تعلیم و تدریس میں ماحول کا کردار
فاروق طاہر
9700122826
تعلیم کا اولین مقصد انسانیت کی تعمیر ہے ۔دنیاوی تجربات سے آگاہی اور واقفیت ہی تعلیم کا لازمی جزو ہے۔طلبہ کو زندگی کے نشیب و فراز سے آشنا کرنا اور زندگی کی کشمکش کے لئے تیار کرنا ہی تعلیم کااولین مقصد ہے۔ایس مل کے مطابق ماحول کا تعلیم و تدریس پر گہر ا اثر پڑتا ہے۔ فروبل استاد کو ایک باغبان اور طالب علم کو ایک پودے سے تشبیہ دیتاہے۔
باغبان کی کوشش ہوتی ہے کہ اس کے باغ کے شجر سایہ دار ،ثمر آور اپنی خوب صورتی،لذت اور خوشبو میں یکتا و نمایاں ہوں۔ اسی طرح ایک معلم بھی علم کی قدر و منزلت طلباء میں پیدا کرتے ہوئے پسندیدہ معاشرتی اقدار کو پروان چڑھتا ہے۔ تعلیم کا اہم کام زندگی کے لئے معاون و مددگار معلومات ،مہارتوں اور تجربات سے طلباء کو واقف کرنا ہے اگر تعلیم ان امور کا احاطہ نہیں کرتی ہے تووہ بے فیض تصور کی جاتی ہے۔ درس و تدریس کو جتنا آسان سمجھا لیا گیا ہے در حقیقت یہ کام اتنا آسان بھی نہیں ہے۔ہر بچہ کو حصول علم کے لئے اپنی ذات سے استفادہ کر نا ضروری ہوتا ہے۔اس ایک نکتہ کا استحصال کرتے ہوئے اساتذہ اپنے فرائض منصبی سے سرموئے انحراف نہیں کر سکتے ہیں۔اساتذہ کے لئے لازم ہے کہ وہ طلبا ء کی ذہنی سماجی معاشی حالات سے با خبر رہتے ہوئے حالات کے مطابق بچوں کی علمی تشنگی کو سیراب کرنے کے سامان فراہم کرے۔تعلیم و تربیت کے زمرے میں ماحول کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔اکتساب کی ترقی اور تنزلی میں ماحول کا نمایاں حصہ ہوتا ہے۔ماہرین تعلیم و نفسیات کا اجماع ہے کہ توارث ایک غیر متبدل اور اٹل شئے ہے جب کہ ماحول کو حسب منشاء و ضرورت ڈھا لا جا سکتا ہے۔تعلیمی دنیا میں اسی لئے ماحول کو ایک کارگر عامل گردانا گیا ہے۔اکتسابی نظام کے دو اہم جزو ایک وہ پر جوش طلبہ ہوتے ہیں جو اپنے آپ کو تعلیم و تربیت کے ذریعہ تبدیل کرنے کا جویا رکھتے ہیں جب کہ دوسرا اہم جزو ماحول ہوتا ہے۔اکتساب کے لئے سازگار ماحول اسکول انتظامیہ ،اساتذہ ،والدین اور طلبہ کے مشترکہ کوششوں کا نتیجہ ہوتا ہے۔سازگار ماحول کو وجود میں لائے بغیر کسی بھی قسم کی اکتسابی سرگرمی بے فیض اور وقت کا خسران ثابت ہوتی ہے۔ نافع اکتساب کے لئے سازگار ماحول (Conducive Atmosphere) کی ضرورت ہوتی ہے۔ طلبہ کے اکتسابی سفر کو آسان پر کیف اور دلچسپ بنا نے کے لئے انتظامیہ ،اساتذہ اور والدین سازگار اکتسابی ماحول کی فراہمی کو یقینی بنائیں۔طلبہ کی بھلائی اور اکتساب کے فروغ کے لئے ایسے ماحول کو پروان چڑھانا ضروری ہوتا جو انھیں سیکھنے کے لامحدود مواقع فراہمکرے۔اگر اکتساب کے لئے طلبہ کو موزوں ،محتاط ،حوصلہ افزا اور سازگار صحت مند ما حول فراہم کیا جائے تو تحصیل علم کے لئے طلباء پیش قدمی کرنے سے نہیں ڈرتے ہیں۔