افسانہ : ماں کی ڈائری :- ڈاکٹر صفیہ بانو .اے .شیخ

Share
ڈاکٹر صفیہ بانو.اے.شیخ

افسانہ : ماں کی ڈائری

ڈاکٹر صفیہ بانو .اے .شیخ

میں نے جب سے ہوش سنبھالا تب سے ماں کو میں نے ایک عجیب سی کیفیت میں ملوث پایا اور جب بھی ان سے کچھ پوچھتا تو وہ ٹال دیتی۔میں نے دیکھا کہ ماں کی آنکھیں ہمیشہ بھینی رہتی، شاید وہ اپنے غم کو آنسو تک بننے نہیں دینا چاہتی تھی۔ماں نے مجھ سے میرے دل کی ہر بات جان لی مگر میں کبھی اپنے ماں کے دل کی بات نہ جان سکا۔

ہاں ایک بات ضرور ہے کہ والد صاحب کے انتقال کے بعد میری ماں بالکل تن تنہاں ہوچکی تھی اس کی دنیا جو کبھی ہنستی کھیلتی تھی وہ سمٹ کر رہ گئی۔مجھے یاد ہے کہ میں نے اپنی ماں کو کبھی کھُل کر ہنستے ہوئے نہیں دیکھا،دیکھا تو بس اُن نم آنکھوں کو جو ہر وقت کسی کے کاندھے کی تلاش یا سہارے کی تلاش میں تھی وہ اور کوئی نہیں بلکہ وہ میرے والد صاحب کو یاد کرتی تھی۔ ماں کی دنیا ان سے شروع ہوتی اور انہیں پر ختم ہوجاتی۔ میں اس وقت عمر کے اس پڑھاؤ میں تھا جہاں کچھ کچھ تو سمجھ آ جاتا تھا لیکن پھر بھی بہت کچھ سمجھ نہیں پاتا تھا۔
ہر روز میں اپنی ماں سے اُس کمرے میں بات کرنے ضرور جاتا اور کچھ دیر کے لیے ٹھہر بھی جاتا میں ماں سے کہتا کہ ماں تم نے اپنی زندگی کے بارے میں کبھی کسی کو کیوں نہیں بتایا؟ ماں کہتی میرے سارے راز میں نے اِس ڈائری میں لکھے ہیں تم جانتے ہوں جب تم بہت چھوٹے سے تھے تب تمہارے والد صاحب نے تمہارے لیے ایک خواب دیکھا تھا وہ کیا تھا ماں؟ بتائے نہ لیکن اب تو وہ خواب کہی دھندلا سا ہوگیا، حالات بدل گئے۔ماں یہ تو بتا دیجئے کہ وہ مجھے کیا بنانا چاہتے تھے؟ ماں نے کہاں تم ایک نیک اور اچھا انسان بننا”بس یہی تمہارے والد صاحب کہتے تھے۔ ماں سے میں نے پوچھا کیا میں اچھا انسان نہیں ہوں؟ماں نے مجھے ٹوکتے ہوئے کہا تم کسی دن اپنے آپ سے سوال کرنا کیا تم واقع اچھے انسان ہو؟ تمہارا ضمیر خود تم کوسچ کہہ دے گا۔ ماں نے کہا تم جا کر سو جاؤ رات بہت ہوچکی ہے۔ میں دیر رات تک اس بات کو لے کر سوچنے لگا کہ آخر ماں نے ایسا کیوں کہا،کیا میں اچھا انسان نہیں ہوں یا پھر اچھا انسان ہوں؟یہ بات ایک ماں سے بہتر کون بتا سکتا ہے کہ اس کا بچہ اچھا انسان ہے یانہیں ہے۔ صبح اٹھا اور ماں کو سلام عرض کرتے ہوئے کالج جانے کے لیے نکل گیا۔ میں صبح جاتا تو شام کو ہی گھر آتا۔ مجھے نہیں معلوم کہ گھر پر کیا ہو رہا ہوگا؟ اور نہ میں نے کبھی یہ جاننے کی کوشش بھی کی۔ میں ماں سے ایک دن ضد کر بیٹھا کہ آپ مجھے آج اپنی اس ڈائری کو پڑھنے ضروردیں گی۔ماں نے فوراً انکار کر دیا اور کہا تم ابھی عمر کے اس پڑھاؤ پر نہیں پہنچے ہو کہ تم سب کچھ سمجھ سکو۔ ویسے بھی تم اپنی پڑھائی پر دھیان دو، امتحان نزدیک ہے۔
