاوت اردو میں بھی مشہور تھی کہ ’ہاتھ کنگن کو آرسی کیا، پڑھے لکھے کو فارسی کیا۔ لیکن انگریزوں کی سازش اور اپنوں کے تغافل کی وجہ سے نوبت بہ ایں جا رسید کہ اس کے بالمقابل ایک نیا محاورہ گھڑ لیا گیا کہ ’پڑھو فارسی، بیچو تیل‘ یعنی فارسی سیکھنا بے فیض ہے۔“
جناب خان حسنین عاقب نے ’ محرمِ اسرار ‘ کو پونہ کے ادبی ماحول میں گزشتہ کچھ برسوں سے در آنے والے جمود کو ختم کرنے والا کارنامہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اشرفی صاحب کے اس کام کے حوالے سے جہاں جہاں ان کی یہ کتاب جائے گی، پونہ شہر کا نام روشن رہے گا۔
صدارتی خطبہ میں قائد اہل سنت مولانا محمد ایوب اشرفی صاحب نے علم و ادب کے ساتھ ساتھ دینی ارتباط کی ضرورت پر زور دیا۔ اردو کے معیار کی گرتی ہوئی حالت پر افسوس بھی کیا اور اس کے تدارک پر سیر حاصل گفتگو فرمائی۔انہوں نے اس کتاب کے ترجمے سے متعلق اک واقعہ بھی بیان فرمایا کہ میں ان کے اس ترجمے سے مشکوک بھی تھا اور مطمئن بھی نہ تھا، ان کا ترجمہ مکمل بھی ہو چکا تھا، ایک روز میں ’لطائفِ اشرفی‘ کا مطالعہ کر رہا تھا جس میں فارسی کا ایک شعر میری نظر سے گذرا،وہ شعر تھا
” ہر چہ خواہد میکند پروردگار
بندہ را در کارِ مولیٰ نیست کار‘‘
میرے ذہن میں آیا کہ چلو ان کو آزما لیں، کہیں یہ کسی کے سہارے تو نہیں،میں نے ان سے کہا کہ اسن شعر کا اردو میں منظوم ترجمہ کرو اور یہ بھی کہ اسی وزن، اسی قافیہ کے ساتھ، میں یہ سوچ کر حیران رہ گیا کہ انھوں نے اس کے دو ترجمے فی الفور کردیے اس میں سے مجھے جو ترجمہ اچھا لگا وہ یہ ہے ؎
” جو بھی چاہے وہ کرے پروردگار
بندے کو کچھ بھی نہیں ہے اختیار “
اب مجھے یقین ہوگیا کہ واقعی وہ یہ ترجمہ کرنے کے قابل ہیں۔
تقریبِ رونمائی میں خصوصی طور پرمولانا محمد عارف اشرفی فاضل ِ جامعہ نظامیہ (پونہ)،شہرکی ہر دلعزیزشخصیت ،شاعر اور ادیب جناب رفیق قاضی صاحب، معلمِ حدیث جناب شاہد اشرفی صاحب، جناب ظہیرالحق نائب ’مدیر ِ ’کونین‘ اور ان کے علاوہ دیگر اہل علم حضرات نے شرکت فرمائی۔
نظامت کے فرائض جناب تنویر احمد تنویرؔ شولاپوری نے نہایت خوش اسلوبی سے نبھائے اور سامعین پر اپنی فارسی دانی کا اچھا خاصا اثر چھوڑا۔ اخیر میں مولانا محمد ایوب اشرفی کے ذریعے بارگاہِ الہی میں دعا پر اس عظیم الشان تقریب کا اختتام ہوا۔