اکتسابی ماحول اگر سازگار ہوتوطلباء میں اکتساب کے لئے اپنے آپ تحریک پیدا ہوگی،سیکھنے کی شدید امنگ ابھرے گی۔اکتساب کے لئے سازگار ماحول کو وجود میں لاتے ہوئے اساتذہ تدریسی فرائض کو بہتر انجام دینے کے علاوہ طلبہ کے اکتساب میں تیزی اور سرگرمی کو نوٹ کر سکتے ہیں۔ بہتر اکتسابی ماحول کی وجہ سے معلومات ہمیشہ کے لئے ذہن نشین ہوجاتے ہیں اور طلبہ میں معلومات کو بروقت استعمال کرنے کی قابلیت پیدا ہوجاتی ہے۔ کمرۂ جماعت میں سازگار ماحول کی تشکیل میں ناکامی کی وجہ سے اساتذہ سود مند اکتساب کی فراہمی میں ناکام ہوجاتے ہیں اور بچوں میں سیکھنے کا عمل مفلوج ہوجاتا ہے۔ معاون و محتاط منصوبہ بند اکتسابی ماحول طلبہ کو غیر فعال اکتساب (passive learning) کا شکار ہونے سے نہ صرف محفوظ رکھتا ہیبلکہ طلبہ کو اکتسابی امور میں سرگرمی سے حصہ لینے کی ترغیب بھی دلاتا ہے۔ بہتر تعلیمی ماحول کی بنا پرطلبہ میں سود مند اکتسابی نظریات و تجربات پرورش پاتے ہیں۔ اساتذہ اپنی تھوڑی سی توانائی اگر اکتسابی ماحول کو پیدا کرنے میں صرف کردیں تب تدریس ان کے لئے ایک نہایت ہی پرکیف آسودہ اور آسان کاز ہوجاتا ہے۔ تدریسی فرائض کو وہ بحسن و خوبی نہایت آرام و اطمینان اور سکون کے ساتھ انجام دے سکتے ہیں۔ساز گار تعلیمی ماحول طلبہ میں اکتسابی خواہش کو مہمیز کرنے کے علاوہ اکتسابی پیش قدمی کا بھی متحمل بناتا ہے۔ ترقی پذیر اکتساب کے لئے لازمی اوصاف جیسے تجسس ،تحقیق،اختراعی انداز فکر،تخلیقیت،معیاری سوجھ بوجھ، کے علاوہ ازخود اکتساب کی تحریک طلبہ میں سازگار اکتسابی ماحول کی وجہ سے از خود فروغ پاتے ہیں جس سے اکتساب کی صلاحیت تیز تر ہوجاتی ہے۔دیانت دار اور تدریس سے محبت کرنے والے اساتذہ اکتسابی دلچسپیوں کے فروغ میں ممد و معاون اشتراکی اکتسابی(contributory learning) ماحول کو جود میں لائیں۔اشتراکی اکتسابی ماحول طلبہ میں سیکھنے کے عمل کے فروغ میں بہت مددگار ثابت ہوا ہے۔اشتراکی اکتسابی ماحول کے تحت حاصل شدہ تجربات بھی طلبہ میں اکتساب کو استحکام بخشتے ہیں جس سے طلبہ کے ذہنی افق میں وسعت پیدا ہونے کے علاوہ معلومات بھی ہمیشہ کے لئے ذہن نشین ہوجاتے ہیں۔
سازگار اکتسابی ماحول کے لئے معاون عناصر:
اکتسابی ترقی کے لئے چند معاون اور قیمتی عناصر پر عمل پیرا ہوکر اساتذہ موثرو موزوں تعلیمی حالات کو وجود میں لاسکتے ہیں۔ ان عناصر کے علاوہ دوران تدریس دریافت شدہ طریقہ تدریس، حکمت عملیوں کے ذریعہ اساتذہ سازگار تعلیمی ماحول کو ترتیب دے سکتے ہیں۔درج ذیل بنیادی عوامل کو جب دلچسپ طریقہ سے نافذ کیاجاتا ہے تو طلبہ کے اکتساب کے لئے درکار سازگار اکتسابی ماحول ہموار ہوتا ہے۔
