رہنمائے والدین
ابوعبدالقدوس محمد یحییٰ
راقم التحریر گزشتہ ربع صدی سے شعبہ درس وتدریس سے وابستہ ہے اور کسی نہ کسی انداز سے پری پرائمری کے طلبہ سے لے کر ماسٹر لیول کے طلباء تک درس و تدریس اور طلبہ کی مختلف امور میں رہنمائی کر چکا ہے ۔یہ کہنے کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ ان سطور میں عاجزجو کچھ قارئین کی خدمت میں پیش کررہا ہے وہ اپنے ذاتی تجربات ومشاہدات کے ساتھ بزرگوں سے سنی گئی باتیں یعنی مسموعات اورمرویات کی روشنی میں تحریر کررہا ہے جوان شاء اللہ العزیز بنین وبنات کی تعلیم وتربیت میں مفید ومعاون ثابت ہوسکتے ہیں۔
موجودہ سائنس،ٹیکنالوجی اورجدید ذرائع ابلاغ کے دورمیں جہاں زندگی میں بہت سی آسانیاں فراہم ہوئیں ہیں وہیں آج والدین کے لئے فرائض کی ادائیگی بھی مشکل ہوگئی ہے۔بچوں کی تربیت بہت ہی صبر آزما ،طویل المیعاداور کل وقتی کام ہے جو مہینوں نہیں بلکہ برسوں پر محیط ایک جہد مسلسل سے عبارت ہے۔تعلیم وتربیت والدین سے ہمہ وقت تحمل، بردباری اور برداشت کے ساتھ جس اہم قیمتی شے کی متقاضی ہے وہ” وقت” ہے۔ والدین اپنی گوناگوں مصروفیات سے وقت نکال کر بچوں کے ساتھ گزاریں کیونکہ اگر بچوں سےتعلق وربط قائم ہوجائے گاتو تربیت کاعمل آسان اورموثرہوجائے گا ۔ بچہ موم(Plastic) کی طرح ہے اس کو جیسا ڈھالیں گے ویسا ہی نقش بن جا ئے گا اوریہ ذہن نشین رہے کہ بچپن کے نقوش گہرے اوردیر پا ہوتے ہیں ۔ یہ ایسے انمٹ نقوش ہوتے ہیں جو بڑھاپے تک انسان کا پیچھا نہیں چھوڑتے۔ لہذاکوشش کی جائے کہ ابتداء ہی سے بچوں کی تعلیم وتربیت صحیح خطوط پر استوار ہو جائے۔بعداز خرابی بسیار خواہ کسی کو بھی الزام ٹھہرایا جائے یہ لاحاصل بحث ہوگی۔ وہ وقت واپس نہیں آئے گا اور کف افسوس ملنے کے سوا کوئی چارہ نہ ہوگا۔
ایسا نہ ہو کہ درد بنے درد لازوال
ایسا نہ ہو کہ تم بھی مداوا نہ کرسکو
بہرحال بچوں کے برے رویوں یا خراب تربیت کی ذمہ داری والدین پر بھی عائد ہوگی۔اور اس پچھتاوا ،ندامت اورحسرت کا عفریت قبر تک والدین کا تعاقب کرتا رہے گا۔ والدین کو دیانتداری سے اپنے رویہ پر غور کرنا چاہئے۔ بچہ جو کچھ بنتا ہے اس میں وراثت سے زیادہ اس کے ماحول اوروالدین کی تربیت کا دخل ہوتاہے۔ ذیل میں چند مفید گزارشات پیش خدمت ہیں ۔
جسمانی نشوونما:
بچہ کی ذھنی نشوونما اور تعلیم و تربیت کے ساتھ اس کی جسمانی صحت کا اچھی طرح خیال رکھاجائے کیونکہSound mind is in sound body.۔صحتمند دماغ صحتمند جسم میں ہوتاہے۔ اس سے غفلت برتنے کے نتیجے میں بچے بیماریوں کا شکار بھی ہوسکتے ہیں ۔ایک بزرگ کا قول ہے کہ تندرستی سب سے بہتر لباس ہے اور جہالت سب سے دردناک مرض ہے۔ بقول رالف ایمرسن (Ralph Waldo Emerson 1882):”سب سے بڑی دولت صحت مند جسم ہے ۔”
