دکنی کی مخصوص شعری اصناف : (4) عقدہ – ہیئت و ماخذ :- ڈاکٹر حبیب نثار

Share
ڈاکٹر حبیب نثار

دکنی کی مخصوص شعری اصناف
(4) عقدہ – ہیئت و ماخذ
(سہیلا‘ جکری ‘ حقیقت ‘ عقدہ ‘ مکاشفہ)

ڈاکٹر حبیب نثار
صدر شعبہ اردو‘ سنٹرل یونیورسٹی آف حیدرآباد
حیدرآباد۔ دکن

حقیقت اور جکری کے علاوہ گجرات کے صوفی شعرا کے یہاں عقدہ کے نام سے گیت ملتے ہیں۔ عقدہ کوئی علحدہ شئے نہیں ہے بلکہ جکری ہی کا پہلہ حصہ ہے جسے علحدہ نام دیا گیا ہے۔ کیوں کہ بیشتر جکریوں میں بہر حال عقدہ کی اصطلاح موجود ہی ہے اس لیے اسے کوئی دوسری صنف سمجھنے کے بجائے جکری ہی کا ایک حصہ سمجھنا چاہئے۔

عقدہ کے معنی گرہ کے بھی ہیں اور موسیقی کے رومن زبان میں لفظی معنی ہوا میں گرہ لگانا ہوتے ہیں۔ بہت ممکن ہے کہ عقدہ لکھ کر ہمارے شعرا نے موسیقی میں گائے جانے والی چیز کو گرہ لگانا(جوڑنا۔شامل کرنا) مراد لیاہو…..بہر حال اس توجیح و توضیح کے بعد عقدہ کوئی الگ صنف نغمہ یا گیت نہیں سمجھ لیا جا سکتا بلکہ جکری یا حقیقت ہی کا ایک حصہ ہوجاتاہے۔
راقم الحروف کا خیال ہے کہ سوہلہ یاسہیلا حقیقت اور جکری دراصل ایک ہی حقیقت کے تین مختلف نام ہیں ورنہ موضوع اور ہیئت تینوں کی ایک ہی ہے۔ (بعض شعرا کے یہاں سہیلا کیہیئت تبدیل شدہ ملتی ہے مثلاً جانم) اسی میں شاہ محمد علی جیو گام دھنی کے مکاشفہ کو بھی شامل کر لیا جاسکتا ہے۔ جیو گام دھنی نے دراصل جکری ہی کہی ہے لیکن جدت کی خاطر ایک نیا نام اپنی نظم کے لیے اختراع کیا……نکتہ اول، نکتہ دوم، نکتہ یازدہم وغیرہ جکری کے بین ہی ہیں واللہ عالم بالصواب
حضرت برہان الدین جانم کے لکھے ہوئے کچھ حقیقت ملاحظہ ہو:
حقیقت مقام نٹ
اللہ صدقے ہوں میں تیرے نانوں پر
نانوں پر، گانوں پر ٹھانوں پر
بین اول: نانوں ٹھانوں، گانوں یو کہین ہو نپایا
جن کوئی پایا انہیں چھپایا، ظاہر عین الحق کہایا
بین دوم: یو دل پورا سوتج گاوں ہے
من مانگے سو وہ تجہ ٹھانوں ہے
کل شئے میں محیط سو تج نانوں ہے
ابھوگ: جانم چہار یار تیرے شنا سوں حوراں پریاں
ملک جینا سوں اللہ باقی یو سب فنا سوں (۴۸)
اس حقیقت میں برہان الدین جانم نے پہلے شعر میں ایک سوال کیا ہے اور پھر دو بین میں اس کی تشریح کی ہے اور ابھوگ میں اپنے تخلص کے ساتھ نتیجہ یا حل بیان کیا ہے، یہ حقیقت پوپلے کی بیان کردہ تعریف دھر پد پر صد فیصد صحیح اُترتا ہے۔ ایک اور حقیقت ملاحظہ ہو حقیقت در مقام پھاکہ(کذا بھیاگ) (۴۹)
سہیلی پیو کاں ڈھونڈی توں
ان سب میں موہی رھیا کھے ہوں
شاکا دیکھین پتی موں
بین: ہو دیوانی مجنون پھر ے سر رہی نھیں ٹھانوں
بن اودو جا کون بسے ری تواپنا لیا زمانوں
بین: سو سیانے میل نہ جانے
بھول پڑی تج گت آپ کنواوے
تو پیو کوں پاوے ملنے کی یوریت
ابھوگ: آنکھیں جانم پیو کی چوندھی سمج پڑے ناکس
جس اوٹورے اسے آپ دیکھو ے بھاگ پڑے ہیں تس(۵۰)
اکبر الدین صدیقی سے حضرت برہان الدین جانم کی ان نظموں کو جنھیں حقیقت کے نام سے منظوم کیا گیا ہے پڑھنے میں زبردست تسامح ہوا ہے چنانچہ انہوں نے ان تمام دس بارہ نظموں کو ایک ہی مسلسل نظم بہ نام حقیقت سمجھ لیا ہے اور اس نظم کو نایاب(۵۱) بتاتے ہوئے اپنے مرتبہ”ارشاد نامہ“ (۵۲) میں ایک ہی نظم کے طور پر درج کیا ہے۔