(1)بہتر اکتساب کے لئے متعلم کی سرگرم شمولیت لازمی ہوتی ہے اسی لئے طلبہ کو باربار اکتسابی سرگرمیوں میں شامل ہونے کے مواقع فراہم کریں تاکہ طلبا کو اپنی صلاحیتوں کو پیش کرنے کے علاوہ کرو اور سیکھو(Learn by Doing)کا موقع ملے
(2)تدریسی سرگرمیوں میں جذبہ تحریک کو نما یاں جگہ دی جائے تاکہ اکتساب میں طلباء دلچسپی لیں۔دلچسپی سیکھنے کی عمل کو تیز کرتی ہے۔طلبہ کو اگر مناسب طریقہ سے ترغیب و تحریک دی گئی تو وہ نئے معلومات کے حصول میں اپنی توانیاں صرف کردیتے ہیں۔
(3)طلبہ کو ذہنی طور پر ذمہ داریوں کا احساس دلانے کے لئے ضروری ہے کہ اساتذہ ان سے محبت اور شفقت سے پیش آئیں اور ان میں پائے جانے والے احسا س عدم تحفظ پر قابو پائیں۔ طلبہ میں ذہنی اضطراب اور بندیشوں سے آزادی کے ذریعہ اکتساب میں اضافہ ہوگا اور وہ اکتسابی تجربات کو استعمال کرنے کے قابل بھی بنیں گے۔
(4)اساتذہ کی جانب سے تیارکردہ حکمت عملی و منصوبہ بندی سے اکتساب کی ضرورت متعلم پر مترشح ہو جانا چاہیئے ۔طلبہ پر جب اکتساب کی ضرورت عیاں ہوجاتی ہے تو اکتساب کا عمل بھی بامعنی ہوجاتا ہے۔
(6)ٓاکتسابی عمل کے دوران طلبہ کے علمی استحکام کے لئے مشق اور تجربہ کرنے کے وافر مواقع عطاکیئے جائیں تاکہ اکتساب طلبہ کے لئے پرکیف اور بامعنی عمل بن جائے۔
(6)طلبہ میں خود کار اکتساب کی حوصلہ افزائی کے لئے مناسب مواقع فراہم کریں تاکہ طلبہ میں اکتسابی تجربات کے متعلق اطمینان کی فضاء پیدا کی جائے جوسیکھنے کے عمل میں مزید تحریک کا باعث ہوتی ہے۔
(7)اساتذہ درس و تدریس کے دوران لگاتار بچوں کی حو صلہ افزائی کرتے رہیں پوچھے جانے والے سوالات کی جانچ کریں صحیح جوابت پر تعریف و توصیف سے کام لیں اور غلطی کرنے والے طلبہ کی تحقیر سے اجتناب کریں اور صحیح جواب کی سمت ان کی رہنمائی کریں۔اس سے ان میں احساس جاگزیں ہوگا کہ وہ استاد کے پاس اہمیت کے حامل ہیں اور ان کی شخصییت بھی اہمیت رکھتی ہے۔
(8)طلبہ کے انفرادی نظریات کی جانچ کریں اختراعی صلاحیت کی ہمت افزائی کی جائے۔طلبہ کی ذہنی صلاحیت کے مطابق اکتسابی عمل کو ممکن بنائیں تاکہ وہ مسائل سے سامنا کرنے کے قابل بن سکیں۔یہ عمل طلبہ میں اکتساب کے فروغ کا پیش خیمہ ثابت ہوتا ہے۔
(9)صرف نصابی سرگرمیوں پر توانیاں نہ صرف کی جائیں بلکہ طلبہ کی پوشیدہ فطری صلاحیتوں کو فروغ دینے کی کوشش بھی ضروری ہے۔صرف نصابی سرگرمیوں کو جب زیادہ اہمیت دی جاتی ہے تو طلبہ دباؤ کا شکار ہوجاتے ہیں اور دباؤ اکتسابی عمل میں ایک بہت بڑی رکاوٹ بن جاتا ہے۔
(10)سازگار اکتسابی ماحول صحت مند باہمی گفت وشنیدکے ذریعے آپسی تعلقات کے فروغ میں کلیدی کردار انجام دیتا ہے ۔باہمی تعاون کے ذریعے اکتساب میں نہ صرف اضا فہ ہوتا ہے بلکہ طلبہ معلومات کے تبادلے کے ذریعہ خود اعتمادی کی فضاء بھی پیدا ہوتی ہے۔