نہیں صحت کے برابر کوئی نعمت ہرگز
ہونہ صحت تومیسرنہ ہوراحت ہرگز
حقیقت واقعہ یہی ہے کہ صحت کے بغیر انسان کو راحت وسکون میسرآہی نہیں سکتا۔قربان علی سالک بیگ کا یہ شعر اپنی جگہ کہ”تنگدستی اگرنہ ہوسالک، تندرستی ہزار نعمت ہے”،لیکن میں تو یہ کہنے میں حق بجانب ہوں گا کہ”تنگدستی اگرچہ ہوسالک، تندرستی ہزار نعمت ہے” تنگدستی کے باوجود ایک صحتمند شخص اپنی زندگی سے لطف اٹھاسکتا ہے نہیں اس کے برعکس ایک امیر لیکن بیمارشخص کسی بھی طور پر پرلطف زندگی نہیں گزارسکتا۔ ان کے لئے اسحاق جلالپوری کا یہ شعر
خدا کی دین ہے صحت عزیزو
نہ ہوصحت تو جینے کا مزا کیا
الغرض صحت رب کائنات کی طرف سے نعمت غیر مترقبہ اور تحفہ بے بدل ہے۔ احسن الخالقین رب کائنات نے بہترین انداز سے انسانی مشینری بنائی اور اس کے تمام اعضاء کی حفاظت فرمائی ہے -قدرت نے اصل وبنیاد صحت کو بنایا ہے ،بیماری تو انسان کی بدنظمی،بے ترتیبی ، جہالت اور اپنی جان پر ظلم کرنے کے سبب پیدا ہوتی ہے۔ ہمارے جسم کے اندر ایسے ایسے نظام موجود ہیں کہ چھوٹی موٹی غلطیوں کی اصلاح تو وہ خود ہی کرتے رہتے ہیں۔ ہاں جب ظلم حد سے زیادہ بڑھ جاتا ہے،بدنظمی انتہاء کو پہنچ جاتی ہے تو پھر بدن بھی چیخ پڑتا ہے ،درد کرنے لگتا ہے، اور رفتہ رفتہ صحت مند جسم بیمارہوکرتانوانی میں ڈھل جاتاہے ۔ پھرکہیں جا کرانسان کو احساس ہوتا ہے کہ وہ کس قیمتی چیزسے محروم ہو چکا ہے۔جیسا کہ عربی مقولہ ہے:تعرف الاشیاء باضدادھا’’چیزیں اپنی اضداد سے پہچانی جاتی ہیں ۔‘‘روشنی کی اہمیت کا اندازہ تاریکی پھیل جانے کے بعد ہوتا ہے ، اسی طرح انسان کو اپنی صحت کی قدر و قیمت بھی اس وقت معلوم ہوتی ہے جب وہ مختلف امراض کا شکار ہو جائے۔
مشقت کا عادی بنانا :
بچوں کومحنت ومشقت کا عادی بنایا جائے۔ ان کے اذہان میں یہ بات راسخ کرائی جائے کہ حرکت میں برکت ہے۔ مسلسل حرکت ہی کانام زندگی ہے۔پانی جب تک بہتا رہتا ہے صحیح وتروتازہ رہتا ہے ورنہ اس میں بدبوپیداہوجاتی ہے ۔
؎ جاوداں پیہم رواں ہردم جواں ہے زندگی
اگرآپ بچوں کومحنت ومشقت کا عادی بنائیں گے تو وہ سخت جان ،حوصلہ مند بنیں گے اور ہر قسم کے حالات کا مردانہ وار مقابلہ کرنے کے قابل ہوں گے۔ لیکن اگر تن آسانیوں میں رکھیں گے ہر وقت ان کے چونچلے پورے کرنے میں لگیں رہیں گے تو عین ممکن ہے کہ ان کی حساسیت کا عالم یہ ہوجائے کہ بیس گدوں پر لیٹنے کے باوجود ایک مٹر کا دانہ بھی ان کے لئے اذیت کا باعث بن جائے۔ ایسے لاڈ پیار کا طرز عمل بچوں کے ساتھ محبت وشفقت نہیں بلکہ ان پر ظلم عظیم ہوگا ۔اس نشوونما کے حامل بچوں پر تو یہ مصرعہ ہی صادق آسکتاہے :
نزاکت کا یہ عالم ہے کہ گل توڑےتو بل کھائے
