دیپک بُدکی کا افسانہ ” ڈاکٹر آنٹی ” کا تجزیہ :- ڈاکٹر صفیہ بانو .اے .شیخ

Share
دیپک بدکی

دیپک بُدکی کا افسانہ ’ ڈاکٹر آنٹی ‘ – تجزیہ

ڈاکٹر صفیہ بانو .اے .شیخ

اردو افسانہ جب سے وجود میں آیا ہے بحث و مباحث کا موضوع رہا ہے۔ ابتدا میں قدیم داستانوی بیج سے پھوٹے روایتی افسانے لکھنے کا رواج عام تھا مگر آگے چل کر وہ افسانے چہرہ اور ہئیت بد ل بدل کر نت نئے ناموں سے ہمارے روبرو پیش ہوتے رہے۔

رومانی، حقیقت پسند، نفسیاتی، ترقی پسند، جدیداور مابعد جدید…!گو افسانے کی عمر محض سوا سو سال ہے پھر بھی اس قلیل وقت میں اس نے لمبے لمبے ڈگ بھر کر عالمی افسانے سے قدم ملانے کی کوشش کی۔ اس کوشش میں بہت سارے افسانہ نگاروں نے شرکت کی۔ موجودہ دور میں بھی کئی افسانہ نگار اس میدان میں فعال ہیں جن میں دیپک بُدکی ایک اہم نام ہے۔
دیپک بدکی کے چوتھے افسانوی مجموعے ’ریزہ ریزہ حیات‘ کا پہلا افسانہ ’ڈاکٹر آنٹی‘ ایک ایسا منفرد کرداری افسانہ ہے جو بہترین افسانوں کی کسوٹی پر کھرا اُترتا ہے۔یہ ایک کثیر الجہت افسانہ ہے جس میں ڈاکٹر آنٹی کے کردار کو الگ الگ زاویوں سے دیکھا اور پرکھا جاسکتا ہے۔ اس مجموعے میں ۸۱ /افسانے شامل ہیں۔ مذکورہ افسانے کا مرکزی کردار کملا دیوی عرف ڈاکٹر آنٹی ہے جو نسوانی امراض کی ماہر (Gynecologist)ہے۔وہ اصول پرست و انسانیت کی خیر خواہ ہے اورمریض کی زندگی بچانے اور اس کو صحتیاب کرنے کو اپنا فرض سمجھتی ہے۔ افسانے کی ابتدا میں سریندر اپنے دوست کی بہن للتا کے،جو بی ایڈ کرنے کی غرض سے سرینگر میں عارضی طور پر مقیم ہے، گھر اکثر آتا جاتا ہے۔ ایک روز اتفاق سے وہاں اس کی ملاقات کملا دیوی اور اس کی گود لی ہوئی بیٹی سریتا سے ہوتی ہے۔ کملا دیوی اور سریتا کشمیر کی سیاحت کے لیے چند دنوں کے لیے آئے ہیں۔
ولادت سے وفات تک انسان کئی رشتوں میں بندھ جاتا ہے مگر ان تمام رشتوں میں اعلیٰ اور ارفع ماں کا رشتہ ہو تا ہے۔ ماں کی ممتا تمام تر محبتوں سے بڑھ کر ہوتی ہے۔ یہ کبھی انتہائی لاڈ پیارکے روپ میں ظاہر ہوتی ہے اور کبھی غصے،نفرت اور ناراضی کے روپ میں۔ سچ تو یہ ہے کہ ماں کے لاڈ پیار کا جذبہ دائمی ہوتا ہے جبکہ ناراضی،غصہ ا ور نفرت کا جذبہ عارضی ہوتا ہے۔دراصل ماں کے لاڈ پیار میں شفقت اور اخلاص کا جذبہ ہمیشہ غالب رہتا ہے اوریہی وجہ ہے کہ سریندر جونہی ڈاکٹر آنٹی کے تعلق میں آتا ہے وہ اس میں اپنی کھوئی ہوئی ماں کو تلاشتا ہے۔ اس کی اپنی ماں بچپن ہی میں سورگباش ہوچکی ہے اس لیے اپنے نفسیاتی خلا کو پُر کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ملاحظہ کیجیے افسانے سے ایک اقتباس:
