میرے والد پروفیسر محمد حنیف کیفی
محقق، نقاد، شاعر و ادیب
محمد قمر سلیم
ایسوسی ایٹ پروفیسر
انجمنِ اسلام اکبر پیر بھائی کالج آف ایجوکیشن
واشی، نوی ممبئی
موبائل۔09322645061
کہتے ہیں کہ علم کسی کی جاگیر نہیں ہے اور علم کے لیے یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ تعلیم یافتہ یا لکھنے پڑھنے والوں کے گھروں سے ہی آوازیں بلند کرے۔ یہ چاہے تو عالِم کے گھر سے بانگ بلند کرے، چاہے توتاجر کے مکان سے ڈنکا پیٹے اور چاہے تو مفلس کی جھونپڑی اور دھول مٹی سے بھری ہوئی فقیر کی کٹیا سے صدا بلند کرے۔
میرے والد کے والد یعنی میرے دادا کاروباری انسان تھے۔ بہت محنت و مشقت کرکے عزت و شہرت کمائی۔ خود تو پڑھے لکھے نہیں تھے لیکن اپنے بچوں کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کیا۔ اٹھنا بیٹھنا مہذب اور پڑھے لکھے لوگوں میں تھا اس لیے تعلیم کی اہمیت سے واقف تھے۔ اسی لیے اپنے بچوں کی تعلیم پر خصوصی توجہ دی۔ البتہ اس کاروباری گھرانے میں وہ ماحول نہیں تھا جسے علمی یاادبی کہا جاسکے۔ میرے والد آج جس مقام پر ہیں وہ ان کی اپنی لگن، دلچسپی، جستجو اور سخت محنت ہی کا نتیجہ ہے۔
خودداری اور خود اعتمادی میرے والد کے غالب اوصاف ہیں۔ نازک مزاجی اور حساس طبعی بھی بچپن ہی سے تھی۔ جیسے جیسے زندگی کے منازل سر کرتے رہے طبیعت میں پختگی آتی گئی۔ لکھنے پڑھنے کے شوق اور خودداری نے دولت و شہرت کا حریص و اسیر نہیں بننے دیا اور دولت کی چکاچوندھ ان کو اپنی الگ دنیا بنانے سے نہ روک سکی۔ علم کی ایک لو تھی جو دل کے کسی گوشے میں جلتی تھی اور بجھنے کا نام ہی نہ لیتی تھی۔ اس نے والد صاحب کے عزائم کو اور تقویت پہنچائی اور علم کی راہ پر گامزن کردیا۔کاروباری ماحول میں رہتے ہوئے بھی کبھی ”کاروباری“ نہ بن سکے۔ علم کی خاطر گھر چھوڑا اور اپنی الگ دنیا کی تعمیر میں لگ گئے۔
اردو چونکہ مادری زبان تھی تو اس سے لگاؤ ہونا فطری تھا۔ حساس طبیعت کی وجہ سے ایک شاعر بھی ان کے دل میں گھر کرگیا تھا۔ علم کی کھوج اور جستجو نے محقق اور نقاد بنا دیا۔ ایک اہم بات جو ان کی شخصیت کی تھی وہ ان کا انگریزی ادب سے لگاؤ تھا۔ انہوں نے اردو میں ایم۔ اے کرنے سے پہلے انگریزی میں ایم۔ اے کیا۔ انگریزی میں ایم۔ اے نام و نمود کی خاطر یا دوسروں پر رعب ڈالنے کے لیے نہیں کیا بلکہ اپنے ذہنی افق کو وسیع کرنے اور اپنے ادبی ذوق کو پختگی اور جلا دینے کے لیے کیا۔ انگریزی ادب پر بھی ان کی زبردست پکڑ ہے۔ اردو کے لیکچرر مقرر ہونے سے پہلے وہ انگریزی ہی کے استاد تھے۔
ان کا ادبی سفر دراصل بھوپال سے دورانِ ملازمت اردو میں ایم۔ اے کرتے ہوئے شروع ہوا۔ اس سے پہلے اپنی زندگی کے تمام لمحات اس سفر کی پختہ بنیاد رکھنے کے لیے گزارے۔ یہاں سے انہو ں نے تحقیق و تنقید کا باقاعدہ آغاز کیا۔ یہ تو ہم سب ہی جانتے ہیں کہ اردو ہندوستان کی مختلف بولیوں کی مدد سے پروان چڑھی۔ نہ صرف اردو زبان میں مختلف ہندوستانی زبانوں کی آمیزش ہے بلکہ اردو کا دامن اتنا وسیع ہے کہ دوسرے ملکی وغیر ملکی زبانوں کے ادب کی اصناف و اسالیب کو بھی اپنے اندر سمو لیا ہے۔
اردو ادب کو مختلف زبانوں کے ادب نے متاثر کیا۔ انگریزی ادب بھی اس سے اچھوتا نہیں ہے۔ اردو شاعری میں انگریزی ادب کے اثرات کو نمایاں طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔ سانِٹ، آزاد نظم، نظمِ معرّا، پیروڈی وغیرہ کا چلن انگریزی ادب ہی کے اثر سے آیا۔ آزاد نظم کے سوا باقی تمام اصناف پر اردو ادب میں زیادہ ذخیرہ نہیں ملتا ہے۔ بہت کم محققین نے ان اصناف پر قلم اٹھایا ہے۔
