خلافت الٰہیہ ہی امن کی ضامن
مفتی کلیم رحمانی
8329602318 Mob:
آج کل عالمی سطح پر باطل پرستوں کی طرف سے بڑے زوروشور سے اسلام کو دوناموں سے پیش کیا جارہا ہے، باطل کا ایک گروہ اسلام کو دہشت گردی کے نام پیش کررہا ہے اور باطل ہی کا دوسرا گروہ اسلام کو امن کے نام سے پیش کررہا ہے، لیکن دونوں ہی گروہ اسلام اور اسلام پسندوں کو دبانا چاہتے ہیں فرق صرف یہ ہے ایک گروہ کو اسلام کو دہشت گردی کے ساتھ پیش کرنے میں آسانی نظر آرہی ہے اور دوسرے گروہ کو اسلام کو امن کے نام سے پیش کرنے میں آسانی نظر آرہی ہے۔
جو گروہ اسلام کو دہشت گردی کے نام سے پیش کررہا ہے ۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ غیر مسلم قوموں کو اسلام سے بدظن کیا جائے اور ان کے اندر مسلمانوں پر حملہ کا جذبہ پیدا کیاجائے اور جو گروہ اسلام کو امن کے نام سے پیش کررہا ہے اس کا مقصد یہ ہے کہ مسلمانوں کے ذہنوں سے جنگ و اقتدار کا تصور نکل جائے اوروہ باطل کے شریف غلام بن کے رہنے پر راضی ہوجائیں، ساتھ ہی وہ جہادی افرادوتنظیموں سے یہ کہہ کر اپنا رشتہ توڑلیں کہ یہ تو بدامنی پھیلارہے ہیں اور اسلام امن کا دین ہے۔ چنانچہ اس وقت باطل کا سرغنہ اور اسلام کا دشمن نمبر ایک امریکہ کا صدر جارج ڈبلیوبش اسلام کو باربار امن کا دین کہہ رہا ہے اور دوسری طرف اسلام کے مقدس فریضہ جہادوقتال کو انجام دینے والی تنظیموں اور افراد کو دہشت گردی کی جڑیں قرار دے کر انہیں جنگی طاقت سے کچل رہا ہے۔ اس سے یہ بات صاف طور سے واضح ہوجاتی ہے کہ جو باطل پرست افراد اسلام کو امن کا دین کہہ رہے ہیں ان کے نزدیک اسلام کا ایک اہم حکم جہاد وقتال ہی اصل دہشت گردی ہے، اس سے بخوبی سمجھاجاسکتا ہے کہ یہ افراد علی الاعلان اسلام کی تذلیل کررہے ہیں ۔ باطل کی اس دوہری سازش کا مقابلہ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ مسلمان بیداری اور جرأت کا مظاہرہ کریں، لیکن یہ المیہ ہی ہے کہ بیشتر مسلمان خود اس سازش کا شکار ہوگئے، چنانچہ اس وقت
بہت سے مسلمان باطل کے وضع کردہ اسلامی دہشت گردی کے نام سے مرعوب ہوکر اسلامی جنگ واقتدار کی من مانی تاویلیں کررہے ہیں، اور بہت سے مسلمان باطل کے پھیلائے ہوئے نعرہ اسلام امن کا دین سے متاثر ہوکر باطل کی ہاں میں ہاں ملارہے ہیں ، اور مسلمانوں کے ذہنوں سے اسلامی جہادواقتدار کا تصور نکالنے کے لیے کمربستہ ہوگئے۔
اس سلسلہ میں مسلم حکمرانوں نے تو حد کردی اور وہ یہ کہ باطل کے شانہ بہ شانہ ہوکر انہوں نے جہادی تنظیموں کے افراد کو کچلنا شروع کردیا۔ جب کہ ان نازک حالات میں ضروری ہے کہ مسلمان دنیا کے سامنے قرآن و سنت کی روشنی میں دہشت گردی اور امن کی صحیح تعریف پیش کریں، اور اسلامی جنگ و اقتدار کے متعلق دفاعی صورت اختیار کرنے کی بجائے اسلامی جنگ و اقتدار ہی کو دنیا کے مسائل کے واحدحل کے طور پر پیش کریں ، لیکن ظاہر ہے اس کے لیے کم ازکم تین اشعار کے پیغام پر پورا اترنا ہوگا۔
جہاں بانی سے دشوار تر ہے کارِ جہاں بینی
جگر خوں ہو تو چشمِ دل میں ہوتی ہے نظر پیدا
براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے
ہوس چھپ چھپ کے سینوں میں بنالیتی ہے تصویریں
نہ جا ظاہر پرستی پر اگر کچھ عقل و دانش ہو
چمکتا جو نظر آتا ہے سب سونا نہیں ہوتا
جہاں تک اسلامی دہشت گردی کے الزام کا سوال ہے تو اسلام میں دہشت گردی کا کوئی وجود نہیں ہے اور نہ اس وقت دنیامیں کہیں اسلامی دہشت گردی پائی جاتی ہے، البتہ امریکی اور اسرائیلی دہشت گردی ہر جگہ پائی جاتی ہے۔
جہاں تک بعض اسلامی تنظیموں کابعض ممالک میں باطل کے خلاف ہتھیار اٹھانے کا معاملہ ہے تو یہ اسلامی جہاد ہے، جو اسلام کا ایک اہم فریضہ ہے اور اس کو انجام دینے والے اسلام کی نظر میں بہت ہی قابل قدر ہیں اور اس میں جان دینے والے شہید ہیں۔لیکن جیسا کہ باطل پرستوں کے رویہ سے واضح ہے کہ اسلامی جہاد ہی کو وہ اسلامی دہشت گردی قرار دے رہے ہیں تو مسلمانوں پر لازم ہوجاتا ہے کہ وہ باطل پرستوں کے سامنے پوری قوت سے یہ واضح کردیں کہ ہر مسلمان جہاد پر ایمان رکھتا ہے اور اس کو انجام دینے کا دل میں جذبہ بھی رکھتا ہے اور وقت آنے پر میدان جہاد میں اتر بھی سکتا ہے۔ اس کے برخلاف اگر پورے مسلمانوں نے بھی باطل پرستوں کے سامنے اسلامی جہادوقتال کی وضاحت و صفائی پیش کردی تب بھی باطل پرست اسلام اور مسلمانوں پر اسلامی دہشت گردی کا الزام لگانے سے باز آنے والے نہیں ہیں اور نہ مطمئن ہونے والے ہیں، کیوں کہ ان کے الزام کی اصل وجہ لاعلمی نہیں ہے بلکہ اسلام و مسلمانوں سے اندھی دشمنی اور حسد وبغض ہے ، اور کسی بات کی وضاحت و صفائی سے اندھی دشمنی اور حسد و بغض دور نہیں ہوتا۔ اس لیے ہم اسلامی دہشت گردی کے الزام کے وضاحت و صفائی سے صرف نظر کرتے ہوئے صرف اسلامی امن کی وضاحت و حقیقت پیش کررہے ہیں، اور اس لیے بھی کہ آج باطل طاقتیں اسلامی امن کی دہائی دے کر جس طرح اسلامی جنگ واقتدار کو اسلام کے خلاف ثابت کرنے پر تلی ہوئی ہیں تو یہ اسلام اور مسلمانوں کے لیے ایک بڑے فتنہ سے کم نہیں ہے اس لیے ان حالات میں ضروری ہوجاتا ہے کہ مسلمان قرآن و سنت کی روشنی میں اسلامی جنگ واقتدار کو اسلام کے ایک اہم حکم و فریضہ کے طور پر پیش کریں۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اسلام امن کا دین ہے لیکن اس کا امن اسلامی جنگ و اقتدارکے ذریعہ قائم ہوتا ہے جس کے لیے بہت سے اہل ایمان کو دنیوی چین وسکون قربان کردینا پڑتا ہے اور ہر وقت دشمنان اسلام سے برسرپیکاررہنا پڑتا ہے۔ غرض یہ کہ اسلامی امن اہل ایمان کی جانی و مالی قربانیوں اور ظالموں وجابروں کی نعشوں پر سے گذر کرقائم ہوتاہے، اس سے یہ بات واضح ہوئی کہ اسلامی امن اور اسلامی جنگ واقتدار میں بہت گہرا تعلق ہے۔ لیکن یہ المیہ ہی ہے کہ آج بہت سے نام نہاد مسلمان اسلامی جنگ واقتدار کو اسلامی امن کے خلاف سمجھتے ہیں۔ امن کی حقیقت جاننے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے اس کائنات اور انسان کی حیثیت معلوم کی جائے،