”آنٹی سیدھی سادی، درمیانہ قد کی، معمولی سوتی ساڑی میں ملبوس خلوص اور دردمندی کا پیکر لگ رہی تھی۔ اس کو دیکھ کر کسی کو یہ گماں بھی نہ گزرتا کہ وہ نسائی امراض کی مشہوراور کامیاب ڈاکٹر ہے۔ میں پہلی ہی ملاقات میں اس کی شخصیت سے مرعوب ہوگیا اوراس میں اپنی کھوئی ہوئی ماں ڈھونڈنے لگا۔“ ۱؎
مذکورہ بالا اقتباس میں ڈاکٹر آنٹی کی وہ شخصیت ابھر کر سامنے آتی ہے جس سے ماں کے خلوص، جذبات اور احساسات کی شدّت اور اپنائیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے، جو نہ صرف سریندر کو بلکہ قاری کو بھی متاثر کرتا ہے۔ ویسے بھی ڈاکٹر آنٹی نے سریتا کو اپنے بڑے بھائی سے مانگ کر گود لیا ہے اور پھر ماں کی طرح پالا ہے۔ ماں کے جذبات ہمیشہ سچے اور پاک ہوتے ہیں اور ڈاکٹر آنٹی ماں کی بہترین مثال بن کر ابھرتی ہے۔کملا دیوی کو سریندر اپنی ماں کے روپ میں دیکھتا ہے چنانچہ کہتا ہے:
”آنٹی آپ تو میری ماں سمان ہیں۔“ ۲؎
کملا دیوی چنانچہ نسوانی امراض کی ماہر ہے،جب وہ سریندر کے گھر جاتی ہے وہاں پر وہ سریندر کی پھوپھی کو بیمار دیکھ کر اس کی جانچ کرتی ہے اور کچھ دوائیاں لکھ دیتی ہے۔ کوئی فیس نہیں لیتی اور گھر کے فرد کی طرح حسنِ سلوک سے کام لیتی ہے۔اس کی شرافت اور حلیمی کا اندازہ اس سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ موجودہ صارفی سماج میں ڈاکٹر تاجر بن کر رہ گئے ہیں، اگروہ چاہتی تو کشمیر کی سیر و تفریح کرکے چلی جاتی لیکن اس نے ایسا نہیں کیا اور تفریح کے دوران بھی پیشہ ورانہ فرض نبھالیا۔ ڈاکٹر آنٹی کی ان عنایتوں کو دیکھ کر سریندر کا جذبہئ تعظیم و احترام اور بھی پختہ ہوجاتا ہے۔علاوہ ازیں موجودہ دور میں ڈاکٹر غیر قانونی اسقاط حمل کرکے یا پھر رحم میں لڑکیوں کو مارنے کا کام کرکے خوب دولت بٹورتے ہیں۔ حال ہی میں ایک سروے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ ہمارے ملک کی کئی ریاستوں میں لڑکوں کے مقابلے لڑکیوں کی تعداد کم ہوتی جارہی ہے کیونکہ ہمارے سماج میں دختر کشی کی بری عادت عام ہوچکی ہے۔ مگر ڈاکٹر کملا دیوی نے ایسا گھناؤنا کام کرنے سے ہمیشہ انکار کیا۔
کملا دیوی کشمیر سے دہلی واپس چلی جاتی ہے اور اپنے کام میں روزمرّہ کی طرح جٹ جاتی ہے۔ اُدھر سریندر بھی کشمیر کی ملازمت چھوڑ کر دہلی چلاجاتا ہے اور ڈاکٹرآنٹی کے گھر وکلینک پہنچ جاتا ہے۔ وہاں اس کو ڈاکٹر آنٹی کی نیک سیرت کے بارے میں مزیدمعلومات فراہم ہوتی ہیں۔ ڈاکٹر آنٹی کا مکان اور کلینک ایک دوسرے سے ملحق ہوتے ہیں۔ وہ اکیلی نہیں رہتی ہے بلکہ سریتا کے علاوہ اس کے ساتھ اس کا چھوٹا بھائی امرناتھ اور چھوٹی بہن شاردا رہتی ہیں۔ تینوں ناکتخدا ہیں۔پدر سری سماج کی روایت کے خلاف ا س گھر میں ڈاکٹر آنٹی کے کندھوں پر سارے کنبے کا بوجھ ہے۔