رسالہ دلگداز ۔ ایک تعارف
محمد قمر سلیم
موبائل۔09322645061
عبدلالحلیم شرر پر قلم اٹھاتے ہوئے چند لمحات کے لیے رکنا پڑتا ہے۔ ذہن یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ انھیں ادب کے کس شعبے اور کس صنف سے منسوب کیا جائے کیوں کہ کبھی وہ تاریخی ناول نگار کی حیثیت سے ، کبھی ایک انشا پرداز کی حیثیت سے ، کبھی ایک سوانح نگار کی حیثیت سے، کبھی ایک شاعر کے روپ میں اور کبھی ایک صحافی کی شکل میں ابھرتے ہیں۔
جہاں تک تاریخی ناول نگاری کا تعلق ہے تو انھیں اس کا بانی کہا جاتا ہے۔وہی اس صنف کو انگریزی ادب سے اردو ادب میں لائے۔اور ان کے سحر نگار قلم نے اسے وہ مقبولیت دی کہ ان کے بعد تاریخی ناولوں کا ایک لا متناہی سلسلہ شروع ہوگیا۔ شرر نے بے شمار مضامین لکھے جن میں انشائیے ، معلوماتی، معاشرتی، تخیلی اور تاثراتی مضامین اور سفر نامے وٖغیرہ شامل ہیں۔ مضامینِ شرر کی آٹھ جلدیں منظرِ عام پر آئیں۔شرر نے متعدد سوانح لکھیں اور اس صنف میں اپنا مقام بنایا۔ ایک شاعر کی حیثیت سے بھی وہ کسی سے پیچھے نہیں رہے۔ ان کے چار شعری مجموعے شائع ہوئے یہ الگ بات ہے کہ شاعر کی حیثیت سے وہ اتنی مقبولیت حاصل نہیں کر پائے جتنی کہ ایک نثر نگار کی حیثیت سے۔ ان کی علمی اور ادبی شخصیت کا ایک تابناک پہلو ان کی صحافت ہے۔انھوں نے اپنی زندگی کے تقریباً ۴۰ سال ایک صحافی کی حیثیت سے گزارے۔شرر نے ہفتہ روزہ، پندرہ روزہ،ماہوار اور سہ ماہی کم وبیش دس رسالے نکالے جن میں محشر، دلگداز، مہذب ، پردۂ عصمت ، اتحاد، العرفان، ظریف، دل افروز، مورّخ اور سخن سنج ہیں۔ ان میں رسالہ دلگداز سب سے اہم ہے۔اس عہدِ آفریں رسالے نے ادبی صحافت کی تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ کیا اور اسے عوام و خواص میں جو مقبولیت حاصل ہوئی وہ شرر کی کامیاب صحافت کا بین ثبوت ہے۔
اپنی اشاعت کے پہلے سال ہی میں دلگداز نے کافی مقبولیت حاصل کر لی تھی اور ہر پڑھنے والا اس کا شیدائی ہو گیا تھا۔شرر خود لکھتے ہیں۔
’’۔۔۔آج سے بائس سال پہلے جبکہ یہ بیسوین صدی شروع نہیں ہوئی تھی اورایک تمھارے ما سبق نائب زمانہ ۱۸۸۷ کا عمل تھا۔ دلگداز لکھنؤ سے جاری ہوا۔ اِس کی اُس وقت کی آب وتاب ، چمک دمک اور دلفریبی و رعنائی دیکھنے کے لائق تھی۔اور اس کی اس وقت کی میٹھی اور دل میں اتر جانے والی باتیں سننے کے قابل تھیں۔ اس وقت یہ صرف سولہ صفحات کا رسالہ تھامگر وہ سولہ صفحہ جن پر فقط عاشقانہ مضامین، خیال آرائی اور خیال آفرینی کے کرشمے ہوا کرتے تھے کیا کہین کہ کیسے پر لطف ، پر مذاق اور سراپا سوزوگداز ہوتے تھے۔ چند ہی روز مین اس کی دھوم مچ گئی ۔ اور ہر اردو زبان مین مذاق رکھنے والا اس کو دلداۂ شیدا ہو گیا۔‘‘ ۱
