کالم : بزمِ درویش
محلے دار
پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
ای میل:
ویب سائٹ: www.noorekhuda.org
شاندار لذیز مزے دار افطاری‘ ٹھنڈے شیریں مشروبات‘ فروٹ چاٹ‘پکوڑے‘ سموسے‘ ویجیٹیبل رول‘ دہی بھلے‘اور پھر نمازکے بعد لذیز اشتہا انگیز فل آف پروٹین کھانا کھانے کے بعد الائچی والی دودھ پتی پینے کے بعد میں نے خود کو آرام دہ ٹھنڈے اے سی والے کمرے میں گداز بستر پر گرا دیا‘دن بھر کی دھوپ گرمی کے بعد جھلسا ہوا جسم بے چینی پیاس بھوک بے قراری کے بعد آرام کے زون میں داخل ہو گیا‘
میرا معدہ مو جودہ دور کی لذیذ نعمتوں سے بھرا ہوا تھا نرم و گداز بستر جدید ائر کنڈیشنر کی ٹھنڈی ہوا اب میرا جسم آرام سے غنودگی اور پھر نیند کے جھولے جھولنا چارہا تھا لیکن میرا دماغی خلفشار بے چینی بے قراری اداسی جسم کو آرام دہ ماحول میں جانے نہیں دے رہی تھی کمرے کی روشنی آف کر کے میں نے غنودگی میں جانے کی بھر پور کو شش کی لیکن ذہنی دباؤ بے چینی کا غلبہ بھاری تھا‘ میں سونے کی کوشش کر رہا تھا لیکن دماغ اورجسم کا تال میل نہیں ہو رہا تھا دماغ اور جسم کی باہمی جنگ جاری تھی‘ میں کروٹوں پر کروٹ لے رہا تھا میں جب بھی نیند کی وادی میں اُترنے کی کو شش کر تا دوپہر کا منظر کو ہ ہمالیہ بن کر میری سانس کی نالی پر آکر ٹھہر جاتا مجھے سانس لینے میں دشواری محسوس ہو نے لگتی دن بھر کی تھکاوٹ جوانی کا اختتام بڑھاپے کا آغاز معدے میں صحت بخش مزے دار فروٹ جوس اور کھانے لیکن جسم اور دماغ کی بے قراری بڑھتی جارہی تھی پوری کوشش کے بعد جب نیند کی دیوی مجھ سے روٹھی رہی تو میں اُٹھ گیا اور گھر کی چھت پر جاکر بیٹھ کر آسمان پر ٹمٹماتے ستاروں کو دیکھنے لگا اب میں نے کرسی پر تقریبا لیٹ کر ٹانگیں سامنے والی کر سی پر رکھ دیں اور جسم کو کھلا چھوڑ دیا خود پر مراقباتی حالت غنودگی طاری کر نے کی پھر کو شش کر نے لگا ٹھنڈی ہوائیں میرے جسم سے ٹکرا رہی تھیں تاروں بھرا کھلا آسمان رات کا پہر ٹھنڈی مدہوش ہوائیں لمحوں میں انسان کو نیند کی وادی میں داخل کر دیتی ہیں اب میں پھر کوشش کر نے لگا کہ میرے دماغ کے فریم میں فکس وہ چہرہ مجھے بھول جائے تاکہ میں نیند کے خمار اور افطاری کا لطف لے سکوں لیکن یہاں پر بھی میرا واسطہ ناکامی سے ہی تھا اعصاب بو جھل تھکے ہو ئے بھی تھے لیکن دماغی کرب اُن پر حاوی تھا۔ میرا جسم آرام غنودگی مانگ رہا تھا لیکن شعوری لا شعوری مزاحمت حائل تھی آرام دہ کرسی پر دراز میں کچھ دیر تو شعوری مزاحمت سے لڑتا رہا جب بس نہ چلا تو اُٹھ کر چھت پر ادھر ادھر چلنا شروع کردیا پھر آسمان کی طرف منہ کر کے لمبے لمبے سانس اپنے پھیپھڑوں میں بھرنے لگا تاکہ زیادہ آکسیجن سے خون کی گردش متوازن ہو تا کہ جسم آرام دہ ماحول میں داخل ہو جائے یہاں بھی میں فیل ہو گیا تو دوبارہ پھر کرسی پر بیٹھ کر مراقباتی آسن بناکر دماغ کو پرسکون خالی کر نے کی کو شش کر نے لگا اِس دوران لمبے لمبے سانس اپنے پھیپھڑوں میں پھر بھر نے لگا لیکن وہ معصوم نیک چہرہ خنجر کی طرح بار بار دل ودماغ میں ترازو ہو رہا تھا وہ خیال وہ چہرہ وہ منظر بار بار میرے شعور پر دستک دے رہا تھا جبکہ میں اُس کو جھٹک رہا تھا میں اُس کے بارے میں سوچنا نہیں چاہتا تھا کیونکہ اُس کی بے چارگی ندامت سفید پو شی بچھو کی طرح مجھے ڈس رہی تھی اُس کا چہرہ چہرے پر پھیلی سفید پوشی لاچارگی ندامت کے تاثرات آنکھوں میں تیر تا ہوا ندامت بے بسی کا رنگ‘ جیسے جیسے میں غور کر تا دل و دماغ بو جھل ہو نے لگتے لہٰذا میں دماغ کو اِدھر اُدھر لگا نے کی کو شش کر نے لگتا لیکن میں پو ری کو شش کے باوجود ناکام ہو رہا تھا۔ چند مخیر دوستوں کی محبت کی وجہ سے ہر سال کی طرح اِس سال بھی رمضان راشن لاہور سے دور دراز علاقوں میں بانٹنے کی سعادت حاصل ہو ئی سامان جب پک اپ میں لوڈ کیا جارہاتھا اچانک میرا محلے دار جو مجھ سے چند گھروں کے فاصلے پر رہتا ہے خاموشی اوراحترام سے سر جھکائے میرے پاس آکر کھڑا ہوگیا ہماری سلام دعا آپس میں نہیں تھی صرف چہرہ شناسائی تھی یہ شخص پابند صوم و صلوۃ تھا آتے جاتے مسکراہٹوں کا تبادلہ ہو جاتا نیک انسان چہرے پر داڑھی شلوار ٹخنوں سے اوپر چہرے پر شرافت معصومیت کے مستقل تاثرات وضع قطع چال ڈھال انداز سے شریف النفس سفید پو ش انسان جب میرے پاس کھڑا ہوا تو میں نے شفیق تبسم سے اُس کی طرف دیکھا اور بولا جناب کیا حال ہے آپ خیریت سے ہیں میرے لائق کو ئی حکم‘ مجھے لگا کو ئی محلے کی بات کرے گا لیکن جب اُس نے بغور راشن کے پیکٹوں کی طرف دیکھنا شروع کیا تو مجھے لگا شاید وہ اپنے کسی ملازم یا ملازمہ کے لیے راشن لینا چاہتا ہے ابھی میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ اُس کی کمزور درد اور ندامت میں ڈوبی آواز ابھری سر یہ سامان آپ رمضان راشن کے طور پر بانٹ رہے ہیں یہ ضرورت مندوں میں تقسیم کریں گے تو میں فوری بولا ہاں جناب یہ تھوڑی سی ہم کوشش کرتے ہیں تاکہ کچھ ضرورت مندوں میں تقسیم ہو سکے تو وہ میرے قریب سرکا اور سر گوشی کے لہجے میں دھیر ے سے بولاجناب اگر آپ غصہ نہ کریں تو میں بھی ضرورت مند ہوں میں ایک پیکٹ اٹھا لوں‘ میں نے فوری اقرار کیا ہاں جناب ہاں آپ ضرور لیں کسی ملازم کو دینا ہے آپ نے تو اُس نے بے بسی ندامت کی نظروں سے میری طرف دیکھا جن میں شرمندگی بے بسی کا ساون بھادوں ٹھاٹھیں مار رہا تھابولا نہیں جناب جھوٹ نہیں بولوں گا یہ مجھے چاہیے کاروبارمیں نقصان کی وجہ سے میں کوڑی کوڑی کا محتاج بلکہ قرض میں ڈوب چکاہوں میری مالی حالت اتنی کمزور ہے کہ بچوں کو سحری