میں ٹھہرا نوجوان جوکسی بات کو ایک کان سے سنتا اور دوسرے کان سے نکال دیتا۔ اس بات کا احساس مجھے اس وقت ہوا جب ماں یکایک بہت بیمار ہوگئی تھی۔ ڈاکٹرصاحب نے کہا کہ انہیں اب کسی بات کا صدمہ نہیں پہنچنا چاہیے ورنہ ان کی جان بھی جاسکتی ہے ایسی کوئی بات مت کرنا جس سے ان کو تکلیف ہو۔ میں نے اسی وقت ٹھان لیا تھاکہ میں ماں کو کسی بھی حال میں خوش رکھنے کی حتیٰ الامکان کوشش کروں گا۔ میں نے اپنا گریجویشن پورا کر لیا،اس کے بعد ارداہ کیا کہ کہی نوکری کر لو۔ شکر ہے خدا کہ عالم ِبے روزگاری سر پر ہے اور مجھے اتفاق سے ایک شو روم میں نوکری مل گئی حالانکہ تنخواہ کم تھی مگر میں اپنی ذمہ دارویوں کے ساتھ ساتھ ماں کو خوش رکھنے کی کوشش لگاتار کرتا رہتا تھا۔
ماں کے بیمار ہونے کے بعد جیسے میری زندگی اُس سائے دار درخت کی مانند ہوگئی تھی کہ جو دوسروں کے لیے سہارا تو بن سکتا ہے مگر خود ہمیشہ کسی سہارے سے محروم ہی رہتا۔ ماں نے ایک دن مجھے بلا کر کہاں بیٹے افضل میں جاتنی ہوں کہ تم میرے خاطر دن رات محنت کر رہے ہو، یہاں تک کہ تم مجھے خوش رکھنے کی خاطر اپنے اوپر کوئی توجہ نہیں دے پارہے ہو۔ ماں سے میں مخاطب ہو کر کہنے لگا کہ پتہ ہے ماں آج جب میں مسجد میں نماز ادا کرنے گیا تو مولوی صاحب لوگوں سے مخاطب ہو کر کہہ رہے تھے کہ ہر مومن مسلمان انسان جنتی ہے مگر وہ انسان سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ کو پسند ہے جس نے ماں کو خوش رکھاہو، کیونکہ اللہ تعالی ٰ کے بعدبے انتہاں محبت کرنے والوں میں اولین درجہ صرف اور صرف ماں کو حاصل ہے۔ماں کے قدموں میں جنت ہے۔آج ماں نے خوشی سے میرا ماتھا چوما اور کہنے لگی میں نے آج تک کسی کو اپنی ڈائری نہیں دی مگر اب تم اس لائق ہوگئے ہوں۔ میرے بیٹے میں تمہیں دعا دیتی ہوں کہ میں نے جو کانٹوں بھری زندگی گزاری خدا کرے کہ تم ہمیشہ اچھی خوشگوار زندگی گزارو۔ جیسے ہی ماں نے اپنی ڈائری میرے ہاتھوں میں رکھی اُدھر ماں سانس آنے لگی اور بس ایک ہلکی سی کھانسی آئی اور دم نکل گیا۔ میں ماں کیا ہوا ۔۔۔ماں کیا ہوا۔۔۔۔ ماں۔۔۔۔ ماں کہتا ہی رہ گیا۔
ماں نے اپنے جیتے جی کبھی اس دائری کو نہیں دیا، وہ سب کچھ جانتی تھی کہ اگر اس ڈائری کے راز کھُل جائیں گے تو شاید وہ کبھی کسی سے نظر یں نہ ملا سکیں گی۔ ماں کے گزرے چند روز بھی گزر گئے۔ میں اس کمرے میں دوبارہ گیا وہ کمرہ ماں کے لیے بہت خاص تھا جب میں نے ماں کی ڈائری کھولی اور پہلا صفحہ کھولا تو پڑھتا ہوں۔ میرا نام حمراء تھا مگر مجھے گھر میں حمراء بی بی کہہ کر پکارتے تھے میں اپنی چہار بہنوں میں سب سے سنجیدہ مزاج لڑکی تھی میں نے کبھی کسی سے بے تکلف انداز میں بات بھی نہیں کی۔ آزادی سے قبل کا زمانہ تھا جہاں کم عمر میں لڑکیاں بیاہ دی جاتی تھیں۔ میری شادی رئیس احمد سے ہوئی۔ان کا نام ضرور رئیس تھا مگر ان میں رئیس پن کچھ بھی نہ تھا، لیکن وہ باتوں کے رئیس ضرور تھے وہ باتیں خوب کیا کرتے تھے میں نے کبھی اتنی باتیں نہ ہی سنی تھی اور نہ ہی کسی سے کہی تھی اور اب دیکھو میں ان سے بے تکلف باتیں کرنے لگی تھی۔ مجھے اس بات کا ہر وقت ملال رہا کرتا تھا کہ وہ ہمیشہ سے مجھ پر ایک شبہ کرتے تھے کہ کہیں یہ مجھ سے آگے نہ نکل جائے جبکہ معلوم تھا کہ میں ایک سیدھی سادی سلجھی ہوئی لڑکی ہوں لیکن جب رشتہ داروں میں جاتی ہوں جیسے ہر جگہ حمراء بی بی کی گنج سنائی دیتی تھی اور اسی بات سے وہ ہر وقت مجھ سے خفا رہتے تھے۔ مجھے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ انہیں اس بات سے خلش تھی کہ ان کی بیوی ان سے آگے نکل جائے گی یا پر ایک عورت۔ سال ہا سال گزرتے گئے اور جیسے تیسے زندگی گزر بسر ہورہی تھی۔ وہ زمانہ سستا اور اچھا تھا مجھے اکثر وہ سنیما دکھانے اور ہوٹلوں میں اپنی پسند کا کھانا کھلانے ضرور لے جاتے حالانکہ وہ کبھی میری مرضی نہیں پوچھتے تھے کہ تمہیں کیا پسند ہے؟ وہ اپنی پسند کو میری پسند بنانا چاہتے تھے۔ اچانک مجھے پڑھتے پڑھتے نیند کا غلبہ آنے لگا حالانکہ میں اس وقت سونا نہیں چاہتا تھا مگر ماں کی کہیں باتوں میں کبھی نہیں ٹالا کرتا تھا وہ مجھ سے کہتی دن کام کے لیے اور رات آرام کے لیے بنائی گئی ہے اس لیے ہو سکے تو رات میں جلدی سونا اور صبح جلدی اٹھنا۔ میں نے ڈائری کے اس صفحہ پر ایک نشانی رکھ دی اور ڈائری کو قریب ہی رکھ کر سو گیا۔ دوسرے روز صبح جلدی سے اٹھا پھر دوبارہ سے ڈائری پڑھنے میں مشغول ہوگیا۔ماں کے جذبات کو سمجھنے کے لیے یہ ایک ڈائری ہی کافی تھی جس میں انھوں نے اپنی زندگی کا لمحہ بہ لمحہ حال لکھا تھا۔ وہ لکھتی ہے کہ ایک روز کسی دوست کی محفل میں وہ گئے تھے اور جب واپس لوٹے تو شراب کی نشیلی حالت میں تھے میں نے سہارا دیتے ہوئے انہیں پلنگ پر لیٹا دیا۔ انتہاں تو تب ہوئی جب ان کے دوست جو انہیں گھر تک چھوڑنے آئے تھے وہ مجھ سے مخاطب ہو کر جاتے جاتے بھابھی جان الواع کہتے ہوئے باہر نکل رہے تھے اور میں نے بھی جواب میں ان سے اتنا ہی کہا کہ شکریہ بھائی جان۔ بس انہیں تو جیسے دل و دماغ میں بات ٹھہر سی گئی تھی کہ کہیں یہ مجھ سے آگے نہ نکل جائے۔ آؤ دیکھا نہ تاؤ مجھے مار نے لگے۔میں نے ان سے پوچھا بھی آپ مجھے کیوں مار رہے ہو، ان کا جواب سُن کو تو میرے پیروں تلے زمین کھسک سی گئی تھی انہوں نے کہا میں نے تجھے خرید لیا ہے اور اب میں تیرا مالک ہوں۔ایک مالک کویہ سارے حقوق حاصل ہوتے ہیں کہ وہ اپنی خریدی ہوئی چیز یا مال کے ساتھ کچھ بھی کر یں۔اس کو کوئی نہیں بول سکتا۔ میں تو سکتے میں آگئی مجھے شدید احساس ہونے لگا کہ میرا وجود محض ایک چیز یا مال ہے کیا میں انسان کہلانے کے بھی لائق نہیں؟