سریتا کی دیکھ بھال میں وہ کوئی کسر نہیں چھوڑتی، وہ ڈاکٹری کی تعلیم پا رہی ہے۔دوسری جانب وہ اپنے چھوٹے بے کار بھائی امرناتھ اور چھوٹی بہن شاردا،جو دانتوں کی ڈاکٹر تو ہے مگر نام کے لیے، کی ذمہ داری بھی اٹھاتی ہے۔یہ ساری باتیں سریندر کے ذہن میں ماں کے تصوراتی رشتے کو مزیدمستحکم بناتی ہیں۔ سریندر کی حیرانی اس وقت مزید بڑھ جاتی ہے جب وہ ڈاکٹر آنٹی کے ماضی کے بارے میں یعنی تقسیم ہند کے دوران ان بھائی بہنوں کی نقل مکانی کرنے کے بارے میں ساری کہانی ہمہ تن گوش ہوکر سنتا ہے۔ راوی بیان کرتا ہے کہ:
”ہجرت کی داستان سناتے سناتے آنٹی نہ روئی، اور نہ آہیں بھریں اور نہ جذبات میں بہہ گئی۔“ ۳؎
افسانہ نگار ڈاکٹر آنٹی کی قوت برداشت، صبر و تحمل، ایثار، استقامت اور عالی ہمتی کو اجاگر کرنے میں کامیاب ہوتاہے۔کملا دیوی عام عورتوں سے بالکل مختلف ہے،وہ اپنی آپ بیتی اور اس کے ساتھ لپٹے کرب کو بردباری اور متانت سے بیان کرتی ہے۔ ہجرت کا کرب سہنا آسان ہوتا ہے نہ کہنا۔وہ دوسری عورتوں کی مانند گھٹ گھٹ کر اور گریہ و زاری کرکے جی سکتی تھی مگر اس نے ماضی کے تاریکیوں میں کھونے کے بجائے انھیں یکسر بھلا لیا اور اپنی زندگی کو روشنی اور تابانی بخشنے کی ہر دم کوشش کی جس کا نور وہ اپنے معاشرے میں بھی پھیلاتی چلی گئی۔
تقسیم ہند کے حالات سے سریندر پہلے ہی واقف تھا مگر جب اُس نے ڈاکٹر آنٹی سے اس کی آپ بیتی اور آنکھوں دیکھی سن لی تو سراپا غم ہوگیا۔ تقسیم ہند ایک بڑا سانحہ تھا جس میں لاکھوں زندگیاں تباہ و برباد ہوگئیں، ہزاروں معصوم لڑکیوں اور عورتوں کی عزت تار تار ہو گئی،لاکھوں بچے،جوان اور بوڑھے اپنے گھر بار چھوڑ کر نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوگئے اور ہزاروں لوگ ہجرت کے دوران موت کی نیند سو گئے۔اس مختصر دورانیے میں نہ جانے کتنوں کے خواب ٹوٹ گئے اور کتنوں کی خواہشیں دفن ہو گئیں۔اس حوالے سے ڈاکٹر آنٹی اور اس کے بھائی بہن کے کنوارے رہنے کی وجہ کے بارے جو کچھ سریندر سوچتا ہے اُس کو مصنف نے یوں بیان کیا ہے:
”کون جانے آنٹی کے کتنے خواب ادھورے رہ چکے ہوں۔ کتنے شیش محل ٹوٹ چکے ہوں۔…اسی کابوس کے ڈر سے تینوں نے یہ فیصلہ لیا تھا کہ وہ شادی نہیں کریں گے۔تاہم اپنے خلا کو پُر کرنے کے لیے کملادیوی ہی فعال تھی۔“ ۴؎
تقسیم کے ایسے دلخراش سانحے سے گزرنے کے بعد ڈاکٹر آنٹی کا خاموش اور صابر رہنااُس کے کردار کی اعلیٰ ظرفی کو ظاہر کرتا ہے۔غم حیات کے پہاڑکی نیچے دبے ہونے کے باوجود ڈاکٹر آنٹی نے خودکو کبھی کمزور اور بے سہارا نہیں سمجھا اور نہ ہی بے بسی کے عالم میں مبتلا ہوگئی۔ وہ درد و غم اور رنج والم کو بھلا کر خود کو فعال رکھتی اور اس فعل میں اس کی رجائیت کا بہت بڑا ہاتھ رہا۔ بقول شاعر:
؎کہہ رہا ہے شورِ دریا سے سمندر کا سکوت
جس کا جتنا ظرف ہے اتنا ہی وہ خاموش ہے
ڈاکٹری کا پیشہ سراپا خدمت ہے، یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر کے پاس مریض وقت بے وقت اپنا علاج کرانے کی غرض سے آ تے ہیں۔ بہ ایں ہمہ وقت و حالات کے ساتھ انسان کی ضرورتوں میں بدلاؤ آچکا ہے۔ پہلے جس طرح چھوٹی چھوٹی بیماریوں کے لیے گھریلونسخے اپنائے جاتے تھے وہ طریقہئ کار بالکل ختم ہوتا جارہا ہے۔ اب تو جس کو دیکھو وہ چھوٹی سی بیماری کے لیے بھی ڈاکٹرسے رجوع کرتا ہے اور اپنی صحت کے لیے لاکھوں روپئے خرچ کرنے کو ہمیشہ تیار رہتاہے۔ اس لیے ڈاکٹر آنٹی کو مجبوراً تھوڑی سی فیس لینی پڑتی ہے تاکہ لوگ معمولی بیماریوں کے لیے اس کے دروازے پر دستک نہ دیں اور اس کو وقت بے وقت پریشان نہ کریں۔ڈاکٹری پیشے سے متعلق آنٹی کئی سوالوں کا جواب یوں دیتی ہے:
٭”سریندر بیٹے، تم کیا جانو ہم ڈاکٹروں کی زندگی بڑی عجیب سی ہوتی ہے۔ نہ دن کو چین اور نہ رات کو آرام۔“ ۵؎
٭”ہمارے زمانے میں نزلہ زکام ہوجاتا تھا تو گھر پر ہی کوئی دیسی علاج کر لیتے تھے۔اب کسی کو چھینک بھی آجائے تو ڈاکٹر طلب ہوتا ہے۔ فیس دے کر وہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے ڈاکٹر کوخرید لیا ہے۔ ایسے ہی لوگوں کو، جو بات بات پر ڈاکٹر کے پاس چلے آتے ہیں،دور رکھنے کے لیے مجھے فیس لینا پڑتی ہے۔“ ۶؎
اس افسانے کے ہر پہلو میں پیغام چھپا ہے اور افسانہ نگار اپنا مقصدبڑی فنکاری اور ہنر مندی کے ساتھ بیان کرتاہے۔کملا دیوی امراض نسواں کی ایک مشہور، کامیاب اور ایماندار ڈاکٹر ہے جس کے یہاں اکثر و بیشتر مریضوں کا آنا جانا لگا رہتا ہے۔ڈاکٹر آنٹی کے پاس ایک روز ایک کنواری لڑکی اپنا حمل گروانے کی غرض سے آتی ہے۔ وہ جوش ِ جوانی میں ایک ناقابل معافی لغزش کی مرتکب ہوچکی ہے۔ اب ٹھہرے ہوئے حمل کا اسقاط کروانے چلی آئی ہے۔وہ ڈاکٹر آنٹی سے بہت منت سماجت کرتی ہے۔ اس کو اپنی ماں کا واسطہ دیتی ہے کہ میری ماں آپ کی بہت بڑی فین ہے، آپ میرے لیے دیوی ہیں، پھر شادی سے قبل بھول ہونے کی بات کرتی ہے جس کی وجہ سے وہ کہیں منہ دکھانے کے قابل نہیں رہی ہے مگر لاکھ جتن کرنے کے باوجود ڈاکٹر آنٹی اپنی بات پر اٹل رہتی ہے۔ ڈاکٹر آنٹی کو یہ کام کسی جرم سے کم نہیں لگتا ہے۔ وہ قانون کے حدود بتانے اور لڑکی کو غلطی کا احساس دلانے کی کوشش کرتی ہے:
”بیٹی، یہ میرا کام نہیں ہے۔ تم نے جو غلطی کی ہے اس کا تمہیں احساس ہوگیا، یہی کیا کم ہے۔میری اپنی کچھ سیمائیں ہیں۔ میں نے پوری عمر کبھی ایسا کام نہیں کیا۔“ ۷؎
