اسی ہے میرے ہندوستان کی عید
محمد قمر سلیم
موبائل:09322645061
میں عید کی نماز ادا کرکے اپنے ہاسٹل کے کمرے میں داخل ہوا۔میرے تین ساتھی بے خبر سو ر ہے تھے جبکہ ایک ساتھی ہاتھ میں کتاب لیے ہوئے اونگھ رہا تھا۔کل ہم سب کا ایناٹومی کا پیپر تھا۔عید کی وجہ سے میں نے اپنی تیاری تقریباً مکمل کر لی تھی۔ان کو سوتا دیکھ کرمیرے اوپر بھی غنودگی طاری ہونے لگی۔
میں نے سوچا،عید کے دن سونا!لیکن کروں بھی کیا؟کوئی بھی تو نہیں ہے جس کے ساتھ بیٹھوں، عید کی خوشیاں مناؤں۔یہاں اپنے وطن سے ہزاروں میل دور کس، اپنے کو تلاش کروں۔ آنکھیں ڈبڈبانے لگیں۔کیا مزے تھے اپنے گھر، اپنے وطن میں۔عید کا دن اور خوشیوں سے خالی۔عید گاہ پہنچ کر ہر سمت نظریں دوڑائیں شاید کوئی شناسا مل جائے۔دور دور تک نظریں اپنوں کو تلاش کرتی رہیں لیکن جہاں سے جاتیں وہیں لوٹ کرواپس آجاتیں۔گھر سے باہر کسی دوسرے ملک میں یہ میری پہلی عید تھی۔میں ایم بی بی ایس کے سال اول میں زیرِ تعلیم تھا۔زیادہ لوگوں کو نہیں جانتا تھا۔اپنے ہی کلاس کے چند ہندوستانی ساتھیوں سے مراسم تھے لیکن ان میں بھی،میں اکیلا مسلمان تھا۔آنکھوں میں آنسو بھرے ہوئے تھے۔سوچا، امی ابو کو فون کر لوں مگر یہ سوچ کر رک گیا کہ ان لوگوں کا روزہ ہے اور وہ لوگ ابھی سوتے ہوں گے۔بستر پر لیٹ گیا لیکن اب نیند نہیں آرہی تھی۔
میں سوچنے لگا رمضان کے پورے مہینے میں کیا ادھم مچا رہتا تھا۔سچ تو یہ ہے رمضان سے ہی عید شروع ہو جاتی تھی۔ میں روزے پابندی سے رکھتا تھا۔نماز، تراویح ہر چیز کی پابندی کرتا تھالیکن میرے روزوں سے گھر کے تمام لوگوں کے دانتوں تلے پسینہ آجاتا تھا۔ میری ایک بہت بری عادت تھی جب سوتا تھا تو اٹھتا نہیں تھااور جب اٹھ جاتا تھا تو سوتا نہیں تھا۔ آپ نہیں سمجھیں گے وہ تو صرف امی اور ابو ہی سمجھ سکتے ہیں۔ پہلے روزے کے انتظار اور تیاری میں جاگتا رہتا تھا، میں ہی نہیں، سبھی لوگ جاگتے تھے۔عام طور سے سحری اور فجر کی نماز سے فارغ ہوکر میں پڑھنے بیٹھ جاتا تھا،کبھی کبھی سو بھی جاتا تھا۔دوپہر میں ظہر کی نماز پڑھ کر سو جاتا تھااور پھر مجھے اٹھانا امی ابو کے لیے جوئے شیر لانے کے مترادف ہوتا تھا۔عصر کی نماز سے پہلے وہ دونوں مجھے اٹھانے کی مہم پر لگ جاتے تھے لیکن اس میں شدت افطار سے آدھا گھنٹے پہلے آتی تھی۔ امی باورچی خانے میں افطار کی تیاری کرتے کرتے متواتر چلاتی رہتی تھیں۔’ارے اثمر اٹھ جاؤ، اٹھو بیٹا! تم نے نماز بھی نہیں پڑھی ہے۔اٹھ جاؤ بیٹا، میرا بہت اچھا بیٹا ہے۔‘ جیسے جیسے افطار کا وقت قریب آتا، امی کی آواز کی ٹون بدلنا شروع ہوجاتی۔ ’ارے اٹھنا نہیں ہے کیا؟ کوئی فائدہ نہیں ہے ایسے روزے رکھنے سے۔نہ نماز، نہ عبادت۔‘ پھر تھوڑی دیر بعد ان کی آواز آتی، ’ارے، آپ بھی نہیں سن رہے ہیں۔اسے اٹھائیے نا۔‘ ابو بے چارے بھی امی کے بار بار آواز دینے پر اپنے سُرچھیڑنے لگتے تھے۔’ارے اثمر، اٹھ کیوں نہیں رہے ہو۔ افطار کا وقت ہو رہا ہے۔ چلو اٹھو جلدی۔‘ وہ لوگ ایسے کہتے جیسے میں ایک سیکنڈ میں اٹھ کر کھڑا ہو جاؤں گا اورحکم کی تعمیل بجا لاؤں گا۔