مخطوطہ میں کاتب نے حقیقت کا عنوان لکھ کر ذیل میں سلسلے وار یہی نظمیں لکھتا چلا گیا ہے جس کی وجہ سے اکبر الدین صدیقی کو تسامع ہوا مخطوطہ میں اس کی کیفیت کسی بھی دیوان کی طرح ہے کہ ہر غزل کی ابتدا میں غزل کا عنوان نہیں لکھا جاتا بلکہ مقطع کے بعد مطلع سلسلے وار لکھ دیا جاتا ہے جس کو عروضی ہئیت اور قافیہ وردیف کی بنا پر شناخت کیا جا سکتا ہے۔ اس نظم کو مخطوطہ میں کاتب نے غزل ہی کی نہج پر رقم کر دیا ہے۔ اکبر الدین صدیقی کی غلط فہمی مندرجہ ذیل ”حقیقت“ سے بھی واضح ہوتی ہے اس حقیقت کو یہاں اُسی طرح نقل کیا جاتا ہے جس طرح اکبر الدین صدیقی نے ”ارشاد نامہ“ میں نقل کیا ہے ملاحظہ ہوں، حقیقت:
سیانے عین یونکتاغیر سوں پکڑ یا ناؤں ہوا اوس عین
غیر کا نکتہ میں میٹوں تو پھر دیس سب عین
احد احمد بچ میم کا پرد اباطن میں وہ یک ذات صفت ہو آپ پکڑیا روپ
بھیا بھو بھیکہ میم کا گھونگھٹ بیچ اچاکر اس تھے اس کوں دیک
جو اُن لوڑے تیسے ہو نا ہونے کی یوں دھات
ہوں کیتے سوہوں میں، ہونا ہوں سوتوں کی سات
ہوے میں فانی یوں میچ ہونا بھی ذات صفات
میم پرچھائیں الف کیری یو سب اس کی جھانوں
گھٹ گھٹ گھونگھٹ آپ حسینی موھیا ٹھانویں ٹھانوں
مخفی تھاسو ظاہر ہوا نازوں بد لیا ناؤں (۵۳)
اس حقیقت کو ایک مرتبہ پڑھنے کے بعد قافیہ کی مدد سے ان کے اجزا پر عنوان باسانی دئیے جا سکتے ہیں۔ ”سیانے عین سے سب عین تک“ استھائی کا شعر ہے”احد احمد بیچ میم سے اس کوں دیک“ تک بین اول…..جو اُن لوڑے سے بھیئی ذات صفات تک بین دوم اور”میم پرچھائیں سے نازوں بدلیا ناوں“ تک ابھوگ ہے۔
ایک حقیقت حضرت امین الدین علی اعلیٰ کا بھی ملاحظہ ہو:
(استھائی) جھولو جھولو اپنے پیاسوں ۔۔ ہیل میل جھولو کھولو
ذات پنے میں آیا ۔۔ نور پاک محمد منزہ نور
بھوک کارن کیاظہور
(بین اول) اوسے ہلاتی ہے روح جاری ۔۔ سو ہے حیات کی باندھی ڈوری
یو آشنائی بالک تیری
(بین دوم) ایسے پیلانا ذکر کا دودہ ۔۔ تب تجہ آئے ساری سودہ
دییا عقل سگلا بودہ
(بین سوم) کہیارحمت تجہ پر یے ۔۔ تیرا فضیلت سب پر ہے
محبوب معشوق اپنا تجہ کوں کہے
(ابھوگ) توں ہے اللہ کا پیارا ۔۔ مطلق نور توں ہے سارا
شاہ امین الدین کیئے اظہار(۵۴)
اردو میں سب سے قدیم جکری باجن کی ملتی ہے۔ شیخ بہاء الدین باجن(۰۹۷ھ ۲۱۹ھ/۸۸۳۱ء۔۶۰۵۱ء) برہان پور کے رہنے والے اور شیخ معز الدین کے صاحبزادہ تھے۔ موسیقی سے گہرا لگاو رکھتے تھے اور اسی لیے باجن تخلص اختیار کیا۔ باجن نے لا تعداد جکرئیاں قلمبند کیں ہیں جو ان کی تالیف ”خزینتہ رحمت اللہ“ میں درج ہیں۔
بہاء الدین باجن نے یقینا مکمل جکریاں کہی ہونگیں لیکن ان کے کلام کے مرتبین(۵۵) نے ان کے اس کلام کا ”تیاپا نچہ“ کر دیا ہے چنانچہ ان مرتبین نے کسی عنوان کے تحت کلام باجن کے جو چند شعریا بند درج کیے ہیں ان میں دوسرے اجزا کے اشعار بھی شامل ہو گئے ہیں جن سے ”شتر گربا“ اچھا خاصہ پیدا ہو گیا ہے ڈاکٹر جمیل جالبی نے اپنی کتاب میں ”عقدہ در پردہ صباحی“ اس طرح درج کیا ہے ملاحظہ ہو:
سب پھل باری تو ہیں بھوترا بہو بھر لیو باس
راول میرا راج کرے اسی مندر کے پاس
باجن باجن باجن تیرا تجھ باجن ناجیون میرا(۵۶)