قرآنی رو سے یہ کائنات اور انسان اللہ کی مخلوق ہے اور اللہ نے انہیں اپنی اطاعت و فرمانبرادی کے لیے پیدا کیا چنانچہ یہ پوری کائنات جس میں زمین و آسمان چاند و سورج اور بے شمار چیزیں ہیں سب اللہ کی بندگی واطاعت میں لگی ہوئی ہیں ،ا لبتہ انسانوں اور جنوں کو اللہ تعالیٰ نے دنیوی زندگی میں فرمانبرداری اور نافرمانی دونوں طرح کی طاقت دی ہے تاکہ ان کا امتحان لیا جاسکے، لیکن بہرحال یہ طئے شدہ امر ہے کہ انسانوں اور جنوں کی پیدائش کا اصل مقصد بھی اللہ کی بندگی واطاعت ہی ہے، اب جو انسان اللہ کی بندگی و اطاعت کرتے ہیں وہ اپنے مقصد پیدائش پر قائم ہیں، اور جو
انسان اللہ کی بندگی و اطاعت نہیں کرتے وہ اپنے مقصد پیدائش سے ہٹے ہوئے ہیں ، اور اپنے مقصدِ پیدائش پر قائم رہنے اور دوسروں کو قائم رکھنے کا نام ہی امن ہے، اور اپنے مقصد پیدائش سے ہٹنے اور ہٹانے کا نام ہی ظلم ہے اور ظلم ، امن کی ضد ہے جہاں ظلم ہوگا وہاں امن نہیں ہوگا اور جہاں امن ہوگا وہاں ظلم نہیں ہوگا۔ چنانچہ عربی میں ظلم کی تعریف یوں کی گئی۔
وَضْعُ الشَّیْءِ فِیْ غَیْرِ مَحَلَّہِ ظُلُمَّ۔
یعنی’’ کسی چیز کا اس کی اصل جگہ سے ہٹا کر دوسری رکھ دینا ظلم ہے۔‘‘
اور قرآنی لحاظ سے بھی ظلم کی اس تعریف کی تائید ہوتی ہے، حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کو جو نصیحت کی تھی اللہ نے قرآن میں اس کو یوں بیان فرمایا :
یَا بُنَیَّ لَا تُشْرِکْ بِاللّٰہِ اِنَّ الشَّرْکَ لَظُلْمَّ عَظِیْمَ ۔ (لقمان ۱۳)
’’ اے میرے بیٹے ! اللہ کے ساتھ شرک نہ کر بیشک شرک بڑا ظلم ہے۔‘‘
شرک کو بڑا ظلم اس لیے قرار دیا گیا ہے کیوں کہ انسانی عقیدہ کے لیے اللہ نے جو چیز بنائی وہ توحید ہے نہ کہ شرک۔ اسی طرح اللہ نے قرآن میں ان لوگوں کو سب سے بڑا ظالم قرار دیا جو اللہ کی آیات کا انکار کرتے ہیں یا اللہ پر جھوٹ باندھتے ہیں یا اللہ کی گواہی کو چھپاتے ہیں یا مساجد میں اللہ کو یاد کرنے سے روکتے ہیں۔
ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے قرآن میں امن کے مستحق لوگوں کی چند صفات اس طرح بیان فرمائی ۔
اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَلَمْ یَلْبَسُوْا اِیْمَانَہُمْ بِظُلْمِ اُولٰٓءِکَ لَہُم الْامْنُ وَہُمْ مُھْتَدُوْن(انعام ۸۲)
’’جن لوگوں نے ایمان لایا اور اپنے ایمان کے ساتھ ظلم کو نہیں ملایا تو ان ہی لوگوں کے لیے امن ہے اور یہی ہدایت یافتہ ہیں۔‘‘
امن کے متعلق یہ بھی حقیقت پیش نظر رہنی چاہیے کہ امن کا دائرہ صرف دنیوی زندگی تک محدود نہیں ہے بلکہ وہ اخروی زندگی پر بھی محیط ہے، یہاں تک کہ اگر دنیوی امن کے حصول میں اخروی امن خطرہ میں پڑرہا ہوتو اسلام ایسی صورت میں دنیوی امن کو ٹھکراکراخروی امن کی تعلیم دیتا ہے، کیوں کہ دنیوی زندگی محدود ہے اور اخروی زندگی لامحدود ہے اور محدود کی خاطر لامحدود کو قربان نہیں کیاجاسکتا، بلکہ لامحدود امن کی خاطر محدود امن کو قربان کردینا ہی دین و انصاف کا تقاضہ ہے۔
