گلو بل وارمنگ اور شجرکاری ۔ اسلامی نقطہ نظر :- محمد ہاشم قادری صدیقی مصباحی

Share
محمد ہاشم قادری صدیقی

گلو بل وارمنگ اور شجرکاری
اسلامی نقطہ نظر

الحاج حافظ محمد ہاشم قادری صدیقی مصباحی

Mob.: 09279996221

خالق کائنات نے اپنی مخلوق کے لیے ہر ضرورت کی چیز پیدا فر مائی، سب کی ضروریات الگ الگ ہیں کچھ ضروریات تو تمام مخلوق کی ایک ہی طرح کی ہیں جیسے ہوا، پانی اور آکسیجن OXYGEN (ہوا اور پانی کا وہ جز جس پر روشنی اور زندگی موقوف ہے۔) انسان ہو یا جانور ہر جاندار کو اس کی ضرورت ہے،یہ خیال کیا جاتا ہے کہ بلا آکسیجن کوئی جاندار زندہ نہیں رہ سکتا، اس کے بغیر موت واقع ہو جاتی ہے۔

اور یہ انمول شئے(نایاب چیز) اللہ رب العزت نے درختوں، پودوں میں رکھی ہے یاد رہے آکسیجن درختوں اور پو دوں کے سوا اور کہیں سے نہیں ملتی ہے۔ اتنے ترقی یافتہ دور میں بھی انسان کتنا نادان اور ظالم ہے جو چیز اسے درختوں اور پودوں کے علاوہ کہیں اور نہیں ملتی اسی کو ختم کرتے جارہاہے(اسی کو کہتے ہیں آ بیل مجھے مار، نہیں بلکہ دوڑ کے مار) پیڑ، پودے انسان کی اہم ضروریات میں شامل رہے ہیں اور رہیں گے جب سے دنیا میں انسان نے آنکھ کھولی ہے، درخت اس کی بنیادی ضرو یات میں شامل رہے ہیں۔انسان کی یہ بڑی بھول ہے کہ ہم ہر چیز کے مالک ہیں، یہ صفت صرف خالق کائنات کی ہے۔ اَ للَّہُ خَا لِقُ کُلِّ شَیْ ءٍ وّ ھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ وَّکِیْلٌ(القرآن،سورہ۹۳،آیت۲۶) تر جمہ: اللہ ہر چیز کا پیدا کرنے والا ہے، اور وہ ہرچیز کا مختار ہے۔تمام جاندار اور بے جان چیزوں کا خالق و مالک صرف اللہ تعالیٰ ہے آسمانوں زمین کی کنجیاں اللہ ہی کے پاس ہیں جو اس کی ملکیت کا انکار کرتا ہے اور اپنا قبضہ جماکر کسی چیز کو بے دریغ استعمال کرتا ہے وہی نقصان اور گھا ٹا اٹھا تا ہے۔درختوں کو پیدا فر مانے کی بہت سی ضرورت و حکمت قرآن مجید میں مطا لعہ فر مائیں۔تر جمہ: وہ کون ہے جس نے آسمانوں اور زمینوں کو پیدا فرمایا اور تمھا رے لیے آسمانی فضا سے پانی اتارا، پھر ہم نے اس پانی سے تازہ اور خوشنما باغات اگا ئے؟ تمھارے لیے ممکن نہ تھا کہ تم ان باغات کے درخت اگا سکتے۔ کیا اللہ کے ساتھ کو ئی(اور بھی) معبود ہے؟ بلکہ یہ وہ لوگ ہیں جو(راہ حق سے)پرے ہٹ رہے ہیں۔(القرآن، سورہ نمل۷۲،آیت۰۶) کل کائنات کو پیدا کر نے والا سب کو روزی دینے والا تمام جہان کی تد بیر کر نے والا، صرف اللہ تعا لیٰ ہے، کھیتیاں، باغات، پھل،پھول، دریا،سمندر،حیوانات،خشکی،تری کے تمام جاندار اللہ نے پیدا کئے۔