میرے والد نے مندرجہ بالا اصناف پر، پیروڈی کو چھوڑ کر، عمیق اور تفصیلی مطالعہ کیا ہے۔ ان اصناف سے متعلق ان کی کتابیں اردو ادب میں گراں قدر سرمایے کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ انھوں نے تعداد کے حساب سے بہت کم کتابیں لکھی ہیں لیکن کام کی نوعیت کی بنا پر ان چند کتابو ں ہی نے ان کو علم و ادب کی بلندیوں پر پہنچا دیا ہے۔ اگر اسے حسنِ عقیدت یا مبالغہ نہ سمجھا جائے تو مجھے یہ کہنے میں کوئی جھجک نہیں کہ زندگی کی سنگلاخ راہوں پر چلتے ہوئے اردو ادب کی اُن اصناف پر تحقیق کی جن پر بہت کم محققین نے توجہ دی اور اگرچند ادیبوں نے کچھ لکھا بھی تو اس میں وہ سنجیدگی اور گہرائی نہیں تھی جو والد صاحب کے کام میں نظر آتی ہے۔ ان کی تصانیف کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ انہیں زبان پر قدرت حاصل ہے۔ نہ صرف اردو پر بلکہ انگریزی پر بھی۔ میں نے ہمیشہ دیکھا ہے کہ ان میں کچھ نیاپن پیدا کرنے کی جستجو رہتی ہے۔ وہ جو کچھ بھی لکھتے ہیں بہت باریک بینی کے ساتھ لکھتے ہیں۔ انہو ں نے اپنی تمام صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر تحقیق و تنقید کو ایک اعلیٰ نمونہ بناکر پیش کیا۔
ان کی اہم تصانیف میں ”اردو شاعری میں سانِٹ“، ”اردو میں نظمِ معرا اور آزاد نظم“، ”اردو سانِٹ: تعارف و انتخاب“، ”تنقید و توجیہ“ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ دو شعری مجموعے ”چراغِ نیم شب“، ”سحر سے پہلے“ ”بائیں ہاتھ کا کھیل (ہائیکو)“ اور”بچپن زندہ ہے مجھ میں“منظرِعام پر آچکے ہیں۔
والد صاحب کی پہلی تصنیف ”اردو شاعری میں سانِٹ“ ہے لیکن نہ صرف اسے لکھنے میں بلکہ چھپوانے میں بھی جس محنت اور سلیقے سے انھوں نے کام کیا اور کتاب کو ظاہری اور معنوی حسن سے آراستہ کرکے پیش کیا، اسے دیکھ کر کوئی بھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ ان کی پہلی کتاب ہے۔ کتابت کی صحت پر وہ بہت دھیان دیتے ہیں۔ دہلی کے کاتبوں سے بات نہیں بنی تو پانی پت کے ایک صاحب کو یہ ذمہ داری سونپی گئی۔ دہلی کے بہترین پریس جمال پریس میں اس کی طباعت ہوئی۔ انوار انجم نے والد صاحب کے تخیل کو سرورق کے عمل میں منتقل کیا۔ غر ض یہ کہ کتاب جب منظرِعام پر آئی تو اسے ہر اعتبار سے کافی سراہا گیا۔اس کتاب نے ایک محقق اور نقاد کی حیثیت سے ادبی دنیا میں ان کی پہچان مستحکم کی۔
کتاب کے موضوع کو اگر دیکھا جائے تو سانِٹ انگریزی ادب کی مشہور و معروف صنف ہے جب کہ اردو ادب میں سانِٹ کو اتنی مقبولیت حاصل نہیں ہوئی۔ مختلف شعرا،جن میں اختر جوناگڑھی، جنھیں اردو سانِٹ کا موجد کہاجاتا ہے، ن۔ م۔ راشد، اخترشیرانی، احمد ندیم قاسمی، شائق وارثی، اوم پرکاش اوج کے نام نمایاں ہیں، سانِٹ کی طرف راغب ہوئے اور سانِٹ میں طبع آزمائی کی۔ اس کے باوجود اردو سانِٹ کو وہ مقام نہیں ملا جو دوسری اصنافِ سخن کو حاصل ہے۔ والد صاحب نے اپنی تصنیف کے ذریعے اردو سانِٹ میں جان ڈالنے اور اسے اردو شاعری کی روایت کا حصہ بنانے کی کوشش کی اور ایک ایسی کتاب پیش کی جو اس موضوع پر حوالے کی حیثیت رکھتی ہے۔ بقول خود ان کے:
”اردو شاعری میں سانِٹ، اپنے موضوع کے اعتبار سے اردو ادب میں پہلا تحقیقی و تنقیدی مقالہ ہے— اس مقالے کے ذریعے پہلی بار ان حقائق کی نقاب کشائی کی گئی ہے کہ اردو میں سب سے پہلے سانِٹ کس شاعر نے لکھا؟ اردو میں سانِٹوں کا سب سے پہلا مجموعہ کون سا ہے؟ وہ کب شائع ہوا اور اس کا خالق کون ہے؟“ ۱؎
پہلی بار انھوں نے سانِٹ کی مختلف ہیئتوں پر تفصیل سے مدلل بحث کی اور اردو ادب میں سانِٹ سے متعلق بہت ہی غلط فہمیوں کا ازالہ کیا۔ نہ صرف اردو میں سانِٹ کی خصوصیات اور اس کی ادبی حیثیت سے روشناس کرایا بلکہ انگریزی اور اردو سانِٹ کا تقابلی مطالعہ بھی کیا اور زبان اور فن پر اپنی گرفت کی خوبی کو بھی اجاگر کیا۔ پروفیسر گوپی چند نارنگ صاحب رقمطراز ہیں:
”حنیف کیفی صاحب سے پہلے کسی نے اردو میں کسی ایسی ادبی صنفِ سخن پر، جو تجربے کے طور پر اپنائی گئی ہو، اتنی توجہ صرف نہیں کی… تما م ضروری مآخذ کو کھنگال کر نتائج اخذ کیے گئے ہیں۔ مصنف کی رائے ہر جگہ جچی تلی، مناسب اور متوازن ہے۔ اردو میں ادب کے تقابلی مطالعے کے نقوش ابھی زیادہ واضح نہیں۔ اس کتاب سے اول تو اس اہم کام میں مدد ملے گی، دوسرے یہ کہ جدید اردو شاعری کا وہ پہلو جس کی اہمیت آشکارا نہیں تھی، اب پوری طرح روشنی میں آجائے گا۔“ ۲؎
سانِٹ ہیئتی اعتبار سے لکھنا بہت مشکل ہے اور یہی وجہ ہے کہ اردو میں اس پر کم محنت کی گئی۔ غزل نے بھی، جو اردو کے مزاج میں رچ بس گئی ہے، سانِٹ کو قدم جمانے نہیں دیے۔
والد صاحب نے سانِٹ کی فنی اور شاعرانہ خصوصیات کو اجاگر کرکے اور اس صنف سخن کا بھرپور تعارف پیش کرکے علم و ادب کے خزانے میں ایک بیش قیمت اضافہ کیا۔ اس سلسلے میں ماہرِ لسانیات پروفیسر مسعود حسین خاں صاحب نے لکھا ہے:
”حنیف کیفی صاحب کی تصنیف ”اردو شاعری میں سانِٹ“ کئی لحاظ سے ایک قابلِ توجہ علمی کاوش ہے… حنیف کیفی صاحب کی اس عالمانہ تصنیف کا علمی اور ادبی حلقوں میں خیرمقدم کیا جائے گا اور ادبی دیدہ وروں کے لیے اس میں خبراور نظر دونوں کا سامان ملے گا۔“ ۳؎
سانِٹ ہی سے متعلق ان کی ایک اور کتاب ”اردو سانِٹ: تعارف و انتخاب“ ہے۔ ”اردو شاعری میں سانِٹ کی طرح یہ کتاب بھی اپنے آپ میں ایک الگ رنگ و بو لیے ہوئے ہے۔ اردو ادب میں نہ صرف سانِٹ کا یہ پہلا انتخاب ہے بلکہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے بھی ایک منفرد انتخاب ہے۔ اس کتاب سے بھی ان کی جدوجہد، جستجو، باریک بینی اور ترتیب و پیش کش میں تحقیقی طریقِ کار کا اعلیٰ معیار سامنے آیا۔ اس کتاب کے بارے میں پروفیسر محمد حسن صاحب لکھتے ہیں:
”تعجب یہ ہے کہ اردو میں سانِٹ کے محدود چلن کے باوجود اب تک اردو سانِٹ کا کوئی انتخاب شائع نہیں ہوا۔ حنیف کیفی صاحب نے پہلی بار اس قسم کا انتخاب مرتب کیا ہے اور اس پر ایک مبسوط مقدمہ لکھ کر سانِٹ کی صنف کو اردو دنیا سے اچھی طرح متعارف کرایا ہے۔ ان کے بعض بیانات سے اختلاف
ممکن ہے۔ اسی طرح ان کے انتخاب میں بھی بعض حضرات کو شاید اپنی پسند کے سانِٹ نہ ملیں یا کچھ سانِٹ پسند نہ آئیں لیکن کیفی صاحب کی محنت اور جستجو کی داد نہ دینا ظلم ہوگا۔ اس انتخاب کے مطالعے سے بہ یک نظر سانِٹ کی مختلف طرزیں نظر کے سامنے آجاتی ہیں اور اس اعتبار سے یہ انتخاب امتیازی حیثیت رکھتا ہے۔ مجھے امید ہے کہ اردو کے ادبی حلقوں میں ان کی یہ کاوش مقبول و مشکور ہوگی۔“ ۴؎
ان کی دوسری اہم کتاب ”اردو میں نظمِ معرّا اور آزاد نظم“ کا تجربہ ہمارے لیے پہلی کتاب ”اردو شاعری میں سانِٹ“ سے بالکل مختلف تھا۔ جس وقت اردو شاعری میں سانِٹ چھپی تھی اس وقت والد صاحب اس کا پورا مسودہ تیار کرچکے تھے اور ہم لوگ صرف اشاعت کے مرحلے سے ہی کسی حد تک وابستہ تھے۔ ”نظمِ معرا اور آزاد نظم“ کی تصنیف کے دوران ایک مصنف، نقاد و محقق کے تمام مراحل دیکھنے کو ملے۔ والد صاحب جب بھی کوئی مضمون لکھنے بیٹھتے ہیں تو دنیا ومافیہا سے بے خبر ہوجاتے ہیں۔ ان کی توجہ کا مرکز صرف اور صرف وہ تصنیف ہوتی ہے۔ اپنے ہر لفظ، ہر جملے، ہر عبارت کو ایک نیا رنگ دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کے لیے انہیں اپنے قلم سے لکھی ہوئی عبارت کو کئی کئی بار کاٹنا پڑتا ہے۔ لکھنے میں اتنا محو ہوجاتے ہیں کہ نہ تو وقت کا دھیان رہتا ہے اور نہ کھانے پینے کی سُدھ رہتی ہے۔ ہاں اس درمیان دو چیزوں کو نہیں بھولتے اور شاید یہ شعوری کوشش نہیں بلکہ فطری عمل ہے۔ ایک تو وہ نماز کسی بھی حالت میں نہیں چھوڑتے ہیں، دوسرے چائے کی عادت۔ اور آج بھی ان کی یہی کیفیت ہے۔
