کالم : بزمِ درویش
نوجوان فوجی
پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
ای میل:
ویب سائٹ: www.noorekhuda.org
جون کا مہینہ گر می اپنے جوبن پر سورج دیوتا حالتِ جلال میں مسلسل زمین پر آگ کے گو لے بر سا رہا تھا‘ سورج کی مسلسل گو لہ باری لاہور میں ٹریفک کا سیلاب فیکٹریوں کا دھواں جھلسا دینے والی گرمی ہوا کی خو شگواریت میں تپش اور لو شامل ہو گئی تھی اسی تپش سے سانسیں بھی جھلس رہی تھیں‘ انسان گھروں کی بجائے خود کو تندور کے باسی سمجھ رہے تھے
رمضان کی وجہ سے پہلے ہی جسم پانی کی کمی کا شکار تھے اوپر سے گر می کا زور اتنا کہ سانس لینا بھی دشوار ہوگیا‘ میں گر می کی تپش سے تنگ آکر سطح سمندر سے چھ ہزار فٹ بلند کو ہ مری سے ایوبیہ کی طرف جاتے ہوئے گلیات کی طرف باڑیاں کینٹ آرمی سکول آف ٹیکنیشنز کے وسیع و عریض ٹھنڈے ٹھار سبزہ زار کے آخری کو نے میں ایزی چئیر پر نیم دراز لیٹا سامنے پھیلی میلوں دور تک وادی کے حسن کو قطرہ قطرہ انجوائے کر رہا تھا‘ میرے اطراف میں صدیوں پرانے چیڑ صنوبر دیار کے دیو قامت درختوں کے سلسلے پھیلے ہوئے تھے اِن فلک بوس ہزاروں سال پرانے درختوں کو دیکھ کر خدا کی عظمت اور ہیبت کا احساس ہوتا اِن دیو قامت درختوں کے درمیان سیب آلو بخارہ خوبانی ناشپاتی کے درختوں کی پھلوں سے لدی شاخیں اِن درختوں کے درمیان جنگلی پھولوں کی اونچی نیچی قطاریں آسمان پر سر مئی بادلوں کے گروہ کے گروہ اِدھر اُدھر ہوا کے دوش پر رقص کر تے نظر آرہے تھے سطح سمندر سے ہزاروں فٹ بلندی کی وجہ سے بادلوں کے ٹکڑے درختوں پھولوں سے لپٹے ہوئے اِدھر سے اُدھر رقص کر تے نظر آرہے تھے کبھی کبھار ہوا کا تیز جھونکا بادلوں کے اِن ٹکڑوں کو میری طرف بھی لے آتا۔ جیسے ہی بادل میرے چہرے جسم سے ٹکراکر گزرتے توجسم کو شبنمی پھورا سے بھگو دیتے میں ہاتھوں میں سچے موتیوں کی تسبیح لیے فطرت کے اِس خوبصورت منظر کا حصہ بنا بیٹھا تھا میری تسبیح کے دانے میری انگلیوں کے درمیان گردش کر رہے تھے‘ جنت نظیرمنظر میرے سامنے دور تک ایک پیالے کی شکل میں پھیلا ہوا تھا ٹھنڈی صاف خو شبودار ہواکے جھونکے میرے مشام جان کو مسلسل معطر کر رہے تھے میں بار بار لمبے لمبے گہرے سانسوں سے اپنے پھیپھڑوں کو بھر رہا تھا جنگل پہاڑوں دریا کنارے آپ گہرے سانس لیں تو اُن کا اپنا الگ ہی نشہ ہے آپ جیسے ہی بھر پور لمبے سانس لیتے ہیں آپ کے جسم کا انگ انگ تازگی تراوٹ زندگی کے بھر پور احساس سے دو چارہو تا ہے آپ ظاہری باطنی طور پر ایک خاص قسم کی سر شاری انبساط سرور سے دوچار ہو تے ہیں میں نے جوانی کے بارہ سال اِسی شہر کے جنگلات میں گزارے ہیں ابھی بھی میں اُس جذب وسکر و حشت اورسرور کو محسوس کر رہا تھا انہی جنگلوں میں سڑکوں پر کس طرح میں میلوں دور تک حالت جذب میں چلتا دوڑتا رہتا تھا یہ جنگل درخت جڑی بو ٹیاں آبشار ندیاں تھیں اور میرے ہونٹوں پر خدا کا ذکر اُن دنوں میں تھا میری وحشت جنون عشق الٰہی ذکر اذکار کا سرور‘ میں لاہور چلا تو گیا میری جسم کا رواں رواں آج تک اُن کیفیات کو مِس کر تا تھا مری کی راتیں مجھے آج تک یاد تھیں چاندنی راتیں اوپر آسمان پر روشن چاند نیچے جنگلوں میں میں اور میری تنہائی آپ جب بھی اِس طرح کے فطری مناظر میں جاکر مراقبہ یاخاموشی اختیارکرتے ہیں جسم و جاں ایک خاص قسم کے سرور سے متعارف ہو تے ہیں میں اِس وقت اُسی نشے سرور کو انجوائے کر رہا تھا آہستہ آہستہ میں اِ س دنیا سے کٹتا چلا گیا میں فطرت کے مناظر میں ڈوبتا چلا گیا پھر میں نے آنکھیں بند کر لیں مستی سرور کو باطن کے عمیق ترین گوشوں میں محسوس کر نے لگا پتہ نہیں میں کتنی دیر اس کیفیت میں رہا میں نیم مدہوشی کے عالم میں نیم خوابیدہ ہو گیا تھا کہ پتہ نہیں