آسما نوں سے پانی برسا کر اپنی مخلوق کو روزی دینے کا ذریعہ کھیتیاں،باغات سب وہی اگاتا ہے جو خو بصورت منظر ہونے کے علا وہ بہت کار آمداور مفید ہوتے ہیں خوش ذائقہ ہو نے کے ساتھ زندگی کو قا ئم رکھنے والے ہیں۔ انسانوں اور دوسری مخلوق کی روزی اور زندگی کی دوسری ضرو ریات کے لیے خالق کائنات نے کھیتاں باغات پیدا فرمائے۔ لیکن انسان ایسا جا ہل اور ظا لم ہے کہ اپنی بر باد ی کا سامان خود کر رہا ہے۔ قرآن کریم نے انسان کی اس فطرت کا ذکر کیا ہے۔سورہ احزاب آیت ۲۷، بیشک انسان اپنی جان پر بڑی زیا دتی کر نے والا ہے۔ بے تحا شہ جنگلوں کی کٹا ئی نہ صرف انسانوں کے لیے بلکہ اللہ کی دوسری مخلوق کے لیے پریشانی بڑھا رہی ہے۔

شجر کاری کے فوائد:
قرآن کریم نے شجر کاری کے ساتھ معیشت اور خوش حالی کے گہرے تعلق کاذکر بڑے خوبصورت لفظوں میں کیا ہے۔حسن فطرت کی رعنائیاں، دلکش مناظر جس سے آنکھوں کو ٹھنڈک اور دل ودماغ کو قوت ملتی ہے، باغات کا ذکر فرما کر قرآن نے پیڑ پو دوں کی اہمیت بتائی۔روئے زمین پرجا بجا پھیلے پیڑ پودے بنی نوع انسان کے لیے قدرت کا انمول تحفہ ہیں۔درخت نہ صرف سایہ دیتے ہیں بلکہ ماحو لیاتی آلود گی کو کم کرتے ہیں، سیلاب کی تباہ کاریوں سے بچا تے ہیں،زمین کے کٹا ؤ کو روکتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کسی بھی ملک کی آبادی اور رقبے کے لحاظ سے کم ازکم ٪۵۲ فیصدجنگلات کا ہو نا بہت ضروری ہے ور نہ ماحول کی آلود گی انسانوں کے لیے بہت سے مسائل پیدا کرتی ہے۔ بد قسمتی سے ہما رے ملک ہندوستان میں جنگلوں کی کٹائی بہت ہو رہی ہے،اور جنگل مافیا ویرپن سے لیکرآج تک سینکڑوں ویرپن جنگلوں کو ویران بنا رہے ہیں اور اس بہتی گنگا میں نیچے سے لیکر اوپر تک سب رین کوٹ پہن کر نہا رہے ہیں کوئی دیکھنے والا نہیں ہے۔انسان اپنے تعیش (عیش وعشرت) کے لیے قدرتی نظام کو بر باد کررہا ہے یہ بہت بڑی بھول ہے، نظام الٰہی نے خود انسانوں کوآرام پہچانے کا بندو بست کردیا ہے جس کا کو ئی نعم ا لبدل نہیں درخت جس رفتار سے کاٹے جارہے ہیں اس کے نتا ئج میں آج فضا میں آکسیجن کم اور کار بن ڈائی آکسائیڈ (CARBON DIOXIDE) زیا دہ ہور ہی ہے،قدرت کا اعلیٰ نظام دیکھئے درخت کار بن ڈا ئی آکسائیڈ بطور خو راک استعمال کرتے ہیں اگر درخت کاٹ دیئے جائیں تو ظاہر ہے کہ فضا میں اس کی مقدار زیادہ ہو جائے گی اور گلوبل وار منگ یعنی زمینی تپش میں اضا فہ ہوجائے گااور اس کے نقصانات بہت زیادہ ہیں۔آکسیجن پیدا کر نے کے لیے قا بل ذکرکوئی ٹکنا لوجی مو جود نہیں ہے۔ اور جو قدرتی آکسیجن مو جود ہے جس کی ضرورت سب کو ہے،اسی کو بچانے کے لیے قابل قدر کوئی کام نہیں ہے بہت لمحہ فکریہ ہے عوام حکو مت پر نظریں لگائے ہو ئے ہیں حکو متوں کا حال سب کو معلوم ہے بھینس کے آ گے بین بجائے، بھینس کھڑ ی پگور ائے و الی مثال ہے۔