والد صاحب جو کچھ بھی لکھتے ہیں اس میں ان کے موڈ اور طبیعت کو بڑا دخل ہے۔ جب لکھنے کا موڈ ہوتا ہے تو صفحات کے صفحات لکھتے چلے جاتے ہیں۔ ان کے لیے دن اور رات کوئی معنی نہیں رکھتے۔ ان کی تحریر کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ مضمونو کے پہلے جملے سے آخری جملے تک کہیں بھی عبارت میں یہ محسوس نہیں ہوتا کہ وہ تر و تازہ نہیں ہے۔ عبارت میں نیاپن، الفاظ کا انتخاب و استعمال، تنقیدی نظر، تحقیقی ذہن کی کارفرمائی ہر جگہ رہتی ہے۔ اس کے برعکس انکے موڈ کا عالم یہ ہے کہ اگر موڈ نہیں ہے تو کئی ہفتوں، مہینوں اور کبھی برسوں تک کچھ بھی نہیں لکھتے۔ دن مہینے سال ایسے ہی گزر جاتے ہیں۔
”اردو میں نظمِ معرا اور آزاد نظم“ کی کتابت سے لے کر کتاب کی طباعت اور اشاعت تک میں اور میرے بڑے بھائی والد صاحب کے ساتھ لگے رہتے تھے۔ کتابت کے لیے بہترین کاتب کا انتخاب کیا گیا۔ حالانکہ وہ کاتب خود ہی بہت ذمہ داری اور دیدہ ریزی سے کام کرتے تھے لیکن والد صاحب اپنی باریک بیں ناقدانہ نظروں سے مجبور تھے کہ ہر بار کچھ نہ کچھ کمی نکال دیتے تھے اور ہم لوگوں کو اکثربڑی چڑ بھی ہوتی تھی کیونکہ اس زمانے میں اوکھلا، نئی دلّی سے جامع مسجد پرانی دلّی کاغذات لے کر جانا پڑتا تھا۔ کاتب صاحب بھی کبھی کبھی چڑ جاتے تھے کہ اتنی چھوٹی سی غلطی کو تو نظرانداز کیا جاسکتا تھا لیکن یہ حقیقت ہے کہ ہر غلطی سدھارنے کے بعد ایک نیا حسن پیدا ہوتا تھا اور ہم لوگوں نے ہر قدم پران سے کچھ نہ کچھ سیکھا۔ کتابت کے بعد کتاب کے سرورق کا مسئلہ درپیش تھا۔ آرٹسٹ نے نہ جانے کتنے سرورق ان کے سامنے پیش کیے مگر کچھ نیاپن اور نیا حسن دیکھنے کی عادت نے ان کی آنکھوں کو کسی پر بھی ٹھہرنے نہیں دیا۔ بڑی مشکل سے بہت سی ہدایتوں کے بعد ایک سرورق پسند آیا۔ اس میں بھی ترمیم کے بعد رنگوں کا امتزاج پیدا کیا اور پھر جان لیوا طباعت! نہ جانے کتنی بار چھپائی کی پلیٹیں بدلی جاتی تھیں۔ پہلی کتاب کی طرح یہ کتاب بھی لیتھو میں چھپی تھی۔ پلیٹوں پر الٹی تحریر کا دیکھنا اور غلطیاں درست کرنا۔ خدا کی پناہ! شدیدگرمی میں انھوں نے یہ جان لیوا کام کیا۔
کتاب کے تمام مرحلوں میں ایک ایک چیز ان کی نگرانی میں ہوئی۔ ہم لوگ اکثر کہتے تھے کہ کسی بھی پبلشر کو اشاعت کے لیے دے دیجیے۔ ہمیشہ اس کا جواب یہی ملتا تھا کہ میرے مزاج کے مطابق کتاب نہیں چھپے گی۔ ان کے ادبی و جمالیاتی مزاج کی وجہ سے ہی کتاب کی اشاعت میں بہت سی مشکلیں تو ضرور آئیں لیکن جب کتاب چھپ کر آئی تو وہ ایک ادبی شاہکار تھی۔
”اردو میں نظمِ معرا اور آزاد نظم“ اعلیٰ معیار، تحقیقی کاوشوں، فنی اصولوں سے مزین، تلاش و جستجو، دلائل اور ثبوتوں کے حسین امتزاج کی آئینہ دار ہے۔ یہ کتاب جو ان کی علمی و ادبی کاوشوں کا نقطہئ عروج اور کامیابیوں کی معراج ہے اصلاً ان کی پی ایچ۔ ڈی کا مقالہ تھا۔ اس کتاب کے بارے میں پروفیسر گیان چند جین صاحب لکھتے ہیں:
”اردو میں فن سے دلچسپی رکھنے والوں کی تعداد بہت کم ہے، حالانکہ ضروری ہے کہ فکر کے ساتھ فن کو بھی پیشِ نظر رکھا جائے۔ عام قاری نظمِ معرااور آزاد نظم کا صحیح فرق نہیں جانتا۔ کیفی صاحب نے ان دونوں اصناف کے تمام فنی پہلوؤں پر تفصیل سے بحث کی ہے۔ بیسویں صدی کے اوائل میں اردومیں جو بحث چلی تھی کہ نظمِ معرا کو قبول کیا جائے کہ رد، کیفی صاحب نے اس سلسلے کی تمام تحریریں اکٹھا کردی ہیں۔ یہ مفید کام ہے۔ میں نے اس سے پہلے ان تحریروں کو نہیں پڑھا تھاکیفی صاحب کے نتائج سے مجھے ہر جگہ اتفاق نہیں، لیکن اپنی تحقیق میں انہو ں نے کس دقتِ نظر اور دیدہ ریزی سے کام لیا ہے، اس کے بارے میں کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔ کتاب آپ کے ہاتھوں میں ہے ع
