کرکٹ ‘موبائل اور اخلاقی بحران :- حافظ محمد ہاشم قادری مصباحی

Share
محمد ہاشم قادری صدیقی

کرکٹ ‘موبائل اور اخلاقی بحران

حافظ محمد ہاشم قادری مصباحی
جمشید پور

کھیل صحت مند زندگی کے لیے نہایت ضروری ہے۔”کھیل“ یعنی کوئی بھی ایسا کام جو ہماری ذہنی اور جسمانی نشونما میں اہم رول اداکرے۔ کھیل صرف تفریح کا ذریعہ ہی نہیں بلکہ جسم کو چاق و چوبند اور صحت مند بنانے کا بھی ذریعہ ہے۔کھیلنے سے دماغ تروتازہ ہوتا ہے،زمانہ قدیم سے زمانہ جدید تک کھیل انسانی زند گی کا حصہ رہاہے-

کھیل خواہ کسی بھی قسم کے ہوں indoor یا out door ،چیس، لوڈو، کیرم، سنوکر، ٹیبل ٹینس وغیرہ وغیرہ اس سے دماغی صلاحیتوں میں اضافہ ہو تاہے اور ذہنی قابلیت بھی ابھر تی ہے۔outdoor کھیل جیسے کر کٹ، فٹ بال،باسکٹ بال، طرح طرح کی دوڑrace; اور بیڈ منٹن وغیرہ وغیرہ ہیں جو ہمارے جسم کو چست، لچکدا راور پھر تیلا بناتی ہیں اور فزیکلPhysical فٹنیس کے لیے بچوں،نوجوانوں اور بوڑھوں کے لیے اپنی اپنی طاقت وصلاحیت و پسند کے اعتبار سے حصہ لینا چاہیے۔
مشہور کھیلوں میں فٹ بال ہے جو دنیا کے ہر کونے میں کھیلا اور دیکھاجاتاہے، دوسرا کر کٹCricket ہے جو کہ فٹ بال کی طرح ہی مقبول و معروف ہے اور تقریباً اب ساری دنیا میں کھیلا ودیکھا جاتا ہے، کر کٹ کے کھیل کوجنٹِل مین،gentleman’s game(شریف آد می، بھلا مانس، نیک آد می) کہا جاتا ہے اس کے کھیلنے والے انتہائی صاف وشفاف سفید کپڑے پہن کر کھیلتے ہیں بدلتے زمانہ میں اب ڈریس اور کھیل میں بہت تبدیلیاں آ گئی ہیں کھلاڑی سے لیکر امپائر،شائقین،اور چیئر لیڈرس (ادھ نگی ناچتی، کولھے مٹکاتی حسینا ئیں) تک کا سفر کر کٹ نے طے کیا ہے، لیکن کرکٹ کے کھیل کو ابھی بھی بہت سے لوگ جنٹلمین کھیل ہی کہتے اور مانتے ہیں۔ اس کی تازہ مثال یہ ہے حال ہی میں، جب سڈ نی الیون اور بھارتی کرکٹ ٹیم کپتان صاحبان نے چار روزہ وارم اپ میچ کے ٹاس کے لیے میدان میں آئے، تو شارٹس میں آئے یعنی چڈھی پہن کر آئے اور ٹاس کیا،پھر کیا تھا ساری دنیا سے ٹؤٹرTwitter پر بھارتی کپتان کوہلی پر یلغار ہو گئی،اور لوگوں نے یہاں تک لکھ دیا۔ (1) ”ہندوستانی کپتان وراٹ کوہلی نے جنٹلمینGentlemen, کھیل کر کٹ کو داغدار کر دیا؟“(2) جس کھیل نے تم کو عزت دی، افسوس کہ کوہلی تم اس کھیل کو عزت نہ دے سکے۔(3) شائقین کر کٹ نے کو ہلی کوآڑے ہاتھوں لیتے ہوئے یہاں تک کہد یا کے کوہلی کے ایسے لباس میں آنے سے کھیل کی عزت خراب ہوئی ہے۔ یہ ایک جنٹلمین کھیل ہے، جسے کوہلی نے ایسا لباس پہن کر داغ دار کردیا اور اسے کھیل کی بے ادبی بھی قراردیا وغیرہ وغیرہ۔

