خلافت الٰہیہ کے قیام کی شرائط
مفتی کلیم رحمانی
8329602318 Mob:
دین اسلام کے بہت سے احکام ایسے ہیں جن کو پورا کرنے کے لیے کچھ شرائط ہیں ان ہی میں سے ایک حکم، حکومت الٰہیہ کا قیام ہے۔ بنیادی طور پر حکومت الٰہیہ کے قیام کے لیے پانچ شرائط ہیں، اور یہ پانچوں ہی آنحضورﷺ کی ایک حدیث سے اچھی طرح واضح ہوتی ہیں۔
عَنِ الْحَارِثِ الاَشْعَرِیْ قَالَ قَالَ رَسوُل اللّٰہ ﷺ اٰمُرُکُمْ بِخَمْسٍ بِالْجَمَاعَۃِ وَالسَّمْعِ وَالطَّاعَۃِ وَالْہِجْرَۃِ وَالجِہَادﷺ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ (رواہ احمد وترمذی)
”حضرت حارث اشعریؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میں تمہیں پانچ چیزوں کا حکم دیتا ہوں، جماعت کو لازم پکڑنے، سننے اور اطاعت کرنے کا، اور اللہ کی راہ میں ہجرت اور جہاد کرنے کا۔“
مذکورہ پانچ چیزوں کے ساتھ اگرچہ یہ وضاحت نہیں ہے کہ یہ حکومت الٰہیہ کی شرائط ہیں لیکن حدیث کے پیغام پر غور کرنے سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ یہ پانچوں ہی چیزیں حکومت الٰہیہ کے قیام کی شرائط سے تعلق رکھتی ہیں۔
ان چیزوں کا حکومت الٰہیہ کے قیام سے تعلق ہونے کی ایک دلیل یہ ہے کہ حدیث رسولﷺ میں ان پانچ چیزوں کے متصل سبیل اللہ کا ذکر ہے سبیل اللہ کا اطلاق غلبہ دین کی کوشش پر ہوتا ہے اور غلبہ دین کا ہی دوسرا نام حکومت الٰہیہ کا قیام ہے۔
غرض یہ کہ مذکورہ پانچوں ہی چیزوں کا حکومت الٰہیہ کے قیام سے اتنا گہرا تعلق ہے جو شرط کے درجہ میں آجاتا ہے۔
ان پانچ چیزوں میں سب سے پہلی چیز جماعت ہے، مطلب یہ کہ جماعت سے وابستہ ہونا اور جماعت نہ ہوتوجماعت قائم کرنا، جماعت سے مراد وہ جماعت ہے جو دین اسلام کے سیاسی و اخلاقی غلبہ کے لیے قائم کی گئی ہو اور اس کے لیے کوشاں ہو۔ اسلام میں جماعت کی بہت زیادہ
اہمیت ہے۔کیوں کہ اس کے بغیر ایک قدم بھی غلبہ دین کا راستہ طئے نہیں کیا جاسکتا اور اس لیے بھی کہ جماعت کے ساتھ اللہ کی خصوصی مدد ہوتی ہے جیساکہ فرمان رسول ﷺ ہے۔
یَدُ اللّٰہِ عَلیٰ الْجَمَاعَۃِ (ابن ماجہ) یعنی ”اللہ کا ہاتھ جماعت پر ہے۔“
ساتھ ہی جماعت کی وجہ سے مشکل کام بھی آسان ہوجاتا ہے اور بغیر جماعت کے آسان کام بھی مشکل ہوجاتا ہے۔ حضرت عمرفاروقؓ کے ایک ارشاد سے بھی جماعت کی اہمیت کا بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ آپؓ نے فرمایا : لَا اِسْلَام اِلَّا بِالجَمَاعَۃٍ وَلَا جَمَاعۃَ اِلَّا بِاِمَارۃٍ وَلَا اِمَارَۃَ اِلَّا بِطَاعَۃٍ (رواہ ابن عبدالبر فی الجامع وابن عساکر)
یعنی ”اسلام بغیر جماعت کے نہیں اور جماعت امیر کے بغیر نہیں اور امیر اطاعت کے بغیر نہیں۔“
