کالم : بزمِ درویش
بندہ خدا
پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
ای میل:
ویب سائٹ: www.noorekhuda.org
روز اول سے حضرت انسان اِس کو شش میں لگا ہوا ہے کہ وہ شہرت کے اس مقام تک پہنچ جائے کہ جس کے سامنے کوئی سر اٹھا کر نہ دیکھ سکے، خود کو قیامت تک زندہ اور امر کرنے کے لیے انسان عجیب و غریب حرکتیں کرتا ہے، سکندراعظم، چنگیز خان، ہلاکو خان اور امیر تیمور لنگ اِسی بیماری کا شکار ہو کر دنیا فتح کر نے نکلے، چنگیز خان، ہلاکو خان اور امیر تیمور نے اپنی اس خواہش کی تکمیل کے لیے لاکھوں لوگوں کا قتل عام کیا
انسانی کھوپڑیوں کے مینار بنائے اپنی دہشت پھیلانے کے لیے شہروں کے شہر صفحہ ہستی سے مٹادیے اِن کے علاوہ بے شمار اور انسان بھی اپنے اپنے وقت پر کرہ ارض پر طلوع ہوئے طاقت و اختیار کے نشے میں ہزاروں لاکھوں انسانوں کا قتل عام کیا، اور پھر مٹی کا ڈھیر بن گئے اور آج ان کی قبروں کا نشان تک نہیں ہے۔جب یہ متکبرلوگ زندہ تھے تو یہی سمجھتے تھے کہ ان کے اقتدار اور شہرت کو قیامت تک اندیشہ زوال نہیں ہے، لیکن ماہ سال کی گردش اور صدیوں کے غبار میں آج ان کا نام تک بھی کوئی نہیں جانتا، انسان یہ سمجھتا ہے کہ ابدی شہرت اس کے اپنے ہاتھ میں ہے لیکن ہر دور کا متکبر انسان یہ بھول جاتا ہے کہ اس کا اور اِس کائنات کو بنانے والا خدا ہے وہ جس کو چاہے قیامت تک کے لیے امر کردیتا ہے اور جس کو چاہے نشان عبرت بنا دیتا ہے ، حضرت انسان طاقت اور اقتدار کے نشے میں یہ بھی بھول جاتا ہے کہ اس کا اپنا جسمانی نظام تو اس کے قبضے میں ہے نہیں تو دوسروں کو وہ کیا اپنے اختیار میں لاسکتا ہے لیکن یہ بات صاحب اقتدار لوگوں کو کم ہی سمجھ آتی ہے۔اِس لیے ہر دور میں کوئی نہ کوئی آمر یہی سمجھتا ہے کہ اِس دھرتی یا ملک کا نجات دہندہ میں ہی ہوں نہ میرے سے پہلے کوئی انسان اِس دنیا میں آیا اور نہ اس کے بعدکوئی آئیگا، ایسے تمام لوگ خدا کا یہ فرمان بھول جاتے ہیں کہ ہم دنوں کو انسانوں کے درمیان پھیرتے رہتے ہیں، عقل مند انسان تاریخ سے سبق لیتے ہیں او خود کوخدا کی بندگی میں دے دیتے ہیں جو بھی بندہ خدا کا ہو جائے اسے خدائے بزرگ و برتر ابدی شہرت سے نوازتا ہے، انسان عارضی شہرت اور اقتدار میں سب کچھ بھول جاتا ہے اگر خدا نے کسی کو چند ساعتوں پر اختیار دے بھی دیا ہو تو یہ عارضی ہے کسی دن پانی کے بلبلے کی طرح ختم ہو جائے گا، خوش قسمت ہوئے ہیں وہ لوگ جو تاریخ سے سبق لیتے ہیں اور دنیاوی جھوٹے خداوں کی بجائے اِس کائنات کے مالک کے سامنے سر جھکادیتے ہیں اور پھر اِیسے لوگوں کو ہی دائمی اور ابدی شہرت نصیب ہوتی ہے۔برصغیرپاک ہند میں اللہ تعالی نے بہت عظیم روحانی بزرگوں کو پیدا کیاجنہوں نے اپنی تعلیمات اور کردار سے لاکھوں لوگوں کی کردار سازی کی، انہی بزرگ ہستیوں میں ایک بزرگ سیدغوث علی شاہ قلندر بھی تھے بہت اعلی پائے کے بزرگ تھے شاعر مشرق علامہ اقبال بھی ان سے روحانی عقیدت رکھتے تھے، ان کی کتاب تزکرہ غوثیہ کو اہل تصوف میں تو باکمال مقام حاصل ہے ہی کلاسیکل اردو ادب میں بھی اس کا نمایاں اور باوقار نام ہے اِس میں تصوف اور صوفیا کے اسرار و رموز کو اس دلچسپی اور آسانی سے بیان کیا گیا ہے ہر بات دل و دماغ میں اترتی جاتی ہے، تصوف و روحانیت کی زیادہ تر کتابیں مشکل اور خشک سمجھی جاتی ہیں لیکن تزکرہ غوثیہ کا اصلوب پڑھنے والے کو اپنے سحر میں جکڑ لیتا ہے، دوران مطالعہ قاری خود کہ ایک دل نشین اور پراسرار وادی میں گھومتا ہوا پاتا ہے، غوث علی شاہ قلندر نے اپنی اِس لازوال کتاب میں مغلیہ بادشاہ اورنگزیب عالمگیر کے عہد کا ایک واقعہ اِس خوبصورتی اوربلاغت آمیزی کے ساتھ لکھا ہے کہ قاری پڑھ کر عش عش کر اٹھتا ہے آپ لکھتے ہیں۔