دکنی کی مخصوص شعری اصناف
(3) حقیقت – ہیئت و ماخذ
(سہیلا‘ جکری ‘ حقیقت ‘ عقدہ ‘ مکاشفہ)
ڈاکٹر حبیب نثار
صدر شعبہ اردو‘ سنٹرل یونیورسٹی آف حیدرآباد
حیدرآباد۔ دکن
اردو میں سب سے قدیم”حقیقت“ راگنی کے تحت حضرت خواجہ بندہ نواز گیسو درازؒ کے ملتے ہیں۔(۲۸) لیکن زبان کی صفائی کے لحاظ سے ان کو حضرت خواجہ بندہ نواز کی تخلیق تسلیم کرنے میں تکلف ہوتا ہے۔ جضرت برہان الدین جانم اور حضرت امین الدین علی اعلیٰ کے کلام میں بھی حقیقت ملتے ہیں۔ حضرت برہان الدین جانم کے کلام سے ایک ”حقیقت“ یہاں نقل کیا جاتا ہے۔ ملاحظہ ہو:
حقیقت در مقام کوری(کذاگوری)
میں عاشق اس پیو کے جنے منجے جیو دیا ہے
او میرے جیو کا برقا لیا ہے
بین اول:. او معشوق آپیں بے مثل ہے نور نبی نپایا
اپس اپین دیکھنے کیسی آرسی لایا
بین دوم: ھر کھر ے پیو جیو میں اپیں آپ دکھا دے
ایسی میٹھی معشوق کوئی کیوں دیکھین پاوے
جن دیکھے پیوا پنا اوسے اور نا بھاوے
بین سوم: کل شئے میں محیط ہے اوسے کوئی نہ پچھانے
جیے کوئی عاشق اس پیو کی اوجیو میں جانے
اس کوں دیکھت گم ہوئے جیے دیوانے
ابھوگ: خواجہ نصیر الدین سنائیاں جنو پیو کوں پائے
جیو کا گھو نگھٹ کھول کر مکہ پیو دیکھواے
آکھے سید محمد حسینی پیو کا سکہ کھیا نہ آوے(۲۹)
برہان الدین جانم کی کہی ہوئی اس حقیقت کی ہیئت یہ ہے کہ پہلے ایک شعر ہے پھر تین بین اور پھر آخر میں ابھوگ….
پروفیسر گیان چند جین”حقیقت“ پر اظہار خیال کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
”بندہ نواز، جانم اور امین الدین اعلیٰ کے حقیقت کے عنوان سے گیت ملتے ہیں جن میں راگنی کی تخصیص کی جاتی ہے۔ میری نظر سے ان کے جو حقیقت کے گیت گزرے ہیں ان سب کے بندوں کو ”بین“ لکھا ہے چوں کے ان میں کوئی بینیہ موضوع نہیں اس لیے خیال ہوتا ہے کہ یہ جکری کا حصہ ہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جکری کا ”پیسن“ دراصل بین ”ہو جس کے معنی”درمیان“ ہوں مجھے شبہہ ہوتا ہے کہ حقیقت جکری ہی کی ایک شکل ہے۔(۳۰)
ا س اقتباس میں پروفیسر گیان چند جین کے چند قیاس بڑے اہم ہیں:
(۱) حقیقت کا بین جکری کا حصہ ہو سکتا ہے۔
(۲) جکری کا ”پیسن‘‘ دراصل بین ہو جس کے معنی درمیان ہوں۔
(۳) مجھے شبہہ ہوتا ہے کہ حقیقت، جکری ہی کی ایک شکل ہے۔
استاد محترم پروفیسر گیان چند جین کے یہ قیاس بالکل صحیح ہے۔
دراصل بین کے معنی جکری اور حقیقت میں ”درمیان ہی کے ہیں“ اس کو صحیح سمجھنے کے کئی وجوہات ہیں۔ جو ذیل کی بحث سے سامنے آینگے۔
حقیقت اور جکری کا بغور مطالعہ ہم پر یہ بات واضح کر دیتا ہے کہ ان گیتوں میں درمیان کے اشعار یا بندوں کو بین کہا گیا ہے بعض جکریوں میں ”پیسن“ ہے۔ یہ ”پیسن“ دراصل کم سواد کاتب کی”عقلمندی“ ہے ورنہ حقیقتاً یہ بھی ”بین‘‘ بمعنی درمیان ہی ہیں۔آئیے اب جکری کے دوسرے اجزا کا جائزہ لیں۔