دنیوی زندگی میں چوں کہ اللہ نے انسان کے اندر خیروشر دونوں طرح کی طاقت رکھی ہے اور اس کے استعمال کو انسان کے ارادہ پر فیصلہ چھوڑا ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان پر اسلامی اقتدار کے لیے جہادکو فرض کیا ہے تاکہ دنیا میں امن قائم ہو اور شر ک کی طاقت دبی رہے، ساتھ ہی ظالموں اور جابروں کو دنیا میں کچھ سزا مل سکے تاکہ وہ ظلم و جبر سے باز آئیں اور دوسرے ان کی سزا سے عبرت حاصل کریں، کیوں کہ اگر شرپسندوں کو طاقت و قوت کے ذریعہ نہ دبایا جائے تو وہ حق پسندوں کا جینا دوبھر کردیتے ہیں۔ اگر اللہ چاہتا تو اپنے دشمنوں کو اپنی زمین پر جینے کا مطلق حق نہیں دیتا اور یہ بھی انصاف ہی ہوتا، لیکن اللہ نے ان پر احسان کیا کہ اگر وہ اسلامی اقتدار کی بالادستی قبول کرلیں اور اس کے تحت جزیہ دے کر زندگی گزارنے کے لیے تیار ہوجائیں تو انہیں جینے کا حق حاصل ہے، مگر انہیں قطعاً یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اللہ کی زمین پر اپنا اقتدار چلائیں۔
اسلامی جنگ واقتدار کا اسلام سے کتنا گہرا تعلق ہے قرآن کی چند آیات اور آنحضورﷺ کی چند احادیث سے بخوبی سمجھاجاسکتا ہے ۔ آج کے ان حالات میں اسلام اور اسلامی جنگ و اقتدار کے قریبی تعلق کو زیادہ سے زیادہ واضح کرنا اس لیے ضروری ہوگیا ہے کہ اس وقت باطل قوتیں اور مادہ پرست مسلمان اسلام کوا من کے داعی کے طور پر پیش کرکے اسلامی جنگ واقتدار کو
اسلام کے خلاف باور کرارہے ہیں۔
اسلامی جنگ کی اہمیت کوواضح کرنے کے لیے ہم ان آیات اور احادیث کو پیش کررہے ہیں جن میں جہاد کے بجائے قتال کا لفظ استعمال ہوا ہے، اس لیے آج بہت سے نام نہاد مسلمان جہاد کے لفظ اور لفظی معنی کو لے کر اس میں دین کی ایسی ایسی باتیں شامل کررہے ہیں جو قطعاً جہاد کے زمرے میں نہیں آتی، اور کچھ تو لفظ جہاد کے ذریعہ اسلامی جنگ کو غیر اسلامی قرار دینے میں لگے ہوئے ہیں۔ یقیناًجہاد میں معنوی لحاظ سے جنگ کے علاوہ دین کے وہ اعمال بھی آتے ہیں ،جو دین کو غالب کرنے کے لئے انجام دئے جا رہے ہیں،لیکن ہم اس وقت اس بحث میں نہ پڑتے ہوئے قرآن وسنت کی روشنی میں صرف یہ واضح کررہے ہیں کہ اسلام میں قتال بھی فرض ہے اور قرآن و حدیث میں جہاد کے علاوہ قتال کا لفظ بھی استعمال ہوا ہے اور قتال میں جنگ ومسلح لڑائی کے علاوہ کوئی دوسرے معنی نہیں آتے۔
چنانچہ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
کُتِبَ عَلِیْکُمْ الْقِتَالُ (البقرۃ ۲۱۶)
یعنی’’ تم پر (اللہ کی راہ میں) لڑنا فرض کردیا گیا ہے۔‘‘
اسلامی جنگ کی اس سے بڑھ کر اور کیا اہمیت ہوگی کہ اللہ تعالیٰ نے اسے اہل ایمان پر فرض کیا ہے۔ ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَقَاتِلُوْ ہُمْ حَتّٰی لا تَکُوْنَ فِتْنَۃ’‘ (البقرۃ ۱۹۳)
’’ اور ان (کفارومشرکین) سے لڑو یہاں تک کہ فتہ یعنی غیر اسلامی اقتدار باقی نہ رہے۔‘‘
اسی طرح ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
یَاَیُّھَا النَّبِیْ حَرِّضِ الْمُوْمِنِیْنَ عَلیٰ الْقِتَالِ (الانفال ۶۵)
’’ اے نبی ﷺ ایمان والوں کو لڑائی پر ابھاریئے۔‘‘
مذکورہ آیت میں جس نبی کو خطاب کرکے مومنین کو جنگ پر ابھارنے کا حکم دیا گیا اس سے مراد حضرت محمد ﷺہے۔ قتال کی اس سے بڑھ کر اور کیا اہمیت ہوگی کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں
