افسانہ :
کس سے کہوں – – – !
ڈاکٹر صفیہ بانو .اے .شیخ
Email:
مجھے آج بھی وہ دن یاد ہے۔ جب میں حیدرآباد کے رحیم نگر کے گھر نمبر۱۰۲ میں پیدا ہوا تھا۔میرے پیدا ہونے پر کسی کوکو ئی خوشی نہیں ہوئی تھی۔ میں سمجھتا تھا کہ لڑکیوں کے پیدا ہونے پرافسوس اور رنج و غم کا ملال کیا جاتا ہے لیکن میں تو لڑکا تھا اس کے باوجود مجھ کو توجہ لڑکی کے مقابلے سے بھی کم دی گئی۔ سب لوگ پیار کے وقت پیار کرتے اور جب میری توجہ کی طلب ہوتی سب اپنے کاموں میں لگے رہتے۔
میری عمر اور قد بڑھتا گیا۔ مجھے تھوڑی بہت سمجھ آنے لگی تھی۔گھر میں سبھی لوگ تھے امّی، ابّو اور تین بہنیں اور ایک بھائی۔ میں گھر میں سب سے چھوٹا تھا اس کے باوجود میری طرف کوئی توجہ نہیں دیتا تھا اکثر لوگ کہتے ہیں جو گھر میں سب سے چھوٹا ہوتا ہے اس کو سب کا پیار ملتا ہے لیکن میں ان کے لیے صرف ایک بوجھ تھا۔ امّی دن بھر کام کرتی اور رات میں ابّو کے آنے کا انتظار کرتی۔ ابّو صبح تو خوشی خوشی نکلتے مگر دیر رات میں آنے پر جیسے دنیا کا غصہ بھر کر اپنے ساتھ لاتے اور ہم سب پر اتارتے اور خصوصاً امّی پر، کبھی کبھی تو کمرے میں لے جا کر امّی کو اس قدر مارتے پیٹتے کہ سارا قصور امّی کا ہی ہو۔ میں تو ان حالات میں کس سے کیا کہتا۔میں کس سے کہوں۔۔۔؟ یا پوچھو یہ سب کیوں ہو رہا ہے؟ میری عمر کے لڑکے کھیل کود اور مٹر گستی کرتے لیکن میں اپنے آپ کو ڈر کے سائے میں رکھتاتھا۔ کہیں سے ابّو آگئے تو ماریں گے۔ میرے اندر کا معصوم بچہ روز کلبلا رہا تھا میں کس سے کہوں۔۔۔؟ میراداخلہ ایک ایسی اسکول میں کر وایا تھا جہاں صرف پڑھائی کے نام پر رٹایا جاتا تھا۔ سوچا تھاا سکول میں کوئی ٹیچر یا دوست ایسا مل جائے کہ میں اس سے اپنے دلی جذبات کہہ سکوں۔ میری بھی اپنی زندگی ہے۔ میرے بھی خواب ہے۔ میں بھی اس دنیا میں جینا چاہتا ہوں۔ میں جس اسکول میں داخلہ لیتا سال بھر میں میرے ابّو زیادہ فیس ہونے کے سبب اسکول ہی بدل ڈالتے اور کہتے تم اتنا پڑھ لکھ کیا کروگے؟ تمہیں کونسی سرکاری نوکری مل جانی ہے؟ میں اپنے ابّو سے ڈھیر ساری باتیں کرنا چاہتا تھا۔ ان سے سیکھنا چاہتا تھا۔ان سے اپنے دلی جذبات کہنا چاہتا تھا۔ ان کے ساتھ سیر و تفریح کرنا چاہتا تھا۔ ان سے پیار و محبت بھرا لارڈ پانا چاہتا تھا مگر ایسا کچھ بھی ممکن نہ تھا میرے ابّو ایک الجھے ہوئے انسان معلوم ہوتے تھے انہوں نے صرف اور صرف ذمہ داریاں اور ضرورتیں پوری کرنی چاہیں مگر کسی کے دل کا حال کبھی نہیں جانا اور نہ ہی جاننے کی کوشش کی۔ میرا بڑابھائی اور بہنیں پتہ نہیں کس مٹّی کے بنے تھے کہ ان کو اس بات سے کوئی فرق ہی نہیں پڑتاتھا۔کیا ان کا جذبات اور احساسات سے کوئی تعلق ہی نہیں تھا؟ میں گھر میں اتنے سارے اپنوں کے بیچ رہ رہا تھا لیکن اس کے باوجود میرے اندر کی تنہائی اور خالی پن جوں کا توں ہی رہا۔ اب تو ڈر اور خوف نے ایسا اثر ڈالا کہ میں کسی سے بات کرنے سے بھی کترانے لگا تھا۔