”حقیقت“ میں جو پہلا شعر یا بند لکھا جاتا ہے اسے کوئی نام نہیں دیا گیا ہے لیکن یہ طے ہے کہ گیت کی شروعات اسی شعریابند سے ہوتی ہے۔ اسے ہم کیوں نا سہیلا کے پہلے بند کی طرح استھائی کا نام دیں……اور جیسے ہی ہم حقیقت کے اس بند کو یعنی پہلے بند کو استھائی کہنگے اس صنف نغمہ کی ہئیت ہمارے سامنے بالکل آئینہ ہوجاتی ہے یعنی استھائی آگئی بین موجود ہے جسے ہم نے ”درمیان“ والے بند سے تعبیر کیا ہے یعنی گیت کے درمیان گا یا جانے والا چنانچہ استھائی کے بعد آخری شعر تک جتنے ”بین“ ہیں وہ درمیان میں گائے جانے والے ہی ہوں گے…. اب آئیے حقیقت والی نظموں کے آخری شعریا بند کی جانب……اوپر دئیے گئے”حقیقت“میں اس کے آخری بند پر عنوان ”ابھوگ“ لکھ کر حضرت برہان الدین جانم نے ہماری مشکل آسان کر دی ہے او رلیجئے اس ابھوگ نے حقیقت کے آئینہ پر پڑی ہوئی گرد بالکل صاف کر دی کہ ”ابھوگ“ دھر پد کی اصطلاح ہے۔ (تعجب ہے کہ ہمارے بزرگ محققین نے اس اصطلاح پر توجہ نہ دی)
راقم الحروف نے اپنے ایم فل کے مقالے میں دھر پد کیہیئت اور اس کے مختلف اجزا کے بارے میں لکھا ہے ایک اقتباس ملاحظہ ہو
”دھرپد ایک خاص قسم کا گانا ہے جس میں خصوصاً حمد و ثنا، دیوتاؤں کی تو صیف، بادشاہوں کی تعریف و مدح یا شجاعت کے کارنامے باندھے جاتے ہیں دھرپد کے چار حصے یا ٹکڑے ہوتے ہیں…..استھائی، سنچاری یا سنچائی، انترا او رابھوگ……(۳۱)
مزید استناد کے لیے ایک انگریزی تصنیف کااقتباس ملاحظہ ہو:
"It contains all the four parts namely, sthayee, antara, sanchari and abhoga (32)”
H.A. Popley کو ہندوستانی موسیقی کے ماہرین میں شمار کیا جاتا ہے، انھوں نے دھرپد کی ان چار اصطلاحوں کی تشریح بیان کی ہے۔ ملاحظہ ہو:
"These melodies consist of a number of parts. In the south these are called Pallavi, Anupallavi and Charanam and in the north Astai, Antara, Sanchari and Abhog, the Astai contains the main subject of the melody,….. the Antara contains the second subject,….. the sanchari contains phrases from the former with or without modification……Abhog, which is really a Coda, and often includes the name of the composer”(33)
پو پلے نے واضح لکھ دیا ہے کہ ابھوگ میں نغمہ منظوم کرنے والا اپنا”تخلص“ لے اتا ہے’جکری میں تخلص ہی توہوتا ہے۔ اس سے ایک بات یہ سامنے آئی کہ حقیقت کا ابھوگ او رجکری کا تخلص ایک ہی شئے کے دو نام ہیں۔ اسی کے ساتھ یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ چاہے وہ حقیقت ہو، یا جکری، دونوں ہندوستانی موسیقی کی مشہور صنف نغمہ دھر پد کی ہیئت پر مشتمل ہیں۔ ابو الفضل نے ”ائین اکبری“ میں لکھا ہے کہ ”دھر پد جیسا تان سین نے گایا آج تک کسی اور نے نہ گایا اور تان سین جیسا فنکار ہزار برس میں پیدا ہوتا ہے۔ (۳۴) تان سین کی گائیکی کے سلسلے میں یہ ایک اہم اور ہمعصر شہادت ہے اب تان سین ہی کا ایک دھر پد دیکھئے، موضوع اور ہیئت دونوں بھی اس لیے توجہ کے طالب ہیں کہ یہی موضوع او ریہی ہئیتہمیں حقیقت اور جکری میں ملتی ہے ملاحظ ہو:
حجرت کو س (۳۵)عالم محمد کو س(۳۶) میران محی الدین معین الدین
خواجہ کتب دین(۳۷) تم دور کر و دکہ دالدر اور کتین کے رنج انترا: اللہ اکبر کو کرو مہربان مان مہت جوبڈہی
کاس(۳۸)سکہ انند کے دستکیر(۳۹)تم سیخ فرید شکرکنج(۴۰)
پترابند: سیخ جہور(۴۱)کپور(۴۲) ہادی حمید ساہ مدار کروپار
سیخ بایزید بسطامی اولیاء ملان موج
سیخ نصیر الدین چراگ(۴۳)دہلی شمس اوتاولی
سیخ صلہ خیر صلہ،ہوئی ہمکوبرت بہہیی دالدر بہنج
