شاعر مشرق علامہ اقبال کی فکر و نظر کا نچوڑ
ڈاکٹر مسعود جعفری
شاعر مشرق اقبال کی سوچ نہایت بلند اور ارفع تھی۔آپ ملت اسلامیہ کی تعمیر نو چاہتے تھے۔اسے قعر مزلت سے نکال کے عزت و عظمت کی بلندی تک لے جانے کا خواب دیکھ رہے تھے۔آپ کی زندگی کا ایک اک پل اسی سپنے کی تعبیر کی تلاش میں گزرا۔اقبال سے پہلے یا بعد میں کوئی شاعر بھی ایسا نہیں ہوا جس نے نئے تصورات سے دنیائے شاعری کو روشن کیا ہو-
اقبال نے انسانیت کی راہوں میں عزم و ہمت کے ستارے بکھیر دئے۔اقبال سرمایہ داری اور اس زرداری نظام کے نکتہ چیں تھے جس میں شرف انسان گھٹ کر ایک جنس یاCommodity میں تبدیل ہو جا تا ہے۔وہ اسلامی سادگی و پاکیزگی کے غماز رہے۔ان کے پاس دولت نہیں فقر کی اہمیت و رفعت تھی۔وہ فقر کی عظمت کا اعتراف یوں فرماتے ہیں۔یہ شعر نہیں نواے سروش ہیں۔ ذہن میں ہلچل اور رو ح میں کرب و اضطراب پیدا کر دیتے ہیں۔ اقبال کے فقر کا Concept یا نظریہ دیکھئے۔
اک فقر سکھاتا ہے صیاد کو نخچیری
اک فقر سے کھلتے ہیں اسرار جہانگیری
اک فقر سے قوموں میں مسکینی و دلگیری
اک فقر سے مٹی میں خا صیت اکسیری
اک فقر ہے شبیری اس فقر میں ہے میری
میراث مسلمانی سرمایہ شبیری
اقبال کے یہ ذرین خیالات تاریخی واقعات کی آینہ داری کرتے ہیں۔ اک فقر کی دلگیری و غم ناکی اس وقت آشکار ہو گئی جب ہلاکو 1258 میں شہر بغداد پر حملہ آور ہو رہا تھا۔اس وقت صوفیا کہہ رہے تھے کہ ہمیں کچھ نہیں کرنا ہے۔خدا بغداد کا محافظ ہے۔ہلاکو نے بغداد کو تاخت و تاراج کردیا۔شہر کو بے
چراغ کردیا۔شہر خموشاں بنا دیا۔اقبال شعور و ادراک سے معمور حرکت و انقلاب سے لبریزتصوف کے داعی رہے۔و ہ شہید کربلا کے فقر کو تسلیم کرتے ہیں اور اسے مسلمان کی میراث مانتے ہیں۔اسوہ حسینی کو اپنانے کی تلقین فرماتے ہیں۔
اقبال سامراجیت Imperialism کے خلاف تھے۔ وہ اسے لوٹ کھسوٹ،ڈاکہ زنی،ظلم و ستم اور استحصال والا نظام تصور کرتے تھے۔ وہ مقدونیہ یونان کے سکندر اعظم کے جاہ و جلال جبروت اور تزک و احتشام کو ناکارہ سمجھتے تھے۔اس کی شان و شوکت عوام سے خراج لینے میں مضمر تھی۔ سکندر کی شاہی کو اقبال تسلیم نہیں کرتے۔اس کی بادشا ہی پر سوال کرتے ہیں۔فرماتے ہیں کہ یہ کیسی شہشاہیت ہے جو عوام الناس کے پیسوں سے چلتی ہے۔ اقبا ل کا انتہائی بلیغ خیال دیکھیئے۔
نگاہ فقر میں شان سکندری کیا ہے
خراج کی جو گدا ہو وہ قیصری کیا ہے
اقبال امیری و شاہی کی عظمتوں کے قائل نہیں۔اس کے بر عکس وہ فرماتے ہیں۔
خوش آگئی ہے جہاں کو قلندری میری
وگرنہ شعر مرے کیا ہیں شاعری کیا ہے
پورا شعر اسلامی اسپرٹ سے معمور ہے۔شرف انسانی کی اس سے بڑھ کر اور کیا تفسیر ہو سکتی ہے۔مغرب مشرقی اقدار پر چیں بہ چیں رہتا ہے۔وہ اپنی فکر کو مسلط کرنا چاہتا ہے۔ وہ مشرقی علم و آگہی کی بہت نا قدری کرتا ہے،جیسا کہ گورنر جنرل لارڈ ولیم بینٹینگ کی کونسل کے ممبر لارڈ میکالے نے 1835 میں یہ بد بختا نہ اعلان کیا کہ سنسکرت،عربی و فارسی کی ساری کتا بو ں کو دریا برد کر دینا چاہیئے ان تمام علوم و کتب کے عوض انگریز ی کتابوں کا ایک شلف کافی ہے۔باقی رطب و یا بس ہے۔اس نسلی ،مذہبی،لسانی و ثقافتی تعصب و تکبر کی نفی کرتے ہوئے اقبال کہتے ہیں۔