اورپھر اسی نہج پر ترقی کرتے کرتے ایک وقت ایسا بھی آئے گا کہ جب وہ یہ کہنے پر مجبور ہوجائیں گے۔
فرش مخمل پر مرے پاؤں چھلے جاتے ہیں
کیلا کھانے سے میرے دانت ہلے جاتے ہیں
آج کل بچے بہت زیادہ سہل پسند ،آرام طلب ہوچکے ہیں کہ اگر تھوڑا بھی پیدل چلنا پڑے تو فورا اپنے والدین سے کہتے ہیں اماں میری ٹانگوں میں درد ہے،ٹانگوں میں درد ہے میں چل نہیں سکتا۔اس درد کا علاج صرف اورصرف چلنے میں ہے۔ آرام سے یہ درد بڑھتا ہی جائے گا۔ یہاں پر ایک لطیفہ انتہائی مناسب ہوگا کہ ایک باپ نے اپنے بچے سے دریافت کیا
باپ :بیٹا کیوں پیدل چلیں یا کسی سواری پر؟
بیٹا :آپ کی مرضی ہے ویسے اگر پیدل چلنا ہے تو مجھے گود اٹھا لیں۔
ایسے سہل پسند اورآرام طلب بچوں کے لئے ایک حکایت پیش خدمت ہے کہ ایک دفعہ ایک بدو کو بخار ہوا ۔وہ آرام کرنے کے بجائے تپتے ہوئے صحرا میں چلا گیا وہاں جاکر اس نے اپنے بدن پر تیل کی مالش کی اور تپتی ہوئی گرم ریت پر لوٹنے لگا اور ساتھ ہی یہ کہتا جاتا اے بخار! توغلط جگہ آگیا تو کسی امیر کے پاس جاتا جو نرم گدوں پر لیٹتا ،یخنی اور پھل وغیرہ استعمال کرتا ۔میرے پاس نہ تو نرم گدے ہیں ،نہ ہی یخنی اورپھل اور نہ ہی اتنا وقت کہ میں آرام سے لیٹ سکوں وہ اتنی دیر لوٹتا رہا یہاں تک کہ بخار اتر گیا اور وہ شخص صحت مند ہوکر واپس آگیا۔یہ صرف ان افراد کے لئے جو اتنے محنت وجفاکش ہوں ورنہ بجائے فائدے کے شدید نقصان کا خدشہ ہے۔
نیز یہ بھی ذہن میں رکھیں زندگی نشیب وفراز سے مرکب ہے۔کسی کو کچھ خبر نہیں کل کیا ہو ایسی صورت میں سختیاں اورمصائب درآنے کے بعد ایسے افراد ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ان میں جرات وحوصلہ نہیں رہتا کہ وہ مصائب وشدائد کا سامنا کریں اور ناانصافیوں سے بھری اس دنیا میں اپنا کوئی مقام پیدا کریں۔پاکستان وبنگلہ دیش کا قیام یا پھر 2005 کا زلزلہ اس کی نمایاں مثالیں ہیں۔ جب امرا بھیک مانگنے پر مجبور ہوئے۔
یہاں حقیقی زندگی میں رونما ہونے والے حادثہ کا تذکرہ غیر ضروری نہ ہوگا جس میں ایک آدمی جو انتہائی شاندار گاڑی ڈروائیو کررہاتھا چلاتا ہوا آرہا ہے اچانک دوسری طرف سے ایک سوزکی والا آیا دونوں کچھ اس انداز سے آئے کہ حادثہ یقینی لگ رہا تھا لیکن خدا کی قدرت دونوں کے لاشعوری طورپربروقت بریکیں لگانے کے باعث ان کی گاڑیاں ٹکرانے سے بھی محفوظ رہیں اور ایک آدھ فٹ کے فاصلے پر ہی رہیں۔جب سوزکی والا باہر کار والے کے پاس آیا تو اسے بے ہوش پایا۔وہ بے ہوش کیوں ہوا تھا ۔یقینا کمزوراعصابی نظام کے باعث ورنہ ظاہری یا جسمانی اعتبار سے تو اسے ایک خراش تک نہ آئی تھی۔
کاہلی سے بچاؤ :