آفتاب آمد دلیلِ آفتاب
پی ایچ۔ ڈی کے بعض مقالے اس معیار کے ہوتے ہیں کہ انہیں ڈی۔لٹ کے لیے گزرانا جاسکتا ہے۔ یہ مقالہ بھی اسی زمرے میں آتا ہے۔“ ۵؎
پروفیسر جین صاحب کی رائے سے ہی اس کتاب کی اہمیت و افادیت کا اندازہ ہوجاتا ہے۔ والد صاحب اس کتاب میں اپنی تمام تر فکری صلاحیتوں، علمی معلومات، وسیع تجربات، ذہن کی گیرائی اور نظر کی گہرائی کے ساتھ موجود نظر آتے ہیں۔ اس کتاب کی شکل میں انھوں نے یقینا ادب کو ایک بیش قیمت تحفہ پیش کیا ہے۔ مشہور و معروف اور برگزیدہ نقاد پروفیسر آلِ احمد سرور صاحب کے مطابق:
”مغربی شاعری اور تنقید کا ان کا مطالعہ سرسری نہیں، گہرا ہے۔ وہ شعریت کی روح تک پہنچنا بھی جانتے ہیں اور تاریخی اور ادبی نوعیت کے فرق کو بھی ملحوظ رکھتے ہیں۔ ان کی زبان صاف اور واضح ہے اور ان کے خیالات میں جھول نظر نہیں آتا…“ ۶؎
”حنیف کیفی کا یہ علمی و ادبی کام اس موضوع پر اب تک سب سے اچھا کام ہے۔ مجھے یقین ہے اس کے ذریعے سے ہمارے پڑھنے والوں کو نظمِ معرا اور آزاد نظم کی خصوصیات اور اس کے امکانات کو سمجھنے کا موقع ملے گا اور وہ شعر فہمی وجود میں آئے گی جو صرف مانوس جلووں کی عادی نہیں ہے، بلکہ نئی کرنوں اور نئے افق پر بھی نظر رکھتی ہے۔“ ۷؎
حالانکہ یہ دور خوشامدپسندی، سیاسی داؤ پیچ، انسانی وسائل کے استحصال کا دور ہے لیکن ایسا نہیں ہے کہ صرف ان تمام ہنروں سے لیس انسان ہی کامیاب ہوتا ہے، بلکہ اعلیٰ کام انسان کی مدد کرتا ہے اور اپنا مقام اپنے آپ بناتا ہے۔ انسان کی اعلیٰ کارکردگی ہی اس کی بلندی و عظمت کی پہچان ہے۔ پروفیسر مسعود حسین خاں صاحب لکھتے ہیں:
”ڈاکٹر حنیف کیفی صاحب کی علمی تصنیف ”اردو میں نظمِ معرا اور آزاد نظم“ کے مطالعے کا موقع ملا۔ انہوں نے اس میں تاریخی اور فنی دونوں اعتبار سے، اس موضوع کا بھرپور حق ادا کیا ہے۔ تحقیق کے طریقِ کار میں انہوں نے تقابلی اور تجزیاتی دونوں نقاطِ نظر کو اپنایا ہے، اس طرح ایک ایسے موضوع کے ساتھ وہ انصاف کرسکے ہیں جس کے بارے میں اردو میں عرصے سے خلطِ مبحث ہوتا چلا آرہا ہے۔اس تصنیف سے حنیف کیفی صاحب کے وسیع مطالعے اور علمی گرفت دونوں کا بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ ہر جگہ ایک سنجیدہ اعتدال ملتا ہے جو علمی اسلوب کے لیے ازبس ضروری ہے۔ اس موضوع پر انہوں نے نہ صرف رسائل میں بکھرا ہوا مسالہ سمیٹا ہے بلکہ اس کو پرکھنے میں اصابتِ رائے کا ثبوت دیا ہے۔ زبان ہو یا بیان ہر جگہ ایک علمی شان نظر آتی ہے۔
میں سمجھتا ہوں یہ ایک گراں قدر تصنیف ہے۔ یہ نہ صرف اس موضوع پر ایک اضافے کا حکم رکھتی ہے بلکہ عرصے تک اس موضوع پر علمی کام کرنے والے کے لیے یہ ایک اہم حوالے کی کتاب کی حیثیت رکھے گی۔“۸؎
والدصاحب کے نزدیک ہر چیز اور ہر بات زندگی میں اہمیت رکھتی ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ جو کام بھی کیا جائے وہ سلیقے اور نفاست کے ساتھ کیا جائے۔ ان کا کہنا ہے کہ کام کرو تو ڈھنگ سے کرو ورنہ نہ کرو، اور یہ بات انسان کے اندر امورِ زندگی کی چھوٹی چھوٹی باتوں سے پیدا ہوتی ہے۔ ان کی ان باتوں کا اثر ان کی تصانیف پر بھی پڑتا ہے۔ وہ اپنی کسی بھی تحریر کے معاملے میں چھوٹی سے چھوٹی بات کو نظرانداز نہیں کرتے۔ اس سلسلے میں ان کا نظریہ ہے کہ جب بھی اور جو کچھ بھی لکھا جائے اسے اپنی صلاحیتوں کی حد تک بھرپور اور پوری طرح بے عیب بناکر پیش کیا جائے۔ اپنی طرف سے کوئی کسر نہ چھوڑی جائے اور یہ سمجھ کر اس کی تکمیل کی جائے کہ اب اس میں سدھار کی کوئی گنجائش نہیں۔ لیکن اس کے مکمل ہوجانے کے بعد اسے حرفِ آخر نہیں بلکہ حرفِ اول سمجھا جائے اور اس بات کے لیے ذہنی طور پر تیار رہنا چاہیے کہ ہر شخص کو اس سے اختلاف کا حق بھی حاصل ہے اور اس میں ترقی و بہتری کی بھی گنجائش ہے۔