کرکٹ کھیل میں بے حیائی وسٹہ بازی کا بڑھتا گراف لمحہ فکریہ؟:۔
کر کٹ کا کھیل تو اسی دن داغ دار ہو گیا تھا جب شائقین کے ساتھ ساتھ، چیئر لیڈرس نے ادھ ننگا پہناوا پہن کر وکٹ گر نے پر،چوکے،چھکے لگنے پر چھکوں کی طرح کمر لچکا لچکا کر جھومتی مٹکتی رہتی ہیں اور اپنے ننگے جسم کی نمائش کرتی ہیں لوگ یہ بتائیں اس عمل کا کھیل سے کیا تعلق ہے؟ لوگ توجہ فر مائیں کیا یہ بے شر می بے حیائی کے بڑ ھا نے کا سبب نہیں؟ اس پر فتن دور میں بے حیائی وبے پر دگی کو بڑھاوا دینے میں کرکٹ اور موبائل کا بہت بڑا کر دار(حصہ) ہے۔ پہلے کر کٹ کی کمنٹری ریڈیو سے نشر ہو تی تھی پھر یہ ٹیلیویزن دور درشن سے دیکھایا جانے لگا، دنیا کے پرانے کمنٹیٹر ”جمشید مار کر“ جنکی عمر ابھی 92 سال ہوچکی ہے جن کو ایک گیم کی کمنٹری کے لیے 150 روپئے ملتے تھے ان کا کہنا ہے”موجودہ کر کٹ تو سر کس معلوم ہوتا ہے:“ جمشید مارکر کو یہ منفرد اعزاز حاصل ہے کہ وہ دنیا میں سب سے زیادہ19ممالک میں سفیر اور ہائی کمشنر کی ذمہ داری نبھانے والے سفارتکاربھی ہیں۔ 1983 میں پرو ڈیشنل ورلڈ کپ ہندوستان کے جیتنے کے بعد ہندوستان کے شائقین کی تعداد اور دلچسپی بڑھی،پھر بینسن ایند ہیجس کپ آسٹریلیا میں ہوا اور ٹیلیویزن کے دیکھانے والے مشہور ”کیری پیکر“ نے 12کیمروں سے کر کٹ میچ کو دکھایا،آگے بڑھتے بڑھتے اب تو کیمروں کی بھر مار ہوگئی ہے یہاں تک کہ آسمانی کیمروں یعنی کیمروں کو اوپر لٹکا کر میچ دکھایا جارہا ہے اور ان کیمروں سے چیئر لیڈرس،حسیناؤں کے جسم کو پوری طرح ادھ ننگا(اور سچ لکھوں تو پورا ننگا،اوپری جسم اور دوسرے حصوں کو بولڈ کر کر کے) دیکھا جا رہا ہے اور گھروں میں live پوری فیملی ماں، باپ، بھائی،بہن، دوست،احباب سب کر کٹ کے ساتھ ساتھ بے شر می وبے حیائی کا ننگا ناچ بھی دیکھ رہے ہیں یہ حد در جہ افسوس،شرم اور لمحہ فکریہ ہے، بے شر می کے اس دور میں بد نگاہی جس تیزی سے پھیل رہی ہے وہ اصحاب فکر و نظر سے پوشیدہ نہیں ہے…..۔ بہت کم ہی لوگ ہیں جو آنکھوں کی ان ہولناکیوں سے بچے ہوئے ہیں، کیا بچے، کیا جوان، کیا بوڑھے سب آنکھوں سے اس موذی مرض بے شر می کو دیکھ کر انجوائے، لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ اسی لیے تو گھروں اور معا شرہ سے اخلاق کا جنازہ ہی نکل گیا ہے،آنکھوں کا پانی مر گیا (سوکھ) گیا ہے جس کا نتیجہ یہ ہوا کی پوری قوم کا اخلاق تباہ وبر باد ہو کر رہ گیا ہے اسی وجہ سے زنا، گینگ ریپ،زنا با لجبر، اغوا کے واقعات کی بھر مار ہو گئی ہے زندگی کے عام معمولات کی طرح اسے بھی عام سی بات سمجھی جارہی ہے۔