حضورﷺ کو حکم دیا کہ مومنین کو اللہ کی راہ میں جنگ کرنے پر ابھاریے۔ مزید ارشاد ربانی ہے۔
قَاتِلُوا الَّذِیْنَ لَایُوْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَلَا بِالْیَوْمِ الآخِرِ وَلَا یُحَرَّمُوْنَ مَا حَرَّمَ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗ وَلَا یَدِیْنُوْنَ دِیْنَ الْحَقَّ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوْالکِتَابَ حَتّٰی یُعْطُوْا لْجِزْیَۃَ عَنْ یَّدِ وَّہُمْ صَاغِرُوْنَ (التوبہ ۲۹)
’’جنگ کرو ان لوگوں سے جو اللہ پر ایمان نہیں رکھتے اور نہ آخرت کے دن پر، اور نہ حرام سمجھتے ہیں اللہ اور اس کے حرام کردہ کو، اور نہ دین حق قبول کرتے ہیں اہل کتاب میں سے یہاں تک کہ وہ چھوٹے بن کر اپنے ہاتھوں سے جزیہ دیں۔‘‘
مذکورہ آیت سے معلوم ہوا کہ کفار ومشرکین ، یہود ونصاریٰ اگرمسلمانوں پر زیادتی نہ کریں تب بھی ان سے جنگ کرنے کا حکم ہے جب تک کہ وہ اسلامی حکومت کی بالادستی کو تسلیم کرکے اس کے تحت جزیہ دے کر زندگی گزارنے کے لیے تیار نہ ہوجاتے۔ لیکن یہ المیہ ہی ہے کہ آج کفارومشرکین ، یہود ونصاریٰ کی ظلم وزیادتی اور دنیا میں غیر اسلامی حکومت کی بالادستی کے باوجود مسلمان اسلامی جنگ کی اہمیت وضرورت محسوس نہیں کرتے۔
قرآن میں مختلف جرائم کی جو سزائیں بیان ہوئی ہیں ان سے بھی اسلام میں اسلامی حکومت کی اہمیت وضرورت واضح ہوتی ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے چور کی سزا یوں بیان فرمائی:
وَالسَّارِقُ والسَّارِقَہُ فَاقْطَعُوْ اَیْدِیَہُمَا (المائدہ ۳۸)
’’ اور چوری کرنے والے مرد اور چوری کرنے والی عورت کے ہاتھ کاٹ ڈالو۔‘‘
اسی طرح اللہ تعالیٰ نے قرآن میں زنا کی سزا یوں بیان فرمائی
اَلزَّانِیَۃُ وَالزّانِیْ فَاجُلِدُوْا کُل وَاحِدٍ مِّنْہُمَا مِاءَۃَ جَلْدَۃٍ وَّلَاتَاخَذُکُمْ بِھِمَا رَافَۃُ فِی دِیْنِ اللّٰہِ (النور ۲)
’’ زانیہ عورت اور زانی مرد ہر ایک کو ان میں سو کوڑے مارو اور ان دونوں پر اللہ کا حکم جاری کرنے میں تمہیں ترس نہیں آنا چاہیے۔‘‘
یہ تو غیر شادی شدہ زانی اور زانیہ کی سزا ہے۔ اگر زانی اور زانیہ شادی شدہ ہو تو پھر اس کی سزا سنگساری ہے یعنی پتھروں سے مارمارکر ہلاک کردینا جیسا کہ احادیث میں اس کی صراحت ہے، اور دورنبوی ﷺ میں پیش آنے والے زنا کے واقعات میں خود آنحضورﷺ نے سنگساری کی سزا جاری فرمائی ۔
اسی طرح اللہ تعالیٰ نے پاک دامن عورتوں پر زنا کی تہمت لگانے کی سزا قرآن میںیوں بیان فرمائی :
وَالَّذِیْنَ یَرْمْونَ الْمُحصَنٰتِ ثُمَّ لَمْ یَاتُوْ بِاَربَعَۃِ شُھَدَآءَ فَاجْلِدُوْہُمْ ثَمَانِیْنَ جَلْدَۃً وَّلَاتَقبَلُوْالَہُمْ شَھَادَۃً اَبَدًا (النور : ۴)
’’ اور جولوگ پاک دامن عورتوں پر زنا کی تہمت لگائیں پھر چار گواہ پیش نہ کریں تو انہیں ۸۰ کوڑے لگاؤ اور کبھی بھی ان کی گواہی قبول مت کرو۔‘‘
واضح رہے کہ پاک دامن مردوں پر زنا کی تہمت لگانے کی بھی یہی سزا ہے۔ مذکورہ آیت سے جہاں اسلامی سزاؤں کی اہمیت واضح ہوتی ہے وہیں اسلامی حکومت کی اہمیت بھی واضح ہوتی ہے، کیوں کہ اسلامی حکومت کے بغیر یہ سزائیں جاری نہیں ہوسکتی۔
