دکنی کی مخصوص شعری اصناف
(5) مکاشفہ – ہیئت و ماخذ
(سہیلا‘ جکری ‘ حقیقت ‘ عقدہ ‘ مکاشفہ)
ڈاکٹر حبیب نثار
صدر شعبہ اردو‘ سنٹرل یونیورسٹی آف حیدرآباد
حیدرآباد۔ دکن
قاضی محمود دریائی(۴۷۸ ھ۔۱۴۹ء/۹۶۴۱۔۲۳۵۱ء)(۶۱) گجرات کے خواجہ خضر کہلاتے تھے۔ اپنے والدقاضی حمید عرف شاہ چیلندہ کے مرید تھے جو شاہ قطب عالم سے ارادت رکھتے تھے۔ قاضی محمود دریائی نے کئی جکرئیاں کہی ہیں۔ بقول جمیل جالبی وہ شیخ باجن کی روایت جکری کو اپنے اظہار کا ذریعہ بناتے اور بڑھاتے ہیں (۶۲)
قاضی محمود دریائی نے ہر جکری کے ساتھ راگ/راگنی کی شناخت بھی کر دی ہے مثلاً درپردہ رام کلی، دردھنا سری، درپردہ بلاول، درملہار، در کدارہ، درکلیان، دربھاکرہ، درسارنگ، در توڑی، دراساوری وغیرہ وغیرہ۔
قاضی محمود دریائی کے جکریوں کا بغور جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا یہ کلام ان کی زندگی میں بہت مقبول و مشہور ہو چکا تھا چنانچہ انہوں نے ہر موضوع اور مضمون کو جکری میں باندھا ہے، چنانچہ راگوں کے ساتھ ساتھ جکری کی پیشانی پر موضوع کا اظہار بھی کر دیا ہے مثلاً وصالیہ، عشقیہ، طلبیہ،فراقیہ، توحید، ترک غرور، عداوت مدعی، غم مدعی…..وغیرہ وغیرہ
ڈاکٹر جمیل جالبی کو ان جکریوں کو سمجھنے میں تسامح ہوا ہے چنانچہ وہ ان موضوعات کو ”راگوں کی اقسام(۶۳) سے تعبیر کرتے ہیں جو بالکل غلط ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ فراقیہ، توحید،ترک غرور، عشقیہ وغیرہ کی سرخیاں جکری پر صرف اس لیے لگائی گئیں کہ موضوع کا اظہار ہو جائے مضمون کی وضاحت ہو جائے ان کا راگ یا راگ کی اقسام سے کوئی علاقہ نہیں۔ قاضی محمود دریائی کے کلام کا نمونہ ملاحظہ ہو۔
جکری دربلاول
سائین کن ایک بار اکھار
ہوں دکھیا کروں جو ہار
تیرے مکھڑے کے بلہار
محمود سائیں سیوک تیرا
توں تو سمرن سائیں میرا
کرین ہماری سار
امت نبی محمدؐ کی یہ
محمود تیرا داس
برکت پیر چایلندھا
سائیں یورویں من کی آس(۶۴)
قاضی محمود دریائی کی ایک او رجکری ملاحظہ ہو(۶۵)
مجہ درسن سائیں کا بھاوے ۔۔ چنت میری اور ناوے
جب ہنس مکھ آپ دکھلا وے ۔۔ سب سکھیاں باوری لاوے
چھپ چانا آبچار جاوے
اس روپ کاوے کھیا ۔۔ دیکھ تاروں تیج نہ سھیا
کر بیٹھ سورج مکھ رھیا
منگل بدلا برہست آرے ۔۔ سکر سینحیر یار جو ھارے
راہ گیسائیں لون اتارے
قاضی محمد میرے من بھایا چاوچا یلندھا پیر میں پایا
ان محمود کیوں میت ملایا(۶۶)
قاضی محمود دریائی کا شمار گجرات کے برگزیدہ صوفیا میں ہوتا ہے۔ موسیقی سے ان کی دل بستگی کا یہ عالم تھا کہ جب وقت مرگ آیا تو محفل سماع منعقد کی۔ وجد و حال کی کیفیت رقص کی کیفیت میں بدل گئی۔ ”اسی حالت میں سجدے میں گر پڑے اور جاں بحق تسلیم کر دی۔(۶۷)
قاضی محمود دریائی کی یہ روایت اپنی تمام خصوصیات کے ساتھ ہمیں شاہ علی جیو گام دھنی کے پاس ملتی ہے۔ جیوگام دھنی اس روایت کو نہ صرف آگے پڑھاتے ہیں بلکہ ”نقطہ عروج تک پہنچا دیتے ہیں۔“(۶۸)
