افسانہ : عید کا تحفہ :- ڈاکٹر صفیہ بانو .اے .شیخ

Share
ڈاکٹر صفیہ بانو.اے.شیخ

افسانہ : عید کا تحفہ

ڈاکٹر صفیہ بانو .اے .شیخ
Email:

طاہر نے پوچھا ،ارے۔۔ اشفاق تم کہا ں جا رہے ہو؟میں نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا۔ میں کبھی نہیں چاہوں گا کہ کبھی بھی طاہر کو میرے گھر کے حالات کا پتہ چلے۔ طاہر میرا اچھا دوست ہے۔ طاہر بار بار اصرار کرنے لگا بتا نہ یا رتم کہاں جا رہے ہو؟ میں نے صرف اس سے اتنا کہا اب ہجرت کرنے کا وقت آگیا ہے۔ طاہر کہنے لگا میں کچھ سمجھا نہیں اور تم لوگ کہاں جاؤ گے۔

میں نے کہا پتہ نہیں جہاں تقدیر لے جائے گی وہاں چلے جائیں گے۔ طاہر نے یک دم مجھے گلے لگا لیا اور رونے لگا۔ویسے بھی اچھے دوست کم ملتے ہے اور بہت جلد بچھڑ بھی جاتے ہے۔ میں نے کہا طاہر ایسا بالکل بھی نہیں ہے کہ مجھے تم کو چھوڑ کر جانے میں کوئی خوشی نہیں ہو رہی ہے جتنا دکھ تمہیں ہو رہا ہے اس سے بھی کئی زیادہ دکھ مجھے ہو رہا ہے۔ ہم دونوں کی دوستی سارے محلے میں مشہور تھی۔ اشفاق اپنے ابّو کے ساتھ اکیلا رہتا تھا۔ اس کے ابّو ریلوے میں ملازم تھے جس کے باعث تبادلے ہوتے رہتے اور انہیں شہر در شہر بدلنا پڑتا تھا۔ وہ ہمارے ساتھ سورت میں کافی عرصہ رہے اور اب دیکھو ان کا تبادلہ جے پور ہوگیا ہے۔ میں نے اشفاق سے کہا تم کہیں بھی جاؤ مجھے فون کرتے رہنا۔ اشفاق سورت کی یادوں کو لے کر پربھنی پہنچ گیا۔
اشفاق ایک ذہین لڑکا تھا۔ وہ پڑھائی میں بھی اوّلین آتا تھا۔ اس کے ابّو ہر وقت اس کی ہر ضرورت کا خیا ل کرتے تھے۔ اس مرتبہ رمضان کا مہینہ جون میں آیا تھا۔ سورت کی بات ہی کچھ اور تھی وہاں دو سال رہے وہاں دو مرتبہ رمضان آیا جس نے ہمارے زندگی کے نظریے کو بدل کر رکھ دیا۔وہاں کے لوگ اپنی ضرور سے زیادہ دوسروں کی ضرورت اور ان کی خوشی کا خیال کرتے تھے۔ شاید یہی وجہ ہے گجراتی ہمیشہ صدا بہار رہتے ہیں۔ پربھنی آئے کچھ مہینے ہوئے مگر مجھے بار بار سورت یاد آرہا تھا وہاں کے لوگ کتنے ملن سار ہیں۔ وہ اپنے آس پاس کے لوگوں کا کتنا خیال کرتے ہیں۔ پربھنی بھلے ہی غریب و خستہ حال شہر ہو مگر اس میں کوئی پیار کی مہک نہیں آتی یہاں ہر جگہ شراب پینے والے لوگ نظر آتے ہیں اور یہاں کے مسلمان اتنے غریب اور خستہ حال میں ہے کہ مجھے تو دیکھا نہیں گیا انہیں زمینداری کے یہاں بندھوا مزدور کی طرح دن رات کام کرکے زندگی گزارنی پڑتی ہے۔ مجھے تو یہ سب دیکھ کر طاہر کی یاد آنے لگی۔ میں نے طاہر کو فون لگایا۔ تو کیسا ہے طاہر؟ اشفاق نے پوچھا۔ طاہر جواباً کہتا ہے میں ٹھیک ہوں۔تم بتاؤ اشفاق تم کیسے ہو؟ اشفاق نے فوراً ہی طاہر سے کہنے لگا یار مجھے سورت بہت یاد آتا ہے۔ مجھے پربھنی میں بالکل بھی اچھا نہیں لگ رہا ہے۔ طاہر نے پوچھا اچھا تمہارا وہاں کوئی دوست بنا یا کہ نہیں۔اشفاق کہنے لگا میرا ایک دوست کرشن ہے یار وہ تو بس برائے نام دوست ہے اس سے تیرا مقابلہ کہا؟ طاہر کہنے لگا بس میری اتنی بھی تعریف مت کر۔ اچھا یہ بتا رمضان کیسا جا رہا ہے؟میں نے کہاں مت ہی پوچھ رمضان کیسا جا رہا ہے؟ ایک تو جون کا مہینہ یہاں تو ویسے ہی پانی کی قلّت اور اوپر سے یہاں گرمی کی شدت اس قدر کے گھر سے باہر نکلنا تو دور گھر میں رہ کر بھی اکتاہٹ محسوس ہونے لگتی ہے۔ اور ہاں کھانے کو بھی بہت کم چیزیں ہی میسر ہوتی ہیں۔ طاہر تمہارے یہاں کیا حال ہے؟ میں نے کہا بھئی ہمارے یہاں تو مزے ہی مزے ہیں روز نئے پکوان اور پھل فروٹ ایسا محسوس ہو رہا ہے جیسے جنت میں جی رہے ہو۔ گرمی بھی زروروں پر ہے مگر رمضان کے مہینے کا لطف اتنا ہے اس نے گرمی کی شدت کو ختم کر دیا۔۔اشفاق من ہی من میں رنج کرنے لگاکہ طاہر کے تو مزے ہی مزے ہیں اور ایک ہم ہے یہاں تو کوئی بھی ہمارا خیر خواہ نہیں۔ اشفاق طاہر سے کہتا ہے اچھا میں بعد میں فون کرتا ہوں کہہ کر فون کاٹ دیتا ہے۔ اس روز اچانک اشفاق کے والد کا انتقال ہو گیا۔ اشفاق بالکل تن تہاں ہو گیا تھا۔اب تو اسے وہ گھر بھی چھوڑ دینا پڑا جو نوکری کرتے وقت اس کے ابّو کو رہنے ملا تھا۔ میں نے اپنے دوست طاہر کو فون کرکے کہنے لگا کہ یار طاہر میرے دوست ابّو کا انتقال ہوگیا ہے اور میں بالکل اکیلا ہو گیا ہوں۔ طاہر نے کہا دیکھو تم فکر نہ کرو میں کچھ کرتا ہوں۔طاہر نے اپنی دوستی کی خاطر اشفاق کو لینے پر بھنی گیا اور پر بھنی سے اشفاق کو ہمیشہ کے لیے اپنے ساتھ سورت لے آیا۔ عید کو چند روز ہی باقی تھے اشفاق ابھی بھی اپنے ابّو کے رنج و غم میں مبتلا تھا یہ بات طاہر کو کانٹے کی طرح چبھتی تھی میں اسے کیسے مناؤ؟ اس غم سے اُسے کیسے آزاد کرو؟ طاہر نے اپنے ابّو سے بات کی۔ ابّو میں آپ کی اکلوتی اولاد ہوں۔ اس کے ابّو نے کہا اس میں کوئی شک نہیں کہ تم میری اکلوتی اور واحد اولاد ہو۔ اچھا یہ بتاؤ تم کہنا کیا چاہتے ہوں؟ابّو میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ آج سے آپ اشفاق کو بھی اپنی اولاد سمجھے۔ ارے وہ بھی میری اولاد کی طرح ہے لیکن طاہر کہنے لگا تم اولاد کی طرح نہیں بلکہ اولاد ہی سمجھو۔آج سے تمہارا ایک بیٹا نہیں بلکہ دو بیٹے ہیں۔ ابّو نے کہا اچھا بھئی میرے دو بیٹے ہیں اور بتاؤ۔ نہیں ابّو آپ کو کورٹ کے ذریعے اسے گود لینا ہوگا اب اس کا کوئی وارث تو ہے نہیں لیکن ہم قانون کی مدد سے اسے وارث بنا سکتے ہیں۔ ابّو نے کہا یہ تم کیا فضول سی باتیں لے کر بیٹھ گئے ہو؟۔ ابّو تمہیں ایسا کرنا ہوگا ورنہ میں اور اشفاق دونوں گھر چھوڑ کر چلے جائیں گے۔ ابّو میری بات کبھی نہیں ٹالتے اور اس دن بھی انہوں نے میری بات مان لی اور ابّو نے وکیل سے بات چیت کرکے ساری کاغذی کاروائی کر ڈالی اور اس طرح اشفاق اب میرا بھائی ہوگیا۔ رشتے دلوں سے بنتے ہیں۔ طاہر کہتا ہے اشفاق میرا بھائی کب کا بن چکا تھا۔بس آج ایک فارمو لیٹی تھی وہ بھی پوری ہوگئی۔ آج رمضان کا آخری روزہ تھا اور ابّو اس دن دیر سے آئے میں نے پوچھا ابّو آج آپ نے اتنی دیر کیوں لگا دی۔ تب طاہر کو اس کے ابّو نے بتایا کہ تمہارا دوست اب تمہار بھائی بن چکا ہے یہ لو اس کے کاغذات۔ ابّو نے کہا یہ تمہاراعید کا تحفہ ہے۔
——-
Dr. Sufiyabanu. A. Shaikh
C- Ground Floor Tajpalace, Kumbharwada
380001. ,Jamalpur Ahmedabad
Mob: 9824320676

Share
Share
Share