قرآن کی آیات قتال اور آیات تعزیر کی روشنی میں بجاطور پر کہاجاسکتا ہے کہ آج جو افراد اسلام کو امن کا دین قرار دے کر اسلامی جنگ واقتدار کو اسلام کے خلاف قرار دے رہے ہیں، دراصل وہ اللہ اور قرآن کو جھٹلارہے ہیں۔ اور جو لوگ اسلامی جنگ واقتدار کو دہشت گردی قرار دے رہے ہیں، دراصل وہ اللہ کو دہشت گرد کہہ رہے ہیں، کیوں کہ اسلامی جنگ واقتدار کا حکم اللہ ہی نے دیا۔ اور یقیناًباطل پرستوں کو اگر اللہ کو دہشت گرد کہنے میں سیاسی فائدہ نظر آئے تو وہ علی الاعلان بھی اللہ کو سب سے بڑا دہشت گرد کہنے سے نہیں ہچکچائیں گے۔ جس طرح اسلامی جنگ واقتدار کی اہمیت میں قرآن کی بہت سے آیات ہیں اسی طرح اسلامی جنگ واقتدار کی اہمیت میں بہت سی احادیث ہیں ، بطور مثال دو حدیثیں پیش کی جارہی ہیں۔
عَنْ جَابِرْ ابْن سَمُرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ لَنْ یَّبْرَحَ ہٰذا الدِّیْنَ قَاءِمً یُقَاتِلُ عَلَیْہِ عِصَابَۃُٗ مَّنَ الْمُسْلِمِیْنَ حَتّٰی تَقُوْمُ السَّاعَۃُ (مسلم)
’’حضرت جابر بن سمرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا یہ دین ہمیشہ قائم رہے گا، مسلمانوں کی ایک جماعت اس کے لیے جنگ کرتے رہے گی یہاں تک کہ قیامت قا ئم ہوجائے گی۔‘‘
دوسری حدیث اس طرح ہے۔
عَنْ عِمرانَ بْنِ حُصَیْنٍ قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہ ﷺ لَا یَزَالُ طَاءِفَۃ’‘ مَّنْ اُمَّتِیْ یُقَاتِلُوْنَ عَلیٰ الْحَقَّ ظَاھِرِیْنَ عَلیٰ مَنْ نَاوَاھُم حَتّٰی یُقِاتِلَ آخِرُہُم الْمَسِیْحَ الدَّجَّال (ابودواؤد)
’’حضرت عمرانؓ حصین سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میری امت میں سے ایک جماعت ہمیشہ حق پر جنگ کرتے رہے گی اور غالب رہے گی ان پر جو اِن سے دشمنی کرے گا یہاں تک کہ ان کا آخر مسیح دجال سے جنگ کرے گا۔
مذکورہ دونوں حدیثوں سے یہ بات واضح ہوئی کہ مسلمانوں کی ایک جماعت قیامت تک اسلام کی خاطر مسلح جنگ کرتی رہے گی، اس سے معلوم ہوا کہ اسلام کے لیے مسلح جنگ کوئی وقتی و عارضی عمل نہیں ہے بلکہ ایک دائمی عمل ہے جو قیامت تک جاری رہنے والا ہے۔ ظاہر ہے مسلمانوں کی جو جماعت اس جنگ کے عمل کو جارے رکھے گی وہ اہل حق کی جماعت ہوگی، اور اللہ کے نزدیک بہت ہی مقبول ہوگی اور جو مسلمان اس جماعت کی حمایت و نصرت کریں ، وہ بھی اہل حق ہوں گے اور اللہ کے نزدیک اجروثواب کے مستحق ٹہریں گے۔ لیکن یہ المیہ ہی ہے کہ آج اپنے آپ کو اہل حق کہنے والی جماعتیں اسلام کے لیے مسلح جنگ کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتی اور نہ اس کی حمایت کرتی ہیں، بلکہ الٹے اس کی مخالفت کرتی ہیں۔ جس طرح آنحضورﷺ کی احادیث سے اسلامی جنگ واقتدار کی اہمیت واضح ہوتی ہے، اسی طرح آپ ﷺ کی سیرت سے بھی اسلامی جنگ واقتدار کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔ چنانچہ آپ ﷺ کی ۲۳سالہ زندگی میں سے دس سالوں میں آپﷺ کی سربراہی میں چھوٹی بڑی تقریباً ۸۶ جنگیں لڑی گئیں جن میں سے ۲۷ جنگوں میں آپﷺ خود شریک تھے۔ اور ان دس سالوں میں پورے عرب میں اسلامی اقتدار قائم ہوگیا۔ اس عرصہ میں آپﷺ نے دشمنان اسلام کے خلاف جو جنگی اقدامات کیے ان میں سے چند کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے، اور اس میں اہم بات یہ کہ یہ سب اقدامات آپ ﷺ نے اللہ کے مرضی کے مطابق کیے۔