شاہ علی محمود جیو گام دھنی(م ۳۷۹ع/۵۶۵۱ع) شاہ ابراہیم کے بیٹے تھے۔ ان کا کلام ”جو اہر اسرار اللہ“ کے نام سے ملتا ہے۔ انہو ں نے بے شمار جکریاں لکھی ہیں۔ جکریوں کی ہئیت شاہ باجن اور قاضی محمود دریائی کی جکریوں ہی کی ہے لیکن جیو گام دھنی ان کو ”مکاشفہ“ کا نام دیتے ہیں۔باجن کے جکری میں عقدہ، بین اور تخلص اجزاکے نام ملتے ہیں۔ محمد جیو گام دھنی کے یہاں عقدہ، تو برقرار رہتا ہے لیکن بین کو انہو ں نے نکتہ قرار دیا ہے۔ تخلص اپنی جگہ برقرار ہے۔ لیکن عقدہ کو ”نکتہ اول در عقدہ ”قرار دیتے ہیں اسی طرح تخلص کو نکتہ چہارم در تخلص لکھتے ہیں۔ ایک جکری ملاحظہ ہو:
مکاشفہ نکتہ اول در عقدہ
آپین کھیلوں آپ کھلاوں ۔۔ آپین آپس لیکل لاوں
نکتہ دوم: میرا ناوں منجھ ات بھاوے ۔۔ میرا جیو منجھے پر چاوے
میرا نئیہ منجھ سو مائے ۔۔ اھری انیں روپ لبھائے
نکتہ سوم: لا گا نیہ سو منہ سوں میٹھا ۔۔ جد کا سودھن آپس دیتھا
جیکو اینیں روپ لبھاوے ۔۔ سھیو کینو نہ آپ سھرا دے
نکتہ چہارم در تخلص میں منھ دھریا نانوں سنگھاتی شاہ علی جیو ہے منجھ سا تھی
منجھ بن کوئی نہیں جگ مانھاں جیری سہاگن ہوں (۶۹)
شاہ باجن اور قاضی محمود دریائی کی روایت جانم کے یہاں زندہ تابندہ نظرآتی ہے۔ ایک جکری ملاحظہ ہو:
جکری در مقام ملہار
عقدہ: بوج کر لیو کنست اپنارے لال ۔۔ بن شیو میرا کوئی نا کرے سنبال
بین: بچن سورس شہ کے اچھے رے بول ۔۔ مکھڑا خاصہ شہ کا ہے اے امول
دیکھت آوے شہ کوں پرم کلوں
بین: چلوری چال تو میں شیو کیری دیال ۔۔ کھیلیاں باتاں بولیں اپنے رے خیال
کنت سیجری مت جاویں کیاں کھال
تخلص
بولے جانم نیں کس کا جمال ۔۔ شعر چڑیا ہات میرے کیوں لیجائیں کہاں اتال
(۷۰)
حضرت برہان الدین جانم نے بھی کئی جکریاں تصنیف فرمائی ہیں، یہاں صرف ایک جکری کی مثال دینے پر اکتفا کیا گیا ہے۔ جانم نے جکریوں پر ان راگ اور راگنیوں کے نام بھی لکھ دئیے ہیں جن میں ان کو گایا جا سکتا ہے۔ راگ اور راگنیوں کے نام جانم کی ہندوستانی موسیقی سے واقفیت کی دلیل پیش کرتی ہیں۔ چند نام ملاحظہ ہوں در مقام ملار عقدہ، در مقام اڈنہ(کذا اڈانہ) در مقام کوڑی (کذا گوری) در مقام کنڑا(کذا کانڑا) در مقام بلاول، در مقام بھاگڑا وغیرہ وغیرہ۔
الغرض یہ سارا کلام یعنی سہیلا، حقیقت او رجکری”بطور نغمہ“ گانے کے لیے کہا گیا ہے اور ان نظموں کی ہئیت او ران نظموں کا ماخذ ہندوستانی موسیقی کی صنف نغمہ دھر پد ہے او راسی سے یہ نظمیں مستعار ہیں۔
—–
حوالے:
۶۱) بہا الدین باجن اور قاضی محمود دریائی کے درمیانی عہد میں شیخ عبد القدوس گنگوہی کی جکریاں ملتی ہیں، چونکہ ان کا کلام ایک تو برج آمیز ہے اور دوسرے جکری کے ارتقاء میں ممدو معاون نہیں اسی لیے یہاں نظرانداز کیا گیا ہے۔
۶۲) ڈاکٹر جمیل جالبی”تاریخ ادب اردو“ ص ۱۱۲ جلد اول
۶۲) ایضاً ۶۴ و ۶۵) ایضاً ص۱۱۳
۶۶) ایک وضاحت یہاں ضروری معلوم ہوتی ہے کہ موسیقی میں یہ روایت ہے کہ عموماً دھرپد اور خیال میں اجزا کے نام نہیں لکھے
جاتے اس کا تعین خود گائک کر لیتاہے، ممکن ہے اسی لیے مخطوطہ میں جکری کے اجزا کا بیان نہ کیا گیا ہو، لیکن بطور ادبی صنف
سخن ان اجزا کی نشاندہی ضروری ہوگی۔
۶۸،۶۷) ڈاکٹر جمیل جالبی”تاریخ ادب اردو“ ص ۱۱۵ و ۱۱۴ بالترتیب جلد اول۔
۶۹) ایضاً ص۱۱۷ و ۱۱۸
۷۰) ایضاً ص۲۰۹ و ۲۱۰
۔۔۔