بدنگا ہی زنا کا حصہ:۔
نظر کے بارے میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فر مایا: نظر شیطان کے زہریلے تیروں میں سے ایک تیر ہے۔“(حاکم)حضرت اما م جعفر صادق رضی اللہ عنہ نے فر مایا لذت کی نگاہ شیطان کے زہر آلود تیروں میں سے ایک تیر ہے کتنی ہی ایسی نگاہیں ہیں جو اپنے ساتھ حسرت وافسوس لاتی ہیں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کونبی کریم ﷺ نے یہ نصیحت کہ علی! ایک مرتبہ بلا ارادہ دیکھنے کے بعد دوسری مرتبہ(اجنبی عورت) کو دیکھنے کا ارادہ مت کر نا اس لیے کہ پہلی(بلا ارادہ) نظر تومعاف ہے مگر دوسری مرتبہ دیکھنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔(مشکوٰۃشریف249/2)…۔
؎ دل ونگاہ پاک نہیں تو پاک ہو سکتا نہیں انسان
ورنہ ابلیس کو بھی آتے تھے وضو کے فرائض بہت
مشہور تابعی ابن زیاد بصری رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں کہ”اپنی نظر عورت کے چادر پر بھی نہ ڈال کیونکہ یہ نظر دل میں شہوتsex پیدا کرتی ہے“(الکتاب الزھد) جب آنکھ دیکھتی ہے اور کان سنتے ہیں تبھی دل میں کچھ کر نے کی حر کت پیدا ہو تی ہے۔ اسی لیے رب ذوالجلال والاکرام نے لو گوں کو ڈرایا اور خبر دارکیا کہ! تم سے آنکھ، کان اور دل کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔فرمان الٰہی ہے:اِنَّ اسَّمْعَ وَا لْبَصَرَ وَا لْفُءَو ادَکُلُّ اُولٰٓءِکَ کَانَ عَنْہُ مَسْءُوْ لاً۔ (القرآن،سورہ بنی اسرائیل،17: آیت 36)تر جمہ:بیشک کان اور آنکھ اور دل کیا جائے گا۔اس آیت کریمہ میں فر مایا کہ کان،آنکھ اور دل سے سوال کیا جائے گا کہ تم نے ان سے کیا کام لیا؟ نیک باتیں سننے، یا غیبت سننے، گانے،باجے سننے، اور فحش سننے میں لگا یا۔ یونہی آنکھ سے جائز وحلال کو دیکھا یا فلمیں، ڈرامے دیکھنے اور بد نگاہی کر نے میں استعمال کیااوردل میں صحیح اوراچھے اور نیک خیالات رکھتے تھے یا برے جذبات وخیالات شہوت سے بھرے خیالات رکھتے تھے۔ پھر پھر لوگوں کو اس طرح خبر دار کیا گیا تاکہ وہ باز آئیں۔تر جمہ: اللہ تعالیٰ آنکھوں کی خیانت(چوری چھپے کی نگاہ، نامحرم کو دیکھنے اور ممنوعات پر نظر ڈالنے) کو خوب جا نتا ہے اور جو سینوں میں پوشیدہ اور دلوں میں مخفی ہیں ان سے خوب واقف ہے۔“(القر آن،سورہ المومن،40:آیت19)اس آیت کریمہ کی تفسیر کرتے ہوئے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فر مایا۔: اس کا مصداق وہ شخص ہے جو لوگوں کے ساتھ(محفل میں) بیٹھا ہو اور جب کوئی عورت گزرے تو وہ لوگوں کی نظر یں چراکر اس کی طرف دیکھ لے۔“(الجامع الا احکام ا لقرآن)

سٹہ بازی وکرکٹ چولی دامن کا ساتھ:
کر کٹ کے کھیل میں بے حیائی کے ساتھ ساتھ اور برائیاں بھی درآئی ہیں جیسے آج سٹہ بازار جہاں کوئی ٹورنا منٹ اسٹارٹ ہوا اور سٹہ کا بازار گرم ہو گیا اور جگہ جگہ پولیس چھاپے ڈالکر مجرموں کو پکڑ دھکڑ کر نے لگتی ہے، اسی طرح نئی خرابی میچ فکسنگmatch,fixing ہے جو کرکٹ کو بدنام اور داغدار کر ری ہی ہے۔کرکٹ کا کھیل اسی دن داغدار ہو گیا تھا جب کھلاڑیوں پر میچ فکسنگ کا الزام لگا تھا اور الزام سچ ثابت ہونے پرکئی ملکوں کے کھلاڑیوں پر پابندیاں لگائی گئیں۔ کر کٹ کا کھیل تو اسی دن سے داغدار ہوگیا،جب سے کر کٹ پر جگہ جگہ سٹہ(جوا) کھیلا جارہا ہے اور اب تو کر کٹ کے کھیل میں سٹہ، جوا عام سی بات ہو گئی ہے کو ئی ملک اور کسی بھی ملک کاکوئی شہر اس حرام کاری اور معیشت کا بر باد کر نے والے اس کھیل جو،سٹہ سے بچا یا اچھوتا نہیں رہ گیا ہے بلکہ باقاعدہ یہ ایک انڈسٹری کی شکل اختیار کر چکا ہے۔حکو متوں نے اور ذمہ داروں نے اگر توجہ نہ دی تو وہ دن دور نہیں ساری نوجوان نسل جواڑی بن جائے گی اور پھر یہ لا علاج ہوجائے گا۔ کھیل کے بھی کچھ اصول وضوابط ہو تے ہیں،اسی طرح شائقین کے لیے بھی کہ وہ ایک حد کے اندر رہ کر محظوظ ہوں،لطف انداز ہوں نہ کہ آپے سے باہر ہوکر جائز وناجائز اچھا خراب کی فصیل باڈر کراس کر جائیں۔

