دکنی کی مخصوص شعری اصناف
(2) جکری : ہیئت و ماخذ
(سہیلا‘ جکری ‘ حقیقت ‘ عقدہ ‘ مکاشفہ)
ڈاکٹر حبیب نثار
صدر شعبہ اردو‘ سنٹرل یونیورسٹی آف حیدرآباد
مضمون کی پہلی قسط (شعری صنف سہیلا) کے لیے کلک کریں
حقیقت کی ہیئت اور مواد کے تعلق سے ہمیں کوئی قدیم روایت نہیں ملتی اس صنف کی ہیئت کے بارے میں اظہار خیال ہمارے عہد کے بزرگ محققین نے ہی کیا ہے۔ راقم الحروف کا خیال ہے کہ حقیقت اور جکری دراصل ایک ہی سکہ کے دو مختلف رخ ہیں۔
اس سلسلے میں تفصیل سے بحث درکار ہوگی۔ اس بحث سے قبل ایک نظر ”جکری“ کے موضوع اور اس کی ہیئت پر ڈال لیں تاکہ حقیقت او رجکری پر سیر حاصل بحث کی جا سکے۔
حضرت شیخ بہاو الدین باجن نے ”خزائن رحمت اللہ“ کے ”خزینہ ہفتم‘‘ میں جکری کی تعریف کرتے ہوئے اس صنف نغمہ کے مقصد و ماہئیت پر روشنی ڈالی ہے۔ لکھتے ہیں:
”درذکر اشعار کہ مقولہ این فقیر است، بزبان ہندوی جکری خوانند و قوالان ہند آمنرادرپردہ ہائے سرودمی نوازند و می سرایند، بعضے در مدح پیر دستگیرو وصف روضہ ایشان و وصف وطن خود کہ گجرات است و بعضے در ذکر مقصد خود و مقصودات مریداں
و طالبان وبعضے در ذکر عشق و محبت……..“(۱۶)
اس اقتباس کے مطالعہ سے حضرت شیخ بہاو الدین باجن کے موضوعات کا علم ہوتا ہے جو انھوں نے اپنے کہے ہوئے جکریوں میں باندھے ہیں۔ اسی کے ساتھ یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ جکری کا کوئی موضوع مخصوص نہیں۔ ڈاکٹر ظہیر الدین مدنی،قاضی محمود دریائی(متوفی ۱۴۹۱ھ/۴۳۵۱ء) کے ترجمے میں جکری کا تعارف ان الفاظ میں کرتے ہیں۔
”اس دور میں جکریاں بہت مقبول تھیں مجالس حال وقال میں قوال مزا میر کے ساتھ گاتے تھے۔ جکریاں ہیئت میں نظم او رخیال کے اعتبار سے غزل ہوتی ہیں۔ (۱۷)
ڈاکٹر جمیل جالبی جکری کے موضوعات اور ان کے محل استعمال پر اظہار خیال کرتے ہوئے لکھتے ہیں…..
