حضرت علامہ شاہ عبد العلیم صدیقی رحمۃ اللہ علیہ(3)
ابوعبدالقدوس محمد یحییٰ
علم لدنی تشکیک وتردید سے پاک،غیرمتزلزل،حتمی، پختہ ،صحیح اور صواب ہے۔جس میں غلطی وکوتاہی کا احتمال تک نہیں۔اس میں مادر زاد اندھے تو کیا مُردوں تک کو زندہ کیاجاسکتا ہے۔ ہراکتسابی علم عطائی ہے لیکن لازمی نہیں کہ ہر عطائی علم اکتسابی بھی ہو۔انبیاء و اولیاء کا علم ظاہر ہے کسبی یاکتابی نہیں بلکہ عطائی یالدنی ہے۔
علم کی تعریف اوراس کی اقسام:
علم:معرفۃ الشیء وادراکہ بحقیقتہ ،أی علی ماھو علیہ بدون تردد وبدون شک۔( شرح اسماء اللہ الحسنیٰ، للبیضاوی، ص ٢٢٢(العلیم)
”علم:بغیر کسی شک وتردد کے اشیاء کی معرفت وحقیقت کا ادراک کا نام ہے۔”
یہ وہ مقامِ معرفت وحقیقت ہے جس پر حضرت شاہ عبدالعلیم صدیقی رحمہ اللہ فائز تھے۔یہاں علم کی اقسام کا تذکرہ بھی قطعاً غیر ضروری نہ ہوگا کہ حصول علم کے اعتبار سے علم کی دوقسمیں ہیں ایک کسبی اور دوسری عطائی۔
کسبی علم:
کسبی علم جیسا کہ نام سے ظاہر ہےوہ علم جو اکتساب (محنت اورجدوجہد) سے حاصل ہوتاہے۔ غوروفکر اورکتابیں پڑھنے سے حاصل ہوتاہے۔ کسبی علم کہ جس قدرلکھے پڑھے گا علم حاصل ہوتاچلاجائے گا۔لیکن کسبی وکتابی علم محدود ناقص اورمشکوک ہے اور اس میں استعداد کی بھی شرط ہے۔ ہر شخص اپنی قوت ، لیاقت، محنت،قابلیت،استعداد، جدوجہد اورریاضت کے مطابق ہی علم حاصل کرے گا۔ ایک خاص حد تک ہی حاصل کرے گا اس سے آگے نہیں بڑھ سکتا خواہ وہ کچھ بھی کرلے،جیسا کہ علم طب میں مادر زاد اندھے کی آنکھوں میں بینائی لانے کی قوت وصلاحیت کسی بھی قسم کے جدید و قدیم طریقہ علاج میں نہیں ہے۔اس کیفیت کو ایک شاعر نے بہت ہی نفیس پیرائے میں بیان کیا ہے:
کسبِ ہر فن میں ، لگی ہے شرط استعداد کی
کب کھلیں سرمہ سے آنکھیں کورِ مادر زاد کی
علم لدنی(عطائی علم):
دوسراعلم عطائی ہے جوبغیر غوروفکر اورکسب واکتساب کے حاصل ہوجاتاہے۔کسبی علم کے برعکس علم لدنی (عطائی) کے لئے تکلیف دہ مشقت،ریاضت،محنت،کوشش،جدوجہد کی قطعا کوئی شرط نہیں نہ قیدزمان ومکان، نہ فاصلہ قریب وبعید، نہ ماضی وحال واستقبال،نہ حاضر و غائب ، جو کچھ ہے حال ہی حال ہے، عطا ہی عطا ہے،حاضر ہی حاضر ہے اورجس قدر روحانی ترقی کرتاچلاجائے گا علم لدنی حاصل ہوتا جائے گا۔جیسا کہ آئرش فلاسفر اورکیمسٹ رابرٹ بوئیل(Robert Boyle 1626-1691) بھی اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے لکھتا ہے:
“The insight did not come from “painful effort but, so to speak, by the grace of God”.(Archimedes to Hawking, Clifford A_ Pickover, Oxford University Press, 2008, pg 6)
"جیسا کہ کہاجاتاہے کہ بصیرت(علم لدنی) تکلیف دہ کوششوں سے حاصل نہیں ہوتی بلکہ یہ(محض)اللہ تعالیٰ کی رحمت سے حاصل ہوتی ہے۔”
