عالمی یوم اطلاع معاشرہ
اورہمارے ملک کی معدوم ہوتی خوشیاں
ڈاکٹر سیّد احمد قادری
رابطہ: 993439110
اقوام متحدہ کی ایک ایجنسی (Sustainable Development Solutions Network)نے عالمی سطح پر سروے کر ہر سال معاشی اور سماجی طور پر مختلف ممالک میں لوگ کتنے خوش ہیں، اس کے اعداد و شمار پیش کرتی ہے۔ اس سلسلے میں اس سال 20 / مارچ 2019 ء کو 156 ممالک کا سروے کرworld happiness report 2019 جاری کرتے ہوئے بتایا ہے کہ جہاں ایک سے دس تک کی فہرست میں فن لینڈ، ڈین مارک،ناروے،نیدرلینڈ،سویڈن، نیوزی لینڈ،کناڈا اور آسٹریا وغیرہ جیسے ممالک ہیں،
اور ہمارا ملک بھارت عوامی خوشی کے معاملے میں گزشتہ پانچ برسوں لگاتار گرتے ہوئے 117ویں پائدان سے 140 ویں پائدان پر آ گیا ہے، انڈیا 2018 کے مقابلے 7 پائدان نیچے آیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ انڈیا کے پڑوسی ممالک مثلاََ پاکستان، بھوٹان،نیپال،بنگلہ دیش اور سری لنکا کے عوام بھارت کے مقابلے زیادہ خوش ہیں۔
عام طور پر ایسی رپورٹ یا سروے پر توجہ نہیں دی جاتی ہے، کہ سروے کرنے والی ایجنسیوں کے پاس ایک خاص پیمانہ ہوتا ہے، جس کے تحت وہ رپورٹ تیار کرتے ہیں۔ پھر بھی یہ امر باعث تشویش ضرور ہے کہ ایسے وقت میں، جبکہ ہم دنیا کے بڑے مما لک کے مقابل کھڑے ہونے کی کوشش میں سرگرداں ہیں، پھر بھی ہمارے ملک کے لوگ خوش نہیں ہیں۔ اس پر ایک نظر ڈالنے کی بہرحال ضرورت ہے۔
اتفاق سے آج ”عالمی یوم اطلاع معاشرہ “) (World information Society day ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے اپنے ایک فیصلہ کو 2005 میں نافذ کرتے ہوئے یہ طئے کیا تھا کہ ہر سال 17 مئی کو ”عالمی یوم اطلاع معاشرہ“کے طور پر منایا جائیگا۔ یہ خاص دن اس سے پہلے 17 مئی 1865 میں قائم پہلے عالمی ٹیلی گراف سمجھوتہ پر دستخط ہونے کی یاد میں ”عالمی ذرائع مواصلات‘ International Telecommunication Union کے طور پر منایا جاتا تھا۔ لیکن اب یہ 2005 سے ’عالمی یوم اطلاع معاشرہ‘میں تبدیل ہو گیا، جس کے پہلے جلسہ کا انعقاد 17 مئی 2006 کو کیا گیا تھا۔ اس جلسہ کا خاص مقصد کہ انٹرنیٹ، ٹیلیفون اور ٹیلی ویژن وغیرہ کے ذریعہ تکنیکی دشواریوں پر قابو پاتے ہوئے باہمی ذرائع مواصلات کی توسیع سے استفادہ کرتے ہوئے عوام کی سماجی اور معاشرتی ترقی کی راہ کو آسان بنانااور اس کے لئے بیداری پیدا کرنا تھا۔ ہم اس امر سے انکار نہیں کر سکتے ہیں کہ پوری دنیا میں جدید ٹکنالوجی اور انٹرنیٹ نے انقلاب لا دیا ہے۔ پوری دنیا عالمی گاؤں میں بدل گئی ہے اور ہزاروں میل کے زمینی فاصلہ کی اہمیت بہت حد تک کم ہو گئی ہے۔