سستی ایک عالمگیر بیماری ہے۔جو صحت کے لئے سم قاتل ہے۔سستی کا شکار افرادناتوانی کا شکاررہتے ہیں اور آئے دن گوناگوں بیماریوں میں مبتلارہتے ہیں ۔اس طرح وہ اپنی صحت سے بھی ہاتھ دھوبیٹھتے ہیں اورکبھی تندرست وتوانا نہیں ہوتے ۔
سست لڑکے نہیں ہوتے ہیں تواناہرگز
اپنی صحت کو نہ سستی میں گنوانا ہرگز
ورزش کی اہمیت:
آرام کرنے کی اہمیت سےتو ہرایک آگاہ ہے۔جان لیں کہ ویسے ہی ورزش بھی صحت کے لئے ضروری ہے۔ بامقصد اوربامعنی ورزش کی کوشش کی جائے کہ جسم کے تمام عضلات کی ورزش ہو۔یہاں ورزش کی اہمیت کے سلسلے میں یہ بھی ذکر کرتا چلوں کہ ورزش کرنے سے بظاہر انسان اپنا ایک آدھ گھنٹہ ضائع کررہاہوتاہے اورشاید وہ یہ سوچتا بھی ہو کہ اگر وہ یہ گھنٹہ دیگر کاموں میں لگا لے توانہیں پایہ تکمیل تک پہنچاسکتاہے لیکن درحقیقت ایسا نہیں۔ کیونکہ ورزش کرنے والے احباب اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ ورزش انہیں جسمانی و ذہنی توانائی فراہم کرتی ہے نیز ان کی نقل وحرکت میں بھی چستی فراہم کرتی ہے جس کی بدولت جو کام بغیر ورزش کے وہ ایک گھنٹہ میں کررہا تھا اب وہ صرف آدھ گھنٹے میں کرلے گا۔ نیز وہ طویل دورانیہ تک یکسو ہوکربہتر کام بھی کرسکتا ہے۔
ورزش کے بارے میں تحریرکرنے کے بعد یہاں نماز اورتلاوت کا ذکر غیرضروری نہ ہوگا۔ بظاہر سیکولر زاویہ سے دیکھا جائے تو انسان نماز کے بجائے دوسرے کام کرے مثلاً تحصیل علم ہی میں لگا رہے تو وہ فائدہ میں رہے گا۔نماز اس کے کاموں میں رکاوٹ ڈالتی ہے۔ بعض کو تو کہتے سنا گیا ہے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر پانچ وقت نماز فرض اس لئے کی ہے کہ مسلمان ترقی نہ کرسکے ۔مسلمان نمازوں کے چکر سے ہی باہر نہیں آتے۔ ان کے شیڈول اوردیگر کام بھی نمازوں کے اوقات سے ہی جڑے ہوتے ہیں۔انسان یکسو ہوکرکوئی کام شروع بھی نہیں کرتا کہ اسے دوسری نماز کے لئے اٹھنا پڑتا ہے۔ یہ سوچ بالکل غلط ہے۔
نفسیات دان میری اس بات سے اتفاق کریں گے کہ انسان کو چھوٹے چھوٹے وقفے (انٹرویل) لینے چاہئے خواہ وہ کمپیوٹر پر کام کررہاہے ، تعلیم سے وابستہ ہے یا کسی اور کام میں مشغول ہے، بہرحال وقفہ (نماز کی صورت میں بھی ہوسکتا ہے!)انسان کے لئے بہت مفید ہے۔
انسانی ذہن کبھی نہیں تھکتا ۔ وہ مستقل غوروفکر میں مشغول رہتاہے۔ لیکن کسی ایک ہی نکتہ پر توجہ (فوکس) کرنے سے ہمارا ذہن قاصر ہے۔(اگرچہ ہر شخص کی استعداد مختلف ہے۔ لیکن ہر ایک لئے ایک مقام ایسا ضرور ہے اس کے بعد وہ اپنی توجہ کو برقرار نہیں رکھ پاتا جسے انگریزی میں Sustained Attention کہتے ہیں۔یہی وہ مقام ہے جب وہ تھوڑی دیر کے لئے اپنی سرگرمیاں بدلنا نہایت ضروری ہوجاتاہے تاکہ اس سے اس کا ذہن تازہ دم ہوکر نئے انداز نئی قوت سے دوبارہ اس کام میں واپس آتا ہے جس سے اس کے کام کی رفتار پہلے سے کئی گنا بڑھ جاتی ہے یوں یہ وقفہ اس کے لئے بہت ہی مفید اورکارآمد ثابت ہوتاہے۔