میں اِس حالت میں کتنی دیر رہا اچانک مجھے کافی لوگوں کے قدموں کی چاپ سنائی دی میں نیم غنودگی سے بیداری کے عالم میں داخل ہوا تو آواز کی سمت پتہ کر نے کی کو شش کی تو تھوڑے فاصلے پر سڑک سے ایک فوجی دستہ مارچ کر تا ہوا گزر رہا تھا اُن کے قدموں کی چاپ سے میں بیدار ہوا تھا دوتین فیملیز اور بچے فوجی دستے کو گزرتے بڑے انہماک سے دیکھ رہے تھے ایک صدی سے زائد عرصے سے یہاں پر فوجی دستے اِسی طرح مارچ کر تے آرہے ہیں باڑیاں کیمپ برٹش دور میں 1901ء میں ریلیف کیمپ کے طور پر قائم ہوا جہاں پر آل انڈیا سے فوجی مئی سے ستمبر کے درمیان یہاں پر آرام اور پریڈ کی غرض سے ٹھنڈے موسم میں آتے 1956ء میں راولپنڈی میں انجئینر نگ سگنلز الیکٹریکل مکینیکل قائم کیا گیا جو 1978میں باڑیاں کے صحت افزا مقام پر شفٹ کر دیا گیا 1982ء میں سکول کو ترقی دے دی گئی اگلے چند سالوں میں اِس کو جدید ترین سہولیات سے آراستہ کر دیا گیا آجکل پورے پاکستان سے پاک فوج کے جوان یہاں پر مختلف شعبوں سے ٹریننگ کے لیے آتے ہیں یہاں سے ٹریننگ لے کر پھر یہ فوج میں جاکر اپنی خدمات پیش کرتے ہیں- کیمپ کے چپے چپے سے صفائی ستھرائی نظر آتی ہے آجکل کمانڈر وہاں پر دوسال سے اپنی خدمات سر انجام دے رہے ہیں‘ باڑیاں کیمپ کا چپہ چپہ اُن کی مہارت اور کمانڈ کا اعلیٰ مظاہرہ کرتا ہے یقینا ایسے ہی اعلی آفیسر فوج کی شان آن ہیں جن کی شب و روز کی محنت مہارت ہمیں نظر آتی ہے فوج کے قد آور صحت مند چاق و چو بند فوجی گشت کرتے گزر گئے ہم لوگ بھی واپس اپنی اپنی جگہوں کی طرف مڑنے لگے تو میں نے دیکھا ایک دس سال کا خوبصورت چاق و چوبند بچہ اپنی بڑی بہن کے ساتھ وہیں کھڑا جاتے ہو ئے فوجی دستے کو دیکھ رہا تھا جب فوجی دستہ نظروں سے اوجھل ہو گیا تو بچہ فوجی جوان کی طرح مارچ کرتا ہوا آگے گیا پھر واپس آکر اپنی بڑی بہن کو سیلوٹ مارتا ہے اور بآواز کہتا ہے جب میں جوان ہونگا تو میں بھی فوج میں بھرتی ہوکر اِسی طرح شاندار استری شدہ وردی پہن کر پاؤں میں پالش شدہ جو تے پہن کر اِسی طرح مارچ کروں گا اور وطن عزیز کی طرف دیکھنے والی بری نظر کو پھوڑ دوں گا اگر کسی دشمن نے میرے وطن کی طرح دیکھا تو اُسے نیست و نابود کردوں گا اِسی دوران بچہ اپنی بہن کے ساتھ اپنی ماں اور شاید بوڑھی دادی کے پاس جاکر بیٹھ گیا ماں دادی بچے کو پیار بھری نظروں سے دیکھ رہے تھے میں عقیدت بھری نظروں سے بچے کو دیکھ رہا تھا کہ میرے پاس مالی کھڑا ہوا تھا جو پھولوں کو دیکھ رہا تھا میری طرف دیکھ کر بولا صاحب جی اِس بچے کا باپ پاک فوج کا آفیسرتھا وہ بھی یہاں آیا کر تا تھا دوسال پہلے یہ بچہ اُس کے ساتھ یہاں آیا تھا اِس کا باپ وطن عزیز کی حفاظت میں دشمن سے لڑتا ہوا شہید ہو گیا لیکن اِس بچے اِس کی ماں بہن اور دادی کا جذبہ سرد ہو نے کی بجائے اور بھی بھڑک گیا ہے اِس باریہ بچہ اپنے چچاکے ساتھ یہاں آیا ہے جو آجکل فوج میں آفیسر ہے باپ کی شہادت کے بعد بھی اِن کا جذبہ اُسی طرح قائم ہے بچہ اپنے خاندان کے ساتھ بیٹھا باتیں کر رہا تھا میں آگے بڑھا اور جاکر دادی کو سلام کر کے اجازت لے کر بیٹھ گیا بچے کی طرف عقیدت بھری نظروں سے دیکھا اور بولا اے جوان فوجی ایک بار پھر پریڈ کرکے دکھاؤ بچے نے ماں کی طرف اجازت طلب نظروں سے دیکھا‘ ماں نے اجازت دے دی تو وہ کھڑا ہو ا اور ماہر فوجی کی طرح پریڈ کرتا ہوا آیا ماں اور دادی کو سیلوٹ مارا بچے کا جذبہ دیکھ کر میرا ہاتھ اُس کی عقیدت میں سلام کے لیے ماتھے پر چلا گیا اور میں سوچنے لگا دشمن بھول جاتا ہے کہ وطن کی فوج کی وہ چنگاریاں ہیں جو کسی بھی وقت آتش فشاں بن کر دشمن کو راکھ کے ڈھیر میں بد ل دیتی ہیں پھر میری آنکھوں میں عقیدت احترام کا سمندر ٹھاٹھیں مارنے لگا۔