اردو لسانیات کے مقالات و مضامین کا وضاحتی اشاریہ
ڈاکٹر رضیہ دانش
زبان سے متعلق ماہرین کا قول ہے کہ کوئی بھی زبان بچپن ہی میں سیکھی جاسکتی ہے اور ایک بار یہ وقت گزر جائے پھر کسی نئی زبان پر مکمل عبور حاصل کرنا محال ہے۔ انسان کو دوسرے حیوانوں سے ممیز کرنے والی خصوصیات میں ”زبان“ کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ اظہار کے کئی ذرائع ہیں جیسے ہاتھ کے اشارے، چہرے کے اتار چڑھاؤ یا اچھل کود وغیرہ۔ لیکن اظہار خیال کا سب سے زیادہ موثر اور مکمل ذریعہ زبان ہی ہے۔ کسی زبان کے بننے میں معاشرہ ، مذہب، ادب، سیاست، فوجی سرگرمیاں، تعلیم، معاشی حالات اور سائنسی ترقی جیسے عوامل کارفرما رہتے ہیں۔
اسی زبان کے سائنسی نقطہ نظر سے مطالعہ کو لسانیات کہتے ہیں۔ لسانیات زبان کی تعلیم کا بہترین ذریعہ ہے لسانیات ہی کی مدد سے زبان کی تعلیم کے مقاصد متعین کیے جاسکتے ہیں۔ لسانیات یہ بتاتی ہے کہ زبان آوازوں سے بنی ہے اس سے یہ احساس اجاگر ہوتا ہے کہ زبان کا تلفظ اور زبان گفتہ بہت اہم ہیں۔ زبان کی آواز کے سائنٹفک ڈھنگ یا منظم طور سے مطالعہ کو صوتیات کہتے ہیں لسانیات میں صوتیات کو کلیدی حیثیت حاصل ہے۔ صوتیات کا تعلق بولی جانے والی زبان سے ہے یعنی مصوتوں اور مصمتوں کی ادائیگی میں اعضائے تکلم میں کس طرح کی حرکت پائی جاتی ہے وغیرہ۔
گلسن کا بیان ہے کہ ”کسی بھی زبان میں اس کی گرامر کے پچاس فی صدی اور ذخیرہ الفاظ کے دس فی صدی علم سے کام چلایا جاسکتا ہے۔ لیکن اگر اصوات کا سو فی صد علم نہ ہو تو ایک جملہ بھی صحیح نہیں بولا جاسکتا۔“
زیر مطالعہ کتاب جو کہ میرا ایم۔فل کا مقالہ ہے چوں کہ مجھے لسانیات کے علم سے دلچسپی رہی ہے۔ موضوع کے انتخاب کے دوران میں یہ بات ذہن نشین رہی کہ کوئی نیا کام کیا جائے۔ موضوع ایسا ہو جس پر کسی نے ابھی تک قلم نہ اٹھایا ہو۔ چوں کہ لسانیات کا علم دنیا میں بڑی تیزی سے پھیل رہا ہے اور خود لسانیات کی شاخیں بھی ہر روز بڑھتی جارہی ہیں لہذا لسانیات کے علم میں دلچسپی کے باعث اس نوعیت کا موضوع منتخب کیا گیا۔
”اشاریہ دراصل اشارہ کو کہتے ہیں“ زیر بحث کتاب ” اردو لسانیات کے مقالات و مضامین کا وضاحتی اشاریہ “ میں چھ ماہ کے مختصر عرصے میں اردو لسانیات پر مہیا کتابیں اور اردو رسائل میں اردو لسانیات پر مبنی مضامین کا وضاحتی اشاریہ پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ تاکہ لسانیات پر اردو میں جو کچھ لکھا گیا ہے اس کے چند اہم معلوماتی مضامین کا وضاحتی اشاریہ آنکھوں کے سامنے آئینہ ہو جائے۔
مقصد اس مطالعہ کا یوں پورا ہوتا ہے کہ اگر کوئی ریسرچ اسکالر یا مقالہ نگار لسانیات سے متعلق اہم مضامین کو بہ یک نظر دیکھنا چاہے اور یہ اندازہ کرنا چاہے کہ مضامین کی نوعیت کیا ہے تب اس کام میں یہ کتاب مددگار ثابت ہوگی۔
چناں چہ مقالہ کو تین ابواب میں تقسیم کیا گیا۔
پہلے باب میں زبان کیا ہے؟ اس کی پیدائش، لسان و لسانیات کے لغوی اور اصطلاحی معنوں کو یکے بعد دیگرے پیش کیا گیا ہے۔ اس کے بعد لسانیات کیا ہے؟ لسانیات کیا نہیں ہے، لسانیات کا دیگر علوم سے باہمی رشتہ اور مختلف ادوار کے تحت لسانیات کی تاریخ بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
دوسرے باب میں لسانیات کی مختلف شاخوں کو یک جا کیا گیا ہے۔ جس میں مختلف کتب اور انٹرنیٹ سے معلومات فراہم کی گئی ہیں۔
مقالہ کے تیسرے باب میں لسانیات کے تمام مضامین کو مختلف عنوانات کے تحت تقسیم کیا گیا ہے جیسے زبان، لسانیات، صوتیات، فونیمیات، حرف، نحو، معنیات، اردو کے مختلف نظریات، اردو کا ہندی اور برج بھاشا سے لسانیاتی رشتہ، دکنی اردو رسم الخط، املا اور قواعد، اردو الفاظ اور حروف کا استعمال جداگانہ نوعیت سے، مختلف ماہرین کی لسانی خدمات اور اردو مختلف علاقوں میں وغیرہ۔ بقیہ تمام مضامین کو متفرقات کے حصہ میں درج کیا گیا ہے اس کے علاوہ اردو رسائل میں لسانیات سے متعلق مضامین کی وضاحت کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
امید ہے کہ میری یہ تصنیف قابل مطالعہ سمجھی جاے گی۔
——-