جسے کساد سمجھتے ہیں تاجرانہ فرنگ
وہ شے متاع ہنر کے سوا کچھ اور نہیں
اس سے اچھا اور مناسب جواب اقبال کے سوا اور کون دے سکا۔وہ برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی کو رہزنوں کی تجارتی کمپنی تصور کرتے تھے۔اس کے ہر کاروں کو ہندوستانیوں کے فنون لطیفہ شاعری،مصوری،موسیقی،سنگ تراشی اور رقص کو تباہ و برباد کرنے والے سمجھتے تھے۔یہ ایک تاریخی حقیقت بھی رہی ہے۔اقبال کہتے ہیں۔
اٹھا کر پھینک دو باہر گلی میں
نئی تہذیب کے انڈے ہیں گندے
میاں نجار بھی چھیلے گئے ساتھ
نہایت تیز ہیں یورپ کے رندے
اقبال نے طنز و ظرافت کے پیرایہ میں بڑی گہری فکر انگیز بات کہہ دی۔
اقبال کے ہاں عقل و خرد کے بجائے دل و نگاہ کی اہمیت ہے۔و ہ ایک مقام پر یوں گویا ہو ئے ہیں۔
فقط نگاہ سے ہوتا ہے فیصلہ دل کا
نہ ہو نگاہ میں شو خی تو دلبری کیا ہے
خرد کو اقبال اطلاع یا Information کا مرکز سمجھتے ہیں۔اس کے برعکس وہ نظر کو تمام بیماریوں کا علاج خیال کرتے ہیں۔اقبال کے تخیل کی پرواز کا مشاہد ہ کیجیئے۔
خرد کے پاس خبرکے سوا کچھ اور نہیں
ترا علاج نظر کے سوا کچھ اور نہیں
حضرت ابراہیم و اسماعیل یعنی والد و پسر کے تعلقات کے پس منظر میں کہا گیا یہ شعر دیکھیئے۔
یہ فیضان نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی
سکھائے کس نے اسماعیل کو آداب فرزندی
اس تاریخی نوعیت کے شعر میں بھی اقبال نظر کے فیوض و برکات کو آشکار کرتے ہیں۔اقبال کے مشہور زمانہ مصرعہ کی آفاقیت جھلک رہی ہے۔
نگاہ مرد مومن سے بدل جا تی ہیں تقدیریں
ایک جگہ اقبال انسانی قافلے کے رہنما کے لئے ارشاد فرماتے ہیں۔
نگہ بلند سخن دلنواز جاں پرسوز
یہی ہے رخت سفر میر کارواں کے لئے
شاعر مشرق کے پاس عقل و خرد منزل مقصود تک جانے سے عاجزہیں۔اس لئے وہ عقل کو چراغ راہ کہتے ہیں۔ان کا یہ فلسفیانہ نقطہ نظر دیکھیئے۔وہ راہی کو یہ پیام دے رہے ہیں۔
گزر جا عقل سے آگے کہ یہ نور
چراغ راہ ہے منزل نہیں ہے
اقبال خدا سے بھی شکوہ کرتے ہیں اور یہ اس سے کہہ رہے ہیں۔
نہ دیا نشان منزل مجھے ائے حکیم تونے
مجھے کیا گلہ ہو تجھ سے تو نہ رہ نشیں نہ راہی
بہت بڑی بات ایک شعر میں سمودی ہے۔خدا عرش اعلی پر متمکن ہے۔وہ نہ رہ نشیں ہے اور نہ ہی راستہ کا مسافر ہے۔ایسی غیر مرئی شخصیت سے کیا گلہ کیا جاسکتا ہے۔گلہ تو ہم نفسوں،ہم سفروں سے کیا جاسکتا ہے۔ہمیں ایسے عظیم خیالات اقبال کی شاعری ہی میں ملتے ہیں۔اقبال کا وژن ہمہ گیر ہے۔ایسی فکری بلندیاں ہمیں کہیں اور نہیں ملتیں۔اردو کی خوش بختی ہے کہ اسے اقبال جیساکیمیا گر شاعرنصیب ہوا۔