ابہوگ: سیخ نور کتب عالم سیخ شرف الدین شاہ منصور کے
سیخ بہا الدین سر مست خواجہ کرک شاہ عالم داول
ملک پیر ملتان تان سین جو مانکین جہٹی ہو ادا
آنند بہرون رہو سنن بہت جیون پر بہلت کنج(۴۴)
پوپلے نے لکھا ہے کہ سنچائی sanchari میں استھائی او رانترا یعنی دھر پد کے پہلے اور دوسرے حصہ ہی کے مضمون کو آگے بڑھایا جاتا ہے۔ یہاں پترا بند سنچائی ہی کا نعم البدل ہے یہ ضروری نہیں کہ کسی دھر پد میں ایک ہی انترا موذوں کیا جائے یا ایک ہی سنچائی لکھی جائے۔ بعض لکھنے والے گائک کی سہولت کے لیے کئی انترا او رکئی کئی سنچائی یا پترا بند لکھتے ہیں البتہ استھائی اور ابھوگ ایک ہی ہوتا ہے جس پر راگ راگنی کا انحصار ہوتاہے۔
تان سین کے اس دھر پد کو اگر سند نہ بھی تسلیم کیا جائے تو ابراہیم عادل شاہ ثانی کے کلام کی سند پیش کی جا سکتی ہے۔ جس نے اپنی تالیف”کتاب نورس“ میں حقیقت کی ہئیت کے آئینہ پر جمی ہوئی گرد کے لیے اپنے دھر پد کا جوہر مہیا کیا ہے ملاحظہ ہو، ایک دھرپد…..در مقام کنڑا نورس
استھائی: آئین مل رے پیارے سجن ۔۔ نول لال دالد ربھجن
بین: یا قوتنی ہر د بجرنی لگن ۔۔ سوہا نسنی پیک اس بیچ دسن
بین: ادھرسیپنی ڈھال موتی بچن ۔۔ زہرا مشتری نخشاری چندر بدن(۴۵)
تان سین کے دھرپد میں استھائی کے بعد انترا اور پترا بند لکھا گیا ہے ابراہیم عادل شاہ ثانی نے اپنے اس دھر پد میں استھائی کے بعد کے دونوں اشعار پر بین کی سرخی لگائی ہے ڈاکٹر نذیر احمد(۴۶) نے جگت گرو کے دھر پد کے درمیان والے اشعار کو بین ہی پڑھا اور بین ہی لکھا ہے جبکہ ڈاکٹر جمیل جالبی نے انھین”پین“ پڑھا ہے (۴۷) اس تفصیل سے یہ بات صاف ہو جاتی ہے کہ حقیقت او رجکری کی ہئیت ہندوستانی موسیقی کی صنف نغمہ دھرپد سے مستعار ہے، اور دھرپد ہی ان کا ماخذ ہے، استاد محترم پروفیسر گیان چند جین نے لکھا ہے کہ”مجھے شبہہ ہوتا ہے کہ حقیقت جکری ہی کی ایک شکل ہے۔“
راقم الحروف کا خیال ہے کہ جکری اور حقیقت ایک ہی صنف نغمہ وصنف نظم ہے جس کے دو نام ہیں۔
(جاری)
—–
حوالے:
۲۸) نصیرالدین ہاشمی ”مقالا تِ ہاشمی“ حصہ اول ص۶۱ مطبع تاج کپمنی لمٹیڈلاہور طبع اول
۲۹) حضرت برہان الدین جانم”ارشاد نامہ“ مرتبہ محمد اکبرالدین صدیقی ص۹۶
۳۰) پروفیسرگیان چند جین”اردو نظم اور اس کی اصناف“ ص۰۲
۳۱ ) حبیب نثار”اردو کی چند منتخب تخلیقات میں ہندوستانی موسیقی کے نقوش ”مقالہ برائے ایم فل غیر مطبوعہ ص ۱۲ مخزونہ حیدرآباد
سنٹرل یونیورسٹی لائبریری، حیدرآباد۔
۳۲) Shripada Bando Padhyaya” The Music of India P.56 First Edition
۳۳) H.A. Poetry ” The Music of India” P.89-90 2nd Edition 1950
۳۴) ابو الفضل”آئین اکبری“ مترجمہ اردو ص۲۵
۳۵) حضرت غوث ۳۶) قطب الدین ۳۷) خاص ۳۸) دستگیر ۳۹) گنج
۴۰) ظہور ۴۱) غفور ۴۲) چراغ ۴۳) قطب
۴۴) خوش حال خاں قوال”راگ راگنی روز و شب“ ص ۲۳ الف مخطوطہ کتب خانہ سالا رجنگ شعبہ مخطوطات فن موسیقی نمبر شمار ۳۳۴۔
یہ مخطوطہ اردو ہی میں لکھا گیا ہے تاریخ تصنیف ۸۴۲۱ھ۔
۴۵) ابراہیم عادل شاہ ثانی”کتاب نورس“ مرتبہ ڈاکٹر نذیر احمد ص ۲۷ سنہ اشاعت ۵۵۹۱ء
۴۶ و ۴۷) ڈاکٹر جمیل جالبی، ”تاریخ ادب اردو“ ص۵۱۲ جلد اول قدیم دور