شیخ الہند مولانا محمود الحسن دیوبندی ؒ :- مفتی کلیم رحمانی

Share
مفتی کلیم رحمانی

اسلام کو سیاسی لحاظ سے غالب کرنے میں
شیخ الہند مولانا محمود الحسن دیوبندی ؒکی قربانی

مفتی کلیم رحمانی
8329602318 Mob:

حق گوئی اور حق کی حمایت و باطل کی مخالفت کے نتیجہ میں ماضی قریب میں حکومتِ وقت کے عِتاب کا نشانہ بننے والی ایک ا ہم دینی، علمی و فکری شخصیت شیخ الہند مولانا محمود الحسن دیوبندی ؒ کی بھی ہیں، چنانچہ 1914 میں پہلی جنگ عظیم کے موقع پر مولانا محمود الحسنؒ نے انگریز حکومت کی مخالفت کی اور ہندوستان میں اسلامی حکومت کے قیام کے لئے کچھ کو شش کی تو انگریز حکومت نے انہیں گرفتار کرکے مالٹا کی جیل میں قید کردیا –

چار سال تک انہیں قید میں ہی رکھا اور طرح طرح کی تکلیفیں بھی دیں،چار سال بعد جب جیل سے رہائی ہوئی تو ایک رات بعد نمازِ عشاء دارالعلوم دیوبند میں علماء کے مجمع سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا ہم نے مالٹا کی جیل میں غور و فکر سے دو سبق سیکھے ہیں،یہ الفاظ سُن کر سارا مجمع ہمہ تن گوش ہو گیا کہ اس استازالعلماء نے اسّی (۸۰) سال علماء کو درس دینے کے بعد آخری عمر میں جو سبق سیکھے ہیں وہ کیا ہیں؟فرمایا کہ میں نے جہاں تک جیل کی تنہائیوں میں اس بات پر غور کیا کہ پوری دنیا میں مسلمان دینی اور دُنیوی ہر حیثیت سے کیوں تباہ ہو رہے ہیں تو اس کے دو سبب معلوم ہوئے،ایک ان کا قرآن کو چھوڑدینا،دوسرے آپس میں اختلافات اور خانہ جنگی اس لئے میں وہیں سے یہ عزم لے کر آیا ہوں کہ اپنی باقی زندگی اس کام میں صَرف کروں، کہ قرآن کریم کو لفظاً اور معناً عام کیا جائے۔ بچوں کے لئے لفظی تعلیم کے مکاتب ہر بستی میں قائم کئے جائیں،بڑوں کو عوامی درس قرآن کی صو رت میں اس کے معانی سے روشناس کرایا جائے اور قرآنی تعلیمات پر عمل کے لئے آمادہ کیا جائے اور مسلمانوں کے باہمی جنگ و جدال کو کسی قیمت پر برداشت نہ کیا جائے۔مفتی محمد شفیع صاحب فاضل دیوبندی ؒ جو اس واقعہ اور ارشاد کو اپنی کتاب ”وحدتِ امّت“میں نقل کرنے والے ہیں فرماتے ہیں کہ نبّاضِ امّت شیخ الہند مولانا محمود الحسن ؒ نے ملّت کے مرض کی جو تشخیص اور تجویز فرمائی تھی،باقی ایّام ِ زندگی میں ضعف و علالت اور ہجوم مشاغل کے
باوجود اس کے لئے سعی پیہم فرمائے بذاتِ خود درس قرآن شروع کروایا،جس میں تمام علمائے شہر اور حضرت مولانا حسین احمد مدنی ؒ اور حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی جیسے علماء بھی شریک ہوتے تھے اور عوام بھی،اس ناکارہ کو بھی یعنی مفتی محمّد شفیع صاحب کو بھی اس درس میں شرکت کا شرف حاصل رہا ہے۔ مگر اس واقعہ کے بعد حضرت کی عمر ہی گنتی کے چند ایّام تھے۔مفتی محمد شفیع صاحب نے مزید شیخ الہند ؒ کے ارشاد پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا آج بھی مسلمان جن بلاؤں میں مبتلا اور جن حوادث اور آفات سے دوچار ہیں،اگر بصیرت سے کام لیا جائے تو ان کے سب سے بڑے سبب یہی دو ثابت ہونگے،قرآن کو چھوڑنا اور آپس میں لڑنا،غور کیا جائے تو یہ آپس کی لڑائی بھی قرآن کو چھوڑنے ہی کا لازمی نتیجہ ہے۔قرآن پر کسی درجہ میں بھی عمل ہوتا تو یہ خانہ جنگی یہاں تک نہ پہنچتی۔(ماخوذ وحدت امّت صفحہ ۵۰۔۱۵)
مذکورہ واقعہ و ارشاد میں شیخ الہند مولانا محمود الحسن اور مفتی محمد شفیع صاحب کا امّت مسلمہ کے مرض اور علاج سے متعلق جو تجزیہ اور تشخیص ہے دراصل وہ اسلام کا مُتفق علیہ تجزیہ اور علاج ہے،اسی کو اسلام کے ایک اور مفکر علاّمہ اقبال ؒ نے اپنے ایک شعر میں یوں بیان فرمایا۔
وہ معزز تھے زمانہ میں مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارِکِ قرآن ہو کر۔
البتہ مفتی محمد شفیع صاحب ؒ نے اپنے تبصرہ میں اخیر میں جو فرمایا کہ قرآن پر کسی درجہ میں بھی عمل ہوتا تو یہ خانہ جنگی یہاں تک نہ پہنچتی۔اس پر اس جملہ کا بھی اگر اضافہ کر دیا جائے تو بات اور مفید و موثر ہو جائے گی،وہ یہ کہ قرآن کا کسی درجہ میں بھی علم ہوتا تو یہ خانہ جنگی یہاں تک نہ پہنچتی۔اسلئے کہ قرآن کے علم کے بعد ہی قرآن پر عمل کی امیدلگائی جا سکتی ہے،اور پھر یہ بھی حقیقت ہے کہ قرآن کا حقیقی علم لازماً عمل پیدا کرکے ہی رہتا ہے۔بشرطیکہ قرآن کا علم حاصل کرنے والا مُخلص ہو۔

Share
Share
Share