مذہب اسلام میں کھیل کی ترغیب:
مذہب اسلام نے بھی کھیل کود کی تر غیب دی ہے قیود وضوابط کے ساتھ نبی کریم ﷺ نے اپنے صحابہ کرام سے فر مایا:”تیر اندازی کرو میں تمھارے ساتھ ہوں“(بخاری) آپ نے فر مایا: ”سنو! طاقت تیر اندازی سے ہے، سنو! طاقت تیر اندازی سے ہے، سنو! طاقت تیر اندازی سے ہے۔(مسلم) آپ ﷺ نے گھڑ سواری کی بھی تر غیب دی، صحیحین میں وارد ہے آپ ﷺ نے گھوڑوں کے در میان مقابلہ کروایا اور جیتنے والے کو انعام سے نوازا۔ مکہ ومدینہ کے مضافات میں سمندر اور نہر نہ ہونے کے باوجود آپ ﷺ نے اپنے صحابہ کو تیراکی کی تر غیب دی جو جسم کی ورزش کے لیے کھیلوں میں سب سے زیادہ مفید ہے وغیرہ وغیرہ۔ کئی کھیلوں کی ترغیب احادیث طیبہ میں آئی ہے مطالعہ فر مائیں مضمون کی طوالت کا خوف غالب ہے۔

مضمون لکھنے کی وجہ؟۔:
عید الفطر کے دن میں عید ملنے، مبارک باد پیش کر نے کی غرض سے گھر سے نکلا ایک گھر گیا تو السلام علیکم! کے بعد مجھے ڈائنینگ ہال میں بیٹھایا گیا جہاں ان کی پوری فیملی دومہمان اور بیٹھے ہوئے تھے اور انڈیا و ساؤتھ افریقہ کا ورلڈ کپ کر کٹ 2019 براہ راست Live چل رہا تھا اوپر لکھی ہوئی بات پر غور فر مائیں ساؤتھ افریقہ کے وکٹ گر نے Out ہونے پر وہی بے حیائی وبے شر می کا منظر پوری فیملی مع خواتین ومہمان کے سب لطف اندوز ہورہے تھے، گندے بے حیائی سے بھرے ایڈ ور ٹائز مینٹ فوگ کا ایڈ،uber کا انتہائی شر مناک ایڈ ہندوستانی کیپٹن وراٹ کوہلی کے ساتھ ادھ ننگی حسینائیں آٹو پر بیٹھ کر اشتہار بازی کررہی تھیں اور پورا گھر انجوائے کررہاتھا،اور چھوٹی بیٹی مو بائل و tv دونوں سے مزے لے رہی تھی، میں شرم سے پانی پانی ہو گیا، گھر کے لوگ کرکٹ اور موبائل میں مصروف عید کا دن نہ کو ئی مہمان نوازی نہ کچھ پوچھ ہوئی نہ کوئی مخاطب ہوا میں نے عزت بچانے میں عافیت سمجھی اور بغیر کچھ کھائے پیئے چلا آیا نہ ہی کسی نے روکا۔ پھر دوسری جگہ پہنچا(یہ قدرے دین دار گھرانہ ہے) یہاں بھی وہی حال پایا پر اتنا ہوا میرے جانے سے اس کمرہ سے خواتین پرد ہ میں چلی گئیں میں دل ہی دل میں خوش ہوا اللہ کا شکر ادا کیا لیکن تقریباً 20 منٹ سے زیادہ بیٹھنے پر میری خوشی کافور ہو گئی اور پھر وکٹ گر نے پر وہی بے حیائی و بے شر می کا منظر اور باپ بیٹا اور گھر کے لوگوں کی خوشی دیکھ کر میں ہکا بکا رہ گیا یہاں بھی کوئی نہ مخاطب ہوا نہ ہی کھانے پینے کو پوچھا۔ مجھے انتہائی قلق ہوا مسلمانوں نے آداب زندگی،اسلامی اخلاق کو بھلا دیا(یا یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ اخلاق کی تعلیم کو دفن ہی کر دیا) مسلمانوں کی اخلاقی پستی اورزوال کایہ عالم؟ بلاشبہ اس میں کرکٹ اور موبا ئل کا حصہ ہے اور بھی بہت سی وجوہات ہیں۔