حضرت عمرؓ کے مذکورہ ارشاد سے جہاں یہ بات واضح ہوئی کہ اسلام کا لازمی تقاضہ جماعت کا قیام ہے تو وہیں یہ بات بھی واضح ہوئی کہ جماعت کا لازمی تقاضہ امیر اور اس کی اطاعت ہے۔
پانچ چیزوں میں سے دوسری اور تیسری چیز امیر کی بات سننا اور اس کی اطاعت کرنا، اسلام میں امیر کی بات سننے اور اطاعت کرنے کی کتنی اہمیت ہے آنحضورﷺ کی ایک حدیث سے بخوبی سمجھا جاسکتا ہے۔
عَنْ اُمَّ الْحُصَیْنِ قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللّٰہِﷺ اِنْ اُمَّرَ عَلَیْکُمْ عَبْد’‘ مُجدَّع’‘ یَقُودُکُمْ بِکِتَابِ اللّٰہِ فَاسْمَعُوْا لَہٗ وَاَطِیْعُوا (مسلم شریف)
”حضرت ام حصین ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا اگر تم پر کان اور ناک کٹا غلام امیر مقرر کردیا جائے جو کتاب اللہ کے مطابق حکم دے تو اس کا حکم سنو اور اس کی اطاعت کرو۔“
مذکورہ حدیث سے یہ بات واضح ہوئی کہ اسلام میں امیر کی اطاعت مشروط ہے کتاب اللہ کے ساتھ، مطلب یہ کہ اگر امیر اللہ کی نافرمانی کا حکم دے تو اس کی اطاعت نہیں کی جائے گی۔ جیسا کہ آنحضورﷺ نے فرمایا :
لَا طَاعَۃَ فِیْ مَعْصِیَۃِ اللّٰہِ اِنَّمَا الطَّاعَۃُ فِیْ الْمَعْرُوْفِ (بخاری و مسلم)
یعنی ”اللہ کی نافرمانی میں کسی کی اطاعت جائز نہیں کیوں کہ اطاعت صرف نیکی اور بھلائی میں کی جاتی ہے۔“
ایک دوسری حدیث سے بھی کسی انسان کی اطاعت کی حد اچھی طرح واضح ہوتی ہے۔ آنحضور ﷺ نے فرمایا : لَا طَاعَۃَ لِمَخْلُوْقٍ فِیْ مَعْصِیَۃِ الْخَالِق (شرح السنہ مشکٰوۃ)
”خالق کی نافرمانی میں مخلوق کی اطاعت جائز نہیں ہے۔“
ان حدیثوں سے یہ بات واضح ہوئی کہ اسلام میں نہ امیر حکم دینے میں آزاد ومختار ہے اور نہ مامور اطاعت کرنے میں آزادومختار ہے بلکہ امیر و مامور دونوں ہی معروف کے تابع وپابند ہیں۔
چوتھی چیز ہجرت ہے، ہجرت کے لغوی معنی چھوڑنے کے ہیں اور شرعی اصطلاح میں ہجرت یہ ہے کہ اگر کسی مسلمان کے لیے اپنے وطن میں دشمنان اسلام کے غلبہ اور ان کے ظلم کی وجہ سے دین پر عمل کرنا اور غلبہ دین کا کام کرنا ناممکن ہوجائے اور ان کے غلبہ و ظلم کا مقابلہ کرنے کی طاقت بھی نہ ہوتو ایسی صورت میں اپنے وطن کو چھوڑ کر دوسرے مقام پر اس مقصد سے جانا کہ وہاں دین پر عمل کرسکے اور غلبہ دین کا کام کرسکے ہجرت کہلاتا ہے، اور حدیث مذکور میں اسی ہجرت کا حکم ہے۔
ہجر ت کی ضرورت پیش آنے پر ہجرت کرنا اسلام میں کتنا ضروری ہے اور نہ کرنا کتنا گناہ ہے قرآن کی ایک آیت سے اچھی طرح سمجھا جاسکتا ہے۔
