کالم : بزمِ درویش – شہید کی ماں :- پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

Share
پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

کالم: بزمِ درویش
شہید کی ماں

پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
ای میل:
ویب سائٹ: www.noorekhuda.org

سطح سمندر سے ساڑھے سات ہزار فٹ کی بلندی مری سے ایوبیہ جاتے ہوئے باڑیاں کینٹ کی پہاڑی‘چوٹی پر ٹھنڈے ٹھار بادلوں بھرے موسم میں آسمان شفاف موتیوں کی طرح‘بوندا بوندی میں ننھا دس سالہ شہید باپ کا بیٹا ماہر فوجیوں کی طرح چاق و چوبند پھرتی سے جس طرح مارچ کر رہا تھا اِس نے ہم سب پر سحر طاری کر دیاتھا میرا وجود پچاس سال کی حد کراس کرکے بڑھاپے کی دہلیز پر کھڑا ہے

لیکن بچے کا جذبہ جنون دیکھ کر میری رگوں میں بھی سرد خون کہ جگہ وطن عزیز کی حفاظت جو ش ولو لہ کر نٹ دوڑ رہا تھا میں عمر کے اُس حصے میں داخل ہو چکا تھا جب جسم آرام طلب ہو جاتا ہے لیکن ننھے فوجی کو دیکھ کر میری رگوں میں بھی جوانی انگڑائیاں لے رہی تھی میں نے ستائشی نظروں سے ماں کی طرف دیکھا اور بولا بہن جی شہید کے بچے ایسے ہی ہو تے ہیں تو پا س بیٹھی دادی چٹانوں جیسی سختی لیے ہو ئے آواز میں بو لیں یہ شہید باپ کا بیٹا ہو نے کے ساتھ ساتھ شہید داد ے کا بھی تو پو تا ہے‘ میں نے خوشگوار حیرت سے بچے کی دادی کی طرف دیکھا جن کے بالوں پر چاندی نے مکمل قبضہ جمایا ہوا تھا۔ بڑھا پے نے پو ری طرح دادی کے ناتواں جسم پر قبضہ جمایا ہوا تھا لیکن دادی کی آواز میں جوانوں والی حرارت دھاڑ تھی اُن کی آواز سے بلکل بھی نہیں لگ رہا تھا کہ اُن کا جسم اب بیماریوں کی آماجگاہ بن چکا ہے جسمانی اعصاب گزار ا کر رہے ہیں لیکن اب جوش سے اُن کی دھندلی بے نور آنکھوں میں ستاروں کی روشنی تھی ان کے جھریوں بھرے چہرے پر جوانوں کی ترنگ جوش ولولہ نظر آرہا تھا انہوں نے جو شیلے انداز میں کہا یہ زندگی اللہ تعالی کا سب سے خوبصورت اور قیمتی تحفہ ہے مجھے فخر ہے کہ میرا میاں اور بیٹا دونوں اپنی جان کا نذرانہ خالق کائنات کو دے کر امر ہوچکے ہیں۔ دو قیمتی جانیں دینے کے بعد ہمارے جذبے کم نہیں ہو تے ہماری رگوں میں وہ خون ہے جو بار بار وطن عزیز کی حفاظت میں اچھلتا رہے گا راہ حق میں قربان ہو تا رہے گا۔ دادی ماں کے منہ سے جوش ولولے کا آبشار ابل رہا تھا میں کھسک کر ان کے اور قریب ہو گیا جب وہ خوب بول چکیں تو میں نے دادی کی آنکھوں میں جھانکا اور دھیرے سے بولا آپ کو خاوند کی جدائی کا دکھ درد تکلیف نہیں دیتا تو وادی فولادی لہجے میں بو لی دکھ درد تکلیف تو بہت دور کی بات ہے مجھے جب بھی خاوند اور بیٹے کی یاد آتی ہے میرا سینا فخر سے تن جاتا ہے میں اپنی بو ڑھی بے جان رگوں میں زندگی کی حرارت محسوس کر تی