افسانہ : پیاسا :- ڈاکٹر صفیہ بانو.اے.شیخ

Share
ڈاکٹر صفیہ بانو.اے.شیخ

افسانہ : پیاسا

ڈاکٹر صفیہ بانو.اے.شیخ

ڈاکٹر صاحبہ۔۔۔۔ میری بیوی حمیدہ ٹھیک تو ہے نہ؟
ڈاکٹر صاحبہ نے کہا کہ جمال تم اتنی فکر مت کیا کرو۔
ڈاکٹر صاحبہ یہ میری محبت ہے اور یہ میری زندگی بھی ہے مجھے اس کے بغیر جینے کا تصور کسی روح کے بغیر جسم کا تصورسا لگتاہے۔

ڈاکٹر صاحبہ جمال سے مخاطب ہو کر کہنے لگی کہ اگر تم نے پہلے ہی حمیدہ کا خیال رکھا ہوتا تو شاید اتنی تکلیفیں نہ جھیلنی پڑتیں۔
’ڈاکٹر صاحبہ لڑکی ہے یا لڑکا؟
میرے اس سوال پر ڈاکٹر صاحبہ بہت غصہ ہوگئی اور مجھے کہنے لگی تمہاری بیوی حمیدہ کی اس قدر حالت خراب ہے اور تمہیں لڑکا ہے یا۔۔۔۔لڑکی ہے پوچھنے کی پڑی ہے؟۔۔۔۔تمہاری یہی دقیانوشی سوچ نے تمہاری بیوی حمیدہ کی یہ حالت کر دی ہے۔ ڈاکٹر صاحبہ نے جمال سے پوچھا کہ کیا تمہاری یہ پہلی اولاد ہے؟ تب میں نے بتایا اس سے قبل تین بچیاں ہوچکی ہے اور اب اس امید سے کہ وارث آجائے تو میری نسل چلنے لگے۔ ڈاکٹر صاحبہ کو بڑا تعجب ہواکہ آج کے دور میں بھی لڑکا اور لڑکی میں فرق ہو رہا ہے۔ ٹکنالوجی کے زمانے میں بھی جہاں فرق مٹنے کی باتیں ہورہی ہے وہیں نسل چلنے چلانے کی باتیں۔
جمال اپنی تین بچیوں کو اپنی بہن رضیہ بی کے گھر چھوڑ آیا تھا۔
رضیہ بی بخوبی جانتی تھی بچیوں کو کام کے لیے کیسے استعمال کرناہے۔ اس لیے وہ بچیوں کو پیار کرتیں اور اسی پیار کی آڑ میں ان سے اتنا کام لیتی کہ بچیاں آپس میں بات کرنے لگ جاتی کہ یہ پھوپی رضیہ بی بڑی چالاک ہے۔ ہمارے ابّو سے ہر وقت شکایت کرتی پھرتی تاکہ ہمارے ابّو ہمیں ڈانٹیں۔ ویسے بھی ابّو نے ہمیں کبھی پیار سے دیکھا تک نہیں اور نہ کبھی پیار سے بات کی۔ وہ ہروقت ہم تینوں کو نفرت سے کی نگاہ سے ہی دیکھتے رہتے وہ ہمیں بوجھ سے کم نہ سمجھتے تھے ویسے بھی بچیوں کی پیدا ہونے کی خبر سے ہی جہیز کی قیمت لگانی شروع کردیتے ہیں۔ جانے ہم سے ایسا کونسا گناہ ہوا؟جس کی سزا کے حقدار ہم تھے۔
جمال ہسپتال کی بار بار چکر لگاتا۔اُسے اس وقت نہ تو اس کی بیوی حمیدہ کی خیر خبر سے نسبت تھی اور نہ ہی اپنی تین بچیوں سے۔ اُسے تو بس اپنے وارث کی فکر تھی۔ڈاکٹر صاحبہ سے بار بار ملاقات کرتا ہے کچھ تو بتائیے ڈاکٹر صاحبہ۔۔۔ اب حمیدہ کی طبیعت کیسی ہے؟ اور کتنا وقت لگے زچگی ہونے میں؟ ڈاکٹر صاحبہ میرا چہرہ حیرت سے دیکھ رہی تھی اور سوچ رہی تھی کہ یہ دنیا کا واحد شخص تو نہیں ہوسکتا جس نے وارث کے لیے اس قدر شور مچایا ہو، میں نے ایسے بھی وارث دیکھے ہیں جو اپنے بوڑھے ماں باپ کو چھوڑ دیتے ہیں اور ان کے ساتھ بہت برا سلوک بھی کرتے ہیں یہی نہیں نئے کلچرل سوسائٹی میں رہنے والوں نے آرام گھر یعنی بوڑھے ماں باپ کی ذمہ داریوں کو اٹھانے کے بجائے روپیہ پیسہ دے کررکھ رکھاؤ کا نیا راستہ ڈھونڈ نکالا ہے، بعض دفعہ ہم لوگ سورگ یعنی جنت میں جانے کا دعوا ضرور کرتے ہیں لیکن جب اُن سے ان کے ماں پاب کے تعلق سے کچھ بھی پوچھتے ہیں تو فوراً بات کاٹ کر اپنی ضرورتوں کا ڈھنڈورا پیٹنے لگتے ہیں۔جس قدر جمال وراث کا پیاسا تھا اس قدر وہ ماں باپ جو اپنی اولاد کے پیاسے تھے کہ کاش کہ اُن کی ذمہ داری،اُن کے اخراجات کا خرچ اُن کی اولادیں اٹھائیں۔ تھوڑی دیر کے بعد ڈاکٹر صاحبہ جمال سے مخاطب ہو کر کہنے لگی کہ انشاء اللہ کل تک زچگی ہوجائے گی۔ یہ خبر سن کر میں فوراً اچھل پڑا،اسی کے ساتھ ہسپتال سے دوڑتا ہوا اپنی بہن رضیہ بی کے گھر پہنچا اور جو کچھ بھی ڈاکٹر صاحبہ نے بتایا وہ ساری باتیں اپنی بہن سے کہنے لگا۔ آپا کل پتہ چل جائے گا ’میرے وارث کا۔۔۔۔! آپا میں بہت خوش ہوں۔۔۔۔۔! آج پہلی بار ابّو نے ہم تینوں کو پیار کیا بلکہ ہمیں پیار سے سوال کا جواب دیا۔ ہم نے اتنا ہی پوچھا امّی کیسی ہے َ تب انہوں نے بتایا تمہاری امّی ٹھیک ہے اور انشاء اللہ بہت جلد ہمارے پاس ہوں گی،اور وہ بھی تمہارے اپنے بھائی کے ساتھ۔ بچیوں نے کہا۔۔۔ کیا؟۔۔۔ ابّو! آپ نے کیا کہا ہمارا بھائی؟ اس خبر کو سن کر ہم سب بھی بہت خوش تھیں بلکہ ہم نے تو آپس میں اس کے نام رکھنے کی تجوزیں بھی شروع کردی۔ آمنہ نے کہا اس کا نام ہم افضل رکھے تو کیسا رہے گا تبھی نمرا نے کہا نہیں اس کا نام نواز ہوگا۔نازیہ کہنے لگی۔۔۔۔ارے اس کا نام تو خواجہ رکھے تو۔۔۔۔ ہاں یہ نام اچھا ہے ہم تینوں آپس میں کہنے لگے کہ یہ ہمارا آنے والا بھائی ہمارے لیے کتنا خوش نصیب ہے وہ ابھی اس دنیا میں آیا بھی نہیں اور دیکھو اس کی خبر نے ہی ہمارے ابّو کے دل میں ہمارے لیے رحم پیدا فرمایا دیا۔
رات میں سبھی نے خوشی خوشی کھانا کھایا۔ ہمارے ابّو کو تو خوشی کے مارے کھانا بھی کھائے نہیں گیا، انہیں تو رات کب ختم ہوجائے اور کب ہسپتال سے خبر آئے کہ لڑکا ہواہے یعنی ہمارا بھائی آیا ہے۔ اسی کا انتظار تھا۔صبح ہونے تک ہمارے ابّو کئی دفعہ اس خدشے میں اٹھ بیٹھتے کہ کسی نے بلایا تو نہیں۔۔۔۔۔ ارے۔۔۔ کوئی خبر لے کر آیا ہے کیا؟