درختوں سے انسانوں کو بے شمار فوائد ہیں زندگی سے لیکر معاشی فوائد بھی ہیں، معاشی فوائد میں درختوں سے حاصل ہونے والی لکڑی انسا نوں کو قدم قدم پر کام آتی ہے، فر نیچر بنا نے سے لیکر، جلانے کے کا م آتی ہے، یہاں تک کہ بعد مرنے کے قبر کے استعمال میں بھی لکڑی کام آتی ہے۔ درختوں کی شاخیں پتے جانوروں کی خوراک کے کام آتے ہیں، سوکھے پتوں سے کھاد بنتی ہے، پھلوں سے لیکر پھو لوں، بچوں کے کھیلنے کے لیے سایہ دار جگہ کی ضرورت کے لیے درختوں کی ضرورت پڑ تی ہے، درختوں سے طرح طرح کی لکڑیاں ملتی ہیں جو مختلف کاموں میں کام آتی ہیں درختوں سے ہمیں شہد، پھل،، روغنیات،اور دواؤں کے لیے جڑی بو ٹیاں اور مختلف قسم کے ریشے، لاکھ، گوند، گندہ بروزہ،ابریشم، کاغذ بنا نا کرنسی نوٹ(رو پیے) بھی انھیں درختوں کی دین ہیں،شدید دھوپ میں انسا نوں،جانوروں کو سایہ انھیں درختوں سے نصیب ہو تا ہے، وغیرہ وغیرہ۔ ہر معاشرے میں درختوں کی بہت قدرو قیمت اور ضرورت ہوتی ہے۔احا دیث طیبہ میں بھی پیڑپو دوں کی اہمیت کو بتایا گیا ہے۔آقا ﷺ نے شجر کاری کو صدقہ جاریہ قرار دیا ہے اور دوران جنگ میں بھی پھل دار اور سایہ دار درختوں کو کاٹنے سے سخت منع فر مایا ہے۔ہم اور آپ زرا(تھوڑا) غور کریں کہ ہم کس در جہ میں ہیں۔شجر کاری کر نے وا لوں سے اجر عظیم کا وعدہ کیا گیا ہے،رحمت عا لم ﷺ نے فر مایا: کہ مسلمان کوئی درخت لگا ئے یا کھیتی لگا ئے اور اس میں سے انسان، درندہ، پرندہ یا چو پایا کھائے تو وہ اس کے لیے صد قہ ہو جاتاے۔(مسلم،حدیث:۵۱۸۲) اس حدیث پاک سے شجر کاری کی فضیلت کا پتہ چلتا ہے اور یہ بھی معلوم ہو تا ہے کہ شجر کاری میں بہت خیر ہے،ایک اور حدیث پاک میں اس طرح سے ہے آپ ﷺ فر ماتے ہیں جس کے پاس زمین ہو اسے اس ز مین میں کاشتکاری کر نی چا ہیے،اگر وہ خود کا شت نہ کر سکتا ہو تو اپنے کسی مسلمان بھائی کو دے دے،تاکہ وہ کاشت کاری کرے۔(مسلم،حدیث:۶۳۵۱)آج کل سخت دھوپ میں شہروں میں کیا دیہا توں میں بھی دور دور تک سایہ نظر نہیں آتا، اللہ رب العزت نے اپنی اس نعمت(سایہ) کا ذکر خاص کر فر مایا اور بطور احسان فر مارہاہے:وَا للّٰہُ جَعَلَ لَکُمْ مِّمَّا خَلَقَ ظِلٰلاً وَّجَعَلَ لَکُمْ مِنَ الْجِبَا لِ اَ کْنَا نًا وَّجَعَلَ لَکُمْ سَرَا بَیْلَ۔۔۔۔۔ اَلَخْ ۔(القرآن،سورہ۶۱،آیت ۱۸) تر جمہ: اور اللہ نے تمھیں اپنی بنائی ہوئی چیزوں سے سائے دیئے اور تمھا رے لیے پہاڑوں میں چھپنے کی جگہ بنائی اورتمھارے لیے کچھ پہناوے بنائے کہ تمھیں گر می سے بچا ئیں۔