کہانی : پھٹی قمیض
مینا یوسف
سینٹرل یونیورسٹی آف کشمیر
صفاپورہ،مانسبل
اے لڑکے ادھر آ!کہاں جا رہا ہے اور یہ جیب میں کیا ہے؟”راستے میں کھڑے نشے کی حالت میں جھولتے ہوئے اُس لڑکے نے شاہد کو روکتے ہوئے کہا“
”اسکول جا رہا ہوں اور میں کیوں بولوں میری جیب میں پانچ روپئے ہیں جو مجھے میری امی نے دئے ہے“شاہد نے معصوم سے لہجے میں جواب دیا۔
اُس نوجوان نے شاہد کی قمیض کی جیب میں ہاتھ ڈالا اور زبر دستی اس معصوم کے پانچ روپئے اس سے چھین لئے۔شاہد نے دانتوں سے اس کے ہاتھ کو جیسے ہی کاٹا تو ہاتھ کو چھڑانے کے ساتھ ساتھ اس کی قمیض کا جیب بھی پھاڑ دیا۔
اتنے بڑے ہو کے چھوٹے بچوں سے پیسے چھینتے ہو۔میں تمہاری شکایت امی سے کروں گا”شاہد نے روتے ہوئے کہا اوراسکول چلا گیا۔
اسکول میں جب اُستانی نے شاہد کی وردی قمیض کا جیب پھٹا ہوا دیکھا تو آگ بگولہ ہو گیئں
”یہ خیراتی اسکول نہیں ہے جہاں مفت کی روٹیاں توڑنے آجا تے ہو۔وردی صرف سال میں ایک ہی بار ملتی ہے یہ مت سمجھنا کہ تمہیں نئی قمیض ملے گئی،ہر گز نہیں۔سمجھے“
شاہد نے سر کو ہلاتے ہوئے اشارے میں ہاں کہہ دیا۔
اسکول سے چھٹی کے بعد شاہد جب گھر پہنچا تو امی نے اپنے لاڑلے بیٹے کی حالت دیکھ کر اپناہاتھ ماتھے پر مارتے ہوئے کہا”ہائے میرے ربا!آج کس سے لڑ کے آ ئے ہو میرے لعل۔اب روز کی طرح اُس بچے کی ماں آئے گئی اور دو چار باتیں سنائے گئی وہ بھی مجھے ہی سننی پڑے گئی“
امی کبھی تو میری سنا کرو،لڑکر نہیں آیا ہوں بلکہ جان بچا کر بھا گا ہوں۔وہ تو شاید مجھے مار ہی ڈالتا امی جان اور پتا ہے اُس کے منہ سے بہت گندی بد بو آرہی تھی۔تھو،تھو، تھو۔
”نہیں بیٹا کسی کے بارے میں ایسا نہیں بولتے۔جاؤ کپڑے بدل لو میں تمہارے لئے کچھ کھانے کے لئے بناتی ہوں“ امی نے کہا۔
چھینا جھپڑی کا یہ معا ملہ روز اُس معصوم کے ساتھ ہوتا تھااور روز اسکول میں اُس معصوم کو ڈانٹ پڑتی تھی،
اب شاہد کو جیسے اُس لڑکے کی نفرت سے ہو گئی تھی اور وہ بے چارہ یہ سمجھنے سے بھی قاصر تھا کہ آخر وہ اس کے پیسے چھینتا کیوں ہے؟
ایک دن شاہد اپنی امی کے ہمراہ بازار جا رہا تھا وہ لڑکا سڑک کے کنارے اسی جگہ ادھ مری حالت میں پڑا ہوا تھا،وہاں سے گزرتے ہوئے شاہد کی امی کی نظر جیسے ہی اُس لڑکے پر پڑی تو اُس لڑکے نے آستین نے اپنا منہ چھپا لیا جیسے کوئی شرمندگی محسوس کررہا ہو۔شاہد نے دھیمی آواز کے ساتھ اپنی امی کا ہاتھ ہلاتے ہوئے کہا”امی یہی ہے وہ لڑکا اور جاتے ہوئے پلٹ کر اُسے دیکھتا رہا“۔
اگلے دن کی صبح جب شاہد اسکول کے لئے تیار ہوا تو اپنی امی کے پاس آکر کہا”امی اگر آج پھر سے وہ لڑکا مجھے ملا اور میری وردی پھاڑدی تومیں خاموش نہیں بیٹھوں گا“
”بیٹا اگر وہ تمہیں آج پھر سے پکڑے تو تم پانچ میں سے تین روپے اس لڑکے کو دے دینا اور دو روپے خود رکھ لینا اس سے وہ نہ تمہاری وردی پھاڑے گااور نہ ہی تمہیں اسکول میں ڈانٹ پڑے گئی“۔
شاہد جب گھر سے نکلا تو راستے میں اُس لڑکے کو دیکھ کر امی کی بات کو یاد کرتے ہوئے اپنی جیب سے تین روپے نکال کر اس کو دینے کے لئے اپنا ہاتھ جو ں ہی آگے بڑھایا، وہ لڑکا اپنے گھٹنوں پر آگیا اور شاہد کو گلے لگا لیا اور سر ہلاتے ہوئے اُسے جانے کو کہا۔شاہد یہ سب دیکھ کر حیران رہ گیا اور ایک عجیب سوچ میں پڑ گیا کہ آخر یہ کیا تھا!