میں عمر کے اس پڑھاؤ پر پہنچ چکا تھا جہاں جذبات،احساسات، خواہشیں اور امنگیں سر چڑھ کر بولتی تھیں مگر میرے ساتھ ایسا کچھ بھی نہیں ہوا وہ امنگیں، خواہشیں، کب کی دفن ہوگئیں۔ میں ہر روز مر مر کر زندگی گزار رہا تھا۔ میرے اندر کا انسان ہر روزتڑپ تڑپ کر مر رہا تھا۔اس روز کو میں کبھی نہیں بھول سکتا کہ ابّو نے شراب کے نشے میں اپنے ہی گھر کو آگ لگا دی تھی۔ اس وقت بچاؤ بچاؤ کی چیخیں مجھے اندر ہی اندر توڑ رہی تھیں یہ کیسا منظر تھا جہاں میں خود جل رہا تھا لوگ تماشا دیکھنے آرہے تھے اس وقت میں خود تماشا بین بن کر لوگوں کو بے زبانی تماشا دکھا رہا تھا۔ وہ آگ کے شعلے میرے اندر کے لاوے کو ہوا دے رہے تھے کس سے کہو ں۔۔۔! کس سے کہوں۔۔۔۔! میرے جذبات اور احساسات کس سے کہوں۔۔۔! ۔ دیر رات چاروں طرف خاموشی چھا گئیں۔ چاروں طرف راکھ ہی راکھ جیسے کہہ رہی ہوں تمہارے جذبات اور احساسات راکھ کا ڈھیر بن چکے ہیں اب کچھ نہیں ہو سکتا۔ میرے ابّو اسی آگ میں جھلش کر مر چکے تھے۔مجھے یہ دیکھ اور سن کر اتنا صدمہ پہنچا کہ کہ میں کسی سے کہنے سننے کے لائق ہی نہیں رہا میں بس ایک زندہ لاش کی زندگی گزارنے پر مجبور تھا۔ سارا گھر جل کر خاک ہو گیا۔ زندگی جیسے تھم سی گئی۔گھر پوری طرح جل چکا تھا دیواریں کالی کالی ہو چکی تھی جہاں ایک روز پہلے چہل پہل رونق تھی اب وہاں خاموشی ہی خاموشی تھی۔میرے اندر جو ایک طوفان اٹھاتھا وہ بھی دھیرے دھیرے دم توڑتا ہوا نظر آنے لگا۔ تبھی اچانک میں نے ایک لڑکی کو دیکھا وہ ہمارا گھر دیکھنے آئی تھی وہ لڑکی چندرا تھی جو ہمارے بغل والی گلی میں رہتی تھی۔ ایسا آپ نے بتایا تھا۔ وہ اس گھرکے بکھرے ہوئے سارے منظر کو بڑی خاموشی سے دیکھ رہی تھی۔ تھوڑی دیر کے بعد ایک کونے میں بیٹھ کر رونے لگی۔ میں اس لیے اسے یکھ رہا تھا کہ وہ نہ تو کسی سے بات کر رہی تھی اور نہ ہی کسی سے کچھ پوچھ رہی تھی بس وہ اکیلی آئی تھی اور اب اکیلی بیٹھی رو رہی تھی۔ میری اتنی ہمت بھی نہ ہوئی کہ میں اس سے جا کر پوچھو۔ کسی لڑکے کا کسی لڑکی سے بات کرنا آج بھی نقص مانا جاتا ہے چاہے وہ کم سن ہی عمر کیوں نہ ہو۔ سماج میں کسی لڑکی کو دوست بنانا کسی عذاب کو منہ موڑ لینے کے برابر ہے۔ زمانہ بدل گیا مگر اب بھی روایتی سوچ میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ مجھ سے رہا نہیں گیا میں نے پہلے اسے اشارے سے پوچھا تم کیوں رو رہی ہو؟ تو اس نے بھی اشارے میں جواب دیا۔مجھے میرا گھر یاد آگیا۔ میں نے اسے قریب جاکر پوچھا اچھا بتاؤ تم کیوں رو رہی ہو؟ اس نے روتے ہوئے جواب دیا کہ مجھے میرا گھر یاد آگیا۔ میں نے پوچھا کیا تمہاراگھر بھی ایسے ہی حادثے کا شکار ہوگیا تھا؟ تب اس نے بتایا نہیں۔لیکن مجھے میری دوست انجم کے گھر کی یاد آگئی۔ اب یہ انجم کون ہے؟ انجم میری سب سے پیاری سہیلی جو بالکل تمہاری طرح خاموش رہنے والی،کسی سے کچھ نہ کہنے والی، وہ اسی حادثے کا شکار ہو کر دنیا سے ہی چل بسی۔ مجھے سن کر بے حد افسوس ہوا۔ تم کیا جانو اس کی کیا تکلیف تھی؟ وہ اپنی امّی اور ابّو کت پیار محبت اور شفقت کی ہمیشہ آرزو مند تھی کہ اسُے سب کا پیار نصیب ہو ایسی اس کی قسمت کہا۔ اس گھر میں تو لڑکی ہوناکسی عذاب کے نازل ہونے کے برابر تھا اس کے پیدا ہونے پر نہ تو کوئی خوشی منائی گئی اور نہ ہی اس کے بعد اس کو پیار محبت سے رکھا گیا تھا۔ وہ ہر وقت ایک ایسی گھٹن میں مبتلا رہتی کہ بس اب دم نکل جائے گا۔ اشفاق چندرا کی باتوں کو بڑے غور سے سن رہا تھا اسے ایسا لگ رہا تھا کہ انجم میری ہی طرح زندگی گزار رہی تھی شاید وہ بھی کسی سے کچھ کہنا چاہتی تھی۔لیکن پھر وہی سوال کس سے کہوں۔۔۔! آگیا ہوگا؟ چندرا بتا رہی تھی کہ انجم کسی سے کچھ نہ کہتی تھی ہر وقت خاموشی اختیار کیے تنہائی میں بیٹھی رہتی تھی۔ جب اس سے کچھ پوچھنے جاؤ تو ایسے چونک پڑتی تھی کہ جیسے کسی نے اسے تاڑ لیا ہو؟ یہ سن کر اشفاق بھی یک دم ہو کر رہ گیا جیسے چندرا انجم کی نہیں بلکہ اس کی جذبات اور احساسات کی بات کر رہی ہو۔ چندرا کہنے لگی میں نے انجم کو ہمیشہ کے لیے کھو دیا؟ اشفاق نے پوچھا وہ کیسے؟ اس نے بتایا کہ اس کے گھر میں اس کی بہن کی شادی ہونے والی تھی اور بارات گھر کی دہلیز پر کھڑی تھی اچانک باراتیوں کے پھوڑے گئے پٹاخوں کی چنگاری گھر کی بجلی کے تار سے جا لگے اور زودار دھماکا ہوا اور گھر میں آگ لگ گئی۔ گھر کے سارے افراد جھلش کر بھی بچ گئے مگر نہیں بچ پائی تو صرف انجم۔ انجم اس روز بھی اپنے کمرے میں تھی اسے شادی بیاہ کی تقریب میں یا کسی بھی تقریب میں جانا پسند نہ تھا وہ بالکل الگ مزاج رکھتی تھی۔ اس کے جانے کا غم مجھے تمہارے پاس لے آیا۔ اشفاق نے پوچھا وہ کیسے؟ اس نے بتایا کہ جب تمہارے گھر میں یہ حادثہ ہوا تب آس پاس کے سبھی لوگوں نے بتایا گھر کے سبھی افراد صدمے میں ہیں لیکن سب سے زیادہ صدمہ اس اشفاق نامی لڑکے کو ہوا ہے۔ وہ سب سے زیادہ خاموش کھڑا تھا۔ جیسے اس نے اپنی زندگی کو ختم ہوتے ہوئے دیکھا ہو۔ اشفاق رونے لگا تم نہیں جانتی ہو۔ مجھے تم میں ایک پیارا دوست نظر آیا۔ چندرا کہتی ہے میں نے اپنی پیاری دوست انجم کو کھو دیا مگر میں اب کسی دوست کو کھونا نہیں چاہتی۔ اشفاق سے رہا نہیں گیا وہ رونے لگا۔ چندرا من ہی من میں کہتی ہے کہ آج پہلی بار کسی لڑکے کو روتے ہوئے دیکھا جو زندگی کو کھو کر نہیں بلکہ زندگی کو پاکر خوشی سے رو رہا تھا۔اب اس کے ذہن میں کچھ وقت پہلے کس سے کہو ں۔۔۔۔! سوال شعلہ بن کر امڈرہا تھااب وہ پوری طرح ٹھنڈاپڑ چکا تھا۔لیکن کہتے ہیں کہ انسان جتنا زیادہ سوچتا ہے اتنے سوال اس کے ذہن میں نئے آتے رہتے ہیں اب اشفاق نے پھر سے سوچنا شروع کر دیا۔اس نے سوچا کہ کیا چندرا یعنی ایک لڑکی میری دوست ہو سکتی ہے؟ گھروالوں نے کبھی بتایا ہی نہیں؟میں نے اب تک کسی سے اتنی کھل کر بات ہی نہیں کی تھی۔ لڑکوں کو تو لڑکوں سے دوستی کرنی چاہیے پھر چندرا تو ایک لڑکی ہے وہ میری کیسے دوست ہو سکے گی؟چندرا سمجھ گئی یہ پھر سے سوچنے لگا۔چندرانے اشفاق سے کہا دیکھو اب تم یہ مت سوچنے لگنا کہ تم میری دوست کیسے ہو سکتی ہو؟جہاں تک ہماری سوچ نہیں بدلے گی وہاں تک سماج کی سوچ نہیں بدلے گی۔لیکن کہتے ہیں کہ انسان فطرتاً جلد باز ہے دو قدم چلنے کے بعد بھی وہ پھر یہی سوچتا ہے۔کس سے کہوں۔۔۔! کس سے کہوں۔۔۔۔!!
——-
Dr. Sufiyabanu. A. Shaikh
C- Ground Floor Tajpalace, Kumbharwada
380001. ,Jamalpur Ahmedabad
Mob: 9824320676