ایسا نہیں تھا کہ میں ان کے اٹھانے پر سوتا رہتا تھالیکن کاہلی کی وجہ سے اٹھتا نہیں تھا۔یہی وجہ تھی میں ان کی ہر بات سنتا رہتا تھا۔ ان لوگوں کے اٹھاتے اٹھاتے افطار کا وقت بالکل قریب آجا تا تھاجب تقریباً ۵۱ منٹ رہ جاتے تو ابو اٹھانے میں شدت پکڑ لیتے تھے اور میں دس منٹ پہلے اٹھتاتھا۔تب تک وہ دونوں بے چارے اور میری بہن یسرا افطار کی سب تیاریاں کر چکے ہوتے تھے۔ میں تھوڑی دیر کے لیے پشیمان ہوتا اور ارادہ کرتا کل سے نہیں سوؤں گا، میں بھی ان لوگوں کا ہاتھ بٹاؤں گا لیکن وہی ڈھاک کے تین پات۔ دوسرے دن وہی منظر۔اسی طرح سحری کے وقت بھی امی ابودونوں اٹھا اٹھا کر تھک جاتے اور میں وقت سے صرف دس پندرہ منٹ پہلے اٹھتا اور جلدی جلدی سحری کرتا اور بعد میں خوب ہنستا اور ان لوگوں کو پریشان کرتا۔ ان دونوں کے روز انہ کے دو جملے تھے۔افطار کے وقت، ’اب کل سے روزہ مت رکھنا۔‘ اورسحری کے وقت، ’کل سے تمھیں نہیں اٹھائیں گے۔‘ اس طرح رمضان کا پورا مہینہ گذر جاتا تھااور میرے سب روزے ہوتے تھے۔یہاں پہلے روزے سے ہی میں ڈر کے مارے سحری سے پہلے نہیں سوتا تھا۔ مجھے معلوم تھایہاں امی ابو نہیں ہیں جو مجھے اٹھائیں گے۔نہیں اٹھا تو بغیر سحری کے۰۲ گھنٹے کا روزہ رکھنا پڑے گا۔شام میں عصر کے بعد بھی نہیں سوتا تھا اسی ڈر سے کہ آنکھ نہیں کھلی توکیا ہوگا۔یہاں آکر احساس ہو ا اللہ کاکیسا انمول تحفہ ہیں ماں باپ۔
یہی نہیں پورے رمضان ہر دن کوئی نہ کوئی یا تو گھر پر آتا تھا یا پھر یہاں افطار ی بھیجنا ہے، وہاں افطاری بھیجنا ہے۔روز ہی میری فرمائش پر امی نئی نئی ڈیشیز تیار کرتی تھیں۔واہ! امی کے دہی بڑے، وہ ان کے طرح طرح کے پکوڑے۔ کبھی پیاز، کبھی پالک، کبھی آلو،کبھی مرچ، کبھی پنیر،کبھی بریڈ پکوڑے، کبھی چیز پکوڑے، کبھی بریڈ رول،کبھی روسٹڈلیگ پیس۔مجھے ہر دن ان کی کمی محسوس ہوئی ہے۔میں نے یہاں بہت کچھ تلاش کرنے کی کوشش کی لیکن صرف چھوٹے چھوٹے سموسوں کے علاوہ کچھ نہیں ملا۔اور پھر امی کے ہاتھ کی بات کہاں۔وہ مٹھاس، وہ محبت کہاں۔اورہاں،ابو کی وہ دو طے شدہ ڈشیز۔ایک کیلے اورامرود کی چاٹ اورخوبصورتی سے تراشے ہوئے آم۔واہ!کیا چاٹ ہوتی تھی۔جب امرود اور کیلے میں مصالحہ اور شکر ڈال کر ابو اسے ملاتے تھے تودل چاہتا تھا نہ کھاؤ لیکن جب چاٹ سامنے آتی تھی تو میں انگلیاں چاٹتا رہ جاتا تھا۔اور میری یسرا باجی کا لیمو کا شربت۔ واہ،واہ! اس کا تو جواب ہی نہیں تھا، ہر کوئی ان کی شکنجی کا دلدادہ ہو گیا تھا۔یہاں ہر دن میں نے اپنے وطن، اپنے گھر کے رمضان کو یاد کیا ہے۔
آج عید ہے۔میں رات بھر پڑھائی کرتا رہا، نیند کے جھونکے آرہے تھے مگر سویا نہیں۔اگر آنکھ لگ گئی تو نماز بھی جائے گی۔ میں فجر کی نماز سے پہلے ہی نہا کر تیار ہوگیا۔میرا یہ معمول تھا کہ میں فجر کی نمازپڑھ کر مسجد میں ہی بیٹھا رہتا تھا اور عید کی نماز پڑھ کر ہی گھر آتا تھا۔ جب میں چھوٹا تھا تو اپنے ابو کے ساتھ نماز کے لیے جاتا تھا لیکن بڑا ہوا تو اپنے دوست حارث کے ساتھ نماز کے لیے جانے لگا۔