دلگدا ز کی شہرت کو دیکھتے ہوئے۱۸۸۸ میں اس میں سولہ صفحات کا اضافہ تاریخی ناولوں کے لیے کیا گیا۔ اس کا پہلا ناول ملک العزیز ورجنا تھا۔۱۸۸۸ میں دلگداز پریس قائم کیا گیا۔ کچھ سال پریشانیوں اور سفرِ انگلستان کی وجہ سے تقریباً ساڑھے چار سال تک متواتر نکلنے کے بعد دلگداز کی اشاعت بند ہوگئی۔ اشاعت اور عدمِ اشاعت کا یہ سلسلہ ۱۹۰۵ تک چلتا رہا۔ اس بیچ جنوری ۱۹۰۱میں
تاریخ کے لیے سولہ صفحات کا اضافہ کیا گیا اور تاریخ حروب صلیبیہ لکھی گئی۔ فروری ۱۹۰۶ میں پھر آٹھ صفحات کا اضافہ سوانح عمری کے لیے کیا گیا۔ ان صفحات پر آغائی صاحب کی سوانح شائع ہوئی۔ ۱۹۱۰ سے ۱۹۲۶ تک یعنی شرر کے انتقال تک دلگداز بنا کسی رکاوٹ کے نکلتا رہا۔ ان کے انتقال کے بعد ان کے بیٹے محمد صدیق حسن اورنگ آباد سے دلگداز کو ۱۹۳۴ تک شا ئع کرتے رہے۔
دلگداز کا مطالع کرتے وقت اور دلگدازکی فائلیں دیکھنے کے بعد دلگداز کے سلسلے میں چند دلچسپ اور اہم باتیں سا منے آئیں۔
۱۔ رسالہ دلگداز شرر کی ادارت میں تقریباً اٹھائیس سال تک جار ی رہا۔ بیچ بیچ میں دلگداز کی اشاعت کا سلسلہ منقطع ہوتا رہا۔ مختلف اوقات میں دلگداز کی اشاعت کے بند ہونے کا سلسلہ کم سے کم ایک سال ، اور زیادہ سے زیادہ ساڑھے تین سال تک کے عرصے پر محیط ہے۔ یہ خیال کہ اس کی اشاعت پانچ سال تک بند رہی ، صحیح نہیں ہے۔ دلگداز کے اجرا سے اختتام تک دفتاً فوقتاً رسالے کی اشاعت منقطع رہنے کی کل مدت کو یکجا کیا جائے توقریب تیرہ سال کے برابر ہوتی ہے۔ کسی بھی سال میں دلگداز کے مسلسل چھ شمارے شائع ہوئے۔
۲۔سفرِ انگلستان کے بعد دلگداز مارچ ۱۸۹۷ میں حیدرآباد سے شائع ہوا تھا۔ اب تک یہی سمجھا جاتا رہا ہے کہ شرر کے سفرِ انگلستان کے بعد دلگداز کی اشاعت ۱۸۹۸ سے شروع ہوئی۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جن حضرات نے دلگداز کی تاریخ بیان کی ہے انھوں نے اس کے شماروں کی تلاش اور چھان بین کے بجائے دسمبر ۱۹۰۸ کے شمارے میں بیان کردہ دلگداز کی تاریخ کو بنیاد بنا کر اس رسالے کی تاریخ لکھی ہے ۔ دلگداز کی ۱۸۹۷ کی فائل کی موجودگی میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ شرر نے سہواً ۱۸۹۷ کے بجائے ۱۸۹۸ لکھ دیا ہے۔