یہ بند عقدہ کا ہر گز نہیں ہو سکتا یہ تو صاف صاف ابھوگ یا تخلص ہے ایک اور مثال دیکھے ڈاکٹر جمیل جالبی نے اس پر ”در پردہ صباحی کا بین“ کی سرخی لگائی ہے۔
اللہ سیتیں جسے کوئی ہوئے۔۔ اللہ اور جگ اس کا ہوئے
من مراد گھر بیٹھے پاوئے۔۔ اس کو مار نہ سکے کوئے
کوئی اللہ کے سیتیں باجن درویش پر مناوے
اللہ ہوں کوچہ سیتیں بھئی بہکیاوے(۵۷)
آخیرکے دو مصرے سیدھے سیدھے ابھوگ ہے جس میں باجن کا تخلص بھی آیا ہے۔ باجن کی ایک مکمل جکری دیکھئے جس کے پہلے شعر کو عقدہ کہا گیا ہے۔
عقدہ در پردہ ٹوری(کذا توڑی)
عقدہ: کیوں نہ لاوں چند نا
اب ماہ پربالا بنا
بین اول: شہ جو لایا چند ناچو یا چولہ مہو کے
بوئی جو آئی نوشہ کی میرا جیورا ہو کے
بین دوم: جائی جوئی موگرا چن چن لایا مالی
کچھ کندری کچھ کھولے شہ تیری تائیں تھالی
بین سوم: مائی بہنے مل کر دیو یوں آسیا
یہ بنا بنی جیوے ری کو الگ پریسا
تخلص: باجن تیرا باو لا تجھ کا رن پہنے دھمکے
نبی محمد مصطفیؐ سیں نور جگ میں جھمکے(۵۸)
بہاء الدین باجن کے کلام ہی سے ایک مثال مزید ملاحظہ ہو ڈاکٹر جمیل جالبی نے اپنی مرتبہ تاریخ ادب اردو میں جس طرح درج کیا ہے یہاں اسی نہج پر درج کیا جاتا ہے واضح رہے کہ اس عقدہ کے ہیئتی اجزا پر ڈاکٹر جمیل جالبی نے کوئی سرخی نہیں لگائی ہے۔
عقدہ در پردہ بلا ول:
شراب محبت بھر بھر پیالے ۔۔ آتش عشقت نقل نوالے
پس روے رسولؐ مالا مالی ۔۔ نبی رسول ؐکی چنوں جالی
بھکاری آیا عیدی مانگے ۔۔ پیری کا کچھ تجھ دھر سانکے
صحت تن اور عمر دراز ۔۔ رزق فراخ تو فیق نماز
او کن سکلی کن کر لئیں ۔۔ باجن کو دیکھیں لئیں
موجودہ ہیئت میں جیسا کہ اس جکری کو درج کیا گیا ہے پانچ شعر کی آزاد غزل ہے۔ جو اپنی جگہ مکمل ہے۔ (حالانکہ مکمل جکری ہے کہ پہلا شعر عقدہ پھرتین بین اور تخلص آخری شعر، اس تفریق و ترتیب میں ردیف مدد دیتی ہے اور مخطوطات میں جکری کا مطالعہ کرتے ہوئے انہی ردیفوں کو رہنما بنانا ہوگا) لیکن اس طرح لکھ دینے سے جکری کی ہئیت یکلخت بدل کر سامنے آتی ہے جو غلط فہمی کو راہ دے سکتی ہے۔ چنانچہ ڈاکٹر ظہیرالدین مدنی کو بھی یہی تسامح ہوا ہے۔ قاضی محمود دریائی کی ایک جکری نقل کر کے وہ لکھتے ہیں (جکری او ر تحریر ملاحظہ ہو)
درملہار:
آیوری مجہ ملن کے کاج ۔۔ تجہ پر ییار میراہے آج
تپتی تھما نت جپتی تھی ۔۔ تجہ کارن بھی کھپتی تھی
کہہ سکھی تو یوں مجہ راکھیں۔۔ جن جن آگیں کرج ناکھیں
چھپا رہتا ہوں تجہ پاس ۔۔ کیوں نہ ملے تورا سکہ راس
محمود پر گٹ نیکجیں پیار ۔۔ لوک جانے تو آے کھار(۵۹)
اس جکری کو درج کرنے کے بعد ڈاکٹر ظہیر الدین مدنی لکھتے ہیں ”جکری ہئیت میں مثنوی ہے مگر بہ اعتبار خیال غزل ہے۔“(۶۰)
ڈاکٹر ظہیر الدین مدنی کو بھی اسی طرح تسامح ہوا ہے جس طرح ڈاکٹر جمیل جالبی کو ہوا مندرجہ بالا جکری غزل یا مثنوی کی ہئیت میں نہیں بلکہ جکری کی اپنی ہئیت میں لکھی گئی ہے چنانچہ پہلا شعر عقدہ ردیف کاج، آج دوسرا شعر بین اول ردیف جپتی تھی کھپتی تھی۔ تیسرا شعر بین دوم ردیف راکھیں، ناکھیں چوتھا شعر بین سوم ردیف تجہ پاس، سکہ راس، اور آخری شعر تخلص ہے جس میں شاعر کا تخلص موجود ہے ردیف پیار، کھار۔
(جاری)
—–
حوالے :