(11)معلوم سے نا معلوم تشریح سے تجزیہ ،آسان سے پیچیدہ (مشکل) ،جزو سے کل ،ٹھوس سے خلاصہ کی سمت گامزن تدریسی طریقے طلبہ میں دلچسپی پیدا کرنے کے ساتھ اکتساب کو پرکیف بنادیتے ہیں جس سے اکتساب کی گہرائی اور گیرائی میں اضافہ ہوتا ہے۔
(12)سرگرمیوں پر مبنی تدریس،تدریس سرگرمیوں کی ترتیب میں لچک اور طلبہ کی پسند کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے سازگار اکتسابی ماحول کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔
مثالی کمرۂ جماعت کی تزئین و ترتیب:
کامیابی کے لئے حکمت عملی کی اشد ضرورت ہوتی ہے خواہ وہ جنگ ہو،کھیل،مہم جوئی یا پھر تدریسی محاذ۔تدریسی عمل میں کمرۂ جماعت کو مکمل قابو میں رکھنے کے لئے استاد کے لئے حکمت عملی کا استعمال ضروری ہے جس کے ذریعہ وہ طلبہ کو اکتساب کی مثبت شاہراہ پر گامزن رکھ سکتا ہے۔مثالی کمرۂ جماعت کی تشکیل کے ذریعہ طلبہ کو اکتساب کی جانب آسانی سے راغب کیا جاسکتا ہے۔اساتذہ کی توجہ صرف نفس مضمون کی تدریس پر نہ رہے کہ کیا پڑھا یا جائے بلکہ اساتذہ اپنی توجہ کو طلبہ کی اکتسابی حالت اور ماحول کی طرف بھی مرکوز کریں تاکہ موثر تدریس کی انجام دہی کو ممکن بنایا جاسکے۔مختلف طریقوں اور حکمت عملی کی ذریعہ ایک بے جان کمرۂ جماعت کو فعال تدریسی مرکز میں تبدیل کی جاسکتا ہے۔اساتذہ کمرۂ جماعت کو طالب علم مرکوز جماعت میں تبدیل کردیں جہاں بچوں کو تحریک و ترغیب اور حوصلہ افزائی کے ذریعہ اکتساب کی جانب مائل و راغب کیا جاسکے۔طلباء چشمہء علم سے اپنی تشنگی کو بجھاسکیں اور جہا ں اعلی سے اعلی اکتساب کی راہیں وا ہو جائیں۔وہ کمرۂ جماعت جہاں طلبہ کی حو صلہ افزائی اور موثر اکتساب کے لئے رہبر ی و رہنمائی کی جاتی ہے وہ طلبہ اعلی سے اعلی مقام تک پہنچ جاتے ہیں اورایسے ہی کمرۂ جماعت کو معیاری اکتسابی مرکز سے معنون کیا جاتا ہے۔خراب کمرۂ جماعت کی ترتیب و تزئین کے باعث طلبا کے اکتساب پر بر ے اثرات مر تب ہوتے ہیں اس سے نہ صرف کمزور طلبہ نبر د آزما ہوتے ہیں بلکہ روشن دماغ قابل طلبہ بھی اس آندھی میں تنکے کی مانند اڑجاتے ہیں۔طلبہ کو کمرۂ جماعت کی فضاؤں کو مکدر کردینے والے احوال سے واقف کرانا بھی اساتذہ کے لئے ضروری ہوتا ہے تاکہ طلبہ خوش اسلوبی اور مکمل یکسوئی سے تعلیم کی طرف توجہ کر سکیں۔ کمرۂ جماعت کی فضاکو خوش گوار بنانے کے لئے مدرس اپنی تمام تر پیشہ وارانہ صلاحیتوں کو بروئے کار لائے۔ ذیل میں مثالی کمرۂ جماعت کی تشکیل و ترتیب میں معاون نکات کو تحر یر کیا گیا ہے۔