اسکول سے چھٹی کے بعد جوں ہی وہ گھر پہنچا تو اپنی امی کو سارا واقعہ سنایااور خود اُس کی امی ایک گہری سوچ میں پڑ گئیں ۔اس دن کے بعد سے امی نے اپنے بیٹے کو ایسی ایسی باتیں سکھائی جو وہ روز جا کے اُس لڑکے کو سناتا تھا جب بھی وہ راستے میں اُسے اسکول جاتے وقت روک لیتا تھا اور یہ سلسلہ کافی مدت تک چلتا رہا اور اب دھیرے دھیرے اُس لڑکے کے منہ سے گندی بد بو بھی کم ہی آتی تھی اور اب وہ ادھر اُدھر کم ہی گرا پڑا دکھائی دیتا تھا۔اور اب روز وہ شاہد کے انتطار میں رہتا تھا کہ وہ کب آئے گا مانو جیسے اب اُس کی زندگی واپس اپنی پٹری پر آگئی تھی۔
شام کے وقت شاہد اپنی امی کے ہمراہ بیٹھا ہوا تھاتو اُس نے اپنی امی سے کہا کہ ”امی وہ لڑکا اب مجھے تھوڑا اچھا لگتا ہے“
اچھا وہ کیسے”امی نے واپس پوچھا“
وہ اس لئے کیونکہ اب لڑکے کے منہ سے گندی بد بو بھی نہیں آتی،کپڑے بھی اچھے پہنتا ہے اور سر کے بال بھی چھوٹے کر لئے ہیں اور میرے ساتھ ہنستا کھیلتا بھی ہے،میرے پیسے بھی نہیں چھینتا اور سب سے بڑی بات میری قمیض بھی نہیں پھاڑتا۔
پھر تو اچھی بات ہے”امی نے جواب دیا“
وہ اس لئے کیونکہ اب اب لڑکے کے منہ سے گندی بد بو بھی نہیں آتی،کپڑے بھی اچھے پہنتا ہے اور سر کے بال بھی چھوٹے کر لئے ہیں اور میرے ساتھ ہنستا کھیلتا بھی ہے،میرے پیسے بھی نہیں چھینتا اور سب سے بڑی بات میری قمیض بھی نہیں پھاڑتا۔
پھر تو اچھی بات ہے”امی نے جواب دیا“
کیونکہ شاہد کی امی اچھے سے جانتی تھی کہ وہ لڑکا کوئی اور نہیں بلکہ ابراہیم ہے جس کے ماں باپ کا انتقال بچپن میں ہی ہو گیا تھااور اُس کے بعد وہ ایک غلط صحبت میں پڑ گیا تھا اور اُسے نشے کی لت لگ گئی تھی۔وہ جانتی تھی کہ وہ وہی لڑکا ہے جسے بچپن میں وہ ایک بڑی بہن کی طرح اپنے ہاتھوں سے کھانا کھلاتی تھی،لوریاں سنا تی تھی۔اب وہ نہیں چاہتی تھی کہ ابراہیم کی زندگی مزید خراب ہو۔لہذا ُسے پھر سے صحیح راستے پر لانے کے لئے اس نے اپنے بیٹے کو ایک ذریعہ بنایا جو کہ ایک خوش آیند قدم ثابت ہوااور ابراہیم نشے کی برُی لت سے آزاد ہوا لیکن اس سب کے چکر میں اس کے معصوم بیٹے کو اسکول میں روز استانی صاحبہ کی ڈانٹ کھانی پڑتی تھی۔