عیدالفطر کے ایمانی تقاضے
حافظ محمد ہاشم قادری مصباحی – جمشیدپور
عید الفطر مسلمانوں کا سب سے بڑا تہوار( Festival) ہے عیدالفطر کی خوشی امت مسلمہ کی سب سے بڑی خوشی ہے، اللہ رب ا لعزت نے سب سے بڑا اجر و ثواب بھی عید ا لفطر میں رکھا ہے۔ جب عید ا لفطر ہوتی ہے تو اس کا نام آسمانوں پر ”لیلۃُ الجائزہ“ انعام کی رات سے لیا جاتا ہے، اور عیدین کے دنوں کو ”یو م ُ الجائزہ“ انعام کا دن کہا جاتاہے۔
(حدیث، مسند احمد:7717) عید کہتے ہیں جس میں اللہ کے احسان و انعام کا بندوں پر اعادہ ہو، یعنی انعام الٰہی کا دن بار بار بندوں کے لیے آئے،اور مختلف انعامات واحسانات سے بندوں کو نوا زاجائے، خوشی ومسرت کے کچھ لمحات گزار نے کے لیے اسلام نے ہمیں دو تہوار(Festival)عطا کئے۔ عِیْدُالْفِطْرِاورعِیْدُالْاَضْحٰی۔
”عید الفطر“ تہذیب و شائستگی کا جشن مسرت: اسلام کی درخشاں تاریخ میں سب سے پہلے نبی کریم ﷺ نے ہجرت کے دوسرے سال اپنے جاں نثار صحا بہ کرام کی مقدس جماعت کے ساتھ اسلام کی پہلی مقدس ترین تاریخی جنگ”غزوۂ بدر“ کی تاریخ ساز فتح کے بعد جشن منایاتھا۔ رحمت عالم ﷺ معر کۂ بدر سے واپسی کے بعد مدینہ منورہ تشریف لائے تو اس کے آٹھ روز بعد تقویم عیسوی27 مارچ624ء بمطابق یکم شوال 2ہجری کو سجدہ شکر کا دوگانہ ادافر مایا اور عید الفطر کی شروعات ہوئی، اسی سال رمضان المبارک کے روزے فرض ہوئے۔ عید کا دن امت مسلمہ کی روحانی خوشی کا مظہر ہے کہ انہوں نے ریاضت نفس، ترک لذت،غیر صحت مند مشاغل سے گریز اور فسق وفجور سے اجتناب کا جو سلسلہ پورے ماہ رمضان تک جاری رکھا وہ انھیں اب راہ اسلام سے منحرف نہیں ہونے دے گا،عید کے دن مسلما نوں کا آپس میں ملنا جلنا اور محبتوں کی خوشبو کو دل و دماغ میں بسانا یہ عید کا اہم پیغام ہے۔
اسلامی عہد سے پہلے کی عیدیں:
ہجرت مدینہ سے پہلے یشرب کے لوگ دو عیدیں مناتے تھے، جن میں وہ لہو لعب(کھیل کود، سیرو تماشہ، عیش ونشاط تفریح وغیرہ وغیرہ)میں مشغول ہو تے اور بے راہ روی کے مرتکب ہوتے۔ نبی کریم ﷺ کی مدنی زندگی کے ابتدا ئی دور میں ”عیدین“ کا مبارک سلسلہ شروع ہو گیا تھا جس کا تذکرہ سنن ابو داؤد کی حدیث میں ملتا ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اہل مدینہ دودن تہوار منایا کرتے تھے جن میں وہ کھیل تماشے کیا کرتے تھے، رسول کریم ﷺ نے ان سے دریافت فر مایا: یہ دو دن جو تم مناتے ہو ان کی حقیقت اور حیثیت کیا ہے؟(یعنی ان تہواروں کی اصلیت اور تاریخی پس منظر کیا ہے؟) انہوں نے کہا ہم عہد جا ہلیت میں (یعنی اسلام سے پہلے) یہ تہوار اسی طرح مناتے تھے۔ یہ سن کر رسول کریم ﷺ نے ارشاد فر مایا: اللہ تعالیٰ نے تمھارے ان دو تہواروں کے بد لے ان سے بہتر دو دن مقر ر فر مادیئے ہیں،(عِیْدُا لْاَضْحٰیاورعِیْدُالْفِطْر)وہ تہوار جواہل مدینہ اسلام سے پہلے عہد جاہلیت میں منایا کرتے تھے وہ نوروز اور مہر جان کے ایام تھے،آقا کریم ﷺنے ان تہواروں کو منانے سے منع فر مادیا اور فر مایا: اللہ تعالیٰ نے ان کے بدلے میں اپنے خصوصی انعام و اکرام کے طور پر عید الفطر اور عید الاضحی کے مبارک ایام مسلمانوں کو عطا فر مائے۔