حد تو تب ہوجاتی ہے جب لڑکی منہ مانگا دام دینے کا لالچ دیتی ہے جس کے سبب ڈاکٹر آنٹی کا غصہ اُبال پر آجاتا ہے۔ حالانکہ ڈاکٹر آنٹی کی رگِ حمیّت پھڑک اٹھتی ہے، پھر بھی وہ اپنی پیشہ ورانہ خصوصیت کا دامن نہیں چھوڑتی اور اپنی مجبوریوں کا اظہارکرتی ہے۔ یہاں پر ڈاکٹر آنٹی میں انصاف پسندی کی جھلک دیکھنے کو ملتی ہے۔ ڈاکٹر ہونے کی حیثیت سے وہ انصاف کرتی ہے اور بذات خود عورت ہونے کی حیثیت سے بھی۔ گناہ خود کیا ہویا کسی کے بہکاوے میں آکر کیا ہو، دونوں صورتوں میں گناہ کرنے والا گناہگار ہوتا ہے۔اس افسانے میں موجودہ سماج میں بہت تیزی سے پھیلنے والی حرامکاری اور ’ابارشن‘(Abortion) کی جانب قارئین کی توجہ مبذول کرائی گئی ہے۔ ڈاکٹر آنٹی ابارشن Abortion کو گناہ کہنے سے گریز نہیں کرتی:
”میرے خیال میں ابارشن کرنے سے بڑا پاپ اور کچھ بھی نہیں ہوسکتا۔“ ۸؎
ڈاکٹر کا کام خدمت خلق ہے اور آنٹی اپنے کام کو عبادت سمجھتے ہوئے وہ باتیں کہہ جاتی ہے جواکثر و بیشتر ڈاکٹر فراموش کرتے ہیں بلکہ وہ اپنے کام سے زیادہ روپے کمانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ انھیں خدمت خلق سے زیادہ دولت کمانے کی پڑی رہتی ہے۔ اس کے برعکس کملا دیوی عمدہ اخلاقِ حمیدہ کی مجسم پیکر ہے، سریندر کی بے تُکی و نامعقول باتوں پرگو وہ بر انگیختہ نہیں ہوتی مگر اپنی بات کو سیدھے سادے الفاظ میں یوں کہتی ہے:
”بیٹے زندگی میں دولت ہی سب کچھ نہیں ہوتی۔اگر میں چاہتی تو یہاں آنے کے بعد ایسے کاموں سے لاکھوں روپے کما سکتی تھی۔مگر نہیں۔میرے سنسکار مجھے یہ سب کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔بیٹے، میں نے زندگی دینے کے لیے جنم لیا ہے، زندگی لینے کے لیے نہیں۔ زندگی لینے کا اختیار تو صرف اوپر والے کوہے اور کسی کو نہیں۔“ ۹؎
ظاہر ہے کہ افسانہ نگار نے ڈاکٹر آنٹی کے منہ سے وہ فقرے کہلوائے ہیں جو دوسرے ڈاکٹروں کے لیے مشعل راہ ہو سکتے ہیں یعنی ڈاکٹر کا پیشہ زندگی لینے کا نہیں ہے بلکہ زندگی دینے کا ہے۔وہ مزید فرماتی ہے:
”میرے خیال میں اسقاط حمل صرف اس صورت میں جائزہے جب بچے اور ماں کی زندگی پر کوئی خطرہ منڈلا رہا ہو اور پھر ابھی حمل ٹھہرا ہی ہو، بچے کی شکل اختیار نہ کرچکا ہو۔ورنہ اسے قتل سے کم نہیں سمجھتی۔“ ۰۱؎
موت کے خوف سے یا پھر بدنامی کے ڈر سے لوگ ڈاکٹر وں سے رجوع کرتے ہیں۔ مریض اپنی غلطیوں کو چھپانے کے واسطے کسی بھی حد تک جاتے ہیں جبکہ بکاؤ ڈاکٹروں کا رویّہ انسانیت کے بالکل خلاف ہوتا ہے۔ بہرحال ڈاکٹر آنٹی کا مزاج منفرد ہے،وہ ہر بات پر بہت سنجیدگی اور سلیقہ مندی سے سوچتی ہے اور اس پر اپنا خیال ظاہر کرتی ہے چاہے وہ بات سامع پر ناگوار ہی کیوں نہ گزرے۔ اپنی مثبت سوچ کی وضاحت کرنے کے لیے ڈاکٹر آنٹی سریندر کو ایک اور واقعہ سناتی ہے۔