ذہنی نشوونما:
جسمانی نشوونما کی طرح ذہنی نشوونما بھی بہت ضروری ہے۔ زبان کی نشوونما بھی ذہنی نشوونما کا ایک انتہائی اہم پہلو ہے ۔مزید توجہ،آموزش(تعلم)،دلچسپی بھی اس کے اہم موضوعات ہیں۔ جن پر توجہ دینی چاہئے۔
زبان کی نشوونما:
بچپن میں جیسی گفتگو اور آداب بچوں کو سکھائے جائیں گے وہ تمام عمر اس ہی روش پرچلتے ہیں گے ۔ بچوں کی زبان کی اصلاح کے لئے ان کے سامنے شائستہ اور اچھی گفتگو کی جائے ، اچھے الفاظ منتخب کئے جائیں ۔ بچہ کا ماحول صاف ستھرا، پاکیزہ اور اچھا ہو۔ عرب اس حقیقت کو سمجھتے تھے کہ زبان کی فصاحت کے لئے سازگار ماحول درکار ہوتا ہے اسی لئے وہ فصاحت لسان کے لئے بچوں کو قبائلی اوردیہی علاقوں میں بھیجاکرتے تھے۔اگربچوں کودوسری زبانوں کی تعلیم دینی ہو تو اس کے لئے بھی سازگار ماحول بنایا جائے۔ تاکہ دیگرزبانوں کا حصول سہل ہوجائے گا۔ ویسے بھی زبان کی تدریس کے لئے Direct Method زیادہ موثر اورکارگر ہوتاہے۔
بچوں کو بات چیت اورکلام کے موقع محل سے بھی آگاہ کیا جائے کہ کب، کیسے،کہاں اورکیا بات کرنی ہے اورکس وقت خاموشی بہتر ہے۔ خاموشی کی تلقین بھی ایک اہم اور بنیادی نکتہ ہے۔اورزباں وزیاں میں اسی ایک نکتہ کا فرق ہے جسے عام طور پر نظراندازکردیاجاتاہے۔
زباں اپنی حد میں ہے بیشک زباں
بڑھے ایک نکتہ تو یہ ہے زیاں
حاضر دماغی:
تحصیل علم کے لئے یکسوئی اورتوجہ کی بہت اہمیت ہے۔یعنی ذہن کا اپنے گردو پیش سے باخبر ہونا اوراسی مقام پر حاضر ہوناضروری ہے۔ ذہن ایک بادشاہ کی مانند ہےجو بہت آرام طلب ہے۔ یا یہ وہ سرکش وبے لگام گھوڑا ہے جو توجہ مرتکز نہ ہونے کی صورت میں فوراً بھٹک جاتاہے۔ اس کا بھٹکنا انسان کو غیرحاضر دماغ بنادیتا ہے۔یعنی جہاں اس کا جسم ہو وہاں سے یہ غائب ہوکر انسان کو ناکارہ کردیتا ہے۔کیونکہ اس وقت انسان کے ذہن کا جسم سے رابطہ منقطع ہوجاتاہے۔پھر وہ شخص نہ کچھ یاد کرسکتا ہے نہ اس کو خبر ہوتی ہے کہ ارد گرد کیا ہورہا ہے حتی کہ اس کے اپنے ہاتھ سے کیا گیا کام بھی اسے یاد نہیں ہوتا مثلاً ہاتھ کہیں کوئی چیز رکھ کر بھول جاتا۔اس نے کوئی چیز کہاں رکھی وغیرہ وغیرہ۔
سماعت:
سماعت کا اچھا اورمحفوظ ہونا نہایت ضروری ہے ۔سماعت صرف کانوں تک آواز آنے کو نہیں کہتے بلکہ اس سے hearing کے بجائے attentive listening مراد ہے۔اصطلاحی زبان میں بیک گراؤنڈ میں کھوجانے کے بجائے اپنے مقصد یا فگر میں ہمہ تن محو رہنا۔جب کہ انسانی رویئے اس کے برعکس ہیں ۔ وہ فگر کو بھول کر بیک گراؤنڈ میں گم ہوجاتے ہیں اور اپنے مقصد سے دور ہوکر تحصیل علم میں ناکام و نامراد رہتے ہیں ۔