۲؍ہجری میں جب آنحضورﷺ کو معلوم ہوا کہ مکہ والوں کا ایک تجارتی قافلہ ابوسفیان کی قیادت میں شام سے آرہا ہے اور مدینہ کے قریب سے گذرنے والا ہے تو آپ ﷺ نے صحابہ کرامؓ کا ایک لشکر تیار کرکے اسے روکنے فیصلہ کیا تاکہ مکہ والوں پر رعب قائم ہوا ور وہ مسلمانوں کو بے بس اور بے خبر نہ سمجھیں ، لیکن ابوسفیان کو پہلے اس کی اطلاع ہوگئی اور وہ راستہ بدل کر مکہ کی طرف روانہ ہوگیا، ساتھ ہی اس نے ایک تیزرفتار سوار کو اس اطلاع کے ساتھ مکہ روانہ کیا کہ مسلمانوں نے ہم پر حملہ کردیا ہے، لہٰذا جلد ہماری مدد کو پہنچو۔ اس خبر کے مکہ پہنچتے ہی مشرکین مکہ کا ایک بڑا لشکر تیار ہوا، جس کے نتیجے میں جنگ بدر واقع ہوئی۔ (تاریخ اسلام جلد اول ۱۴۶)
۳؍ہجری میں یہود کے قبیلہ بنی قنیقاع کی بستی میں ایک انصاری عورت دودھ فروخت کرنے کے لیے گئی تو ایک یہودی نے اسے چھیڑا ایک انصاری صحابی کو رہا نہ گیا اور انہوں یہودی پر حملہ کردیا جس میں وہ مارا گیا قریب کے یہودیوں نے اس انصاری پر حملہ کردیا جس میں وہ شہید ہوگئے جب کچھ مسلمان وہاں پہنچے تو یہودیوں نے مسلح ہوکر ان پر حملہ کردیا۔ آنحضورﷺ کو جب اس کی خبر ہوئی تو آپﷺ صحابہ کو لے کروہاں پہنچے تو یہودیوں کو جنگ پر آمادہ پایاتو آپﷺ نے صحابہؓ کو ان پر حملہ کا حکم دیا۔ لیکن جلد ہی بنی قنیقاع قلعہ میں محصور ہوگئے۔ آنحضورﷺ نے قلعہ کا محاصرہ کرلیا اور پندرہ روز تک محاصرہ جاری رہا، اس کے بعد صحابہ کرامؓ قلعہ پر قابض ہوگئے اور بنی قنیقاع کے تمام یہودیوں کو گرفتار کرلیا گیا اور انہیں جلاوطن کردیا گیا۔ (تاریخ اسلام جلد اول ۱۵۶)
۴؍ہجری میں آنحضورﷺ چند صحابہ کے ساتھ ایک خوں بہا کے معاملہ میں یہود کے قبیلہ بنونضیر کی بستی میں تشریف لے گئے تو یہودیوں نے آپﷺ کو دھوکہ سے قتل کرنے کا منصوبہ بنایا لیکن اس پر عمل آوری سے پہلے ہی اللہ کی طرف سے آپﷺ کو اطلاع ہوگئی اور آپﷺ مدینہ تشریف لے آئے، اور بنونضیر کے پاس پیغام بھیجا کہ دوبارہ عہد نامہ لکھو، لیکن انہوں عہدنامہ لکھنے سے انکارکردیا۔ آپﷺ نے ان کو پھر پیغام بھیجا کہ اگر عہدنامہ نہیں لکھتے تو یہاں سے دس روز کے اندر جلاوطن ہوجائے۔ بنونضیر نے اس کاجواب بھی انکار میں دیا تو آنحضور ﷺ نے صحابہ کے ساتھ ان پر چڑھائی کی تو وہ قلعہ میں محصور ہوگئے۔ آپﷺ نے قلعہ کا محاصرہ کرلیا، اور یہ محاصرہ پندرہ روز تک جاری رہا، اس کے بعد یہودیوں نے پیغام بھیجا کہ اگر ہماری جان بخشی کردی جائے تو ہم جلاوطن ہونے کو تیار ہیں۔ آپ نے انہیں حکم دیا کہ ہتھیار چھوڑکر اپنا جتنا مال تم اونٹوں پر لاد کر لے جاسکتے ہو لے لو اور یہاں سے نکل جاؤ۔ آپﷺ نے ان کے تمام ہتھیار اور بقیہ مال واسباب کو مہاجرین میں تقسیم فرمادیا۔ (تاریخ اسلام جلد اول ۱۷۲)
