کالم: بزمِ درویش – خود کشی – حصہ دوئم :- پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

Share
پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

کالم: بزمِ درویش
خود کشی – حصہ دوئم

پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
ای میل:
ویب سائٹ: www.noorekhuda.org

خودکشی حصہ اول کے لیے کلک کریں

شکست خورد شکستہ حال اُجڑا ہوا چلتی پھرتی زندہ لاش جیسا شخص پھوٹ پھوٹ کر رو رہا تھا اُس کا رونا سسکیوں ہچکیوں آہوں کے درمیان جاری تھا درمیان میں رک کر وہ بار بار ایک فقرہ بولتا سریہ میری پہلی اور آخری غلطی تھی‘ سر میں ایک کمزور لمحے کا شکار ہوگیا تھا میں گناہ کرنا نہیں چاہتا تھا لیکن شیطان نے میرے نفس نے مجھے ورغلا دیا سر

مجھے بچالیں خدا کے لیے سر کوئی وظیفہ چلا صدقہ خیرات بتائیں کہ میری عزت قائم رہ جائے‘ میں بد نامی کے سیاہ بادلوں سے نکل آؤں‘ میں باقی زندگی بد نامی کی چادر میں نہیں گزارنا چاہتا میں توبہ کرتا ہوں میں زندگی میں کبھی بھی ایسی غلطی نہیں کروں گا‘ وہ بے ربط گفتگو کر رہا تھا کبھی بولتا کبھی روتا میں اُسے موقع دے رہا تھا تا کہ وہ خوب اچھی طرح بول کر دل کی بھڑاس نکال لے‘ اچھی طرح دل ہلکا کر لے جب وہ خوب اچھی طرح بول چکا تو میں اُس کی طرف شفیق نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا برادر میں آپ کی مدد تب کروں گا جب آپ مجھے اپنا مسئلہ بتائیں گے آپ اپنی پریشانی بتائیں گے توہی اُس کا کو ئی حل نکلے گا۔ لیکن میں نوٹ کر رہا تھا وہ اپنی پریشانی کا اظہار کر نے سے ڈر رہا تھا اُسے لگ رہا تھا سارا زمانہ سن رہا ہے اُس کے منہ سے نکلے الفاظ بم کی طرح پھٹ کر اُس کی عزت شہرت کردار کو تباہ کر دیں گے لیکن میرے بار بار حوصلہ دینے پر اُس نے حال دل سنانا شروع کیا۔ سر میں سرکاری محکمے میں ایک اچھی طاقت ور پوسٹ پر نوکری کرتا ہوں چھ سال پہلے گاؤں گیا تو ایک بیوہ عورت اپنی بیٹی کو میرے پاس لے کر آئی کہ اِس کا باپ فوت ہو گیا ہے یہ میڑک پاس ہے اور مزید آگے پڑھنا چاہتی ہے اِس کا باپ فوت ہو گیا میرے ذرائع اِس قابل نہیں کہ اِس کی تعلیم کو مزید جاری رکھ سکوں اِس لیے آپ برائے مہربانی اِس کو اپنے محکمے میں نو کر ی دلوادیں تاکہ یہ اپنی زندگی کو اچھی طرح آگے بڑھا سکے‘ نوکری کے پیسوں سے یہ اپنی تعلیم بھی جاری رکھ لے گی لڑکی بہت خوبصورت تھی اور ذہین بھی میں نے وعدہ کیا کہ میں جلد ہی کوئی نوکری تلاش کر کے بتاؤں گا۔ شہرآکر میں نے کوشش کی تو مجھے کامیابی مل گئی اپنے ہی محکمے میں اُسے نوکری دلا دی‘ لڑکی لاہور آگئی اب اُس نے نوکری کے ساتھ اپنی تعلیم کا سلسلہ بھی جاری رکھا کبھی کبھار میرے گھر بھی آتی ورنہ گرلز ہاسٹل میں رہتی تھی اِس دوران اُسے کسی بھی مدد کی ضرورت ہو تی میں اُس کی مدد کر دیتا اُس کی کتابوں سے لے کر داخلہ فیس وغیرہ میں ادا کر تا رہا‘ لڑکی ذہین تھی نوکری کے ساتھ پڑھائی بھی جاری رکھ کر تعلیم کے اگلے درجے پاس کرتی گئی آخر کار جب لڑکی نے ماسٹر ڈگری کر لی تو اُسے اپنی ہی محکمے میں اچھی پوسٹ پر نوکری دلا دی اِن سالوں میں میری کئی بار اُس سے ملاقات بھی رہی لڑکی میرے احسانوں کی وجہ سے میری بہت زیادہ عزت کر تی تھی ہر کام مُجھ سے پو چھ کر کر تی جو میں کہتا اُس پر عمل کر تی بلکہ میرے منہ سے نکلے ہوئے الفاظ اُس کے لیے حکم کو درجہ رکھتے تھے‘ مجھے وہ خدا رسو ل کے بعد سب سے اہم مقام دیتی اُ سکی بے پناہ تابعداری مجھے متاثر کر تی چلی گئی مجھے پتہ ہی نہ چلا کب میں اُسے چاہنے لگا تھا اِس کا ابھی مجھے اچھی طرح احساس نہیں ہوا تھا اُس کی بے پناہ فرماں برداری کی وجہ سے وہ مجھے اپنی زر خرید کنیز لگتی کیونکہ وہ سانس بھی مجھ سے پوچھ کر لیتی تھی۔ میں اُس کے جسم زندگی اور فیصلوں کا حاکم تھا مجھے لگنا شروع ہو گیا تھا کہ وہ صرف میرے اشاروں پر ناچنے والی کٹھ پتلی ہے میرے اشاروں پر چلنا ہی اُس کی زندگی کا فرض اولین ہے پچھلے کئی سالوں میں اُس نے ایک بار بھی میری کسی بات سے انکار نہیں کیا تھا وہ میرے اشاروں پر چلتی تھی میں جو کہتا وہ بلا چوں چراں اُس پر آنکھیں بند کر کے عمل کر جاتی یہاں سے کہانی ایک نیاموڑ لیتی ہے اُس کی تعلیم مکمل ہو گئی اور اچھی جاب بھی مل گئی تو اُس کی ماں نے اُسے کہااب تمہاری شادی کا وقت آگیا ہے اِس لیے اب تم شادی کی تیاری کرو‘ ماں نے اُسے دو چار رشتے دکھائے جو اُس کو بلکل بھی پسند نہ آئے اب اِس نے خود بھی شادی کے لیے امیدواروں کو دیکھنا شروع کر دیا اِس تلاش میں اُس کی نظر میرے ہی محکمے کے جوان پر پڑی جو اُسی کے لیول کی جاب بھی کرتا تھا اور دیکھنے میں بھی خوش شکل تھا اُس لڑکے کو جب پتہ چلا کہ یہ رشتہ دیکھ رہی ہے تو اُس نے اِس کو پرپوز کر دیا ابتدائی گفتگو کے بعد جب بات سنجیدہ اور فیصلہ کن زون میں داخل ہو ئی تو ماں بیٹی میرے پاس آگئیں کہ اِس کے لیے اِس لڑکے نے رشتہ بھیجا ہے جو ہمیں پسند ہے اب آپ سے فائنل منظوری کی درخواست ہے ماں بیٹی تو یہ بات کر کے چلی گئیں لیکن میں ساری رات کانٹوں پر لوٹتا رہا اُس رات مجھے شدت سے احساس ہوا کہ یہ تو صرف میری ہے اور میرے لیے ہی بنی ہے یہ کسی اور کی نہیں ہو سکتی افسوس اور غصہ مجھے اِس بات کا تھا میں تو سمجھ رہا تھا یہ مجھے بہت پسند کر تی ہے میں اُس کی بے پناہ تابعداری کو پسند یا پیار سمجھ رہا تھا جبکہ وہ تو میری بات عقیدت احترام میں ہی مانتی تھی۔ میں نے اگلے دن ہی اُسے بلایا اور کہا کہ تم جس لڑکے کے ساتھ شادی کر نا چاہ رہی ہو وہ رشتہ تمہارے لیے بلکل ٹھیک نہیں ہے تم انکار کر دو لڑکی حیران پریشان نظروں سے میری طرف دیکھ رہی تھی اُس کے چہرے کے الجھن کے تاثرات بتا رہے تھے کہ اُسے میری بات پسند نہیں آئی اُس نے دبے لفظوں میں اپنی پسندیدگی کا اظہار بھی کر دیا کہ وہ اُس لڑکے سے پیار کرتی ہے وہ مجھے کر تا ہے یہ سننا تھا کہ مجھے تو آگ ہی لگ گئی کہ تم کو جرات کیسے ہو ئی میر ی بات سے انکار کی میں اُس پر گرجتا برستا رہا وہ خاموشی سے نظریں جھکائے سنتی رہی اِس دوران اُس کی آنکھوں سے درد ناک آنسوؤں کی لہریں بہتی رہیں لیکن میں تو ہلاکو بن کر اُس کو لتاڑتا رہا۔ وہ چلی گئی اب میں نے اُس کی ڈیوٹی اپنے ساتھ لگا لی اُس کو سارا دن اپنی نظروں کے سامنے رکھتا اُس لڑکے کو دیکھ کر مجھے آگ لگ جاتی ایک دن مجھے پتہ چلا کہ یہ دونوں کسی ہو ٹل میں اکٹھے تھے تو میں نے اگلے ہی دن اُ س لڑکے کی ٹرانسفر جنوبی پنجاب دور دراز علاقے میں کر دی‘ لڑکے نے آکر میرے پاؤں پکڑے رویا پیٹا لیکن مجھے اُس پر بھی ترس نہ آیا رقابت کی آگ نے مجھے اپنی لپیٹ میں لے لیا اب میں نے لڑکی سے اظہار محبت کر دیا ساتھ ہی بند کمرے میں اُس کے ساتھ چھیڑ چھاڑ بھی شروع کر دی۔ میری اِن حرکتوں کا لڑکے کو بھی پتہ چل گیا تھا جب میں نے پوری کو شش کی اور لڑکی نہ مانی تو خطرناک پلان بنایا ایک دن دفتر کے ٹائم کے بعد بند کمرے میں زبردستی اُس کی عزت سے کھیل گیا لڑکی پاؤں پڑتی رہی لیکن میں نہ مانا میری درندگی نے معصوم کی عزت تار تار کر دی‘ میرا خیال تھا اب لڑکی کے پاس کو ئی چوائس نہیں ہو گی لیکن اگلے ہی دن اُس کو چاہنے والا لڑکا مجھے ملا اور میری گناہ گاری کی ساری ریکارڈنگ مجھے دکھا دی اور کہا اب یہ میں تمہاری بیوی بچوں کو دکھاؤں گا پھر سوشل میڈیا پر چلاؤں گا اُس نے میر ے ارادے کو دیکھتے ہوئے میرے کمرے میں خفیہ کیمرے لگا دیا تھا جس کا مجھے نہیں پتہ تھا اُن کیمروں نے میرے ظلم کو ریکارڈ کر لیا میں نے بہت معافی مانگی لیکن وہ نہ مانا دو دن پہلے اُس نے ریکارڈنگ میری شادی شدہ بیٹی کے سسرال بھیج دی اب میں بد نامی کی آگ میں جل رہا ہوں سر مجھے بچالیں اپنی داستان بتا کر چلا گیا دو تین بار پھر بھی آیا ایک ہفتے بعد ہی بدنامی کے خوف کو برداشت نہ کر سکا خود کشی کی کوشش کی‘ ڈاکٹروں نے بچا تولیا جسم پر فالج گرا جسم بے جان لاش بن گیا اب پتھر کا جسم لیے چھت کو گھورتا ہے جو لوگ کسی پر احسان کر کے اُس کا بدلہ لینے کے لیے ظلم کا راستہ اپناتے ہیں خدا تعالیٰ اُن کی زندگی لوگوں کے لیے نشان عبرت بنا دیتا ہے پھر یہ خودکشی کا راستہ اپناتے ہیں۔

Share
Share
Share