”تنقید و توجیہ“ میں ۰۲ مطبوعہ اور غیرمطبوعہ مضامین شامل ہیں۔ اور یہ مضامین ۰۳ سال کے طویل عرصے کا احاطہ کرتے ہیں۔ ان مضامین میں اردو کی مختلف اصناف اور اردو کی معزز شخصیات کے مختلف پہلوؤں کا تنقیدی جائزہ لیا گیا ہے اور بہت سے انکشافات کیے گئے ہیں۔ ان مضامین میں ان پہلوؤں کو اجاگر کیا گیا ہے جن پر اس سے پہلے کسی نے توجہ نہیں کی، یا توجہ کی بھی تو سرسری طور پر۔ والد صاحب نے ان پر قلم اٹھا کر بحث و مباحثہ کے نئے دریچے کھول دیے ہیں۔پروفیسر مغنی تبسم لکھتے ہیں:
”ڈاکٹر حنیف کیفی نے اپنی تصانیف اور مضامین کے ذریعے اردو دنیا میں ایک معتبر محقق اور سلجھے ہوئے نقاد کی حیثیت سے شہرت حاصل کرلی ہے۔ ایک اچھا محقق اور نقاد بننے کے لیے صاحبِ ذوق ہونا اولین شرط ہے۔ جو شخص شعر و ادب کا مذاقِ صحیح نہ رکھتا ہو وہ تحقیق و تنقید کے میدان میں کوئی قابلِ قدر کارنامہ انجام نہیں دے سکتا۔ حنیف کیفی اس شرط کو بدرجہئ احسن پورا کرتے ہیں۔“ ۹؎
میرے والد نے تحقیق و تنقید سے پہلے شاعری شروع کی۔ بچپن سے شعری مزاج پایا تھا۔ ان کے سینے میں ایک دھڑکتا ہوا رومان پرور دل بستا تھا۔ طالب علمی کے زمانے سے ہی شاعری کی اور مشاعروں میں بھی جاتے تھے لیکن مشاعرے ان کو راس نہیں آئے۔ انہوں نے مشاعروں کو ترک کردیا۔ اس سے ان کی شاعری پر کچھ اثر نہیں پڑا۔ ایک شاعرکا دل دھڑکتا رہا اور وہ اپنے دلی احساسات و جذبات کاغذ پر اتارتے رہے۔ میں نے اکثر دیکھا ہے کہ وہ کسی سوچ میں گم ہیں اور کئی کئی دن تک ایسا ہی رہتا ہے۔ پھر کاغذ پر اپنی کیفیات اتارنا شروع کردیتے ہیں۔ کچھ دن میں یہ بات سمجھ میں آگئی کہ انہوں نے کوئی غزل یا کوئی اور شعری پیرایہ تخلیق کیا ہے۔ وہ کبھی بھی ایک ایک شعر نہیں لکھتے۔ جب تک کہ پانچ چھ شعر ذہن میں جمع نہیں ہوجاتے، وہ بیاض میں نہیں اترتے۔ حالانکہ ایسا کرنے میں کبھی کچھ بھول بھی جاتے ہیں۔ کبھی ایسا بھی نہیں ہوا کہ ان سے فرمائش کی گئی ہو کہ کوئی غزل یا نظم لکھ دیجیے اور وہ فوراً لکھنے بیٹھ گئے ہوں۔
ان کی شاعری میں سوز و گداز، غم و اندوہ، احساسِ تنہائی، امید و ناامیدی کوٹ کوٹ کر بھری ہے۔ ان کے تین مجموعے ”چراغِ نیم شب“، ”سحر سے پہلے“ اور ”بائیں ہاتھ کا کھیل“ منظرعام پر آچکے ہیں۔ ان کی حساس طبیعت کا اندازہ ان کے مجموعوں سے لگایا جاسکتا ہے۔ ”چراغِ نیم شب“ سے ان کے کلام کے چند نمونے پیشِ خدمت ہیں:
ہر اک کمال کو دیکھا جو ہم نے روبہ زوال
سسک کے رہ گئی سینے میں آرزوے کمال
بھری زمین کھلا آسمان میرا تھا
جواں تھا دل تو یہ ساراجہان میرا تھا
نادر اشیا کی جگہ چھانٹ کے لائے پتھر
ہم نےکس شوق سےکمرےمیں سجائےپتھر
ایک اک لمحہ عذابوں میں گھرا ہو جیسے
زندگی مرگِ مسلسل کی سزا ہو جیسے
چھو کے دیکھو تو وہ اک شیشہئ نازک نکلے
دیکھنے میں جو بدن سنگِ گراں ہوتا ہے
چن لو کہ غنیمت ہیں یہ بجھتی ہوئی کرنیں
ڈھلتا ہوا سورج ہوں گزر جاؤں گا سر سے
ان کے سینے میں ایک حساس شاعر بستا ہے جس کا دل ہر دم دھڑکتا رہتا ہے۔ اس حساس دل کی دھڑکنیں ان کے کلام میں جابجا نظر آتی ہیں:
نجات اس کے خلل سے ایک پل ملتی نہیں کیفیؔ
مرا احساس اک آسیب بن کر ساتھ رہتا ہے
میں دائرہ در دائرہ احساس کا قیدی
آزاد کبھی ہو نہ سکا اپنے اثر سے
کی نظر میں نے جب احساس کے آئینے میں
اپنا دل پایا دھڑکتا ہوا ہر سینے میں
اپنوں کی بے التفاتی، دنیا کی بے اعتنائی اور تنہائی کا احساس ان کے اشعار میں شدت سے نظر آتا ہے:
اپنوں کی نظر ملتی ہے غیروں کی نظر سے
بے گھر ہوں یہ احساس ملا ہے مجھے گھر سے
یار کہیں یا دشمن اس کو جس نے اپنا بن کر مارا
ہم نے اس کو دل میں جگہ دی اس نے دل میں خنجر مارا
اس کو اگر ہم بھول بھی جائیں بات کاکیسے زخم بھرے گا
