افسانہ : احساس
ڈاکٹر صفیہ بانو .اے .شیخ
Email:
یہ احساس ہی تھا کہ اس پاگل کو کوئی احساس نہیں تھا۔ دنیا اس پاگل سے ہمدردی کرتی تھی مگر اچانک ایک حادثے نے سبھی کو اس پاگل سے نفرت کرنے پر مجبور کردیا۔آخر کیا وجہ تھی؟ سعید اپنے بڑے بھائی رشید کو پوچھ بیٹھا۔رشید بھائی آخر ایسی کونسی بات ہے؟ جس کے سبب وہ پاگل ہی سہی مگر عام انسانوں جیسی نفرت کا شکار ہوگیا۔
رشید اپنے چھوٹے بھائی سعید سے کہتا ہے کہ یہ ایک لمبی داستاں ہے تم جانتے ہو، اس پاگل کا نام رحیم خان ہے یہ پیشہ سے رنگوں کا سوداگر تھا اس کا بیرونی ملکوں میں اکثر آنا جانا ہوتا تھا۔ رحیم خان دنیا کے سامنے نیک بنا پھر تا تھا مگر جب وہ کسی سے بدلہ لیتا تو اس کا دم لے کے ہی چھوڑتا تھا۔ رحیم خان کی اکلوتی بیٹی رابعہ خان تھی دیکھنے میں بلا کی خوبصورت تھی مگر مجال کہ رحیم خان کے ہوتے ہوئے اس کو کوئی غلط نگاہوں سے دیکھ لیں۔ایک مرتبہ کی بات ہے کہ رحیم خان ممبئی کسی کام کے سلسلے میں گیا تھا اور جب واپس آیا تو اس میں کافی تبدیلیاں دیکھنے کوملیں۔سعیدنے پھر پوچھا آخر رحیم خان نے ممبئی میں جاکر ایسا کیا دیکھا یا جانا جس کے بعد اس میں تبدیلیاں رونماں ہوئیں؟ انسان کو ہرجگہ سے علم حاصل ہوتا ہے بس شرط یہ کہ وہ کیا حاصل کرتا ہے۔ رحیم خان نے رنگوں کے کاروبار کو محدود کردیا اور اب تو اس نے گولوں پر ظلم و جبر کرنا بھی چھوڑ دیا۔ جب بھی کسی سے ملتا تو ایک بات ضرور کہتا کہ میرے لیے دعا کیجئے اور میری بیٹی کے لیے کہ اس کی شادی اچھے سے گھر میں ہوجائے۔ لوگ اب اس کے اس رویے سے خوش ہوتے اور تھوڑی دیر بعد کہنے لگتے کہ جو شخص دوسروں کی بہو بیٹیوں کی شرم نہیں رکھتا۔ اس کی حالت آج یہ ہے کہ وہ خود اپنی بیٹی کے لیے دعا گو رہتا ہے۔ سعید بات کاٹتے ہوئے بولا کہ بڑے بھائی یہ تو بتائیے کہ رحیم خان میں تبدیلیوں کی کیا وجہ رہی؟ رشید کہتا ہے کہ میں نے بھی کسی سے سُنا تھا کہ جب یہ یہاں سے ممبئی گیا تھا تب اس کے سامنے ایک ایسا حادثہ ہوا،رشید بھائی کونسا حادثہ؟ وہ جس جگہ رنگوں کے کاروباری کے پاس گیا تھا وہ شخص رنگوں کے نام پر لڑکیوں کا کاروبار کرتا تھا مطلب وہ رنڈی باز نکلا وہ کے بجائے لڑکیوں کی خرید و فروخت کرنے والا سوداگر نکلا۔پہلے پہل رحیم خان اس بات سے انجان تھا مگر وہ سوداگر بڑا ہی چالاک تھا اس نے رحیم خان کی کمزوری کو پہچان لیا حالانکہ کبھی اس کے سامنے ذکر نہیں کیا۔ پھر کیا ہوا،رشید بھائی؟ ایک روز ببّن میاں سوداگر اپنے اس آفیس میں لے گیا جہاں مال کی خرید و فروخت ہوتی تھی وہی پر ایک شاہد میاں کرکے شخص بار بار ببّن میاں کے پیر پکڑ کر دہائی مانگ رہا تھاکہ یہ میری اکلوتی بیٹی میری عزت ہے۔میں کتنا بھی امیر کبیر شخص ہوجاؤ مگر میں یہ کبھی نہیں بھول سکتا کہ میں ایک لڑکی کا باپ ہوں۔ ببّن میاں کہتا ہے کہ تم جیسے لوگ کبھی اپنی لڑکیوں کے خیر خواہ نہیں ہوسکتے کیوں کہ جو شخص دوسروں کی بہو بیٹیوں پر ہوس کی نگاہ رکھتا ہو،اُسے کونسی رشتے داری کا پاس رہتا ہوگا؟ یہ سب دیکھ کر رحیم خان سکتے میں آگیا،اس کے قدم چلتے چلتے رُک گئے۔رحیم خان نے ببّن میاں کو آگے چلنے سے انکار کردیا۔ ببّن میاں فوراً سمجھ گیا یہ ہماری ہر حقیقت سے واقف ہوچکا ہے اور اب تم کسی طرح سے ہم سے رشتہ ناطہ توڑ نہیں سکتے رحیم خان۔ تم آئے تھے اپنی مرضی سے مگر جاؤگے ہماری مرضی سے۔ ببّن میاں نے رحیم خان کو کہاں تمہاری دختر نیک رابعہ کیسی ہے؟ رحیم خان کو شدیدغصہ آگیا تم اپنی زبان سے میری بیٹی کا نام تک نہ لو، ورنہ میں تمہیں برباد کر دوں گا۔ببّن میاں زور زور سے ہنسنے لگا اور کہنے لگا تم جیسے لوگ صرف ہوئی قلعے باندھ سکتے ہوں تم میں اتنا دم ہوتا یا تم ہوشیار سوداگر ہوتے تو میری جال میں یوں نہ پھنس پاتے۔ رحیم خان کو دھمکی دی گئی کہ اگر تم نے کسی سے میرے بارے میں کچھ بھی کہا تو انجام اچھا نہ ہوگا۔ رحیم خان یک دم ہو کر رہ گیا۔ پھر کیا ہوا، رشید بھائی؟ ببّن میاں نے اپنے آدمیوں کو رحیم خان کے پیچھے لگا دیا۔اب تو یہ حال تھا کہ اس کے گھر میں اس کے آدمی رہنے لگے تھے۔ رحیم خان اپنی بنائی ہوئی عزت کو دم توڑتے ہوئے صرف دیکھ سکتا تھا۔ببّن میاں جب اس کے شہر کانپور میں وارد ہوا تو رحیم خان کے ہوش اڑ گئے۔ رحیم خان سب کے سامنے اُسے اپنا دوست بنا کر پیش کرتا جبکہ وہ تو دشمنی کے بھی لائق نہ تھا۔ببّن میاں پچال سال کا تھا اور اُس کا دل اس کی کم سن بیٹی رابعہ پر آگیا اور اب وہ اس سے شادی کرنا چاہتا ہے۔رحیم خان اس بات سے انکار کرتا رہتا ہے مگر ببّن میاں نے رحیم خان کو یہ کہا کہ تمہاری بیٹی کا چٹخ رنگ ہے اور اس کے دام لگانے والے بہت مل رہے ہیں سیدھے سے اس کا نکاح میرے ساتھ کرادوں ورنہ اسے یہاں سے غائب کرکے کسی کو بیچ کر دام وصول کر لوں گا۔ رحیم خان بے بس اور لاچار ہوگیا تھا۔ ببّن میاں نے اُسے برباد کرکے ہی چھوڑا۔ مگر رحیم خان نے برباد ہونا منظور کیا مگر اپنی دختر نیک کو اس جنگلی جانور کے حوالے کرنا منظور نہ سمجھا۔ اب وہ بالکل غریبی کی حالت میں جی رہا تھا لوگ اس پر ترش کھاکر کچھ نہ کچھ دے دیا کرتے تھے یہ ضروری تو نہیں انسان میں صرف برائی ہی ہوں اس کی ایک اچھائی سب برائیوں پر بھاری ہوسکتی ہے۔ رحیم خان گھر کے قریب ہی رہ کر محنت مزرودی کرتا اور اپنی بیٹی کی حفاظت کرتا۔رات دن دعائیں مانگتا کہ میری بیٹی کو کوئی اچھا اور نیک لڑکا بیاہ کر لے جائے تو میں سکون کی موت مروں گا۔ دیکھتے ہی دیکھتے سال گزر گیا مگر رحیم خان کو کوئی ایسا لڑکا نہ ملا جس سے رابعہ کی شادی ہوجائے۔ سعید پھر پوچھ بیٹھا آخر وہ پاگل کیسے ہوا؟ رشید کہتا ہے وہ ایک دن واقعہ یوں ہوا کہ ببّن میاں نے سازش رچی اور اس کے خریدے ہوئے لڑکے کو رحیم خان کے پاس بھیجا۔رحیم خان ساری معلومات حاصل کی وہ لڑکا نیک ہے اور یہاں اس کا ذاتی مکان ہے وغیرہ وغیرہ اسے اس بات کا علم نہیں تھا کہ وہ ببّن میاں کا بھیجا ہوا لڑکا ہوسکتا ہے بہر حال شادی طے ہوگئی تھی۔ رحیم خان بہت خوش تھا بالاآخرلڑکی کا رشتہ اچھے سے طے ہوگیا۔ ایک روز اسی محلے کے قریب کسی مولانا کی تقریری پروگرام تھا اتفاق سے رحیم خان بھی وہاں پہنچ گیا اس نے جو مولوی صاحب سے حضور ﷺ کی سیرت اور ان کی بیٹی سے والہانہ محبت کا واقعہ سنا، یہ واقعہ سن کروہ بہت خوش تھااور گھر آکر اپنی بیٹی کو دیکھتا رہا۔جب جنتیوں نے بیٹیوں کو شہزادیوں کی طرح پالا ہیں تو ہمیں تو ان کی راہ پر چلنا ہے۔ یکایک دوسرے روز۔۔۔۔! دوسرے روز۔۔۔۔۔! ایسا کیا ہو ا؟سعید پوچھ بیٹھا۔رابعہ کو قے ہونے لگی۔رحیم خان کے تو ہوش فاختہ ہو گئے۔ ارے کل تک تو سب ٹھیک تھا اور اچانک یہ کیا ہوگیا؟ رحیم خان اپنی بیٹی کو اہسپتال لے گیا اور وہاں اس کا علاج کروایا۔ لوگ رحیم خان کے اس بدلے ہوئے رویے سے بہت خوش تھے۔ پھر کیا ہوا رشید بھائی؟ رابعہ کی ایک حرکت نے رحیم خان کو پاگل بنا دیا؟ کیا کہہ رہے ہوں رابعہ نے ایسا کیا،کیا؟ رابعہ کہا کچھ کر سکتی تھی یہ ساری چال بازی تو اس ببّن میاں کی تھی جو ٹکٹکی باندھے بیٹھا تھا کب موقع ملے اور وہ رابعہ کا شکار کر لے۔رابعہ نے خود کشی کرنے کی کوشش کی اور یہ بات رحیم خان کو اتنا صدمہ دے گئی کہ وہ کچھ کچھ پاگل سے ہوگئے۔ لوگوں کو رحیم خان سے ہمدردی ہوگئی تھی۔پھر اچانک ایسا کیا ہوا کہ لوگ نفرت کرنے لگے؟ رحیم خان کو یہ احساس تھا کہ رابعہ اس کی بیٹی ہے مگر اب تو یہ احساس بھی جاتا رہا کہ ویسے بھی پاگل کو کبھی احساس ہوتا ہے وہ تو اس ننھے بچے کی مانند ہوجاتا ہے جیسے سب اچھا ہی لگتا ہے۔ لیکن رشید بھائی وہ نفرت کا شکار کیوں ہوا؟ جب وہ پوری طرح سے پاگل ہوگیا تو بچے اکثر پریشان کرتے اور پتھر مارتے اور اے پاگل، پاگل چاچا، اے پاگل، پاگل چاچا کہہ کر حیران کرتے۔ رحیم خان کو پاگل پن میں غصہ آجاتا تھا اوروہ ان بچوں کو مارنے دوڑتا۔ رابعہ اپنے پاگل باپ کا خوب خیال رکھتی۔ ایک روز یہ ہوا کہ رابعہ گھر میں کام کر رہی تھی اور اچانک سے اس کے ہاتھوں سے برتن زمین پر گر گئے اور رحیم خان بچوں کی شرارت سمجھ کر اپنی بیٹی کو خوب مارتا رہا۔رابعہ ویسی بھی کمزور ہوچکی تھی اتنی مار کو برداشت نہ کرسکی اور اس کی موت ہوگئی۔ آس پاس رہنے والے اُس (رحیم خان) پاگل سے نفرت کرنے لگے تھے۔ یہ احساس ہی تھا کہ اس پاگل کو کوئی احساس ہی نہیں تھا۔
——–
Dr. Sufiyabanu. A. Shaikh
C- Ground Floor Tajpalace, Kumbharwada
380001. ,Jamalpur Ahmedabad
Mob: 9824320676