عید والے دن میں ابو سے پہلے نہا کر تیار ہو جاتا تھا۔ابو میرے کُرتے پر عطرلگا دیتے تھے۔ نکلنے سے پہلے میں امی سے سرما لگواتا تھا۔آج بھی جب میں یہاں سے نماز کے لیے نکل رہا تھاتو بے خیالی میں آواز لگائی، ’ارے امی، سرما تو لگا دیجیے۔‘ میراساتھی جو کتاب لیے اونگھ رہا تھا چونک پڑا۔آج تو میں نے کسی میٹھی چیز کا ایک دانا بھی منھ میں نہیں ڈالا تھا۔ امی ہر عید پر مجھے شیر کے دو چار چمچے پلا ہی دیتی تھیں۔میں آنکھوں میں آنسو لیکر باہر نکل گیا۔میں سوچ رہا تھا یہ کیسی عید ہے۔عید کے معنی تو خوشی کے ہیں۔ یہ کیسی خوشی ہے نہ کسی کے ساتھ ہنس رہاہوں، نہ گلے مل رہا ہوں، نہ شیر خورمہ ہے،نہ چنے،نہ ہی دہی بڑے اور نہ ہی کسی کو اپنا شریک بنا پا رہا ہوں۔میری آنکھوں سے آنسو ضرورچھلک پڑے لیکن میں نے یہ خیال دل سے نکالا اور سوچنے لگا عید کا مطلب صرف اپنوں سے قربت ہی تو نہیں ہے بلکہ عید تو اللہ کا انعام ہے۔روزوں کا، عبادتوں کا۔عید خوشی ہے اس بات کی کہ پورے رمضان اللہ کی قربت حاصل رہی۔اس سے بڑھ اور کیا خوشی ہو سکتی تھی۔
میں نے سونے کا ارادہ کر لیا تھا۔فون اٹھا کر الارم لگانے جا ہی رہا تھا تو دیکھا امی ابو کی بہت سی مسڈکالیں ہیں۔فون سائلینس موڈ پر ہونے کی وجہ سے میں نے گھنٹی نہیں سنی تھی۔ میں نے جلدی سے فون ملایا۔جان بوجھ کر ویڈیو کال نہیں کی تھی۔امی ابو کہیں آنکھوں میں آنسو نہ دیکھ لیں۔ دل مضبوط کرکے ان لوگوں سے بات کرتا رہا۔رونا بہت آرہا تھالیکن اپنے اوپر قابو رکھا۔امی ابو اور یسرا تینوں کی آوازیں بھرًائی ہوئی تھیں۔تقریباًدس منٹ بات کرکے شام میں فون کرنے کا وعدہ کرکے فون رکھ دیااور بستر پر سونے کے لیٹ گیا۔مشکل سے پانچ منٹ بھی نہیں ہو ئے ہوں گے کہ کمرے کے دروازے پر کسی نے کھٹکھٹایا اور آواز دی،’اثمر، اثمر،‘ کیا میں خواب دیکھ رہا ہوں۔ نہیں آواز باہر سے آرہی تھی۔ میں نہ چاہتے ہوئے بھی اٹھااور دروازہ کھول دیا۔ارے یہ کیا،اندر باہر دونوں طرف آوازوں کا شور تھا۔ عید مبارک ہو اثمر، عید مبارک۔اتنا شور۔دروازہ کھلتے ہی میرے چاروں ساتھی بستر پر سے ایسے کھڑے ہو گئے جیسے کبھی سوئے ہی نہیں ہوں۔سب نے ایک ایک کرکے مجھ سے عید ملی۔میرے ساتھیوں کے ہاتھوں میں کچھ نہ کچھ سامان تھا۔بپن داس کولکاتا کے رس گلے لایا تھا، الفانسوڈیسوزا اِڈلی لائی تھی۔شبھم دلی کی برفی، اسرا نے کشمیری طرز کا شیر خورمہ بنایا تھا۔ مانیہ دہی بھلے بنا کر لائی تھی، نیتوسنگھ چھولے بھٹورے لیکرآئی تھی۔میرے روم میں اجیت بھوپال سے تھا، سُوپنیل اکولہ سے تھا، نتیش کوٹہ سے اور ساگر الہ آباد سے۔ہم سب لوگوں نے روم پر ہی عید منائی۔دوپہر میں ہمارے سینیر ندیم بھائی نے حیدرآبادی بریانی بنائی۔دوپہر بعد ہم لوگ گھومنے نکلے۔ میں نے ان سب سے کہا بھی،’کل امتحان ہے تم لوگ اپنی تیاری کرو، گھومنے بعد میں جائیں گے۔‘ سب ایک آواز ہوکر بولے،’آج کچھ نہیں، آج صرف عید منائیں گے۔‘ ایسی تھی میرے ہندوستان کی عید۔
—–
محمد قمر سلیم
ایسوسی ایٹ پروفیسر
انجمنِ اسلام اکبر پیر بھائی کالج آف ایجوکیشن
واشی، نوی ممبئی