کالم : بزمِ درویش
شکاری
پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
ای میل:
ویب سائٹ: www.noorekhuda.org
بڑی سی سفید چادر میں لپٹی خو برو خوش شکل عورت جس کی عمر پچاس سال کے قریب ہو گی میرے سامنے آکر بیٹھ گئی ‘ اُس کی سفید دودھیا مخر وطی انگلیوں میں سچے موتیوں کی تسبیح گر دش کر رہی تھی آنکھوں اور چہرے پر ذکر اذکار نیکی کا اجالا پھیلا ہوا تھا اُس کے نقش و نگار جسمانی ساخت سرخ و سفید رنگت سے لگ رہا تھا کہ جوانی میں وہ غضب کی خوش شکل عورت ہو گی ‘
اُس کا چونکا دینے والا حسن کسی کوبھی اُس کے حسن کا قیدی بنا دیتا ہو گا اُس نے بولنا شروع کیا تو لگا سماعتوں کو شہد کی سوغات بانٹ رہی ہے ‘ بہت کم لوگ ایسے ہو تے ہیں جن پر قدرت بہت مہربان ہو تی ہے جو جسمانی خوبصورتی کے ساتھ آواز گفتگو کی خوبصورتی سے بھی مالا مال ہو تے ہیں اُس کی آواز الفاظ کا چناؤ انداز گفتگو لہجے کا دھیما اور شیریں پن مخاطب کو متاثر کردیتا تھا اِس وقت میں بھی اُس کے متاثرین میں شامل تھا اُس کی بڑی چادر ہاتھوں میں سچے مو تیوں کی مالا آواز کا سریلا پن انداز گفتگو دیکھنے والے کو خوشگوار تاثر سے دوچار کردیتا ہو گا اِس وقت میں بھی خوشگوار ہلکوروں میں جھول رہا تھا خوبصورت نقش و نگار دلکش خدوخال سے آواز کا سریلا پن اور مہذب گفتگو کے ساتھ اگر مذہب کا تڑکا لگ جائے تو سامنے والا خوشگوار تاثر میں گھرتا چلا جاتا ہے میں بھی شاید اِس وقت ایسی ہی حلاوت انگیز کیفیت کا شکار تھا اُس کا سراپا گفتگو اور آواز دوسرے کو ادب کر نے پر مجبور کر دیتی تھی میں بھی اُسے احترام بھری نظروں سے دیکھ رہا تھا اب میں پہلی بار بولا جناب میں آپ کی کیا خدمت کر سکتا ہوں ‘ آپ کو دنیا کا کونسا مسئلہ یا پریشانی گھیر کر میرے پاس لے آئی ہے تو وہ دل آویز لہجے میں بولی مجھے دنیا کا کو ئی مسئلہ پریشانی نہیں ہے میں ہر حال میں خوش رہنے والی بندی ہو ں ‘ خدا کی دی ہو ئی تمام آسائشیں نعمتیں بے شمار میرے پاس موجود ہیں دنیا کی کو نسی نعمت آرام لگثری ہے جو میرے پاس نہیں ہے میں تجسس بھری نظروں سے اُس کی طرف دیکھ رہا تھا کہ یہ کس سیارے سے آئی ہے جو اتنی مطمئن خوش ہے جسے کو ئی پریشانی مسئلہ نہیں ہے یہاں پر تو جو بھی میرے پاس آتا ہے مسئلوں پر یشانیوں مشکلات کی گٹھڑی باندھے آکر میرے سامنے کھول دیتا ہے مہینوں بعد کوئی شخص آتا ہے جو خدا کی دی ہو ئی موجود نعمتوں کا اقرار کر تا ہے کہ میرے پاس اللہ کا دیا ہوا سب کچھ ہے مجھے دنیاوی کسی بھی قسم کی ضرورت نہیں ہے مادیت پرستی میں غرق انسان کو کانٹا بھی چبھ جائے تو وہ چیخ و پکار شروع کر دیتا ہے موجودہ دور کے انسان کا پیٹ حرص کی مٹی سے بناہے جو دوزخ کی طرح بھرتا ہی نہیں یہ کس جہاں سے آگئی تھی جو کہہ رہی تھی مجھے دنیاوی کو ئی کام نہیں اور نہ مجھے کوئی کمی ہے ‘میں نے حیران سوالیہ نظروں سے اُس کی طرف دیکھا اور بولا اگر آپ کو کو ئی مسئلہ یاپریشانی نہیں ہے تو میرے پاس آنے کی وجہ آپ بتا سکتی ہیں تو وہ گریس فل لہجے میں بولی مجھے واقعی دنیاوی کو ئی کام نہیں ہے میرے پاس سارے جہاں کی نعمتیں ہیں لیکن میرا باطنی اضطراب خلش تشنگی ادھوارا پن بے چینی بے قراری الجھن پریشانی ختم نہیں ہو رہی ‘ عجیب سی خلش اور تشنگی ہے جو ہر گزرتے لمحے کے ساتھ بڑھتی جارہی ہے پچھلے پانچ سال سے میں گناہوں سے تائب ہو چکی ہوں‘ پانچ وقت کی نمازی روزہ و زکوۃ عمرہ حج کرچکی ہوں ‘ بابوں درباروں نفسیاتی ڈاکٹروں کے پاس جاچکی ہوں لیکن میرا باطنی اضطراب بڑھتا ہی جارہا ہے دن رات عبادات ذکر اذکار میں خود کو مصروف رکھتی ہوں لیکن جو حقیقی سکون اطمینان آسودگی ہے اُس سے کوسوں دور ہوں ‘ یتیم خانوں ہسپتالوں خیراتی اداروں بیواؤں یتیموں کو بڑی رقوم بھی دیتی ہوں پھر بھی سکون نہیں ہے اُس کی گفتگو میری حیرت کے پیمانے کو بڑھا رہی تھی میں نے تجسس آمیز لہجے سے کہا آپ جوانی میں کیا کام کر تی رہی ہیں جو آخری زندگی میں سکون کی بجائے اضطراب کا شکار ہیں اُس نے حیران نظروں سے میری طرف دیکھا اور بولی کیا میرا ماضی میرے اضطراب اوربے قراری کی وجہ ہے ‘ میں نے ہاں میں سر ہلا یا تو وہ بولی میں آپ کو اپنا ہم راز بناتی ہوں ‘ شاید آپ میر ی پریشانی حل کر سکیں ‘ سر میرا تعلق ملتان شہر سے ہے کئی سال پہلے میں نے میٹرک کا امتحان پاس کیا تو میرا داخلہ نرسنگ میں لاہور ہو گیا ‘ خدا نے مجھے بے پناہ حسن کی دولت سے نوازا تھا حسن کے ساتھ میں ذہانت چالاکی کی دولت سے بھی مالا مال تھی نرسنگ ہوسٹل میں اپنے بے پناہ حسن اور ذہانت کے بل بو تے پر میں ہاسٹل سپرٹنڈ نٹ کے قریب ہو گئی گھر سے فاقوں میں پلی تھی اِس لیے لاہور کی چکا چوند سے خوب متاثر ہو گئی ہاسٹل میں کچھ لڑکیاں بااثر افسران کے بیڈ روموں میں پہنچائی جاتی تھیں اِس کے بدلے میں پیسہ اور تعلقات بھی بنتے ‘ میں بھی اِس راستے پر چل نکلی نرس بنی تو اپنے تعلقات کے بل بو تے پر فوری نوکری اور لاہور کے ہسپتال میں جاب مل گئی ۔ میں غربت کی چکی میں پسی ہو ئی آئی تھی دولت کمانے کی لت میں اِس طرح گر ی کہ پھر نہ اٹھ سکی اب میں نے وارڈوں میں امیر لوگوں سے تعلقات بنائے پھر اُن سے پیسے کمائے ‘ اِسی دوران ایک سینئر نرس نے نیا طریقہ بتایا کہ اگر تم زیادہ پیسے کمانا چاہتی ہو تو بوڑھے امیر مریض گاہک پھنسا لو‘ و ان کو اپنی مسیحائی اور عشق میں غرق کرو پھر اپنے روم میں بلا کر بیڈ روم پر اُن کی ریکارڈنگ کرو پھر اس ریکارڈنگ سے اُس کو بلیک میل کرو کہ اتنے لاکھ روپے دو ورنہ تمہارے گھر والوں کو دکھا دوں گی ‘ بوڑھے امیر دولت مند اپنی عزت بچانے کے لیے میری منہ مانگی قیمت ادا کر تے ‘ میں زیادہ ڈرپوک بابوں کو بعد میں بھی بلیک میل کر تی ‘ اس طرح اب میں زیادہ دولت کمانا شروع ہو گئی چند سالوں میں ہی میں نے گھر کار دولت اکٹھی کرلی ‘ اپنی چالاکی اور خوبصورتی کی وجہ سے میں ڈیوٹی وی آئی پی وارڈز میں لگواتی ‘ دولت مند مریضوں کو اپنے حسن کے جال میں پھنسا کر بلیک میل کر کے دولت حاصل کر تی ‘ اِس دوران میں نے دو دولت مند بابوں سے شادی بھی کی ایک تو فطری موت مرا دوسرے کو میں نے تڑپا تڑپا کر مار دیا میری دیدہ دلیری کا عالم یہ تھا کہ شادی میں نے بوڑھے سے کی لیکن ناجائز تعلق انتہائی خوبصورت آدمی سے تھا تاکہ میری اولاد خوبصورت ہو اِسی طرح میں نے ایک ناجائز بیٹی کو جنم دیا ماہ و سال گزرتے چلے گئے میں اپنے حسن کے تیروں سے لوگوں کو گھائل کرتی رہی میں نے بے شمار لوگوں کو لوٹا کہ مجھے تعداد تک نہیں یاد ‘ میں اپنے حسن اور چالاکی کو ہی اپنا سب سے بڑا ہتھیار سمجھتی تھی آج تک میں نے جو بھی چاہا ویسے ہی کیا تعلقات کی بنا پر میرے محکمے اور دوسرے محکموں کے اعلیٰ افسروں کے ساتھ تعلقات تھے جس کی وجہ سے میرا ہر کام چٹکیوں میں ہو جاتا ‘ میں خوبصورتی اور چالاکی کے نشے میں دھت دوڑی چلی جارہی تھی کہ پتہ ہی نہ چلا میں بڑھاپے میں داخل ہو نا شروع ہو گئی اور بیٹی پر جوانی کا نکھار آتا چلا گیا بیٹی کا چڑھتا لشکارا حسن دیکھ کر میں خوش تھی کہ میری جوانی کا سورج غروب ہونے سے پہلے بیٹی کا سورج طلوع ہو رہا تھا اب میں نے بیٹی کو اپنی طرح نرس بنوایا اور اپنی لائن پر چلانے کی ترغیب دی لیکن بیٹی نے صاف انکار کردیا بیٹی کا انکار بڑھتا چلا گیا میں نے بہت زور لگایا تو میرے ڈرائیور کے ساتھ بھاگ گئی ڈرائیور کالا کلوٹا کمی کمین تھا میری بیٹی چاند کا ٹکڑا میں نے بیٹی کو بہت تلاش کیا لیکن وہ نہ ملی دو سال بعد اُس نے تصویر بھیجی وہ دو کالے کلو ٹے بچوں کی ماں اور خود پھول کر کپا بن چکی تھی ساتھ اُس نے لکھا اماں تم ہار گئی میں نے تمہاری ضد میں اس کالے سے شادی کی اب تم ساری عمر تڑپو میں تمہارے پاس نہیں آؤں گی ‘ سر میں نے پہلی بار شکست کھائی میری بیٹی نے مجھے توڑ دیا ہر ا دیا میں ساری عمر لوگوں کو شکار کر تی رہی ‘ قدرت نے مجھے میری بیٹی کے ہاتھوں شکار کر دیا میں نے توبہ کی اپنے گناہوں کی معافی مانگی دربدر بھٹکی لیکن مجھے کبھی سکون نہ ملا اِسی سکون کی تلاش میں آپ تک آئی ہوں میں نے کہا جاؤ اپنی دولت سے خدمت خلق کرو خدا تمہارے گناہوں کو معاف کر کے تمہیں حقیقی دائمی سکون عطا کر ے جو لوگوں کو شکار کر تا ہے قدرت اُس کا شکارکر لیتی ہے ۔