۳۔ شرر کے زمانے کا املا اور آج کے املا میں قدرے فرق ہے۔مثلاً لفظ ’ نہیں‘ کو اس زمانے میں ’نہین‘ لکھا جاتا تھایعنی نون غنّہ کی جگہ نون بالاعلان استعمال کیا جاتا تھا اور عام طور سے (ہ) کی علامت جسے آج کل عرف عام میں لٹکن کہا جاتا ہے نہیں لگائی جاتی تھی۔اس کے علاوہ س، ش کو عام طور سے شوشوں کے ساتھ لکھا جاتا تھا اور کشش کے ساتھ کم لکھا جاتا تھا۔
جس دور میں دلگداز نکلا اس وقت ہندوستانی عوام غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے۔ ہندوستانی معاشرہ دن بہ دن پستی کی طرف جا رہا تھا۔ ہندوستانی تہذیب وتمدن کی بنیادیں اکھڑ رہی تھیں۔ہندوستانی عوام پر مایوسی اور افسردگی کے بادل چھائے ہوئے تھے، ایسے موقع پر ایسے ادب کی ضرورت محسوس ہوتی ہے جو ان کو چین اور سکون فراہم کر سکے۔ وہ ہمیشہ کے لیے نہ سہی کچھ دم کے لیے زندگی کے مسائل سے بے خبر ہو جائیں اور ان کے دل و دماغ پر سے پریشانی اور حیرانی کے سائے کہیں کھو جائیں تاکہ وہ اپنی فکروں سے آزاد ہوکر اپنی قوم، اپنے ملک، اپنی تہذیب کے تحفظ اور فروغ کے لیے سوچ سکیں۔حالانکہ اس دور میں بہت سے اچھے اور برے رسائل و اخبارات شائع ہو رہے تھے لیکن ضرورت تھی ایک ایسے رسالے کی جو ان تمام باتوں کو پورا کر سکے۔ ان ہی باتوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے شرر نے دلگداز نکالا۔ دلگداز کے اغراض و مقاصد کے بارے میں خود شرر بہت انوکھے انداز میں لکھتے ہیں:۔
’’قومی اغراض قوم سے بیان کرنے کے لیے اس وقت صدہا اخبارات جاری ہیں ۔ بلکہ بعض اخبارات بڑی محنت و جانکاہی سے اپنا فرض ادا کر رہے ہیں۔ ایسے وقت میں ایک اورپرچے کا نکال دینا کسی حیثیت سے مفید نہین ہو سکتا۔ مگر ’’دلگداز‘‘ اس غرض سے شائع کیا گیا ہے کہ اپنے موثر اور دل ہلا دینے والے الفاظ اگر قوم کے دلوں پر فتح نہ پا سکے تو اپنا قومی مرثیہ آپ ہی پڑھے اور آپ ہی روئے۔ اور اس بہانے سے اپنے دل کا بخار نکال ڈالا کرے۔‘‘ ۲
شرر نے اسی مقصد کو حاصل کرنے کے لیے دلگداز کے مضامین میں اتنی جدّت ، جوش و خروش پیدا کرنے کی کوشش کی کہ ان کے مضامین کے الفاظ قارئین کے دل پراثر انداز ہوں۔اسی مناسبت سے انھوں نے اپنے رسالے کا نام دلگداز رکھا۔ شرر کے اس رسالے نے قوم پر خاطر خواہ اثر کیا۔ دلگداز کے الفاظ نے قوم کے دلوں کو پگھلا دیا۔ دلگداز شرر کی امیدوں کے موافق رہا۔ اس کے دل ہلا دینے والے اور موثر انداز نے ہی دلگداز کو آسمان کی بلندیوں تک پہنچا دیا۔