(1)طلبہ کو بغیر مفہوم و مطلب کے اکتساب سے باز رکھتے ہوئے ان کی توجہ پر معنی اور وسیع اکتساب کی طرف مبذول کروائی جائے۔جامع جانچ کے ذریعہ طلبہ کے نقائص کو دور کیا جائے۔کمرۂ جماعت کی سرگرمیوں کو طلبہ کی صلاحیتوں کے اظہار کے وسیلے کے طور پر استعمال کیا جائے۔اس عمل کے ذریعہ ہر طالب علم ا پناحصہ لینے کے ساتھ دینے والے کا کردار بھی انجام دے سکے گا۔
(2)کمرۂ جماعت کے ماحول کو طلبہ کے لئے ایسا معاون اور مددگار بنایا جائے جہاں پرکمرۂ جماعت ہر وقت اساتذہ کی شفقت اور محبت سے معمور و منور رہے۔ اساتذہ اپنی شفقت ومحبت اور بروقت مسائل کی یکسوئی کے ذریعہ طلبہ میں اطمینان اور آسودگی کی فضاء کو فروغ دے سکتے ہیں جس سے طلبہ میں اکتسابی ترقی اور تیز ہونے کے علاوہ طلبہ بغیر کسی شدو مد اور پس و پیش کے اپنے مسائل کو اساتذہ کے روبرو پیش کرنے میں تامل نہیں کر یں گے۔
(3)ہر طالب علم کو دوسروں کی قدر دانی کے جذبے سے متصف کر نا ضروری ہوتا ہے تا کہ وہ اپنے ہم جماعت کی کسی بھی مشکل وقت میں مدد سے جی نہ چرائے۔اس عمل سے طلبہ میں ایک دوسرے پر بھروسہ و یقین کا جذبہ فروغ پاتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ احسا س ذمہ داری کے زیور سے بھی طلبہ آراستہ ہوجاتے ہیں۔
(4)کمرۂ جماعت میں انجام دی جانی والی تدریسی سرگرمیاں طلبہ میں اختراعی انداز فکر اور تخلیقیت کو فروغ دینے میں معاون ہونا چاہیئے جس کے ذریعہ طلبہ میں مسائل کو حل کرنے کے لئے تحقیق و جستجو کو پروان چڑھانے کے ساتھ سوجھ بوجھ کی صلاحیت پیدا ہوسکے اور باہمی اکتساب کی فضاء بھی ہموار ہوسکے۔
(5)کمرۂ جماعت کا نظم و ضبط نہایت اہمیت کا حامل ہوتا ہے نظم و ضبط کے اصولو ں سے طلبہ کو آگا ہ کیا جائے تاکہ وہ اپنے عمل اور ردعمل میں احیتاط کو ملحوظ رکھیں تا کہ ان کی ایک جامع شخصیت کی تشکیل کو ممکن بنایا جاسکے۔اگر تما م طلبہ کا طرز عمل جماعت میں بہتر ہوگا تب ہی کمرۂ جماعت کے اکتساب کا ماحول بھی سازگار ہوگا۔
(6)کمرۂ جماعت میں طلبہ کو ان کی کارکردگی سے واقف کیا جائے ان کو ان کے اکتساب کے طاقتور پہلوؤں سے واقف کروانے کے علاوہ کمزور پہلوؤں کی بھی نشاندہی کیاجائے تاکہ وہ اپنی کارکردگی کو بام عروج تک لے جا سکیں۔اکتسابی تنوع کے مسائل کے لئے کمرۂ جماعت میں مددگار رویہ اختیار کرنے سے طلبہ میں کمرۂ جماعت کے اکتساب میں بہتر ی پیدا ہوتی ہے اور استاد کے درس و تدریس سے ایک گوناگوں سکون و اطمینان حاصل کرتے ہیں۔
(7)کمرۂ جماعت میں مستعمل تدریسی حکمت عملیوں کے ذریعہ طلباء میں غور و فکر کرنے کے رجحان کو فروغ دیا جاسکتا ہے۔غور و فکر ، فہم و ادراک اور اطلاق و انطباق کی صلاحیت کے ذریعہ طلبہ میں کئی اہم مہارتیں مضبوط ومستحکم ہوجاتی ہیں۔معلومات کی کھوج اور دوسروں سے معلومات کے تبادلہ کے وجہ سے بچوں میں اکتساب کی ضرورت کے تحت اندرونی محرکہ بہت زیادفروغ ہوتا ہے۔