اِنَّ الَّذِیْنَ تَوَفّٰہُمْ الْمَلٰٓءِکَۃُ ظَالِمِی اَنْفُسِہِمْ قَالُوا فِیْمَ کُنْتُمْ قَالُوا کُنَّا مُستَضعَفِیْنَ فِی الْاَرْضِ قَالُوْا اَلَمْ تَکُنْ اَرْضُ اللّٰہِ وَاسِعَۃً فَتُہَا جِرُوْفِیْھَا فَاُوْلٰءِکَ مَأ وٰہُم جَہَنَّم وَسَآءَ تُ مَصِیْراً (النساء ۷۹)
”بے شک جن لوگوں نے اپنے آپ پر ظلم کیا تو جب فرشتے ان کی جان نکالتے ہیں تو
پوچھتے ہیں تو تم کس حال میں تھے وہ کہتے ہیں ہم ملک میں بے بس تھے، فرشے کہتے ہیں کیا اللہ کی زمین وسیع نہیں تھی کہ تم اس میں ہجرت کرتے، بس ان کا ٹھکانہ دوزخ ہے اور وہ بہت بری جگہ ہے۔“
ایک اور آیت میں اللہ تعالیٰ نے ہجرت کی فضیلت کو یوں بیان فرمایا:
وَمَنْ یُھَاجِرْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ یَجِدْ فِیْ الْاَرْضِ مُرْغٰمًا کَثِیْرًا وَّسَعَۃً (النساء ۰۰۱)
”اور جو کوئی ہجرت کرے گا اللہ کی راہ میں وہ زمین میں بہت جگہ اور وسعت پائے گا۔“
مذکورہ آیت سے یہ بات واضح ہوئی کہ دین کی خاطر اپنے وطن کو چھوڑنے سے کوئی بے سہارا نہیں ہوجاتا بلکہ اللہ اسے بہتر ٹھکانہ عطاکرتا ہے اور آزادی کے ساتھ دین پر عمل کرنے اور اس کو غالب کرنے کی طاقت بھی عطا کرتا ہے۔
چنانچہ تاریخ شاہد ہے کہ جب آنحضورﷺ اور صحابہ کرام نے دین کی خاطر مکہ کو چھوڑکر مدینہ کی طرف ہجرت کی تو اللہ تعالیٰ نے انہیں بہترین ٹھکانہ بھی عطا کیا اور آزادی کے ساتھ دین پر عمل کرنے اور اس کو غالب کرنے کی طاقت بھی عطا کی، اور پھر ایک دن وہ بھی آیا کہ جس شہر مکہ سے آنحضورﷺ اور صحابہ کرامؓ مظلومانہ نکالے گئے تھے اسی شہر مکہ میں فاتحانہ داخل ہوئے، اور اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ حرف بہ حرف صحیح ثابت ہوا۔
وَالَّذِیْنَ ہَاجَرُوفِی اللّٰہِ مِن م بَعْدِمَاظُلِمُوْا لَنُبَوَّءَنَّہُمْ فِیْ الدُّنْیَا حَسْنَۃً وَلَاَجْرُ الْاٰخِرَۃِ اَکْبَرُ لَوْ کَانُوْ یَعْلَمُوْنَ (سورۃ النحل ۱۷)
”اور جن لوگوں نے ہجرت کی اللہ کے واسطے بعد اس کے کہ ظلم اٹھایا تو ضرور ہم انہیں دنیا میں اچھا ٹھکانہ دیں گے اورآخرت کا اجر تو بہت بڑا ہے اگر وہ جانیں۔“
اور اللہ کا یہ وعدہ قیامت تک مظلوم مہاجرین کے حق میں ضرور پورا ہوتا رہے گا بشرط یہ کہ ان کی ہجرت اللہ کے لیے ہو۔ غرض یہ کہ بعض وقت مسلمان کے لیے دین کی خاطر ہجرت ناگریز ہوجاتی ہے اور اس وقت ہجرت سے گریز کرنا گویا دین سے گریز کرنا ہے۔
پانچویں چیز اللہ کی راہ میں جہاد کرنا ہے، جہاد کا مطلب اللہ کے دین کو غالب کرنے کے لیے باطل پرستوں سے مسلح جنگ کرنا ہے۔