معاشرہ کی ا خلاقی زبوں حالی اور موبائل:۔
بلاشبہ موبائل دور جدید کی ایک اہم ایجاد ہے، رکشا والے سے لیکر پائلٹ تک، کسان سے لیکر بڑے بڑے کار پوریٹ تک، بچوں سے لیکر بوڑھوں تک، علما سے لیکر ہیرو، ہیروئین تک،عام سے لیکر خاص تک سب ہی اس کے اسیر ہیں۔
؎ اسیر عشق مرض ہیں تو کیا دواکرتے
جوانتہا کو پہنچتے تو ابتدا کرتے
نوجوان نسل تو اس کی غلام ہو چکی ہے۔ بڑی بڑی محفلوں میں اور ہر جگہ دیکھیں لوگ موبائل میں مصروف ہیں اگل بغل میں کون ہے کوئی توجہ نہیں ”اخلاق“ لفظ اخلاق سے شاید واقفیت ہی نہیں یا اخلاق کو موبائل نے نگل لیا ہے،ہمیں معاف فر مائیں خواص کا بھی براحال ہے کچھ کو چھوڑ کر الا ماشااللہ،جس اخلاق کی تعلیم کو مکمل کرنے کے لیے اللہ نے رسول ﷺ کومبعوث فر مایا۔انما بعثت لاُ تمم مکا رماالاخلاق۔(حاکم،مستدرک شرح سنہ حدیث،3516) ترجمہ: میں اخلاق کی تعلیم کے لیے بھیجا گیا ہوں، یعنی میں اخلاقی شرافتوں کی تمام قدروں کو عملی صورت میں اپناکر،اپنے اوپر نافذ کر نے کے لیے مبعوث کیا گیا ہوں۔ اللہ تعا لیٰ نے اپنے محبوب کی شان بیان کر تے ہوئے فر مایا۔وَاِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ.۔اور بیشک آ پ عظیم ا لشان خلق پر قائم ہیں، اور کیوں نہ ہوں آپ ﷺ مکارمِ اخلاق کے اعلیٰ معارج کی تعلیم و تر بیت کے لیے مبعوث فر مائے گئے۔ نبی رحمت ﷺ نے فر مایا: اَحْسَنَکُمْ اَحْسَنَکُمْ خُلْقاً تم میں بہتر وہ ہے جو تم میں اخلاق کے اعتبار سے بہتر ہے۔
حسن اخلاق آپس میں محبت و اخوت کا ذریعہ ہے، حسن اخلاق سے آپسی بھائی چارے کو بڑھاوا ملتا ہےجبکہ بدخلقی سے بھائی چارے کو نقصان اور نفرت وعداوت کو بڑھاوا ملتاہے وغیرہ وغیرہ انسانوں کو جانوروں سے ممتاز کرنے والی اصل چیز اخلاقی رویہ ہے،انسانی عقل جب تک اس کے پاس رہتی ہے تو اسکے تمام معاملات بہتر رہتے ہیں۔افسوس صدافسوس! کرکٹ اور موبائل نے تو انسانی عقل پر قبضہ کرلیا ہے اور انسان کو اپنا گرویدہ بناکر عقل و خرد سے اندھا اور بیگانہ کر دیا ہے انسان کہیں کا نہیں رہا یہ انسان کے لیے زہر سے کم نہیں، ہم سب کو کرکٹ اور موبائل سے دوری بنانے کی ضرورت ہے خاص کر نوجوانوں کو تاکہ ہم انسانوں کے زمرے میں شامل رہیں اللہ ہم سب کو موبائل اور کرکٹ کے زہریلے نقصانات سے بچائے آمین ثم آمین:
—–

Share
Share
Share