رسالہ دلگداز ایسی بہت سی خوبیوں اور خصوصیات کا مالک ہے جن کی بدولت اسے ادبی رسائل میں ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ اس رسالے کی سب سے منفرد خصوصیت یہ تھی کہ اس میں زیادہ تر مشمولات شرر کے قلم سے لکھے ہوئے تھے۔اپنے دور کا یہ پہلا رسالہ تھا جس میں اس کے مدیر کے لکھے ہوئے مختلف اصناف پر متعدد مضامین تھے۔ دوسری خصوصیت یہ ہے کہ شرر نے اس رسالے کے ذریعے تاریخی ناولوں کی بنیاد ڈالی اور اردو ادب کو ایک نئی صنف سے روشناس کرایا اور اپنے آپ کو تاریخی ناول نگاری کا بانی کہلوایا۔ان کے تاریخی ناولوں کو ان کے حریف محمد علی طبیب نے اور تقویت پہنچائی ۔ دلگداز کی یہ بھی خصوصیت ہے کہ اس میں سوانح کا ایک سلسلہ شروع کیا گیا ۔ شرر نے دلگداز کے ذریعے انگریزی شاعری کی صنف بلینک ورس کونظم
غیر مقفّیٰ اور نظم معرّیٰ کے نام سے ر وشناس کرایا اور باقاعدہ اس کی تحریک شروع کی ۔ دلگداز کے کئی شماروں میں اسی صنف پر سلسلہ وار بحث کی گئی اور انگریزی سے اردو میں ترجمے چھپے۔ شرر نے اردو شاعری میں ہئت کے تجربوں پربھی بحث کی ۔ انھوں نے نئے لکھنے والوں کو ادبی دنیا سے روشناس کرایا اور ان کے مضامین اور ان کے کلام پر ناقدانہ رائیں پیش کیں۔
دلگداز کے اداریے خاصے اہمیت کے حامل ہیں۔شرر نے ان اداریوں کے ذریعے ہندوستان کی تہذیب و تمدن ، اپنے حالاتِ زندگی، دلگداز کے نشیب و فراز، اپنی قوم کی روداد ، اپنے زمانے کی ستم ظریفیاں ، ہندوستان کے بدلتے ہوئے حالات ، تہذیبی اقدار کی پستی،غرض یہ کہ ہر پہلو سے اپنے دور کی تصویر کشی کی ہے۔ کسی مدیر کے لیے اتنا سب کچھ کرنا بہت مشکل کام ہے۔ انھوں نے
ایک ہی وقت میں کئی کتابیں لکھیں۔ کئی کئی رسالے ایک ساتھ نکالے پھر بھی انھوں نے اپنی تحریر میں جھول نہیں آنے دیا۔ اس میں وہی چاشنی تھی ، وہی مٹھاس تھی۔ ان کی ہر تحریر کو قاری بڑے چاؤ سے پڑتاتھا۔دلگداز نے اپنی پوری زندگی میں کئی دور دیکھے ، کتنے ہی نشیب و فراز سے گزرا۔ آندھیوں اور طوفانوں کا سامنا کیا۔ سنگلاخ راستوں پر مسافت طے کی لیکن اپنے وجود کو ختم نہیں ہونے دیا ۔ ایک وہ بھی دور تھا جب ہر طرف دلگداز کا بول بالا تھا، ہر کوئی اس کا شید ائی تھا۔اس وقت دلگداز آنکھوں کا سرور ، دل کا قرار تھا لیکن ایک دور وہ بھی آیا جب اس کی مقبولیت میں کمی آگئی، اس کو پڑھنے والا طبقہ محدود ہونے لگا اور ایک دور وہ بھی آیا جب دلگداز پستی کی طرف جانے لگا۔ اس وقت ایک مخصوص طبقہ ہی دلگداز کا مطالعہ کرتا تھا۔زمانے کی ترقی اور حالات کو دیکھتے ہوئے عوام چاہتے تھے کہ دلگداز میں کچھ نیا پن ہو۔ باوجود