اس ہی بات کو ایک شاعر اس خوبصورت پیرائے میں بیان کرتاہے:
قدر ظرف ہر عاشق مقام اپنا بناتا ہے
یہ وہ آدابِ محفل ہیں جو سکھلائے نہیں جاتے
یہ علم شک وشبہ سے بالاتر اورتشکیک وتردید سے پاک،غیرمتزلزل،حتمی، پختہ ،صحیح اور صواب ہے۔جس میں غلطی وکوتاہی کا احتمال تک نہیں۔اس میں مادر زاد اندھے تو کیا مُردوں تک کو زندہ کیاجاسکتا ہے جس کی مثالیں انبیاء واولیاء کی سیرت و سوانح سے بخوبی مل سکتی ہیں ۔ ہاں اگر یہ علم لدنی نبی یارسول کی زبان سے ہو اور بصورت حکم وکتاب ہو تو اسے وحی کہتے ہیں ، اگر اس کاتعلق اولیاء اللہ اورنیک و صالح بندوں سے ہو تو اسے الہام سے تعبیر کیاجاتاہے۔ ہراکتسابی علم عطائی ہے لیکن لازمی نہیں کہ ہر عطائی علم اکتسابی بھی ہو۔انبیاء و اولیاء کا علم ظاہر ہے کسبی یاکتابی نہیں بلکہ عطائی یالدنی ہے۔ یہ قلبی اور روحانی اورباطنی معاملہ ہے۔اوریہ کہنا قطعاً مبالغہ آرائی نہ ہوگا کہ یہ باطنی معاملہ ،مخفی اسرار اورپوشیدرموز تمام علوم کا سرچشمہ اورمنبع ہے۔جسے بعض عظیم سائنسدان بھی قبول کرتے ہیں۔جیسا کہ البرٹ آئن سٹائن(Albert Einstein) اپنی کتاب “What I believe” میں لکھتاہے:
“The most beautiful thing we can experience is the mysterious. It is a source of all true art and science.” (Archimedes to Hawking, Clifford A_ Pickover, Oxford University Press, 2008, pg 170)
"سب سے خوبصورت چیز جس تجربہ سے ہم گزرسکتے ہیں وہ مخفی اسرار ہیں۔یہ تمام حقیقی علوم وفنون کا ذریعہ ہے۔”
یہ مخفی اسرار عکسِ قلب ہے یعنی کہ یہ دل کا عکس ہے جو آئینے کے عکس کی طرح نہیں ہوتا کہ سامنے ہوتب ہی نظرآئے۔بلکہ جب بھی کبھی کسی نہ نگاہِ گرم ڈالی تو فوراً دل اس کی تپش محسوس کرتا ہے اورپگھلنا شروع ہوجاتاہے۔ بقول شاعر
نگاہِ گرم سے پگھلتا ہے یہ
دیکھ یہ آئینہ نہیں دل ہے
تصوف:
"وہ مقدس ومبارک علم جو قلب کو ذمائم کی نجاست سے پاک بنانے کی ترکیب سکھائے اورصفائے باطن کا طریق بتاکرروح کو اس کی معراج کمال تک پہنچانے اور رفیق اعلیٰ سے وصال حقیقی پانے کی طرف دال ہو۔تصوف کہلاتاہے۔تزکیہ وعروج کے طریقہ کو سلوک اس راہ کے چلنے والے کو سالک یا متصوف اورمنتہی کو صوفی کہتے ہیں۔
بفحوائے ؏ عشرتِ قطرہ ہے دریامیں فناہوجانا”
مذکورہ بالاتعریف کی رو سے تصوف "رفیقِ اعلیٰ سے وصال حقیقی پانے کی طرف دال” ہے۔گویا ان تعبد اللہ کانک تراہ فان لم تکن تراہ فانہ یراک۔” کتاب التصوف، شاہ محمد عبدالعلیم صدیقی القادری،ص39
(غالب کا یہ شعرکچھ یوں ہے:
عشرتِ قطرہ ہے دریامیں فناہوجانا
درد کا حد سے گزرنا ہے دوا ہو جانا)
تو اللہ کی عبادت اس طرح کرے کہ گویا تو رب کو دیکھ رہا ہے،پس اگر تو نہ دیکھ رہا ہو( اس مقام پر نہ ہوتو یہ مستحضر رہے)پس وہ تمہیں دیکھ رہا ہے۔”