”جکری(جکری، ذکری کی گجری شکل ہے) میں بنیادی طور پر ذکر خدا، ذکر رسولؐ، ذکر پیرو مرشد، ذکر تجربات باطنی و واردات روحانی کو اس طور پر ایسے اوذان اور ایسے عام فہم الفاظ میں لکھا جاتا تھا کہ اسے گایا بھی جا سکے اور سازوں پر بجایا بھی جا سکے۔ جکری کی حیثیت مختصر گیت یار اگ راگنیوں کے ان بولوں کی تھی جنھیں گا بجا کر لوگوں کے اندر عالم وجد و سرور پیدا کیا جا سکے۔ اس میں عشق و محبت کے جذبات بھی ہوتے تھے اور ایسے ناصحانہ مضامین بھی جن سے مریدوں اور طالبوں کی ہدایت ہو سکے“۔(۱۸)
ڈاکٹر جمیل جالبی نے جکری کی تعریف کو بہت ہی گڈ مڈ کر کے بیا ن کیا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ وہ موسیقی کے اصناف ہائے نغمہ اور موسیقی کے سازو ں کے ماہیت سے بالکل ہی واقف نہیں ہیں۔ ورنہ وہ یہ جملہ ہر گز ہرگز نہ لکھتے کے ”ان گیتوں کو گایا بھی جاتا ہے اور سازوں پر بجایا بھی جاتا“۔ ساز پر صرف راگوں کے نوٹیشن بجائے جاتے ہیں جن سے ایک دھن بنتی ہے بھلا ذکر رسولؐ اور تجربات و واردات روحانی کو کس طرح ساز پر ادا کیا جا سکتا ہے…..علاوہ ازیں ڈاکٹر جمیل جالبی کے یہ جملے بھی گول مول ہیں۔ ”جکری کی حیثیت مختصر گیت یار اگ راگنیوں کے ان بولوں کی تھی جنھیں گا بجا کر لوگوں کے اندر عالم وجد و سرور پیدا کیا جا سکے“ گویا جکری کوئی صنف نغمہ نہ ہوا بلکہ”وجد و سرور‘‘ لانے کا انجکشن ہو گیا کہ لوگوں کے اندرInjectکیا جا سکے۔
حافظ محمود شیرانی نے ”اخبار الاخیار“ کے حوالے سے جکری کی تعریف درج کی ہے جو حسب ذیل ہے۔
”جکر ی ہائے وے کہ بزہان ہند دارد، دستور قوالان آن دیار است بغایت مطبوع وموثر و بے تکلف و آثار عشق ووجداز سخنان وے لایح است“(۱۹)
ان سطور سے معلوم ہوتا ہے کہ ”جکری“میں عشقیہ مضامین بھی بیان کیے جاتے تھے اور اسے قوال گایا کرتے تھے۔ ”صاحب خزینتہ الاصفیاء“ کے حوالے سے محمود شیرانی نے جکری کی ایک اور تعریف نقل کی ہے۔ ملاحظہ ہوں
”اشعارعاشقانہ بزبان ہند فرمودے کہ قوالان آن دیار بوقت سماع اشعار آنجناب بہ مجلس اصفیا میخو انند و بغایت موثر می باشند۔“(۲۰)
اس اقتباس میں آنجناب سے مراد قاضی محمود دریائی ہیں جن کے ذکر میں مندرجہ بالا سطور تحریر کیے گئے ہیں۔ علاوہ ازیں ”بزبان ہند“ سے آج کی مروجہ راشٹر بھاشا ہندی نہیں، پروفیسر گیان چند جین(۲۱) کے متذکرہ مضمون میں بھی ہندی سے مراد”اردو“ ہی ہے جس کا ایک نام ہند، کی مناسبت سے ہندی تھا۔ پروفیسر گیان چند جین، اپنے ایک مضمون میں اسی گتھی کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”یہ بھی یادر ہے کہ اس زمانے میں ہندی اردو کا فرق پیدا نہ ہوا تھا بلکہ دونوں زبانیں ایک ہی تھی۔ سہولت کے لیے ہم خسرو کی کھڑی بولی، برج شاعری کو نہ کہہ کر ہندی کہتے ہیں۔ اس دور میں کسی زبان کو نہ اردو نام دیا گیا تھا نہ ہندی….ہندی ایک ایسا لیبل تھا جو شمالی ہند کی ہر آریائی زبان پرچسپاں کر دیا جاتا تھا (۲۲)