ساری رات اسی کشمکش میں گزر گئی۔ہمارے ابّوصبح جلدی سے تیار ہوئے اور بِنا ناشتہ کیے ہسپتال چلے گئے۔ ڈاکٹر صاحبہ کسی اور مریض کو دیکھ رہے تھی جیسے ہی میں ڈاکٹر صاحبہ سے مخاطب ہوا تو ڈاکٹر صاحبہ نے مجھے کیبن میں آنے کو کہا۔ میں اتنا خوش تھا کہ مجھے اس بات کا احساس نہ ہوا کہ ڈاکٹر صاحبہ کونسی بات کہنے والی ہے؟ڈاکٹر صاحبہ نے ایک فارم دیا اور کہنے لگی کہ اس فارم کو بھر دو کیونکہ اگر ماں اور بچہ میں سے کسی کی جان جائے تو اس کا ذمہ دار ہمارا ہسپتال نہیں ہوگا۔ جمال نے فوری طور پر اپنے آنے والے وارث یعنی بچہ کو بچانے کی ڈاکٹر صاحبہ سے بار بار فریاد کرنے لگا۔ ڈاکٹر صاحبہ کو اس مرتبہ اتنا شدید غصہ آیا کہ انہوں نے جمال کو ایک طمانچا مار دیا اور کہا تم نہ صرف جاہل قسم کے انسان ہو بلکہ تم کو اپنی بیوی حمیدہ سے وفاداری تک کا پاس نہ رہا۔جمال بھی آپے سے باہر ہو کر آکر ڈاکٹر صاحبہ کو کہنے لگا تم کیا جانو وارث نہ ہو تو سماج میں تمہاری کوئی عزت نہیں رہتی۔ دنیا میں، میں ہی واحد شخص نہیں جس نے وارث کو پہلی پسند کا اظہار کیا ہو۔ وارث ہوگا تبھی تو وہ میری نسل کو آگے بڑھائے گا۔جمال کو فکر تھی تو اپنے وارث کی جو اس کی نسل کو آگے چلانے والا تھا۔ ڈاکٹر صاحبہ بھی جمال کے اس رویے سے ناخوش تھی۔بہر حال حمیدہ کو آپریشن تھیٹر میں لے جایا گیا اور تقریباً چار گھنٹوں کے بعد ڈاکٹر صاحبہ نے خبر دی کہ اس مریضہ کے شوہر کو خبر دے دو کہ بیٹا ہوا ہے اور ماں اور بچہ دونوں کی جان بچ گئی۔ آج ٹکنالوجی کے سبب کسی کی جان بچانا آسان ہوگیا ہے، لیکن وہی دقیانوشی سوچ کو کسی بات کا فرق نہیں پڑا۔ جمال کو وارث چاہیے تھا سو وہ مل گیا، مگر اب بھی حمیدہ کی حالت نازک بنی ہوئی تھی۔حمیدہ بہت کمزور ہوچکی تھی یہ اس کی چوتھی زچگی جو تھی۔جمال بچہ کی خبر پاکر پھولے نہیں سما رہا تھا اس کی خوشی دوگنی ہوگئی تھی۔ڈاکٹروں نے کہہ دیا کہ ابھی کسی سے ملنے کی اجازت نہیں ہے۔جمال دوڑتا ہوا اپنی بہن رضیہ بی کے گھر پہنچتا ہے اور اپنی تینوں بچیوں کو بہت لاڑ پیار کرتا ہے بلکہ وہ اپنے ساتھ میٹھائیاں بھی لے جاتا ہے ہر ایک کو چیخ چیخ کر کہتا ہے میرا وارث آگیا۔ لوگ بھی اس کی خوشی کو دیکھ اور سُن رہے تھے۔اُس نے پہلی بار بچیوں کو اُن کی پسند کا کھانا کھلایا اور نئے نئے کپڑوں سے ان کی خوشیوں کو دوگنا کر دیا۔ جمال اپنی بچیوں سے کہتا ہے دیکھو تمہارا بھائی تمہارے لیے خوش نصیب ثابت ہوا،اور میرے لیے میری نسل کو چلانے والا وارث مل گیا۔نمرا پوچھ بیٹھی ابّو میں دن رات آپ کے زبان سے وارث وارث سُن رہی ہوں کیا ہمارے بھائی کا نام آپ نے وارث رکھ دیا؟ جمال نمرا کو اپنے پاس بلا کر کہتا ہے نہیں تمہارے بھائی کا نام وارث نہیں ہے وارث کا مطلب وہ اولاد جن سے نسل چلتی ہو۔ آمنہ فوراً پوچھ بیٹھی کیا ہم وہ وارث نہیں،جمال کی بہن رضیہ بی بات کاٹتے ہوئے بولی۔اری کم بختنیوں تم تینوں تو اپنے باپ کو قرض دار بنا کر اپنے سسرال چلی جاؤں گی اور تمہارے ابّو کا وارث یعنی تمہارا بھائی تمہارے ابّو کی دیکھ بھال بھی کرے گا بلکہ تمہارے ابّو جب بوڑھے ہو جائے گے تب ان کا سارا خرچ یہی وارث اٹھائے گا۔ رضیہ بی اپنے بھائی سے کہتی ہے کہ کل ہسپتال مجھے بھی ساتھ لے جانا تاکہ میں اُس کا اچھے سے خیال رکھ سکو۔دوسرے روز جمال اور اُس کی بہن رضیہ بی ہسپتال پہنچے۔حمیدہ کی طبیعت اب پہلے سے بہتر تھی حالانکہ بچہ بہت کمزور ہوا تھا لیکن اب دونوں کی حالت سدھرتی جا رہی تھی۔
حمیدہ کو اب جنرل روم میں سیفٹ کر دیا گیا تھا جہاں دوسری بھی زچگی عورتیں رکھی گئی تھیں۔ حمیدہ نے کبھی اپنی تکلیف کسی سے سیر نہیں کی۔جب پہلی مرتبہ بچہ کو ماں کا دودھ پلانے کے لایا گیا،تب حمیدہ بہت خوش تھی کہ آج تک جو اپنے شوہر کی پیاس سے محروم تھی وہ آج پوری ہوگئی۔نرس نے بچہ کو حمیدہ کے ہاتھوں میں سونپ دیا۔حمیدہ نے بچہ کو دودھ پلانے کے لیے اُسے اپنی چھاتیوں سے لگایا ہی تھا کہ بچہ زور زور سے رونے لگا۔ حمیدہ کے پاس رضیہ بی کھڑی تھی اُس نے نرس کو جا کر بلایا کہ بچہ بہت رو رہا ہے آخر کیا ہوا ہے؟ نرس اپنے ساتھ ڈاکٹر صاحبہ کو لے کر آئی۔ ڈاکٹر صاحبہ نے حمیدہ کے بیڈ کے چاروں اطراف پردہ ڈال دیا اور حمیدہ کو معائینہ کیا۔حمیدہ کا بچہ ماں کے صحت مند دودھ سے پیا سا تھا۔حمیدہ رونے لگی ہائے افسوس! کہ میں نے اپنے شوہر کی پیاس تو بجھا دی مگر اپنی اولاد کی پیاس نہ بجھا پائی۔ بچہ دوایؤں پر منحصر تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے دو روز گزر گئے۔ادھر حمیدہ کی چھاتیوں میں دودھ تک نہ آیا تھا۔ ایک طرف ماں تڑپ رہی تھی تو دوسری طرف وہ بچہ اپنے ماں کے دودھ کے لیے تڑپ رہا تھا۔اچانک بجلی گُل ہوگئی اور اس حادثے میں کئی لوگ زندہ رہنے کی پیاس سے محروم ہوگئے۔ ڈاکٹر صاحبہ نے باری باری سب کو خبر دی۔جمال نے تو ہسپتال کو ہی اپنا ٹھکانا بنا دیا تھا اسلئے وہ دوڑتا ہوا ڈاکٹر صاحبہ کے پاس پہنچا اور ہافتہ ہافتہ ڈاکٹر صاحبہ سے پوچھ رہا تھا میرا۔۔۔ میرا۔۔۔ وارث۔۔۔۔ارے میرا بیٹا کیسا ہے؟ ڈاکٹر صاحبہ نے کہا آئی ایم سوری آپ کا بچہ اب اس دنیا میں نہیں رہا۔ اس حادثے کے باعث جمال اپنے وارث سے ہمیشہ کے لیے پیاسا رہ گیا۔
——
Dr. SufiyaBanu.A. Shaikh
C- Ground Floor Tajpalace, Kumbharwada
380001. ,Jamalpur Ahmedabad
Mob: 9824320676

Share
Share
Share