۵؍ہجری میں یہود کے قبیلہ بنوقریظہ میں جنگ خندق کے موقع پر بدعہدی کی تو آنحضور ﷺ نے جنگ ختم ہونے پر بنوقریظہ پر حملہ کا حکم دیا۔ چنانچہ صحابہؓ بنو قریضہ کی بستی میں داخل ہوگئے لیکن بنوقریضہ قلعہ میں محصور ہوگئے۔ آنحضورﷺ نے قلعہ کا محاصرہ کرلیا اور ۲۵؍روز تک محاصرہ جاری رہااس کے بعد بنوقریظہ نے آنحضورﷺ کی خدمت میں پیغام بھیجا کہ ہم اپنے آپ کو اس شرط کے ساتھ آپﷺ کے سپردکرتے ہیں کہ سعد بن معاذ ہمارے لیے جو سزاتجویز کریں وہی سزا ہم کو دی جائے، آپﷺ نے اس شرط کو قبول فرمالیا۔ حضرت سعد بن معاذؓ نے حکم دیا کہ بنوقریظہ کے تمام مرد قتل کردیے جائیں اور ان کی عورتوں اور بچوں کے ساتھ جنگی قیدیوں کا سا سلوک کیا جائے،اور ان کے مال وجائداد کو مسلمانوں میں تقسیم کردیا جائے۔ اس فیصلہ کے بعد بنوقریظہ کو قلعہ سے نکلنے کا حکم دیا گیا اور آنحضورﷺ کی نگرانی میں ان کے تمام مردوں کو قتل کردیا گیا اور ان کے باغات و مکانات مسلمانوں میں تقسیم کردیے گیے۔ (تاریخ اسلام جلد اول ۱۸۳)
آنحضورﷺ کے ان اقدامات سے بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اسلامی اقتدار سے بغاوت کرنے والے کفار مشرکین، یہود ونصاریٰ کو سزادینا عین دین وایمان کا تقاضہ ہے۔ اور اسی بات کو اللہ نے قرآن میں یوں بیان فرمایا :
مُحَمَّد’‘ رَسُوْل اللّٰہِ وَالَّذِیْنَ مَعَہٗ اَشِدَّآءُ عَلٰی الْکُفَّارُحَمَآءُ بَیْنَہُمْ (الفتح : ۲۹)
’’محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں اور جو ان کے ساتھ ہیں وہ کفار پر سخت ہیں اور آپس میں رحم دل ہیں۔‘‘
ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزم ہو حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن
لیکن یہ المیہ ہے کہ آج بہت سے مسلمان خصوصاً مسلم حکمران کفار پر رحم دل اور مومنین پر سخت ہیں۔ اسلام کو دہشت گردی کا دین کہنے والے افراد یقیناًآنحضورﷺ کے مذکورہ ارشادات و اقدامات کو دہشت گردی قرار دیں گے۔ لیکن اسلام اور اہل ایمان کے لیے یہ الزام کوئی پہلا اور نیا الزام نہیں ہے بلکہ اس سے پہلے اس سے بھی سخت ترین الزام اسلام اور اہل ایمان پر عائدکیے جاچکے ہیں۔ اور خود آنحضورﷺ پر کفار نے جادوگر، پاگل ، شاعر اور کاہن ہونے کا الزام لگایا۔ اس لیے مسلمانوں کو اس طرح کے الزامات سے نہ گھبرانا چاہیے اور نہ مایوس ہونا چاہیے۔ آج جن لوگوں کو مسلمانوں کی بہتری باطل کی شریفانہ غلامی میں نظر آرہی ہے، اور اسلامی جنگ واقتدار میں مسلمانوں کی بدتری نظر آرہی ہے دراصل یہ شیطان اور نفس کا دھوکہ ہے، حقیقت یہ ہے کہ ماضی میں بھی مسلمانوں کی بہتری اسلامی جنگ واقتدار میں تھی اور حال میں بھی مسلمانوں کی بہتری اسی میں ہے اور مستقبل کی بہتری بھی اسی سے وابستہ ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ مسلمان اسلامی جنگ و اقتدار کو اپنی فکری توجہ کا مرکز بنائیں اور اس کے لیے جدوجہد کریں ، اور اس جدوجہد کا اصل مقصد رضائے الٰہی کو ٹھہرائے ۔ جیسا کہ ایک شعر میں مومن کے کردار کی ترجمانی یوں کی گئی۔
میری زندگی کا مقصد تیرے دین کی سرفرازی
میں اسی لیے مسلماں میں اسی لیے نمازی