۴۸) حضرت برہان الدین جانم”ارشاد نامہ“ ص۷۴ مرتبہ اکبر الدین صدیقی۔
۴۹) جناب اکبر الدین صدیقی صاحب نے ان مصرعوں کو ایک ہی سطر میں مکمل لکھ دیا ہے جبکہ پہلی سطر تین مصرعوں پر مشتمل ہے۔
بین اول دو مصرعوں پر مشتمل ہے اور بین دوم تین مصرعوں پر مشتمل ہے۔ راقم الحروف نے مصرعوں کی شناخت کی غرض سے خط کھینچ دیا ہے۔
۵۰) حضرت برہان الدین جانم”ارشاد نامہ“ ص۸۴ مرتبہ اکبر الدین صدیقی۔
۵۲، ۵۲) ایضاً ص ۷۴ ۔ ۵۳) ایضاً ص ۹۶،۰۷
۵۴ ) بحوالہ ڈاکٹر جمیل جالبی”تاریخ ادب اردو“ ص۴۱۳ جلد اول۔ ڈاکٹر جمیل جالبی نے اس گیت کو درج کرنے سے قبل صرف اتنا لکھا ہے کہ گجری روایت کی پیروی میں اعلیٰ نے گیت لکھے ہیں، چنانچہ یہ گیت بغیر کسی ذیلی عنوان درج کیا ہے۔ راقم الحروف
نے قوسین میں اس گیت کے اجزا لکھ دئیے ہیں۔
۵۵) شیخ بہا الدین باجن کی تالیف،”خزینتہ رحمت اللہ“ ابھی غیر مطبوعہ ہے۔ اسی لیے تاریخ ادب اردو کے مرتبین پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔
۵۶) ڈاکٹر جمیل جالبی”تاریخ ادب اردو“ جلد اول ۸۰۱
۵۷) ایضاً ۔۵۸) ایضاً ۔۵۹) بحوالہ”سخنوران گجرات“ مولفہ ڈاکٹر ظہیر الدین مدنی ص۰۷ سنہ اشاعت ۱۸۹۱ء
۶۰) ایضاً ص۸۷

Share
Share
Share