(8)کمرۂ جماعت میں معلومات اور علم کی ترسیل میں اہم وسیلہ کا کام انجام دینے والی تعلیمی اشیاء کی موجودگی لازمی تصور کی جاتی ہے۔مددگار تعلیمی اشیاء آلات و اوزاروں کو بہتر طریقے سے ترتیب دیں تاکہ کمرۂ جماعت کی ترتیب اور خوبصورتی کی بہتر عکاسی ہوسکے۔
مثبت اکتسابی ماحول کے فوائد:
کمرۂ جماعت میں ایک سازگار اکتسابی ماحول تشکیل و ترتیب کے فوائد پر ایک اجمالی نظر ڈالنا ضروری ہے۔تاکہ کمرۂ جماعت کی ترتیب و تزئین میں مناسب طریقوں کو بروئے کار لایا جاسکے۔
(۱)سازگار اکتسابی ماحول اکتساب کے لئے طلبہ کو آمادہ کر تا ہے۔
(2)طلباء کی تعلیمی ضروریات کے مطابق کارآمد تدریس انجام دی جاتی ہے۔
(3)طلبہ کی اکتسابی صلاحیتیں میں وسعت پیدا ہوتی ہے۔
(4)سست متعلم(slow learner) بھی اچھی کارکردگی انجام دینے کی ترغیب و تحریک پاتے ہیں۔
(۵)انفرادی طرز عمل اور نظم و ضبط میں عمدگی پیدا ہوتی ہے۔
(6)گزرتے وقت کے ساتھ ہر طالب علم میں بہتر سے بہتر کارکردگی انجام دینے کا یقین جاگزیں ہوتا جاتا ہے۔
(7)فطری صلاحیت اور قابلیت کے اظہار کے لئے اسٹیج دستیاب ہوتا ہے۔
(8)سازگار ماحول کی وجہ سے اکتساب منظم اور مبنی بر مقاصد ہوجا تاہے۔
(9)کمرۂ جماعت کا سازگار ماحول سنجیدہ فکر (Critical Thinking)اور تخلیقیت کے فروغ کا باعث بنتا ہے۔
(10)عملی کام کے معیار میں بہتر ی واقع ہوتی ہے۔
(11)تخیل کی پرواز اور دانشمندی کو فروغ ملتا ہے۔
(12)تعلیمی ،گفت و شنید اور دیگر زندگی کے لئے معاون مہارتیں مضبوط اور مستحکم ہوتی ہیں۔
(13)طلبہ میں مثبت رویوں کے فروغ کے ذریعہ خود اعتادی پیدا ہوتی ہے۔
(14)متواتر اشتراکی اکتسابی کے بناء پر باہمی تعلقات میں بہتر ی پیدا ہوتی ہے۔
(15)عمدہ عادات و اقدار کے لئے انفرادی اور اجتماعی ذمہ داریوں کا جذبہ جاگزیں ہوتا ہے۔ہر بچہ کسی نہ کسی فطری صلاحیت کا حامل ہوتا ہے جس کی نمو و فروغ کے لئے تربیت ضرورت ہوتی ہے جو بچہ کو اسکول فراہم کرتا ہے۔ہمارے معاشرے میں بدقسمتی سے خیال کیا جاتا ہے کہ اسکول ہی وہ جگہ ہے جہاں تعلیم دی جاتی ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ اسکول ایک درسگاہ ہے اور تعلیم دینے کے سوائے اس کا اور کوئی کام نہیں ہے لیکن یہ بات یاد رکھنی چاہیئے کہ اسکول ہی واحد ذریعہ تعلیم نہیں ہے جہاں بچہ زندگی کے تما م حقائق سے آگہی حا صل کر تا ہے۔ بچے کے گردو پیش کے احوال ہر پل اس کو اکتساب کی سمت مائل رکھتے ہیں۔ والدین اسکول انتظامیہ اور اساتذہ بچوں کی فلاح و بہبو د کے لئے تدریس میں نفسیاتی پہلووں کو پیش نظر رکھیں جس کے ذریعہ ایک خوش گوار اکتسابی ماحول کی فراہمی کو یقینی بنایا جاسکتاہے ۔نفسیاتی امور سے نا آشنا والدین ،اسکول انتظامیہ اور اساتذہ بچوں کو اکتساب سے دور کردینے کے علاوہ ملک و ملت کی تباہی کے ذمہ دار بھی ہوں گے۔