مرہم کی تھی جس سے توقع زخم پہ اس نے نشتر مارا
آدرشوں کے رسیا کیفی ہستی سے بیگانے لوگ
اپنے گھروں میں آگ لگا کر خوش دیوانے ہوتے ہیں
کون جانے کس طرح لوٹے ہیں انگاروں پہ ہم
محشرِ تنہائی سے کیفیؔ ہے بستر آشنا
جہاں انھوں نے اپنوں سے شکایتیں کی ہیں وہیں اپنوں کا غم، گھر کا درد کسی سائے کی طرح ان سے چمٹا رہا ہے:
دیارِ غیر میں مانوس منظر ساتھ رہتا ہے
کہیں جاکر رہوں کیفیؔ مرا گھر ساتھ رہتا ہے
انا اور خودداری ایک سچے شاعر کی خوبی ہے۔ انا اور خودداری ان کے اشعار میں نمایاں طور پر نظر آتی ہے۔ اپنی اناپسندی اور اناگزیدگی کا ذکر انہوں نے اکثر اشعار میں کیاہے:
ٹمٹماتے ہوئے مجروح انا کے یہ چراغ
کاش دیکھے کوئی کیفی دلِ خوددار کے داغ
ہوئےاناکےدکھاوے سے لوگ سرا فراز
انا نے سر کو اٹھا کر کیا ہمیں پامال
رشتوں نے کوئی ہم سا بھی خودسر نہیں دیکھا
منھ موڑ کے آئے تو پلٹ کر نہیں دیکھا
ان کا دوسرا شعری مجموعہ ’سحر سے پہلے‘ پہلے مجموعے کے تقریباً ۸۱ سال بعد شائع ہوا۔ ان کا یہ شعری مجموعہ اس وجہ سے اہمیت کا حامل ہے کہ یہ مجموعہ ان کی پوری زندگی کی شاعری پر محیط ہے۔ اس مجموعے میں ۱۶۹۱ء سے لے کر ۳۰۰۲ء تک مختلف ادوار میں لکھی ہوئی شعری نگارشات شامل ہیں۔ میں اس مجموعے کی تمام شعری تخلیقات پر تو کچھ نہیں کہنا چاہوں گا کیوں کہ یہ تو دیدہ ور اور نکتہ شناس لوگوں کا فیصلہ ہوگا کہ وہ کس پائے کے شاعر ہیں۔ جہاں تک میرا تعلق ہے میں ان کو ایک اچھا شاعر مانتا ہوں۔ کہا جاتا ہے کہ شاعری وہی ہے جو عام و خاص کے دل میں اتر جائے۔ عوام کے دل میں اترنے کے لیے اشعار بہت سادہ اور سلیس زبان میں کہنا پڑتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ وہ عوامی شاعر نہیں بن سکے۔ انھوں نے اپنی شاعری میں اپنے احساسات و جذبات کے اظہار کے لیے جو زبان استعمال کی ہے وہ عام فہم نہیں ہے، مگر ان کے خیالات سے ہم آہنگ ہے۔ اور میرے نزدیک تمام ترشعری خوبیوں کے ساتھ ان کے الفاظ و تراکیب کی جدت اور ان کے استعمال کی ندرت ان کو اچھا شاعر بناتی ہے۔
اس مجموعے کے ایک سانِٹ ”ان اللّٰہ مع الصٰبرین“ کا ذکر کروں گا۔ اس کی فنی خوبیوں کی وجہ سے نہیں بلکہ ایک شاعر کے دلی جذبات کی وجہ سے۔ ان کا دل صرف اپنوں کے لیے ہی نہیں روتا بلکہ اوروں کے لیے بھی روتا ہے۔ رازی والد صاحب کے ایک دوست اور ساتھی رشید الوحیدی صاحب کے بیٹے تھے۔ ان کی اچانک موت سے والد صاحب کو بہت صدمہ پہنچا تھا۔ اور ایک حساس دل شاعر اپنے قلم کو نہ روک سکا اور اپنے جذبات کو الفاظ کا جامہ پہنا دیا:
صاحبِ دل ہوں ترا درد سمجھ سکتا ہوں
لیکن اس دردکا درماں میں نہیں کرسکتا
تعزیت کے ہر اک اسلوب سے بیگانا ہوں
تیری تسکین کاساماں میں نہیں کرسکتا
ان کا تیسرا شعری مجموعہ بائیں ہاتھ کا کھیل ۱۱۰۲ء میں منظرِ عام پر آیا۔بائیں ہاتھ کا کھیل ہائیکو کا مجموعہ ہے۔ ہائیکوجوتین مصرعوں کی جاپان کی مقبول ترین صنف ہے۔تعجب کی بات ہے والد صاحب جو ایک غزل کہنے میں کئی کئی دن لگا دیتے ہیں وہیں پورا مجموعہ تقریباً ایک مہینے میں مکمل کر لیا۔ اس مجموعے میں انھوں نے بہت سے موضوعات کا احاطہ کیا ہے۔ یوں تو ان کے اس مجموعے میں ہر ہائیکو اپنی مثال آپ ہے لیکن مجھے جن ہائیکونے اپنی طرف متوجہ کیا ہے، وہ ہائیکوہیں جوانھوں نے اپنے پوتے پوتیوں کے لیے لکھے ہیں:
1- لوڈو کے استاد – 2. بارش میں کی سیر
اچھے اچھے کو دیں مات – اثمر چاروں خانے چت
ارشد اور رشاد – پھسلا ایسا پیر
3- اکیا دُکیا فیل – 4. عبداللہ شیطان
شارعہ یُسراکیا کھیلیں – گھر کا صحن بنا ڈالا
کہاں ہے اب یہ کھیل – کرکٹ کا میدان
5. دادا منھ کے بل – 6. فائق چھٹکو یار
لامعہ، شاغل چڑھ بیٹھے – جلدی سے ہو جاؤ بڑے
چل مرے گھوڑے چل – گھوڑا ہے تیار!
