منافع بخش کاروبار کرنا ہے، تو اسکول کھولئے :- ندیم عبدالقدیر

Share

منافع بخش کاروبار کرنا ہے،
تو اسکول کھولئے

ندیم عبدالقدیر
اردو ٹائمز – ممبئی

ایک زمانہ تھا جب اسکول جذبۂ ملّی کے تحت کھولے جاتےتھے لیکن وقت کا دیمک جہاں ہر قابل تحسین جذبہ کو چاٹ گیا وہیں یہ جذبہ بھی اس سے محفوظ نہیں رہ سکا ۔ اب اسکول صرف جذبۂ کاروبار کے تحت کھولے جاتےہیں۔ اس کاروبار میں سب کچھ ہے ۔ پیسہ، عزت ، احترام اور آرام۔

اس کاروبار کی سب سے اچھی چیز یہ ہے کہ اس میں آپ کو صبح سے شام تک دکان ،فیکٹری یا آفس پر بیٹھنے جیسا کچھ نہیں کرنا ہے ۔ ٹیچر بیچارے تو ۳؍ہزار اور ۴؍ہزارروپے ماہانہ پر بھی ہزاروں کی تعداد میں دستیاب ہیں۔نوعمراورتازہ تازہ گریجویٹ ہوئی لڑکیاں اسکےلئے انتہائی موزوں ہوتی ہیں۔ ان کی قابلیت، لیاقت اور صلاحیت سے ویسے بھی ہمیں کیا لینا دینا ہے ؟
رہی بات پیسے کی ، تو اسکےلئے تو نت نئی فیس کا پورا جال ہے۔ حال ہی میں ’ریڈیو جوکی‘ نوید کا ایک آڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوا۔ اس میں نوید ایک اسکول کا ذمہ دار بن کر طالب علم کی والدہ کو فون کرتا ہے اورانہیں ہدایت دیتا ہے کہ آپ کا بچہ اُسی سیلون سے بال کٹوائے گا جہاں سے ہم آپ کو بتائیں گے۔ آپ اُسی پٹرول پمپ سے پٹرول بھرائیں گے جہاں سے ہم آپ کو بتائیں گے‘۔ یہ لطیفہ ہے لیکن یاد رکھئےلطیفے سماج کی حقیقت سے ہی جنم لیتےہیں۔ اسکولیں اب تعلیم کے علاوہ تقریباً ہر شئے فراہم کررہی ہیں۔ بیگ والدین کو اسکول سے خریدنا ہے اور ان کی قیمت یقیناً بازار کی قیمت سے زیادہ ہوتی ہے ۔ یونیفارم اب ہر سال دو سال میں تبدیل کردیا جاتا ہے تاکہ یونیفارم کی فروخت میں کسی طرح کی کمی نہ آئے۔یہ بھی والدین کو اسکول یا پھر اسکول کے بتائے ہوئے ٹیلر سے ہی خریدنا ہوتا ہے ۔ اب ایک نئی چیز آگئی ہے ، جس کا نام ’اسپورٹس یونیفارم‘ ہے۔یہ بھی اسکول ہی فراہم کرتا ہے۔ کمپیوٹر فیس کے نام پر اچھی خاصی رقم وصول کی جاسکتی ہے ۔ کمپیوٹر فیس تو اتنی مضحکہ خیز ہے کہ یہ ان بچوں سے بھی وصول کی جاتی ہے جنہیں ’اے ، بی ،سی ، ڈی‘ یا حروف تہجی تک کا علم نہیں ہوتا ہے ۔ ان سب کے علاوہ ’ماہانہ فیس‘ تو ہے ہی۔ اگر آپ کی اسکول میں ۴۰۰؍بچے ہیں اور آپ تمام طرح کی فیس اور کمیشن ملا کر ایک بچہ سے سالانہ محض ۱۰؍ہزار ہی وصول کرنے میں کامیاب ہوگئے ، تو یہ رقم ۴۰؍لاکھ سالانہ بن جاتی ہے ۔ ٹیچر کی فیس ۶۰؍ہزار روپے سالانہ کے حساب سے ۱۰؍ٹیچروں کی فیس ۶؍لاکھ بن جاتی ہے ۔ ۴؍لاکھ روپے سالانہ دیگر اخراجات ۔ اس طرح آپ کے جیب میں سالانہ ۳۰؍لاکھ روپے بچ جائیں گے اور کروڑوں روپے کی عزت الگ ۔ اسکول کے دھندہ میں سب سے اہم بات یہ یاد رکھنی ہے کہ آپ کی پڑھائی اچھی ہویا نہ ہولیکن لوگوں کو ایسا لگنا چاہئے کہ آپ کا اسکول بہت بڑا ہے ۔مطلب آپ کو سماج میں اپنا رتبہ بلند کرنا ہوگا۔ جسے کارپوریٹ کی دنیا میں ’برانڈ بلڈنگ ‘ کہتےہیں۔اس کےلئے آپ کو اسکول کے بینر کے تحت کچھ پروگرام منعقد کرنے ہونگے۔
ان پروگراموں میں تمام شعبہ حیات کی بڑی بڑی ہستیوں کو مدعو کیجئے ، بس۔ اس میں سیاستداں بھی آجائیں گے، دھنا سیٹھ بھی ، بڑے سرکاری افسران بھی ، پولس بھی ، صحافی بھی ،ادیب بھی اور شعراء بھی ۔ اس طرح آپ کے تعلقات تمام شعبہ حیات کی ہستیوں سے استوار ہوجائیں گے اور پھر تو آپ کو ماہر تعلیم ، قوم کاد انشور ، مفکر اور مدبرحتیٰ کہ ’سرسید احمد خان‘ بننے سے بھی کوئی نہیں روک سکتا ہے ۔ پھر آپ کا کوئی بھی ’کام‘ چٹکیوں میں ہوجائے گا۔ یہ ان ایڈیٹ اسکولوں کا معاملہ ہے اور اگر آپ میں اچھی سیاست ، ڈپلومیسی اور لابنگ کرنے کی لیاقت ہے تو جلد ہی آپ کا اسکول ایڈیڈ بھی ہوسکتا ہے ۔ پھر تو وارے نیارے۔عمارت کی مرمت تک کا خرچ حکومت دے گی،اور ساری کے ساری فیس آپ کے جیب میں پہنچ جائے گی، اس کے علاوہ قوم آپ کے احسان تلے بھی دبے رہےگی۔
ضروری نہیں کہ آپ اسکول بہت بڑے پیمانے پر کھولیں ۔ آپ اس کی شروعات چھوٹی سطح پر بھی کرسکتےہیں۔ ایک یا دو کمرے سے بھی اس بزنس کا آغاز کیا جاسکتا ہے، لیکن ایسی صورت میں شروع کے پانچ سال آپ کو کافی محنت کرنی ہوگی۔ آبادی کے تناسب سے چونکہ بڑے اسکول ویسے بھی نہیں ہیں، اسلئے جوبچے بچیں گے وہ چھوٹی اسکول میں داخلہ لے سکتےہیں۔ اسکولوں کی لوٹ مار پر قابو پانے کا آج کے تناظر میں اگر کوئی حل ہے تو وہ یہ کہ اسکولوں کے تعلق سے قوانین اور ضوابط کو نرم کیا جائے ۔ زیادہ سے زیادہ اسکولیں کھولی جائیں اور اس بزنس میں زبردست مقابلہ آرائی کو فروغ دیا جائے ۔ اسکول کھولنے کیلئے میدان، بڑی جگہ اور وسیع احاطہ کی شرط کو ہٹایا جائے۔ پہلے برگد کے پیڑ کے نیچے تعلیم دی جاتی تھی تو آج ایک کمرے میںتعلیم کیوں نہیں دی جاسکتی ہے ۔ آبادی کے لحاظ سے آج اسکول کےلئے مطلوبہ زمین ، میدان ویسے بھی دستیاب نہیں ہیں۔ اسکول کھولنے کےلئے سرمایہ کاری کی ضرورت جتنی کم ہوگی ۔طلبہ پر فیس کا بوجھ بھی اتنا ہی کم ہوگااور تعلیم کی روشنی اتنی ہی زیادہ غریبوں تک پہنچ سکےگی۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ اسکول کھولنے کے عمل کو آسان ، سستا اور سہل بنائے ، مشکل نہیں۔

Share
Share
Share