حضرت علامہ شاہ عبد العلیم صدیقی رحمۃ اللہ علیہ (2)
ابوعبدالقدوس محمد یحییٰ
نام کا انسانی شخصیت پر بہت گہرا اثرہوتاہے۔ متعدد مثا لیں عہد نبوی ﷺ سے ملتی ہیں جن میں نام کااثر انسان کی باطنی (روحانی اورنفسیاتی طورپر)، جسمانی، معاشرتی،اخلاقی اور ذہنی طور پرانسان کی شخصیت پرہوا ۔ اسی لیے حضور اکرم ﷺ نے بچوں کے اچھے اوربامعنی نام رکھنے کاحکم فرمایا ہے۔ بلکہ ایسا بھی ہوا کہ اگر کسی کانام اچھا یا مناسب نہ تھا توآپ ﷺ نے اسے تبدیل فرمادیا۔
نام نامی اسم گرامی:
آپ علیہ الرحمہ کے نام نامی اسم گرامی کے بارے میں جاننے سے پہلے اس حقیقت کاجاننا انتہائی ضروری ہے کہ نام کا انسانی شخصیت پر بہت گہرا اثر ہوتا ہے۔جس پر احادیث نبوی ﷺ ،اخبار صحابہ اور تاریخی واقعات شاہد ہیں ۔مثلاً
ولما نزل الحسين رضي الله عنه بكربلاء سأل عن اسمها فقيل كربلاء ، فقال كرب وبلاء فكان ما كان. (فيض القدير،شیخ محمد عبدالرؤف المناوی)
"اورجب سیدناحضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ مقام کربلا پہنچے تو آپ نے اس کے نام کے متعلق دریافت فرمایا ۔آپ سے کہا گیا کہ کربلا،تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ تکلیف(کرب) ومصیبت(بلاء)، پس جو ہوا سوہوا۔”(یعنی آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جو اس مقام کا نام سن کرالفاظ ارشاد فرمائے ان ہی الفاظ کی عملی تفسیر رونماہوئی۔)
ولما وقفت حليمة السعدية على عبد المطلب قال من أين أنت ؟ قالت من بني سعد : قال ما اسمك ؟ قالت حليمة : قال بخ بخ سعد وحلم خصلتان فيهما غنى الدهر. (فيض القدير، شیخ محمد عبدالرؤف المناوی)
”حضرت حلیمہ سعدیہ رضی ا للہ تعالیٰ عنہا جب مکہ میں حضور ﷺ کی رضاعت کے لیے تشریف لائیں تو حضرت عبدالمطلب رضی اللہ عنہ نے آپ سے دریافت کیا آپ کا تعلق کس قبیلہ سے ہے۔ تو حضرت حلیمہ سعدیہ نے فرمایا کہ میں بنی سعد قبیلہ سے ہوں۔حضرت عبدالمطلب نے آپ کا نام دریافت فرمایا تو آپ نے فرمایا ”حلیمہ”۔ حضرت عبدالمطلب نے فرمایا (سعدوحلم) یہ دو وصف جس میں جمع ہوجائیں تو وہ شخص زمانے سے بے نیاز ہوجاتاہے۔”
عن ابن أبي حبيب ، أن رسول الله عليه السلام أتي بغلام ، فقال : «ما سميتم هذا؟» قالوا : السائب ، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : « لا تسموه السائب، ولكن عبد الله» ، فغلبوا على اسمه السائب، فلم يمت حتى ذهب عقله۔( الجامع لابن وہب،امام عبداللہ بن وہب رضی اللہ تعالیٰ عنہ)
” حضور ﷺ کی خد مت میں ایک بچے کو لایا گیا ۔ آپ ﷺ نے دریافت فرمایا کہ اس کا کیا نام رکھا ہے۔ انہوں نے کہا ”سائب” (بے سوچے سمجھے بولنے والا)آپ ﷺ نے فرمایا اس کا نام سائب نہ رکھو بلکہ اس کا نام عبداللہ رکھو۔لیکن وہ اسی نام پر مصر رہے۔ تواس لڑکے کاانتقال حالت جنون میں ہوا۔”