ہوں شہید کی بیوہ ہو نا پھر شہید کی ماں ہو نا اِس نشے سرور فخر کو صرف میں محسوس کر سکتی ہوں جب بھی میرے میاں اور بیٹے کا ذکر ہو تا ہے میری بے نور آنکھوں میں روشنی آجاتی ہے ناتواں کمزور جسم میں انرجی محسوس کر تی ہوں پھر میری رگوں میں نس نس میں خوشی طمانیت فخر کا احساس دوڑنے لگتا ہے جس کا ذائقہ سرور مستی و جد میں ہی محسوس کر تی ہوں زندگی انسان کے لیے سب سے قیمتی ہے اِس کی بقا کے لیے اِس کی آسائش آرام کے لیے انسان ساری عمر جائز نا جائز کی حدود کراس کر تا رہتا ہے لو ٹ مار قتل و غارت جھوٹ فریب ظلم حق تلفی بندہ اِسی جان کے لیے کر تا ہے لیکن یہ اعزاز یہ فخر صرف شہید اور اُس کے لواحقین ہی جانتے ہیں کہ شہادت کتنے بڑے اعزاز کی بات ہے عام انسان گاجر مولی کی طرح پر دہ جہاں پر اگتے ہیں پھر ساتھ والے گھر کو نہیں پتہ چلتا پیوند خاک ہو جاتے ہیں لیکن شہید آزادی کے وہ چراغ روشن کر جا تا ہے جس سے لا کھوں لوگوں کی زندگیوں کے اندھیرے دور ہو تے ہیں دادی میں عزم و استقلال کی داستان فولادی لہجے میں بیاد کر رہی تھی خاموش ہو ئیں تو میں بو لا ماں جی یہ تبدیلی آپ میں کب آئی۔ بچپن سے ہی آپ ایسی تھیں تو دادی ماں نے سامنے پڑے خو شبودار بھاپ اڑاتے قہوے کا مگ اٹھا یا دو تین بڑے گھو نٹ حلق سے اتارے سامنے دور تک جنت نظر وادی بادلوں اور سورج کی آنکھ مچولی کو دیکھا پھر بولیں نہیں جب میری شادی ہو ئی تو میں دنیا وی رنگوں سے بھر پور جوان لڑکی تھی جسے اپنی ذات جسم خیالات ہی پیارے تھے میرے میاں پاک فوج میں اُس وقت میجر تھے چھ فٹ کا خوبرو صحت مند چاک و چوبند جوان جس کا کسرتی جسم دیکھ کر ہر لڑکی دل دے بیٹھتی‘ میں نے منگنی کے وقت جب انہیں دیکھا تو مجھے بھی لگا آسمان سے کو ئی دیوتا دھرتی پر اُتر آیا ہے پہلی نظر میں ہی میں بھی دل دے بیٹھی پھر شاد ی ہو ئی تو مجھے لگا مجھے خداتعالیٰ نے زمین پر ہی جنت دے دہی ہے میں زندگی کے سارے رنگوں کو بھر پور طور پر انجوائے کر رہی تھی میرا میاں پہلے دن سے نمازی تھا وہ پانچوں وقت کی نمازیں پابندی سے اداکر تے‘ نماز کی خاص بات وہ بہت طویل سجدے کر تے سجدوں میں رو رو کر خدا کے حضوردعائیں مانگتے۔ایک دن میں نے اُن سے پوچھا خدانے آپ کو دنیا کی ہر نعمت دے رکھی ہے پھر بھی آپ رو رو کر خدا سے کیا مانگتے ہی تو وہ میرے پاس بیٹھے میرا ہا تھ پکڑا میری آنکھوں میں جھانکا اور ٹھوس لہجے میں بو لے تم میری شریک حیات زندگی ہو وہ وعدہ کر و میرا ساتھ دو گی میری اِس خواہش کی تکمیل میں کبھی رکاوٹ نہیں ہو گی بلکہ ہر ممکن طور پر میرا ساتھ دو گی۔ اُن کے لہجے میں رقت تھی میں نے فوری کہا آپ حکم کریں میں اپنی جان دے کر بھی آپ کی خواہش اور دعا پو ر ی کر نے کی کو شش کر وں گی تو وہ بولے میرا بچپن سے ایک خواب ہے کہ کسی طرح شہادت کے درجے پر فائز ہو جاؤں وطن عزیز اور خدا کے عشق میں اپنی جان کا نذرانہ دینا چاہتا یہ زندگی چار دن کی ہے آج ہے کل نہیں ہے پتہ نہیں سانسوں کی ڈوری کب کٹ جائے خاوند کی خواہش سن کر میں اس کی جدائی کے خوف سے کانپ کر رہ گئی لیکن چند لمحوں بعد ہی میں سنبھل گئی میں نے مضبو طی سے میاں کا ہا تھ پکڑا اور مضبوط لہجے میں کہا میں آپ کا ساتھ دوں گی۔ پھر قافلہ شب و روز چلتا رہا اللہ تعالی نے ہمیں دو بیٹے اور ایک بیٹی سے نوازا‘زندگی بھر پور رنگوں اور خدا کے انعامات کے سائے تلے گز ر رہی تھی اِس دوران میاں صاحب درخواست کر کے اسی جگہوں پر پوسٹ ہو تے جہاں پر دشمن سے جنگ جاری ہو تی ہمیشہ فرنٹ لائن پر ڈیوٹی لگواتے جب بھی کسی نجومی پامسٹ سے ملتے تو ایک ہی سوال کر تے میرے مقدر میں شہادت کی موت ہے کہ کسی بھی نیک انسان سے ملتے تو ایک ہی سوال اور دعا کر اتے کہ دعا کریں مجھے شہادت کی موت نصیب ہو آخر کار سجدوں کی دعا نے حقیقت کا روپ دھارا اور وہ دشمن کے خلاف لڑتے ہو ئے شہادت کے اعزاز سے سرفراز ہو ئے اُن کی شہادت کے بعد میرے اندر عجیب سی تبدیلی آئی مجھے لگا ان کی روح اب میرے وجود میں سرائیت کر گئی ہے میں پہلے ہی شہید کی موت اور رتبے کے بارے میں قرآن مجید میں پڑھ چکی تھی میرے باطن میں یہ بیج تھا جو میاں کی شہادت کے بعد تن آور درخت بن گیا اب دن رات میری آنکھوں میں شہادت کی آرزو چراغ کی طرح جھلملانے لگی میں نے دونوں بیٹوں کی تعلیم و تربیت پر بھر پور تو جہ دی خدا کے فضل سے دونوں بیٹے پاک آرمی میں آفیسر بھرتی ہو گئے‘ شہید باپ کا خون دونوں بیٹوں کی رگوں میں دوڑتا تھا اِس لیے دونوں کی آنکھوں میں بھی شہادت کی آرزو ٹمٹنانے لگی خدا نے دونوں بیٹوں کو اچھی نیک بیویاں دیں ہمارا پورا گھرانہ وطن عزیز کی حفاظت اور شہادت کی آرزو میں رنگا ہوا تھا پھر خدا نے مجھے ایک اور اعزاز دیا جب میرا بڑا بیٹا بھی دشمن کے خلاف لڑتا ہوا شہید ہو گیا میرا سینا فخر سے اور بھی اونچا ہو گیا میرے میاں کا خواب تھا اُن کے بیٹے بھی شہادت پائیں اُن کا خواب پو را ہو گیا۔ میں پھٹی نظروں سے انسانوں کی لاٹ میں سے عظیم ترین لاٹ کو دیکھ رہا تھا میں بو لا آپ میاں اور بیٹا خدا کے راستے پر نذرانہ دے چکی ہیں تو دادی کی آنکھوں میں ہزاروں ستاروں کی چمک آئی پو تے کو بلا کر سینے سے لگا یا اور بولیں میں خوش قسمت ترین عورت ہو نگی جب میرا پو تا بھی وطن عزیز کی حفاظت میں شہادت کا اعزاز پائے میں نے شہید ماں کا ہاتھ پکڑا یہ سوچ کر یہ دشمن نہیں جانتا اُس کا پالا کن ماؤں سے پڑا ہے میں نے عقیدت میں بو سے کے لیے اپنے ہونٹ شہید ماں کے ہاتھ پر رکھ دئیے عقیدت کے آنسو شہید ماں کی ہتھیلی میں جذب ہو نے لگے۔

Share
Share
Share