بہت عرصہ پہلے اس کے پاس ایک شادی شدہ جوڑا آیا تھا جو سولہ برسوں سے بے اولاد تھا اور بچے کی خواہش میں سپیشلسٹ ڈاکٹروں سے لے کرسنتوں و فقیروں تک پہنچ گیا تھا مگر مایوسی کے سوا کچھ ہاتھ نہ لگا۔ آخر کار کسی کی صلاح پر دونوں ڈاکٹر آنٹی کے پاس آئے تھے۔ ڈاکٹر مریضہ کے رحم کی اچھے طریقے سے صفائی کرکے اور کچھ دوائیاں دے کر اس کا علاج کرتی ہے۔کچھ ہی دنوں کے بعد وہ عورت استقرار حمل کی خوشخبری دیتی ہے اور پھر نو مہینے گزرجانے کے بعد ایک ننھے منے بچے کو جنم دیتی ہے۔ تب ڈاکٹر آنٹی کی خوشی کا ٹھکانہ نہیں رہتا ہے چنانچہ کہتی ہے کہ:
”یہ میری زندگی کی معراج تھی۔“ ۱۱؎
اس موقع پر ڈاکٹر آنٹی کی اپنے پیشے کی بابت دیانت داری اورایمانداری نمایاں ہو جاتی ہے۔اس کرداری افسانہ کا آخر ی حصہ منتہا (Climax) پر پہنچ کر اختتام پذیر ہوتا ہے۔ کملا دیوی اپنے پاکیزہ خیالات اوراچھے کاموں کے باعث مر کر بھی امر ہوجاتی ہے اورلوگوں کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہتی ہے جبکہ اکثر انسان زندہ ہو کر بھی مردوں کی مانند بے نام و نشان رہتے ہیں۔ ڈاکٹر آنٹی مرچکی ہے لیکن اس کی انسانیت اور اعلیٰ قدریں اسے زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ ڈاکٹر آنٹی جیسے لوگ بہ ظاہر موت سے ہم آغوش ہو کر اس فانی دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں مگر وہ اپنے بلند ترین مخصوص کردار کے سبب ہمیشہ کے لیے زندہ و جاوید ہو تے ہے۔اس بات کا اعادہ راوی یوں کرتا ہے:
”یہ وہی گھر تھا جہاں میں نے جہد زیست کا پہلا سبق حاصل کیا تھا، جہاں میں نے زندگی جینے کا سلیقہ سیکھ لیا تھا اور جہاں میں نے نیکی اور بدی کے درمیان تمیز کرنا سیکھا تھا۔ آج اس گھر میں ہر سو اندھیرا ہی اندھیرا تھا۔ مجھے احساس ہوا کہ اس گھر سے روح ہی نکل چکی ہے۔“ ۲۱؎
مذکورہ افسانہ زندگی کی اعلیٰ قدروں کا آئینہ ہونے کے ساتھ ساتھ انسانی ِنفسیات کی بہترین عکاسی کرتا ہے۔ زبان و بیان بھی سادہ و سلیس ہے۔ چھوٹے چھوٹے مکالمے بہترین انداز بیان میں پیش کیے گئے ہیں۔مختصر یہ کہ اس افسانے میں دیپک بدکی نے کملا دیوی (ڈاکٹر آنٹی) کے کردار کو پیش کرکے کردار نگاری کا بہترین ثبوت دیا ہے۔
حواشی:
(۱) افسانوی مجموعہ ’ریزہ ریزہ حیات‘؛ مصنف: دیپک بدکی؛ پہلا ایڈیشن: ۱۱۰۲ ؛ صفحہ : ۳۱
(۲) ایضاً صفحہ : ۳۱
(۳) ایضاً صفحہ : ۶۱
(۴) ایضاً صفحہ : ۸۱
(۵) ایضاً صفحہ : ۸۱
(۶) ایضاً صفحہ : ۹۱
(۷) ایضاً صفحہ : ۹۱
(۸) ایضاً صفحہ : ۶۱
(۹) ایضاً صفحہ : ۷۱
(۰۱) ایضاً صفحہ : ۷۱
(۱۱) ایضاً صفحہ : ۷۱
(۲۱) ایضاً صفحہ : ۰۲
——–

ڈاکٹر صفیہ بانو.اے.شیخ

Dr. SufiyaBanu .A. Shaikh
C- Ground Floor Tajpalace, Kumbharwada
380001. ,Jamalpur Ahmedabad
Mob: 9824320676
Email:

Share
Share
Share