افطاری نہیں کرا سکتا آپ کا سامان دیکھا تو مجبوری میں آپ کے پاس آگیا وہ بول کر اپنے موقف کو سچا ثابت کرنا چاہتا تھا لیکن میں نے اُسے روک دیا اور سامان کا توڑا اٹھا کر اُس کے کندھے پر رکھ دیا تا کہ وہ فوری چلا جائے کوئی اور محلے دار اُسے دیکھ نہ سکے وہ تو چلاگیا لیکن میرے باطن میں ریگستان آباد کر گیا اُس کے جانے کے بعد مستر ی پلمبر الیکٹریشن کیبل والا تما م ملنے والے جو بھی آیا سامان دیکھ کر بولا جنا ب یہ رمضان راشن ہے تو پھر کیا جناب میرے حالات بھی ٹھیک نہیں مجھے دے دیں کچھ ملاقاتی بھی آئے جنہوں نے سامان کا تقاضا کیا شام تک میں زخموں سے چورکہ ہمارا جدید مہذب معاشرہ کتنا بنجر ویران ہو چکا ہے مہنگائی کفر کو چھونے لگی ہے سفید پو ش زندگی کی بازی ہا رے جا رہے ہیں لوگوں کے لیے زندگی کا کچا دھاگا قائم رکھنا مشکل ہو رہا ہے لوگ سفید پوشی سے گداگروں میں بدلتے جا رہے ہیں لوگوں کے لیے چند ہزار کا راشن ہی مشکل ہو تا جارہا ہے جبکہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ترجمہ ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو ارشاد فرماتے سنا کہ وہ شخص مومن نہیں ہو سکتا جو خود پیٹ بھر کر کھائے اور اُس کا پڑوسی جو اُس کے پہلو میں رہتا ہو بھو کا رہے ایک اور جگہ رحمت دوجہاں ﷺ فرماتے ہیں اے ابوذر ؓ جب تو شوربہ پکائے تو کچھ پانی زیادہ ڈال دیا کرو وہ شوربہ پڑوسیوں کو دے کر اُن کی خبر گیری کیا کرو‘ یتیموں بے کسوں کے والی ایک اور جگہ فرماتے ہیں حضرت جبرائیل ؑ مجھ کو پڑوسی کے ساتھ اچھا سلوک کر نے کی برابر تاکید کر تے رہے یہاں تک کہ میں نے خیال کیا کہ پڑوسی کو پڑوسی کا وارث بنا دیں گے۔ جبکہ آج کل مہذب معاشرے میں پڑوسیوں سے محبت کی بجائے حسد کینہ بغض ہے جس کی آنچ سے ہم ایک دوسر ے کو جلاتے ہیں مہنگائی کا جن اِس قدر بے قابو ہو چکاہے کہ سفید پوشوں کے لیے زندگی کی سانسیں بحال رکھنا مشکل ہو گیا ہے‘ ہم سارے شہر میں دور دراز دیہات میں سخاوت کے جھنڈے گاڑتے ہیں لیکن اپنے قریبی سفید پوش محلے دار وں کو بھول جاتے ہیں میں سفید پوش محلے داروں کے در د میں رنجیدہ ہو گیا اچانک باطن میں خیال کا شگو فہ پھوٹا میں نیچے آیا لفافے میں کچھ پیسے ڈالے کندھے پر سامان کا پیکٹ رکھا اور جاکر محلے دار کے دروازے پر دستک دی تھوڑی دیر میں شریف محلے دار دروازے پر آیا میں نے پیکٹ اتار کر اند ر رکھا پیسوں کو لفافہ اُس کی جیب میں ڈالا اور دھیرے سے بولا میں اپنی غفلت کی معافی مانگتا ہوں‘ ضرورت پر اِس گناہ گار کو یاد کر لیا کریں یا میں پوچھ لیاکروں گا محلے دار کی آنکھوں میں تشکر کی روشنی چمکی میری سانس کی نالی پر سے ندامت کا ہمالیہ ہٹ گیا میں لمبے لمبے سانس لیتا گھر کی طرف چل پڑا آکر گہری نیند سوگیا۔