کوشش کے شرر دلگداز میں نیا پن نہ لا سکے۔عوام ان کی تحریروں کے ساتھ ساتھ دوسرے لوگوں کی تحریروں کو بھی دیکھنا چاہتے تھے لیکن شرر ایسا نہ کر سکے۔ اسی دور میں ان کے مقابلے پر نہ جانے کتنے رسالے منظرِ عام پر آچکے تھے اور اپنا اثر جما چکے تھے۔ ان میں حسرت موہانی کا اردوءؤ معلیٰ، دیا نارائن نگم کا زمانہ ، شیخ عبدالقادر کا مخزن ، نیاز فتحپوری کا نگار ، سیّد سلیمان ندوی کا معارف اہمیت کے حامل ہیں ۔ ان تمام رسائل کی موجودگی میں دلگداز کی چمک دمک ماند پڑ گئی تھی۔
دلگداز کا اپنا ایک منفرد اسلوب تھا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ایک ہی آدمی کے قلم سے اتنی دلفریب ، دل کو لبھانے والی ، دل کو پگھلانے والی، چاشنی میں ڈوبی ہوئی ، محبت کے جذبے سے لبریز، چاق وچوبند فقروں سے بھری ہوئی تحریریں کیسے نکل آتی تھیں۔دلگداز کا ایک ایک مضمون اپنی جگہ اندازو بیان کی خوبیوں سے معمور تھا۔جہاں تک دلگداز کی مقبولیت کا تعلق ہے اس کی مقبولیت اس کے مضامین کی خاطر ہوئی حالانکہ شروع شروع میں دلگداز کے مضامین خیالی ہوا کرتے تھے بعد میں دلگداز کے مضامین معلوماتی اور دوسرے امور سے منسلک ہو گئے تھے۔اس کے مضامین کے اندازو بیان اور زبان ایسی تھی کہ ہر کوئی دلگداز کا رسیا ہوگیا تھا۔ اس کے تاریخی ناولوں نے دلگداز میں چار چاند لگا دیے تھے۔ خود شرر کی زبانی:
’’۔۔۔ ہندوستان میں ہر طرف دلگداز ہی کا چرچا تھا۔ اسوقت نہ کوئی ایسا رسالہ ملک میں جاری تھا جو دلگداز کا مقابلہ کر سکے اورنہ کوئی زبان کا رسیا تھا۔ جسے بغیر دلگداز کی صورت زیبا دیکھے چین آئے۔اس کے مضامین کی ہرطرف دھوم تھی۔ اور اس کے ناول ، اردو لٹریچر، قومی جوش اور تاریخی دلفریبیوں کے ایسے نمونے تھے کہ ہر زبان پر اُن کا چرچا تھا اور ہر گھر میں اُن کا تذکرہ۔‘‘۳
غرض یہ کہ مضامین پرمشتمل ۱۶ سے ۲۴ صفحات کے اس رسالے نے نہ صرف یہ کہ اپنے زمانے میں دھوم مچائی بلکہ اس کے دلفریب مضامین ، مفید اور اہم کتابوں پر تبصرے ، نایاب مواد نے آنے والے زمانے پر اپنی مہر ثبت کر دی اور اپنی دلفریبی کے نقش چھوڑ دیے ۔ یہی نہیں آنے والے دور کے مصنفین، محقق دلگداز کے مضامین ، ناولوں ، تاریخوں وغیرہ سے مستفید ہوتے رہیں گے۔
——-
حواشی:
۱۔ص ۱۔۲، دلگداز۔دسمبر ۱۹۰۸ ء
۲۔ص ۵، دلگداز۔ جنوری ۱۸۸۷ ء
۳۔ص ۲، دلگداز۔دسمبر ۱۹۰۸ ء
اشاریہ دلگداز۔ محمد قمر سلیم ۲۰۰۳ ء
——
——
محمد قمر سلیم
ایسوسی ایٹ پروفیسر
انجمنِ اسلام اکبر پیر بھائی کالج آف ایجوکیشن
واشی ، نوی ممبئی
موبائل۔09322645061