لیکن یہ خیال رہے کہ شریعت اورطریقت ایک دوسرے کے لیے لازم ملزوم ہیں ۔یعنی شریعت کے بغیر طریقت نہیں مل سکتی (شریعت کے بغیر راہِ سلوک پر چلنا درحقیقت گمراہی ہے) اورطریقت کے بغیر حقیقت تک نہیں پہنچاجاسکتا(طریقت کے بغیر حقیقت تک پہنچنا خام خیالی ہے) یعنی روح کو اس کی معراج کمال اوربلندیوں تک نہیں پہنچایاجاسکتا۔
طریقت بے شریعت نیست واصل
حقیقت بے طریقت نیست حاصل
حضرت شاہ عبدالعلیم صدیقی علیہ الرحمہ نے نہ صرف ظاہری علوم کی نشرواشاعت کی بلکہ باطنی اورپوشیدہ علوم (تصوف) کے رموز وباریکیوں کو بھی الم نشرح (کھول کھول کر بیان )کیا۔اس مقصدکے لیے آپ علیہ الرحمہ نے باقاعدہ ایک تصنیف فرمائی جس کا نام کتاب التصوف مسمیٰ بہ لطائف المعارف رکھا۔جس میں آپ نے تصوف کی تعریف ،راہ سلوک ،اس کی منازل،مدارج،مراحل، تمرینات،کیفیات،طرق،اذکار ، مشاہدات اور مقامات الغرض ہر امرپر سیر حاصل گفتگوفرمائی۔
راہِ سلوک کا طالب اوران تمرینات اورمنازل سے گزرنے والا اس حقیقت کو پالے گا کہ اگر اس راہ میں آگے بڑھنا ہے تو اپنی انا،چاہت،خواہش،ارمان کو بالکل محوکرنا ہوگا ، رب سے محبت بایں معنی کرنی ہوگی کہ ہماری چاہت ہی وہی ہوجائے جورب کی چاہت اورمنشاء ہے۔اس طرز اورادا پرچلنے والے کے لیے نہ تو دنیا میں ہونے والا کوئی خوشگوار واقعہ خوشی کا باعث ہوگا اور نہ ہی رونما ہونے والا کوئی سانحہ یاحادثہ غم اوراذیت کا باعث ہوگا۔ بلکہ انسان کی چاہت ہی وہی ہوجائے گی جو رب کی چاہت ہے۔اورتمام نظام کائنات رب کے حکم ومنشاء پرچل رہا ہے جو اس شخص کی اپنی چاہت ہے۔
محبت کے یہ معنی ہیں کہ میں نے
وہی چاہا کہ جو کچھ تونے چاہا (بہادر شاہ ظفر)
انداز تبلیغ:
آپ کی تبلیغی مساعی کے نتیجہ میں ہزاروں لوگ آپ علیہ الرحمۃ کے دست اقدس پرمسلمان ہوئے اور لاکھوں لوگ گناہوں ومعاصی سے تائب ہوئے۔ آپ کی اس کامیابی کااگرمختصراً جائزہ لیاجائے تو اس کی بنیادی وجہ آپ کا اسلاف کے طریقۂ تبلیغ پر عمل کرنا تھا۔ جس میں بلا کسی ذاتی غرض و منفعت ،نفع ،کے بے لوث خلوص کے ساتھ کلمہ حق کی تبلیغ کے ساتھ ساتھ طبائع بشری کا خیال رکھنا ہے۔آپ اس رمزِتبلیغ سے بخوبی آشنا تھے،کہ کس شخص کوکس وقت، کس انداز یا کس پیرائے میں کیابات سمجھانی ہے۔کب بشارت و خوشخبری سے کام لینا ہے اورکب انذار اورڈرانے سے کہ لوگوں کو اتنا نہ ڈرایاجائے کہ وہ اللہ رب العزت کی رحمت سے ہی مایوس ہوجائیں اورنہ اتنا ان کو بے خوف کردیاجائے کہ گناہوں کا خوف ہی دل سے نکل جائے۔ جیسا کہ عربی مقولہ ہے: لکل مقال مقام ولکل مقام مقال(ہر قول کا ایک مقام ہوتاہے اورہر مقام کا ایک قول)آپ اس مقولہ پر اچھی طرح کاربندرہتے۔
اس نکتہ کی مزید وضاحت حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مندرجہ ذیل دو اقوال سے بخوبی ہوتی ہے۔