چونکہ پروفیسر گیان چند جین حضرت امیر خسرو کی زبان پر مضمون لکھ رہے تھے اس لیے”شمالی ہند کی ہر آریائی“زبان پر ہندی کے لیبل کا چسپان ہونا بیان کیا ہے یہی لیبل جنوب سے متعلق ان تمام زبانوں پر چسپان کیا جاتا تھا جو گجری، دکنی و بیجاپوری کے نام سے جانے جاتے ہیں۔
محمود شیرانی جکری کی اصل کا قیاس کرتے ہوئے لکھتے ہیں……”جکری دراصل ذکر“(۲۳) کی بگڑی شکل ہے۔اس کا اطلاق ایسی نظموں پر ہوتا ہے جن میں اور مضامین کے علاوہ سلسلے کا شجرہ اور مشائخ کی مدح ہوتی تھی(۲۴)۔ پروفیسر گیان چند جین جکری کے سلسلے میں ”شیرانی کی تاویل“(۲۵) کو صحیح قرار دیتے ہیں اور حقیقت بھی یہی معلوم ہوتی ہے۔ بقول حافظ محمودشیرانی کتاب چشتیہ کے حوالے سے لکھتے ہیں۔
”جکری کے لیے ہندوستانی موسیقی کے چند راگ مخصوص ہیں یعنی للت، بلاول، دیساکھ، توڑی، سیام بیراری، دھنا سری، اساوری، دیوگیری، پوربی، کلیان، کانڑا،بھاکرہ اور گنڈ(کذا گونڈ) (۲۶)
جکری گجرات میں مقبول ہونے سے قبل شمال میں معروف تھی چنانچہ حضرت نظام الدین اولیاء کو”جکری‘‘ سننے سے حال آیاتھا جس کے متعلق صاحب”سیرالاولیا“ لکھتے ہیں:
”قوال جکری از مولانا وجہہ الدین بصوتے مرق می گفت و غالب ظن من آنست کہ این جکری بود(پنیا بن بہاجی ایسا سکھ سیں باسوں) حضرت سلطان المشائخ را این ہندوی اثر کرد“(۲۷)
قدیم دکن اور گجرات میں یہ گیت شمال سے متاثر ہونے کے بعد ہی ارتقاء پاتے ہیں۔ دکنی میں ان گیتوں کی تین جہتیں مشہور و معروف تھیں۔ سہیلا، حقیقت، اور جکری(عقدہ اور مکاشفہ ضمنی حیثیت کی حامل ہیں)
سہیلا اور جکری کے سلسلے میں تفصیل سے لکھا جا چکاہے۔ حقیقت کے نام سے جو نظمیں ہمیں حضرت خواجہ بندہ نواز گیسو دراز کے یہاں ملتی ہیں اور جن کی روایت خانوادہ شمس العشاق تک رواں دواں چلی گئی ہے، ایسے گیت ہیں جن میں تصوف کے مضامین ”مجاز کے لباس’‘میں باندھے جاتے ہیں۔
(جاری)
—–
حوالے :
۱۶) ڈاکٹر جمیل جالبی”تاریخ ادب اردو“ جلد اول دور قدیم ص۷۰۱
۱۷ ) ڈاکٹر ظہیر الدین مدنی”گجری اور دکنی اردو“ مضمون مشمولہ دکنی اردو مرتبہ ڈاکٹر عبد الستار دلوی ص ۸۲، بار اول ۷۸۹۱ء
۱۸) ڈاکٹر جمیل جالبی”تاریخ ادب اردو“ ص۷۰۱
۱۹) محمود شیرانی”مقالات شیرانی“ مضمون”گوجری یا گجراتی اردود سوین صدی ہجری میں ۶۷۱ جلد اول مرتبہ مظہر محمود شیرانی طبع
اول جنوری ۶۶۹۱ء
۲۰) محمود شیرانی”دسویں صدی ہجری کے بعض جدید دریافت شدہ ریختے“ مشمولہ”مقالات شیرانی“ جلد دوم ص۰۸
مرتبہ مظہر محمود شیرانی طبع اول ۶۶۹۱ء
۲۱) پروفیسر گیان چند ”اردو نظم اور اس کی اصناف“ ص۹۱
۲۲) پروفیسر گیان چند”امیر خسرو کی کھڑی بولی کی شاعری“ مضمون مشمولہ”حقائق“ ص۰۱۱ سنہ اشاعت جون۸۷۹۱ء
۲۳،۲۴) حافظ محمود شیرانی”اردو کے فقرے اور دوھرے آٹھویں اور نوین صدی ہجری کی فارسی تصنیفات سے ص۲۴۱ مشمولہ مقالات شیرانی جلد اول مرتبہ مظہر محمود شیرانی۔
۲۵) پروفیسر گیان چند”اردو نظم اور اس کی اصناف“ ص۰۲
۲۶) محمود شیرانی”مقالات شیرانی“ جلد اول ص۷۷۱
۲۷) ایضاً ص۲۴۱