مالک کو نین کی عید:
ایک مرتبہ عید کے دن رحمت عالم ﷺ کے گھر میں کھانے کے لیے کچھ نہیں تھا،جب آپ ﷺ عید گاہ جانے لگے تو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فر مایا:”آج آپ کی کسی بی بی کے یہاں کچھ کھانے کو نہیں ہے۔“آپ ﷺ نے تبسم فر مایا! اور ارشاد فر مایا:”یہ وہ وقت ہے کہ مجھ پر اتمام نعمت ہوا، یہ وہ ساعت ہے کہ مجھ پر فقر کا اطلاق پورا ہوا تم غم گین نہ ہو۔“ حضرت عائشہ نے فر مایا:”میں اس سے خوش ہوں، مگر عادت کے موافق فقرا، بیوائیں اور یتیم آئیں گے ان سے شر مندگی ہوگی“آپ ﷺ نے فر مایا:”ہمیں اور انھیں اللہ تعالیٰ دے گا۔“ یہ کہہ کر آپ عید گاہ تشریف لے گئے، جب واپس آئے تو دیکھا کہ آپ کے دروازہ سے فقراء کھانا لے جارہے ہیں۔ جب آپ گھر میں تشریف لائے تو حضرت عائشہ نے فر مایا: ”صحابۂ کرام کو بلا لیجیے آکر کھانا کھالیں۔“ آپ نے پو چھا:”یہ کہاں سے آیا۔“ انھوں نے فر مایا:”حضرت عثمان(رضی اللہ عنہ) نے ساٹھ اونٹ آٹے،دس اونٹ روغن اور دس اونٹ شہد، سو بکریاں اور پانچ سو دینار نقد بھیجے ہیں۔”آپ نے جوش شفقت ورحمت سے فر مایا:”اے اللہ تعالیٰ! عثمان بن عفان پر حساب آسان فر ما دے۔“ حضرت جبرائیل نے حاضر خدمت ہوکر کہا: اللہ تعا لیٰ نے آپ کی دعا حضرت عثمان کے حق میں قبول فر ما ئی،ان سے روزے قیامت حساب نہ ہوگا۔“
نبی کریم ﷺ کے گھرانے کی عید دیکھئے اور سوچیے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں فقیر،بیوائیں اور یتیم آئیں گے انکی مدد نہیں کریں گے تو شر مندگی ہوگی! اللہ اللہ!فقراء،یتیم،بیواؤں کا کتنا خیال ہے، ہم سب کو اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھنا چاہیے ہم کس درجےcategory))میں ہیں عید سب کے لیے خوشیوں کا پیغام لاتی ہے۔ لیکن افسوس! ہمارے غریب رشتے دار اور پڑوس ہم وطن لوگ عید کے روز بھی خوشیوں کا انتظار کرتے ہیں،عید آتی ہے اور گزر جاتی ہے۔ ان کی زند گیوں میں کوئی مسرت کی رمق محسوس نہیں ہوتی اور وہ عید پر بھی خوشیوں کو ترستے ہیں۔غریبوں کی عید میں وہ جوش وخروش دکھائی نہیں پڑتا،صحیح معنوں میں اگر ہمارا پڑوسی یا رشتے دار اور ان کے بچے عید کی خوشی نہیں حاصل کر پائیں گے تو ہماری عید کی خوشیاں تو مصنوعی لگتی ہیں عید کی حقیقی خوشی تو جب ہے کہ ہم غربا،فقراء اوربیواؤں کو بھی اپنی حیثیت کے اعتبار سے نوازیں اور عید کی خوشیوں میں شامل کریں اصل میں یہی ”عیدالفطر کا ایمانی تقاضہ ہو گا“ اسلام یہی چاہتا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ عید کے دن سبھی سے گلے ملیں نہ کہ صرف ان سے جن کو ہم جانتے پہچانتے ہیں یا جو ہمارے اپنے ہوتے ہیں،ہمارے گھروں میں انھیں لوگوں کے لیے دستر خوان لگایا جاتاہے۔ ہم میں بہت سارے لوگ وہ بھی ہیں جو غریبوں سے گلے ملنے اورسلام کرنے میں اپنے لیے قصرشان سمجھتے ہیں۔اور نہ ہی ایسے لوگوں کے لیے دستر خوان بچھائے جاتے ہیں جو عید کی روح،عید کی خوشی کے منافی ہے۔ ہمیں چاہیے ہم غریبوں اور پریشان حال لوگوں کو بھی اپنی خوشی بانٹیں ان کے ساتھ برابر کا سلوک کریں اور ان کے ساتھ ہمدر دی کریں ان کا تعاون کریں۔عیدالفطر کے ایمانی تقاضوں میں سے یہ بھی ہے کہ آپس کی شکایتیں دور کرکے،دلوں کے رنج اور عداوتوں کو دور کریں روٹھے ہوئے ہوئے لوگوں کو منائیں عید کے دن جوش وخروش کا مظاہرہ کر کے خوش دلی سے تمام گلے شکوے دور کر کے باہم گلے ملیں دلوں کی کدورت سے پاک وصاف کریں،عید کے دن ائمہ کرام اعلان کرتے ہیں کہ صد قہ فطر نماز سے پہلے اداکردیں یہ انتظام مذہب اسلام نے اسی لیے کر رکھا ہے غریب مستحق مفلو ک الحال لوگوں کی تمنائیں پوری ہوجائیں ان سب باتوں پر اگر عمل کرتے ہیں تو ہی عید کی خوشی کے ہم حقدار ہیں ورنہ؟ نہیں۔
خوشی وغم دونوں میں یاد الٰہی کا حکم:
عید سعید کی خوشیوں میں جہاں غریب و حاجت مندوں کو شامل کرنے پر اجرو ثواب کی خوشخبری دی گئی ہے،وہیں خوشیوں میں ڈوب کر اللہ کی یاد سے غافل نہ ہونے کی بھی تر غیب دی گئی ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے۔(القرآن، سورہ الانعام6،آیت162)تر جمہ:تم فر ماؤ بیشک میری نماز اور میری قر بانیاں اور میرا جینا اور میرا مرنا سب اللہ کے لیے ہے جو رب سارے جہان کا۔(کنز الایمان) ”وَمَحْیَایَ:اور میرا جینا۔“ جو کلام الٰہی میں فر مایا گیا یہی حقیت میں ایک مومن کی ز ندگی کی عکاسی ہے کہ مسلمان کا جینا مرنا،خوشی اور عبادت وریاضت سب کچھ اللہ عز وجل کے لیے ہو نا چاہیے۔ اللہ والوں نے عید کو کیسے منایا کس طرح عید کے منانے کا پیغام دیا۔ تاریخ میں موجود ہے، مختصر مطالعہ فر مائیں جلیلۃ القدر صحابی حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ عید کے دن زارو قطار رو رہے ہیں۔ عید کے دن لوگ آپ کے گھر آئے آپ کی حالت دیکھ کر لو گوں نے حیران ہو کر تعجب سے عرض کیا، یا امیرالمومنین!آج تو عید کا دن ہے،آج تو شاد مانی ومسرت اور خوشی منانے کا دن ہے آج رونا کیسا؟ آپ نے آنسو پوچھتے ہوئے فر مایا:ھَذَایَوْمُ الُعِیُد-وَھَذَ ایَوْ مُ الْو عِیْد، اے لو گو! یہ عید کا دن بھی ہے اور وعید کا دن بھی ہے۔آج جس کے نماز روزہ مقبول ہو گئے۔ بلاشبہ اس کے لیے آج عید کا دن ہے۔ لیکن آج جس کے نماز روزہ کو مردود کر کے اس کے منھ پر مار دیا گیا ہو۔اس کے لیے آج وعید ہی کادن ہے اور میں اس خوف سے رو رہا ہوں کہ آہ!”اَنَالَااَدْرِیْ اَ مِنَ الْمَقْبُوْ لِیْن-اَمِنَ الْمَطْرُوْدِیْن“یعنی مجھے یہ معلوم نہیں کہ میں مقبو ل ہوا ہوں یا رد کر دیا گیا ہوں۔ پیارے مسلمانوں! خرافات، گانا بجانا، گنا ہوں کا ارتکاب کرکے ہم عید کو اپنے لیے وعید نہ بنالیں۔
عید ان کے لیے نہیں!:
حضرت سیدنا شیخ عبد القادر جیلانی فر ماتے ہیں کس قدر بد نصیب ہیں وہ لوگ جو رمضان المبارک کی عظمت اور اس کے تقدس کا احترم نہیں کرتے اور اپنا ہر لمحہ غفلت و معاصی میں گزار تے ہیں۔ اس کے باوجود وہ عید کی خوشیاں شان و شوکت سے مناتے ہیں،آپ نے عید کی خوشیوں کے سلسلے میں جن خیا لات کا اظہار فر مایا ہے وہ انتہائی جا مع اور سبق آموز ہیں۔
؎ ؎ لیس العید لمن شرب واکل ٭ انما العید لمن اخلص اللہ العمل
عید ان لو گوں کے لیے نہیں جو کھانے پینے میں مشغول ہو گئے۔عید تو ان کے لیے ہے جنھوں نے اعمال میں خلوص پیدا کیا
لیس العید لمن لبس الجدید ٭ انما العیدلمن خاف الوعید
عید ان کے لیے نہیں جنہوں نے نفیس ملبوسات سے خود کو آراستہ کیا۔ عید تو ان کے لیے ہے جو خدا کی وعید سے ڈر گئے
لیس العیدلمن تبخر با لعود ٭ انما العید لمن تاب ولا یعود
عید ان کے لیے نہیں جنہوں نے اپنے جسم کو معطر کرلیا۔ عید تو ان کے لیے ہے جنہوں نے اپنے گنا ہوں سے توبہ کی اور اس پر قائم رہے
لیس العید لمن نصب القدور ٭ انما العید لمن سعد با لمقدور
عید ان کے لیے نہیں جنہوں نے بڑی بڑی دیگوں میں لذیذ وعمدہ کھانے پکائے۔ عید تو ان کی ہے جنہوں نے حتی الا مکان نیک اور پاکیزہ زندگی گزار نے کا عہد کیا۔
لیس العید لمن تزین بزینۃ الدنیا ٭ انما العید لمن تزود بزاد التقوی
عید ان کے لیے نہیں جنہوں نے دنیا کی زینتوں سے اپنے آپ کو سنوار لیا۔ عید تو ان کے لیے ہے جنہوں نے تقویٰ اور پرہیز گاری کو اپنا شعار بنا لیا۔
لیس العید لمن۔۔ رکب المطایا ٭ انما العید لمن تر ک الخطایا
عید ان کے لیے نہیں جو عمدہ سواریوں پر سوار ہوکر شان و شوکت سے نکلے۔ عید تو ان کے لیے ہے جنہوں نے گنا ہوں کو ہمیشہ کے لیے ترک کر دیا.
عید الفطرکی اصل خوشی کو اللہ کی عبادت و خوف کے ساتھ ساتھ غریب، نادار، مفلوک الحال، یتیم، بیوہ اور مسکین کی داد رسی کے ساتھ مزین کریں یہی عید کا پیغام ہے اپنے لیے تو سبھی جیتے ہیں حقیقی جینا وہ ہے جو دوسروں کے لیے بھی ہو، اللہ تعالیٰ ہم سب کو عیدا لفطر ایمانی تقاضوں کے ساتھ منانے کی توفیق عطا فر مائے آمین ثم آمین:۔
—
Hafiz Mohammad Hashim Quadri Misbahi
Imam Masjid-e-Hajra Razvia
Islam Nagar, Kopali, P.O.Pardih, Mango
Jamshedpur, Jharkhand.Pin-831020
رابطہ: 09431332338 .: 09386379632