(کنزالایمان)اللہ نے اپنے بندوں کو بے شمار نعمتوں سے نوازہ ہے،اعلان الٰہی ہے۔(القرآن،سورہ۴۱،آیت۴۳) تر جمہ:اور اللہ نے تمھیں ہر وہ چیز عطا فر مادی جو تم نے اس سے مانگی،اور اگر تم اللہ کی نعمتوں کو شمار کر نا چاہو(تو) پورا شمار نہ کر سکو گے، بیشک انسان بڑا ہی ظالم بڑا ہی نا شکر گزارہے،راحت وآرام والی نعمتوں کا اظہار بطور خاص فر مارہاہے اور یادد لا رہاہے۔سبھی جانتے ہیں درختوں سے ہی سایہ نصیب ہو تا ہے اور فرحت بخش ہوا نصیب ہو تی ہے،ایک مقام پر زیتون کے درخت کے فوائد کا ذکر قرآن کریم اس طرح فر مارہا ہے۔وَشَجَرَۃً تَخْرُجُ مِنْ طُوْرِسَیْنَآ ءَ تَنْبُتُ بِا لدُّہْنِ وَصِبْغٍ لِّلْاٰ کِلِیْنَ۔(القرآن،سورہ مومنون۳۲،آیت۰۲) تر جمہ:اور (پیداکیا) وہ درخت جو طور سینا پہاڑپر نکلتا ہے جو تیل نکالتا ہے اور کھانے والوں کے لیے سالن ہے۔ زیتون کے درخت کو مبا رک درخت قرار دیا گیا، سورہ نور آیت ۵۳۔اسلام کی پاکیزہ تعلیمات میں شجر کاری کے بہت فوائدو اہمیت بتا ئی گئی ہے۔گلو بل وار منگ کے نقصانات۔ مو جودہ حالات میں ماحو لیات کی آلود گی سے سینکڑوں پریشانیاں لاحق ہیں خطر ناک بیماریاں جنم لے رہی ہیں کینسر، ہیپا ٹا ئٹس،ٹی بی، کھانسی،اور سانس کی بہت سی موذی بیماریاں پھیل رہی ہیں آلودگی کی وجوہات میں سے انڈ سٹر یوں سے زہریلا دھواں اور پانی کا نکلنا، بے تحاشا جنگلات کی کٹائی سے جنگلات کی کمی اور پلاسٹک بیگیز کا استعمال وغیرہ وغیرہ۔گلوبل وار منگ یعنی عالمی درجہ حرارت میں اضا فہ موجو دہ دور کا سب سے بڑا چیلنج ہے اس کے بہت سے نقصانات ہیں۔ زمینی حرارت(گرمی) زیادہ ہونے کے باعث بر فانی تودے اور گلیشیرز بھی تیزی سے پگھل رہے ہیں اور سب سے بڑا خطرہ اوزون لیئر (O Zone Layer)کو خطرہ بڑھتے جارہاہے،اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے فضا میں ایک گیس پیدا کیاہے۔جو زمین سے دس کیلو میٹر کی اونچائی سے شروع ہو کر پچاس کیلو میٹر تک جو حصہ ہے اس میں پھیلی ہوئی ہے۔ یہ ایک باریک سبز رنگ کی گیس ہے جسے اوزون تہہ یا لیئر کہتے ہیں یہی تہہ ہے،جو زمین کو سورج کی خطر ناک زہریلی شعاعوں سے محفوظ رکھتی ہے، ماحولیاتی آلود گی میں بڑھتے ہوئے اضافے سے اوزون پرت کو بہت نقصان پہنچا ہے اس سے بھی بہت بیماریاں بڑھ رہی ہیں خاص کر جلدی بیماریاں،اسی وجہ کر سخت گر می بڑھ رہی ہے جس سے ان گنت مسائل پیدا ہورہے ہیں۔ اللہ رب ا لعزت نے اس کرہ ارض میں کوئی ایسی چیز نہیں پیدا فر مائی جو انسانوں وتما م مخلوق کے فائدے و فلاح کے لیے نہ ہو، لیکن اس کے باوجود انسان رب کے بنائے ہوئے قوانین اور طریقوں میں تبدیلی کا مر تکب ہو رہا ہے جس کے چلتے موسم میں تبدیلیاں ہو رہی ہیں اور انسانوں کو طرح طرح کی مصیبتوں کا سامنا کر نا پڑ رہا ہے۔ گذشتہ چند برسو ں میں سیلابوں کی وجہکر دنیا کا برا حال رہاہے ہندوستان، نیپال، بنگلہ دیش، پا کستان،جاپان، امریکہ، ابھی حال ہی میں امریکہ میں شدید طوفان وبارش سے سیلاب نے زبر دست تباہی مچائی تھی اور جاپان میں بھی،خود کر دہ را علاج/ علاجے نیست۔خود کے کئے کا کوئی علاج نہیں رب کائنات نے اس عظیم کائنات میں ہر چیز کو ایک خاص نظام وتر تیب کے تحت بنایا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے۔(القرآن،سورہ انبیاء۱۲،آیت۶۱)تر جمہ: اور ہم نے آسمان اور زمین کو اور جو کچھ ان کے درمیان ہے کھیل تماشے کے طور پر(بے کار) نہیں بنایا۔ اگر نظام الٰہی میں بگاڑ پیدا کر نے کی کو شش کی گئی تو اس سے خود ہمیں اور ہمارے ماحول کو نقصان ہوگا،اور ہم دیکھ رہے ہیں بلکہ بھوگ بھی رہے ہیں، ارشاد الٰہی ہے کہ۔تر جمہ:اور جب ان سے کہا جاتاہے کہ زمین پر فساد مت پھیلاؤ،تو وہ کہتے ہیں کہ ہم اصلاح کر تے ہیں۔ اور جو لوگ فساد پھیلانے وا لے ہیں ایسے لو گوں پر خدا کی لعنت ہے اور ان کے لیے بڑا عذاب ہے۔(القرآن)اسلام کی پاکیزہ تعلیم انسانوں کو دین ودنیا کا سکون دیتی ہے اور دین ودنیا کی کامیابی کی بھی ضامن ہے اسلام صفائی وستھرائی کا حکم دیتا ہے تاکہ ماحول آلودہ نہ ہو اور آب و (پانی) ہوا خراب نہ ہو تاکہ انسان صحت مند و تندرست رہے، تندرست مومن اللہ کو پسند ہے۔(حدیث)گلو بل وار منگ سے جو زمینی گر می بڑھ رہی ہے اس سے بہت سے مسائل پیدا ہورہے ہیں ہم سب کوچا ہیے اس پر غور کریں ہر انسان کم از کم پانچ درخت لگائے،ہر انسان اپنے حصے کا کام کرے دوسرے پر انحصار نہ کرے،اپنے لیے اوراپنے آنے والے نو نہالوں (نسلوں) کے لیے کچھ تو کریں پرانے پیڑکی کٹائی سے حتی الامکان پرہیز کریں۔دنیا میں کئی ایسی چیزیں ہیں جن کی وجہ سے دنیا قائم ہے ان میں سے شجرکاری بھی ہے۔شجر کاری ہر دور کے انسان کے لیے اہم رہی ہے اور موجودہ دور میں تو اس کی اہمیت ہزاروں گنا بڑھ گئی ہے ضروری ہے کہ زیادہ سے زیادہ درخت لگائے جائیں۔ ان کی دیکھ بھال کی جائے اورآنے والی نسل کو بھی شجر کاری کے فوائد اور اہمیت سے واقف کرایا جائے۔اللہ رب ا لعزت ہم سب کو شجرکاری کی اہمیت و اسلام کی تعلیمات کو سمجھنے اورعمل کرنے کی توفیق عطافرمائے آمین ثم آمین۔
——–
الحاج حافظ محمد ہاشم قادری صدیقی مصباحی
خطیب و امام مسجد ہاجرہ رضویہ
اسلام نگر، کپالی،پوسٹ:پارڈیہہ،مانگو،
جمشیدپور(جھارکھنڈ)پن ۰۲۰۱۳۸
رابطہ: 09431332338

Share
Share
Share