عَنْ ابْنِ الْمُسَيَّبِ عَنْ أَبِيهِ أَنَّ أَبَاهُ جَاءَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ مَا اسْمُكَ قَالَ حَزْنٌ قَالَ أَنْتَ سَهْلٌ قَالَ لَا أُغَيِّرُ اسْمًا سَمَّانِيهِ أَبِي قَالَ ابْنُ الْمُسَيَّبِ فَمَا زَالَتْ الْحُزُونَةُ فِينَا بَعْدُ ۔( صحیح بخاری)
”سعید بن مسیب اپنے والد اوروہ ان کے دادا سے روایت کرتے ہیں :کہ میں نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کی بارگاہ عالیہ میں حاضر ہوا ۔تو آپ ﷺ نے مجھ سے میرا نام دریافت فرمایا: میں نے عرض کی ”حزن”،(سخت)آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم” سہل”ہو (نرم) ۔ اس نے کہا میں اپنا نام تبدیل نہیں کروں گا یہ نام میرے باپ نے رکھا ہے۔حضرت ابن المسیب فرماتے ہیں پھربعد میں وہ سختی ان کے مزاج سے زائل نہ ہوئی۔”
أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ قَالَ لِرَجُلٍ مَا اسْمُكَ فَقَالَ جَمْرَةُ فَقَالَ ابْنُ مَنْ فَقَالَ ابْنُ شِهَابٍ قَالَ مِمَّنْ قَالَ مِنْ الْحُرَقَةِ قَالَ أَيْنَ مَسْكَنُكَ قَالَ بِحَرَّةِ النَّارِ قَالَ بِأَيِّهَا قَالَ بِذَاتِ لَظًى قَالَ عُمَرُ أَدْرِكْ أَهْلَكَ فَقَدْ احْتَرَقُوا۔قَالَ فَكَانَ كَمَا قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ۔( موطا امام مالک)
حضرت عمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں ایک آدمی حاضر ہوا۔ "آپ نے اس کا نام دریافت فرمایا۔ اس نے کہا ”شہاب”(شعلہ)۔آپ نے پوچھا کس کے بیٹے ،اس نے کہا ”جمرۃ” (انگارہ) کا بیٹا،آپ نے پھر دریافت کیا کس کے بیٹے،اس نے کہا ضرام”(بھڑکنا،جلنا)۔آپ نے دریافت فرمایا کس سے تعلق ہے ، اس نے ”حرقہ”(جلنا)۔آپ نے دریافت فرمایا :تمہارا گھر کہاں ہے اس نے ”حرۃ النار”(آگ کی حررات)۔آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا تجھ پر ہلاکت ہو ۔اپنے گھر والوں تک پہنچ تو نے تو ان کو جلادیا۔پس جب وہ وہاں پہنچا تو انہیں جلا ہوا پایا۔”
اس طرح کی متعدد مثا لیں ہمیں عہد نبوی ﷺ سے ملتی ہیں جن میں نام کااثر نہ صرف انسان کی باطنی (روحانی اورنفسیاتی طورپر)شخصیت پر رونماہوا بلکہ ظاہری یعنی جسمانی،سماجی ، معاشرتی،اخلاقی اور ذہنی طور پر بھی وہ انسان کی شخصیت پر بہت زیادہ اثراندازہوا ۔ اسی لیے حضور اکرم ﷺ نے بچوں کے اچھے اوربامعنی نام رکھنے کاحکم فرمایا ہے۔ بلکہ یہاں تک کہ اگر کسی کانام اچھا یا مناسب نہ رکھاگیا توآپ ﷺ نے اسے تبدیل فرمادیا۔