ایسے میں ہمارے ملک کی بہت ساری بنیادی ضرورتوں کے فقدان کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کی پامالی، لا قانونیت،منافرت، فرقہ واریت کے واقعات، حادثات اور سانحات صرف ہمارے ملک کے حدود میں محدود نہیں رہتے، بلکہ انٹرنیٹ کے کئی ذرائع کے ذریعہ دور دور تک پہنچ رہے ہیں۔بلکہ ایسے کئی سانحات اور واقعات کے رونما ہونے پر اور ان سے حکومت وقت کی چشم پوشی پر دنیا کے کئی ممالک میں نہ صرف غم وغصہ کا اظہار کیا گیا، بلکہ پُر زور احتجاج درج کیا گیا۔کٹھوعہ کی آٹھ سالہ بچّی عاصفہ کی زنا کے بعد حیوانیت کو بھی شرما دینے والی موت نے دنیا کے نہ جانے کتنے ممالک کے لوگوں کو نہ صرف پشیماں کیا تھا اور وہ اپنے ملک میں اس حیوانیت بھرے سانحہ پر اپنے غم و غصہ اور احتجاج درج کرانے سڑکوں پر آ گئے تھے۔ ایسے کئی پُر تشدد واقعات ہیں،جب بھارت کو شرمندہ ہونا پڑا ہے۔ افسوس کہ 2014 سے ایسے غیر انسانی سلوک اور غیر قانونی واقعات میں مسلسل اضافہ ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت کے عوام اپنے پڑوسی ممالک سے بھی اپنی خوشیوں کے معاملے میں لگاتار پچھڑ رہے ہیں۔ اس وقت ہمارے ملک کے ذرائع مواصلات میں سب سے زیادہ ہنگامہ کا موضوع منافرت، فرقہ پرستی، آپسی اتحاد و اتفاق کو ختم کرنے کی کوششیں، اور ہر جانب اقتدار کے نشہ میں چور ہو کر ظلم و بربریت کا ننگا ناچ ہے، کسانوں کی زمین چھین کر کارپوریٹ سیکٹر کے حوالے کرنے کی کوششیں۔ جس سے کسان کے بیروزگار ہونے کے ساتھ ساتھ ملک میں خوراک کا مسئلہ بھی پیدا ہو سکتا ہے۔ کسان ناامید اور مایوس ہو کر آئے دن خود کشی کر رہے ہیں، وہ بہت زیادہ تشویشناک ہے۔ ملک کی کل آبادی کے 67 فیصد افراد کھیتوں پر انحصار کرتے ہیں۔لیکن ان کے سلسلے حکومت کی اب تک کوئی مثبت سوچ فکر نہیں ہے۔ اس سے بھی زیادہ ہولناک اور افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ ہمارے ملک کے عوام کو بنیادی سہولیات بھی میسّر نہیں ہیں۔ اس وقت ملک کے طول و عرض میں پانی کے لئے ہا ہا کار مچا ہوا ہے۔ لوگ اپنے گھروں سے کئی کئی میل دور جا کر پینے کا پانی لاتے ہیں۔اس ملک کے غریب اور مجبور لوگوں کے لئے صحت اور تعلیم کی سہولیات بھی یا تو نہیں ہے یا پھربہت مشکلوں سے دستیاب ہے۔ ہمارے وزیر خزانہ نے اس سال کے بجٹ میں صحت اور تعلیم کو بہت کم اہمیت دیتے ہوئے ان کے بجٹ میں غیر معمولی تخفیف کر دی ہے۔ غریبوں کے لئے صحت کی خدمات کا یہ عالم ہے کہ عالمی ادارہ صحت (W H O) کا یہ کہنا ہے کہ صحت کی خدمات کے معاملے میں مقرر کردہ ہدف کو حاصل کرنے بھارت کی کوشش انتہائی مایوس کن ہے۔ تعلیم کی جو صورت حال ہے،اس سے بھی لوگ بخوبی واقف ہیں۔ ملک کا تعلیمی نظام سیاست اور صارفیت کے چنگل میں کراہ رہا ہے۔ اب تو تعلیم کو منافع بخش تجارت سمجھتے ہوئے بڑے بڑے کارپوریٹ سیکٹر بھی اس میدان میں آ کر اپنی اجارہ داری قائم کرنے میں مشغول ہے۔ دن بدن تعلیم کا حصول مہنگا اور غریبوں کی پہنچ سے باہر ہوتا جا رہا ہے۔ سرکاری تعلیمی اداروں کا جو حال ہے، وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔
کرپشن بھی اس وقت شباب پرہے، سیاست دانوں سے حوصلہ پا کر افسران بھی بدعنوانی کی گنگا میں خوب غوطہ لگا رہے ہیں۔ کرپشن کے ناسور سے بہت ساری برائیاں ملک میں پنپ رہی ہیں، جس سے ملک کا امیج بہر حال بگڑ رہا ہے۔ ملک کے عدلیہ کا انصاف اب شک و شبہ کے گھیرے میں ہے۔جس طرح موجودہ حکومت نے خود مختار اداروں کو اپنی گرفت میں لیا ہے۔ہر طرف انصاف کراہ رہا ہے۔خود انصاف دینے والے اب انصاف کی گوہار لگا رہے ہیں۔ انصاف پسند اور ایماندار جج جوتشنایا گنکنے کے ذریعہ گجرات کی سابق وزیر مایا کوڈنانی اور بجرنگ دل کے لیڈر بابو بجرنگی کو گجرات کے نروداپاٹیا میں 97 مسلمانوں کے قتل کا مجرم قرار دیتے ہوئے عمر قید کی سزا سنائے جانے کے خلاف انھیں مسلسل ڈھمکیاں دی گئی تھیں اور آخر کار انھیں اور بلکہ سادھوی پرگیہ، بنجارا، اسیمانند وغیرہ جیسے شدت پسند اور دہشت گردوں کو آزاد کرا لیا گیا۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ عدلیہ کس طرح خوف کے سائے میں فیصلے کرنے پر مجبور ہے۔ گزشتہ چند سال کے اندرگجرات کی عدالتوں میں جیسے جیسے فیصلے آئے ہیں، اس کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ایسے مذہبی منافرت پھیلانے والوں کے خلاف جس طرح کے فیصلے سنائے جا رہے ہیں اور اس کا جو صلہ مل رہا ہے، وہ بھی بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ تیستا ستیلواڑ اور جاوید آنند جیسی اہم شخصیات جو فرقہ وارانہ طاقت کے خلاف اور سیکولرزم کی بقأ کے لئے جس طرح جد و جہد میں مصروف ہیں، ان کے خلاف تنگ نظر لوگوں کے ذریعہ جس طرح کے الفاظ استعمال کئے جا رہے ہیں اور سازش رچی جارہی ہے، وہ کس قدر افوسناک ہے، اس امر کا اندازہ ملک کی سیکولر طاقتیں بہت شدّت سے محسوس کر رہی ہیں، اس سے ہمارے دستور اور سیکولر جزبہ بہر حال پامال ہو رہا ہے۔
ہمارے ملک کے ایسے تمام ناگفتہ بہ سماجی اور معاشرتی حالات کی عکاسی، جو ذرائع موا صلات(فیس بک، واٹس اپ، فون اور ٹیلی ویژن) کے ذریعہ بیرون ممالک میں پہنچ رہے ہیں، انھیں دیکھ کر اور سمجھ کر دور دراز کے لوگ اس بات کا بخوبی اندازہ لگا لیتے ہونگے کہ بھارت کے لوگ کتنے خوش ہیں۔ ملک میں غریبوں، کسانوں، مزدوروں،بے روزگاروں، تعلیم، صحت، کرپشن، عدلیہ، انسانی حقوق کی پامالی، لا قانونیت اور مذہبی منافرت کا اگر یہی حال رہا تو World happiness کی اگلی رپورٹ میں ممالک میں 140 ویں پائدان سے گر کر ہم کہاں جائینگے، اس کا تصور مشکل نہیں ہے۔یوں بھی عالمی شہرت گیر رسالہ ’ٹائم‘ نے اپنے اس ماہ کے شمارہ کے سرورق پر بھارت کے وزیر اعظم کی تصویر شائع کر ’بھارت کو منقسم کرنے والا رہنما‘ عنوان لگا کر یہ ثابت کر دیا ہے کہ بھارت کے لوگ کتنے خوش ہیں کہ جس ملک کا سربراہ ہی ملک میں منافرت پھیلانے والا ہو، آپسی اتحاد و اتفاق کو توڑنے والا ہو، فرقہ پرستی کو فروغ دینے والا ہو اور ہر ظلم، تشدد، نا انصافی پر خاموش حمایت دینے والا ہو۔ اس ملک کے عوام،جس ملک کی شاندار روایت رہی ہو اور جہاں کی گنگا جمنی تہذیب رہی ہو، وہاں ایسے نامساعدحالات میں کیسے خوش رہ سکتے ہیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
email:
Mob: 09934839110