قال علی رضی اللہ عنہ ان للقلوب شھوات واقبالا وادبارا ۔ فأتوھا من قبل شھواتھا واقبالھا فان القلب اذا اکرہ عمی۔( کتاب الخراج ،امام ابویوسف علیہ الرحمہ)
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:دلوں کی کچھ خواہشیں اورمیلانات ہوتے ہیں اور کسی وقت وہ بات سننے کے لیے تیار رہتے ہیں اور کسی وقت اس کے لیے تیار نہیں رہتے تو لوگوں کے دلوں میں ان میلانات کے راستے داخل ہو اور اس وقت اپنی بات کہو جب کہ وہ سننے کے لیے تیار ہوں اس لیے کہ دل کا حال یہ ہے کہ جب اس کو کسی بات پر مجبور کیاجاتاہے تو وہ اندھا ہو جاتاہے۔ اور یہ بات کو قبول کرنے سے انکار کردیتا ہے۔
وقال علی :الفقیہ من لم یقنط الناس من رحمۃ اللہ ولم یرخص لھم فی معاصی اللہ۔ولم یؤمنھم من عذاب اللہ۔( کتاب الخراج، امام ابویوسف علیہ الرحمہ)
اورحضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ مزید فرماتے ہیں :بہترین عالم وہ ہے جولوگوں کو(اپنی تقریر و وعظ سے) اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں کرتا اورنہ اللہ کے عذاب سے انہیں بے خوف کردیتاہے۔
یہاں یہ ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ آپ صرف تقریری یا تحریری تبلیغ کے قائل نہ تھے کہ تقریر وتحریر میں دلائل کے انبار لگادیئے جائیں ۔اگرچہ یہ دونہایت ہی اہم ذرائع ہیں جن کے ذریعے اپنا پیغام دوسروں تک پہنچایا جاسکتاہے۔ لیکن آپ ان کے ساتھ عملی و روحانی تبلیغ بھی کرتے تھے۔آپ ایک باعمل صوفی تھے کیونکہ آپ اس حقیقت سے آگاہ تھے کہ محبت اورذاتی کردار ہی کے ذریعے سے لوگوں کے قلوب مسخر کیے جاسکتے ہیں ۔ آپ مناظرہ ومجادلہ (جواکثر دل آزاری ،دل شکنی سے خالی نہیں ہوتا) کے بجائے سادہ،پرکیف،دل نشین اوردل آویز انداز میں اپنی بات سمجھانے کی کوشش کرتے۔ کیونکہ فلسفیانہ موشگافیوں ،مدلل اور منہ توڑ جوابات سے دوسروں کو خاموش تو کرایا جاسکتا ہے ،ان کی زبانوں پر قفل تولگایاجاسکتاہے لیکن ان کے دلوں کو نہیں جیتا جاسکتا۔ ہاں اگر دل جیتنے ہیں دوسروں کواپناگرویدہ بناناہے تو اپنے کرداروگفتار کے ذریعہ اپنا دیوانہ بناؤ، صوفیاء کا طرز عمل اپناؤ، درحقیقت تصوف ہی وہ واحد راستہ و طریقہ ہے جس سے دنیا میں اسلام کا بول بالا ہوسکتاتھا ،ہوسکتا ہے ،ہوتارہے گا اور تو اور اس کے ذریعہ فلسفہ کو بھی مسلمان کیاجاسکتا ہے۔ جس پر تاریخ شاہد ہے۔ امام غزالی،شیخ سعدی،مولاناروم علیہم الرحمہ جیسے مشایخ تصوف کی وجہ سے خود فلسفہ ہی اسلام لے آیا۔ آسان الفاظ میں اگر کہا جائے کہ فلسفہ کی اسلامائیزیشن ہوگئی توکچھ غلط نہ ہوگا۔اس نکتہ کی ترجمانی اکبرالہ آبادی نے اپنے اس شعر میں بہت احسن انداز سے کی ہے:
تصوف ہی زباں سے دل میں حق کا نام لایاہے
یہی مسلک ہے جس میں فلسفہ اسلام لایا ہے
——