جہاں تک آپ علیہ الرحمہ کو” عبدالعلیم” کے نام سے موسوم کرنے کا سبب ہے تو اس سبب سے خود حضرت علامہ ڈاکٹرمحمد فضل الرحمن الانصاری القادری علیہ الرحمۃ کچھ یوں پردہ اٹھاتے ہیں :
”۔۔۔ لاریب کہ ارباب نظر ضرور سمجھ گئے ہوں گے اور یہی سبب معلوم ہوتاہے کہ حضرت کے والدِ ماجد نجیب مصطفی حضرت مولانا شاہ محمد عبدالحکیم صدیقی القادری قدس سرہ العزیز نے اپنی آخری فرزند کو عبدالعلیم کے نام سے موسوم فرمایا۔”(ذکرحبیب،مرشدنا شاہ محمدعبدالعلیم صدیقی القادری ؒ،ڈاکٹرمحمد فضل الرحمن الانصاری ، ص3)
ڈاکٹر انصاری علیہ الرحمۃ اسی مضمون میں آگے چل کر اس اسم کے معانی وتاثیر انتہائی جامع، مختصرمگرپراثر انداز میں بیان فرماتے ہیں :
”لفظ عبد جوہر عمل کا حامل تھا اور لفظ علیم میں فیضان علمی کی جانب رہنمائی تھی۔”(ذکرحبیب،مرشدنا شاہ محمدعبدالعلیم صدیقی القادری ؒ،ڈاکٹرمحمد فضل الرحمن الانصاری ، ص4)
العلیم کیونکہ اللہ رب العزت کا صفاتی نام ہے۔ جب ہم اس اسم مبارک کے معانی وتاثیر پرغورکریں تو اس اسم کی بلندی، ارتفاع اورکمال علم وحکمت وغیرہ سے پردہ اٹھتا ہے کیا ہی بلند اور عالی شان ،ذی مقام ، اسم مبارک ہے۔اس اسم کی تشریح کے ضمن میں علامہ ابن قیم نے شرح اسماء اللہ الحسنیٰ میں مندرجہ ذیل اشعار جمع کیے ہیں ۔
وھوالعلیم أحاط علما بالذی فی الکون من سر ومن اعلان
وبکل شیء علمہ سبحانہ فھوالمحیط ولیس ذا نِسیان
وکذالک یعلم مایکون غدا وما قد کان والموجود فی ذا الآن
وکذالک امر لم یکن لوکان کیف یکون ذا مکان
(شرح اسماء اللہ الحسنیٰ،لابن القیم،ص ٢١)
”وہ(ذات باری تعالیٰ) علیم ہے اور اس کا علم اس کائنات کی ہرظاہر وباطن، اعلانیہ وپوشیدہ ، جلی خفی ، کھلی و چھپی چیز کامکمل احاطہ کیے ہوئے ہے ۔ اور ہر چیز اللہ سبحانہ کے علم میں ہے اور وہ ہر شے کا احاطہ کیے ہوئے ہے اور وہ نسیان اور بھولنے سے پاک ہے۔اور اسی طرح آنے والی کل جو ہونے والا ہے ،گذشتہ کل جو ہوچکا ہے اور جو اس وقت موجود ہے اور اسی طرح جو کام ابھی نہیں ہوا اور ہوگا توکہاں اور کیسے ہوگا وہ سب جانتا ہے اسے سب خبر ہے۔”
امام بیضاوی علیہ الرحمہ اس (العلیم)اسم مبارک کی تشریح کے ضمن میں مندرجہ ذیل نکتہ علمیہ بیان فرماتے ہیں۔
من عرف أن اللہ تعالیٰ علیم بحالہ ،صبر علی بلیتہ وشکرعلی عطیتہ واعتذر علی خطیئتہ۔( شرح اسماء اللہ الحسنیٰ، للبیضاوی،ص ٢٢٢(العلیم))
”جو یہ جان لے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ اس سے باخبر ہے ۔ وہ آزمائشوں اورمشکلات پر صبر کرتاہے ، اس کی عطاکی ہوئی نعمتوں پر شکراداکرتاہے اور اپنی غلطی اورخطاپر معافی طلب کرتاہے۔”