7. اے۔بی۔سی۔ڈی۔ای – 8. رشتہ عالی شان
پگلم پگلا پگّو بی – میری پوتی نافعہ ہے
پڑھ مزنہ رانی – میری خالہ جان
ابھی حال ہی میں ان کی بچوں کی نظموں کی کتاب”بچپن زندہ ہے مجھ میں“ منظرِعام پر آئی ہے۔ اس کے بارے میں میں اتنا ہی کہوں گا کہ۵۸ سال کی عمر میں، بچپن زندہ ہے مجھ میں لکھنا کمال کی بات ہے اور وہ بھی اس مصنف کے لیے جس نے جو بھی لکھا بہت سنجیدہ لکھا۔ میں نے دیکھا ہے وہ جب بچوں کے درمیان ہوتے ہیں توایک بچہ پوری طرح ان کی شخصیت میں سما جاتا ہے جو ہنستا ہے ہنساتاہے، روتا ہے رلاتاہے، کھیلتا ہے کھلاتا ہے اورروٹھتا ہے، سجتا ہے اورسنورتا بھی ہے۔چند نمونے پیشِ خدمت ہیں:
نازک کندھے بھاری بوجھ:
مجھ پہ جو روز گرتی ہے بتاؤں کیسے
بھاری بستہ ہے یہ کاندھے پہ اٹھاؤں کیسے
بوجھ یہ لے کے میں اسکول کو جاؤں کیسے
پیاری معیشہ چھوٹی سی
آئی معیشہ چھوٹی سی
بن گئیں لامعہ اب باجی
فائق بھائی جان بنے
تھے چھوٹے اب بنے بڑے
ایسا نہیں ہے کہ انسان کے اندر خامیاں نہیں ہوتیں۔ اگر خامیاں نہ ہوں تو خوبیوں کا اندازہ نہیں ہوسکتا۔ یہاں سب کچھ لکھنے کا موقع تو نہیں ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ میرے والد کی سب سے بڑی کمی یہ ہے کہ اپنے آپ میں بہت کچھ تبدیلیاں لانے کے باوجود وہ خود کو بدلتے زمانے کے مطابق پوری طرح نہ ڈھال سکے۔ نہ تو وہ اپنے مزاج کی بنیادی خصوصیات میں لچک پیدا کرسکے اور نہ اپنے اصولوں اور روایتوں کے ساتھ کوئی سمجھوتہ کرسکے۔ پھر جب مسلسل انھیں اپنے خلوص کا بدلہ مصلحت کوشی اور مفادپرستی سے اور احسان کا بدلہ احسان فراموشی سے ملتا رہا تو ان کے اندر ایک نوع کی شدت پیدا ہوگئی جو ان کے کھرے پن اور بے ریا شخصیت کی وجہ سے روزبروز بڑھتی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ والد صاحب رشتے ہموار کرنے میں، اگر میں یہ کہوں، ناکام ہیں تو غلط نہ ہوگا۔ ان کی شدت پسندی رشتوں میں دراڑ آنے کے بعد تعلق ختم کرنے کو ہی ترجیح دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کی بھیڑ میں وہ اکیلے ہیں۔ اپنی اسی کمزوری کی بنا پر وہ ایک گوشے میں قید ہوکر رہ گئے ہیں۔ پھر بھی یہ ان کا زورِ قلم ہے جس نے تمام رکاوٹوں کے باوجود ان کے لیے ایک اہم اور قابلِ رشک مقام بنا دیا ہے، جو ہم سب کے لیے باعثِ فخر ہے۔
’سحر سے پہلے‘ کے پہلے صفحے پر والد صاحب کے کلمات کی پیروی کرتے ہوئے مجھے جو کچھ کہنا تھا کہہ دیا:
کچھ رات جو باقی ہے سفر سے پہلے
گزرےنہ کہیں عرضِ ہنر سے پہلے
یہ تھوڑی سی مہلت ہے غنیمت کیفی
کہہ ڈالو جو کہنا ہے سحر سے پہلے
والد صاحب کی شخصیت اور ان کے کام بیان کرنے میں یقینا میں نے کسی مبالغے سے کام نہیں لیا ہے، جو کچھ بھی لکھا ہے حقیقت اور سچائی کے ساتھ۔ ایک بیٹے کی حیثیت سے نہیں بلکہ ایک عام قاری کی حیثیت سے۔ اس مضمون کو ان ہی کے ایک شعر پر اختتام کرتے ہوئے اربابِ نظر کو ان کی شاعری کے ملاحظے کے لیے، جو ان کے تحقیقی و تنقیدی کارناموں کی وجہ سے ابھر نہ سکی، دعوتِ فکر و نظر دیتا ہوں:
کوئی ہماری غزل بھی ملاحظہ کرنا
تمہارے ہم نے کئی انتخاب دیکھے ہیں
-ََ——
حواشی:
۱۔ حنیف کیفی،اردو شاعری میں سانٹ: دیباچہ، ص۔۲۱
۲۔ حنیف کیفی، ا ردو شاعری میں سانٹ: پیش لفظ، پروفیسرگوپی چند نارنگ،ص۔۱۱
۳۔ حنیف کیفی، ا ردو شاعری میں سانٹ: فلیپ کور، پروفیسر مسعود حسین خان
۴۔ حنیف کیفی، ا ردو سانٹ:تعارف و انتخاب:فلیپ کور، پروفیسر محمد حسن
۵۔ حنیف کیفی، اردو میں نظمِ معرّا اور آزاد نظم:فلیپ کور، پروفیسر گیان چند جین
۶۔ حنیف کیفی، اردو میں نظمِ معرّا اور آزاد نظم:پیش لفظ، پروفیسر آلِ احمد سرور، ص۵۱
۷۔ حنیف کیفی، اردو میں نظمِ معرّا اور آزاد نظم:پیش لفظ، پروفیسر آلِ احمد سرور، ص۶۱
۸۔ حنیف کیفی، اردو میں نظمِ معرّا اور آزاد نظم:فلیپ کور، پروفیسر مسعود حسین خان
۹۔ حنیف کیفی، تنقید و توجیہ:فلیپ کور، پروفیسرمغنی تبسم
——-