یہ ظلم دنیا کا سب سنگین ظلم تھا مجھے بھی ان کے یہ الفاظ سُن کر بہت غصہ آیا اور میرا برداشت کا باندھ ٹوٹ گیا۔ میں نے ان کا ہاتھ پکڑ کر انہیں روک دیا، حالانکہ مجھ میں ان کے جتنی طاقت نہیں تھی مگرجو چونٹ انہوں نے مجھے دی وہ میری طاقت کو بڑھا رہی تھی۔ تھوڑی دیر کے بعد رات بھر اس کمرے میں ایک خاموشی چھا گئی تھی اس کمرے کی ساری چیزیں ا یسی بکھری پڑی تھی جیسی میری زندگی بکھری پڑی ہو۔ یہ صفحہ پڑھتے ہوئے میری آنکھوں سے آنسوٹپ ٹپ گرنے لگے مجھ سے برداشت نہیں ہورہا تھا اس شخص کی ذہانت کو سوچ کر۔ مجھے اچانک سے ماں کی وہ باتیں یاد آگئی کہ تم نیک اور اچھا انسان بننا۔ حالانکہ ماں نے کبھی والد صاحب کے ایسے خیالات کا ذکر نہیں کیا۔وہ تو ہر وقت ہمیں اچھی باتیں بتایا کرتی تھیں۔تمہارے والد صاحب نیک اورپرہیز گار انسان تھے۔ وہ مجھے بہت خوش رکھتے تھے۔ شادی کے اتنے برس گزر گئے مگر ان میں کوئی تبدیلی نہیں آئی اورتم ہماری زندگی میں بڑی ہی فضیلت بن کر آئے،تمہارے آنے کے بعدان کی سوچ اور سمجھ میں تبدیلی آنے لگی اور جب یہ تبدیلی آنے شروع ہوئی تب اچانک وہ مجھے ہمیشہ کے لیے تنہا ں چھوڑ کر چلے گئے۔ میں نے تمہیں ماں اور والد دونوں بن کر پالا۔ مجھے اب تم سے امیدیں بندھنے لگی تھیں۔
میں کچھ دیر تک روتا رہا اسی کمرے میں جہاں ماں کی یادیں تھیں۔ ماں نے آج تک اس کمرے میں کوئی تبدیلی نہیں کرنے دی۔اس کمرے ہر ہر چھوٹی بڑی چیز اسی جگہ پر آج تک بھی موجود ہے۔ اس کمرے میں چھوٹی سی کھڑکی تھی اور ہلکی ہلکی سی ہوا آنے لگی اور یک دم سے کھڑکی کا ایک پٹ کھُل گیا اورمجھے ماں کا عکس نظر آیا”ماں کہنے لگی میں نے اسی لیے تمہیں اپنی زندگی میں نہیں بتایا ورنہ تم ہر روز مجھ سے کوئی نہ کوئی سوال ضرور کرتے۔ میں جانتی ہوں تم یہ پڑھنے کے بعد اپنے والد سے ضرور خفا ہوجاؤ گے مگر تم اس وقت کے حالات سے ناواقف ہو، تمہیں کیا معلوم زندگی کی کڑی دھوپ کیا ہوتی ہے،یہ مکان تمہارے والد نہ بناتے تو شاید تمہاری اور ہماری زندگی کچھ اور ہوتی۔ مجھے اس بات کا یقین ہے تم اپنے والد صاحب کے برعکس ہی رہوں گے کیونکہ زمانہ بدل گیا میں نے جو ظلم و ستم سہا ہے شاید کوئی اور لڑکی اس کو برداشت نہ کر پائے۔ ایک عورت تب تک زندہ ہے جب تک اس کا وجود اور عزت قائم ہے ورنہ وہ زندہ لاش سے کم نہیں۔ ماں نے آخر میں بس یہی دہرایا تم نیک اور اچھا انسان بننا۔ ماں کا عکس غائب ہو گیا۔ میں نے ماں کی ڈائری کو بند کیا اور چومنے لگامیاں کی ڈائری میری زندگی کا وہ قیمتی خزانہ ہے جو خرچ تو ہوگا مگر کبھی کم نہیں ہوگا۔
—–
Dr. Sufiyabanu. A. Shaikh
C- Ground Floor Tajpalace, Kumbharwada
380001. ,Jamalpur Ahmedabad
Mob: 9824320676
Email:

Share
Share
Share