اسلام میں جہاد کی اہمیت کا اس سے بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اس کے بغیر اسلام دنیا میں غالب آہی نہیں سکتا، اگر اس کے بغیر بھی اسلام دنیا میں غالب آسکتا تھا تو اللہ تعالیٰ قرآن میں بار بار تاکید کے ساتھ مسلمانوں کو جہاد کا حکم نہ دیتا۔ اور پوری اسلامی تاریخ اس پر شاہد ہے کہ آج تک دین اسلام کو کہیں بھی جہاد کے بغیر غلبہ حاصل نہیں ہوا، خود دور نبوی میں اور دور صحابہؓ میں بھی اسلام کو جہاد کے بغیر غلبہ حاصل نہیں ہوا، چنانچہ آنحضورﷺ جب تک مکہ میں تھے اور جہاد کا عمل جاری نہیں ہواتھا اسلام مغلوب تھا، لیکن جب آنحضور ﷺ مدینہ تشریف لائے اور یہاں سے جہاد کا عمل جاری ہوا تو اسلام چند ہی سالوں میں پورے عرب پر غالب آگیا۔ ماضی میں اگر کسی ملک یا شہر میں جہاد کے بغیر اسلام کے غلبہ کی مثال ملتی ہو اس کی اصل وجہ بھی وہاں کے باطل پرستوں کا مسلمانوں کی جنگی طاقت وقوت سے مرعوب ہوکر اسلام کے غلبہ کو تسلیم کرلینا ہی رہی ہے، گویا عدم لڑائی کے غلبہ میں بھی مسلمانوں کی لڑائی کی قوت ہی کارفرما رہی ہے۔
کچھ مسلمان اسلامی اخلاق و کردار کا حوالہ دے کر غلبہ دین میں جہاد کی اہمیت و ضرورت سے انکار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اگرمسلمانوں کے اخلاق وکردار درست ہوجائیں تو اسلام خودبخود دنیا میں غالب آجائے گا اور دنیا کی باطل حکومتیں مسلمانوں کے قدموں میں آجائیں گی۔ یہ بات اگر اسلامی اخلاق کے وسیع تناظر میں کہی جاتی جس میں جہاد بھی شامل ہے تو یقینا درست ہوتی، لیکن بدقسمتی سے یہ بات اسلام کے اس اخلاقی تناظر میں کہی جاتی ہے جس میں جہاد شامل نہیں ہے۔ اگر جہاد کے بغیر محض دوسرے اخلاق وکردار کی بناء پر اسلام کو غلبہ حاصل ہوجاتا تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ آنحضورﷺ اور صحابہ کرامؓ میں ایسی کونسی اخلاقی کمی وخرابی تھی جس کی وجہ سے آنحضورﷺ اور صحابہ کرام ؓ کو اسلام کے غلبہ کے لیے کئی جنگیں لڑنی پڑی اور دنیا کی ایک بھی باطل
حکومت بغیر جنگ کے ان کے قدموں میں نہیں آئی، جب کہ ہمارا ایمان ہے کہ آنحضورﷺ اخلاق کے سب سے بلند ترین مقام پر فائز تھے جیساکہ خود اللہ تعالیٰ نے آنحضورﷺ کے بلند اخلاق کی قرآن میں گواہی دی چنانچہ فرمایا
وَاِنَّکَ لَعَلیٰ خُلُقٍ عَظِیْمٍ (سورۃ القلم ۴) یعنی بے شک آپﷺ عظیم اخلاق پر فائز ہیں۔
اسی طرح صحابہ کرام بھی اخلاق وکردار میں بے مثال تھے۔
اگر بغیر جنگ کے محض دیگر اخلاق کی بنا پر اسلام کو سیاسی غلبہ حاصل ہوسکتا تو کم از کم مکہ میں نبوت کے بعد حاصل ہوجاتا جہاں آنحضورﷺ کو صادق وامین کہاجاتا تھا۔ لیکن اس شہر سے بھی آپﷺ کو نکلنا پڑااور اسلام کا غلبہ تب ہوا جب آپﷺ ۸ ہجری میں جنگی طاقت کے ساتھ مکہ میں داخل ہوئے۔