عا لمگیر کے عہد میں ایک بہروپیئے کو بہت شہرت حاصل تھی، ہر طرف اس کی شہرت اور فن کے چرچے تھے ایک روز وہ اورنگزیب کے دربار میں پہنچا اور اپنے فن کے اظہار کی اجازت مانگی چونکہ اورنگزیب مزاجا دین پسند اور سخت مزاج واقع ہوا تھا اس لیے وہ اِس طرح کی ناٹک بازیوں کو ناپسند کرتا تھا، اس نے کہا تمھارا بہروپ دراصل بے علم اور کمزور عقیدہ لوگوں کو متاثر اور مائل کرتا ہے ورنہ کوئی صاحب بصیرت اہل علم اور صاف ستھرے عقیدے کا حامل ہو تو وہ اِس طرح کی شعبدہ بازیوں پر نہ تو توجہ دیتا ہے اور نہ ہی اہمیت دیتا ہے اور نہ ان سے متاثر ہوتا ہے، تمہیں اگر اپنے فن پر ناز ہے تو ذرامجھے قائل کر کے دکھا میں تمھارے چکر میں آنے والا نہیں اور اگر تم اپنے فن میں کامیاب ہو گئے اور مجھے دھوکا دے گئے تو پھر میں تمہیں منہ مانگا انعام دوں گا ورنہ میں نے ایسے کئی بازیگر دیکھے اور بھگتائے ہیں وہ بہروپیا مصلحتا خاموش ہو گیا اور کہنے لگا بادشاہ سلامت میں کہاں اور حضور کی بصیرت کہاں، حضور میں آپ کو اپنے بہروپ سے کیسے قائل کرسکتا ہوں سرکار عالی میرا یہ دھندہ تو پیٹ کے لیے ہے اور عام لوگوں کے لیے، یہ کہہ کر وہ چل دیا اور عالمگیر اپنی ذہانت پر جھوم اٹھا ۔بہروپیئے نے شاہی دربار سے جاتے ہی ایک بزرگ اور صوفی کا روپ دھارا اور کہیں بیٹھ گیا پہلے اردگرد کے علاقوں میں اس کا چرچا ہوا پھر اس کا شہرہ قصبوں اور شہروں تک پہنچا ہوتے ہوتے اِس کا تذکرہ شاہی دربار تک بھی پہنچ گیا اور دربار میں بھی اس کا تذکرہ ہونے لگا، اورنگزیب چونکہ خود ایک متقی اور صوفی دوست شخص تھااس نے اِس بزرگ کی حاضری کا ارادہ ظاہر کیا اور لا لشکر کے ساتھ اس بہروپیئے کے پاس پہنچا اور سلام کیا بہروپیئے نے بے رخی سے سلام کا جواب دیا اور سر جھکا کر بیٹھا رہا اِس طرز عمل نے بادشاہ پر اس کی ولایت اور دنیا اور اہل دنیا سے بے نیازی کی دھاک بٹھادی عالمگیر نے چند باتیں کیں مگر بہروپیاہاں ہوں کرتا رہا اس کی کسی بات میں دل چسپی نہ لی بادشاہ مزید متاثر ہوا آخرکار اٹھنے لگا اور اجازت چاہی جب بادشاہ اٹھ کرجانے لگا تو بہروپیا قہقہہ لگا کر سامنے آگیا اور کہا جہاں پناہ میں وہی بہروپیا ہوں جس کو آپ نے چیلنج دیا تھا کہ میں آپ کو اپنے فن سے قائل کر لوں تو منہ مانگا انعام پاؤں گا۔بادشاہ ہار مان گیا اور کہا تم اپنے فن کے ماہر نکلے ہو تم جیتے میں ہارا اب مانگو کیا مانگتے ہو بادشاہ کا یہ کہنا تھا کہ بہروپیا چیخ مار کر وہاں سے یہ کہتے ہوئے چل دیا یہ تو میں نے اللہ کا نام اور اہل اللہ کا حلیہ صرف جھوٹ موٹ سے لیا اور بنایا اور بادشاہ چل کر میرے پاس آگیا اگر میں بہروپ بھرنے کی بجائے حقیقی روپ اِس طرح بنالوں تو خدا جانے مجھے دنیا و آخرت میں کیا اعزاز وانعام ملے، غوث علی شاہ لکھتے ہیں کاش دنیا والوں کو معلوم ہو تا کہ جب بندہ اوپر کے دل سے بھی خدا کو یاد کرتا ہے تو خدا اسے رسوا نہیں ہونے دیتا اور اگر اصل خدا کا بندہ بن جائے تو پتہ نہیں اللہ اسے کیا مقام عطاکرے۔