بچوں کو بچپن سے سماعت کی تربیت کی جائے۔ کیونکہ ہمارا معاشرتی المیہ ہے کہ ہم اپنے ذہن میں فیڈ باتوں پر ہی غور کرتے رہتے ہیں اور دوسروں کی باتوں کو توجہ سے سنتے ہی نہیں۔بلکہ آغاز کلام ہوتے ہی یہ سوچ رہے ہوتے ہیں کہ مجھے کیا کہنا ہے۔یہاں بطور لطیفہ ہٹلر کا واقعہ غیر ضروری نہ ہوگا ۔کہا جاتاہے کہ جنگ عظیم کے زمانے میں ہٹلر کا پرسنل سیکرٹری اپنے باس کی ہدایات کے مطابق پہلے سے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کسی دوسرے ملک کے نمائندہ سے فون پر بات چیت کررہاتھا۔وہاں ہٹلر بھی چہل قدمی کررہا تھا۔اب ہٹلر کے پرسنل سیکرٹری کی گفتگو ملاحظہ فرمائیں:
No, No, No, No, No, No, ایک بار Yesکہتا ہے پھر No, No, No, No, No, No,
اس کا پرسنل سیکرٹری ہر بات کا جواب "نو” کہہ رہا تھا۔ درمیان میں اس نے ایک بار "یس ” کہا اور پھر آخر تک نو کہتا رہا۔
لیکن جب اس نے یس کہا تو ہٹلر کا چہرہ غصہ سے سرخ ہوگیا۔
جیسے اس کے سیکرٹری نے فون کریڈل پر رکھا ہٹلر غضبناک لہجے میں اس پر دھاڑا میں نے کہا تھا کہ یس نہیں کہنا تم نے کیوں کہا ۔اس کے سیکرٹری نے جواب دیا سر اس نے پوچھا تھا کہ تمہیں میری آواز آرہی ہے میں نے کہا یس ورنہ ہر بات کا جواب میں نو میں دیا ہے۔
یعنی اپنے ذہن میں موجود بات کو کرنے کے لئے دوسرے کی بات کا ایک نقطہ سنتے ہی جواب باندھ لیتا ہے جس سے حقیقی افہام و تفہیم کرنا ممکن نہیں رہتا۔تحصیل علم کے لئے یا دوسروں کے موقف کو جاننے کے لئے خو د کونیوٹرل وغیرجانبدار رکھو ،بات سنو پھر فیصلہ یا حکم لگاؤ۔
عقل کا استعمال:
عقل ودانائی اللہ رب العزت کی ایک نعمت ہے۔ نعمت کا شکر اس کا صحیح استعمال ہے نہ کہ سرے سے اسے استعمال ہی نہ کیا جائے۔ بخیل بن کر اگر کوئی شخص عقل استعمال نہیں کرے گا تو یہ عقل اسے فائدہ نہیں دے سکتی۔ عقل وحکمت استعمال سے بڑھتی ہے۔یعنی جتنا زیادہ استعمال کی جائے اتنا ہی انسان کی استعداد بڑھتی ہے۔ نہ کہ ایک دیہاتی کی مانند جو عقل مطلق استعمال کرتا تھا۔ جب اس کے استاد نے اس سے دریافت کیا کہ تم عقل کیوں استعمال نہیں کرتے تو اس نے جواباً کہا ۔جب اللہ تعالیٰ عقل کے متعلق پوچھے گا کہ ” اللہ سائیں آکھسیں کہ عقل یکا ورتا چھڈی ” کیا تم نے ساری عقل استعمال کرلی ہے تو پھر میں کیا جواب دوں گا۔یہ تو مزاح تھا ۔عقل ودانائی اورعلم وحکمت جتنا زیادہ خرچ ہوں اتنا ہی استعداد اورقابلیت بڑھتی جاتی ہیں۔
تجسس:
تجسس(Curiosity) کا مادہ ہر انسان میں ہوتا ہے۔اگر اسے اپنے اردگرد کوئی ایسی شے نہ ملے جس کی وہ ٹوہ میں لگ سکتا ہوتو وہ اپنی ہی ذات کے بارے میں متجسس رہتا ہے۔ وہ کیا ہے؟کیوں ہے؟
بقول جگرمراد آبادی
اسی تلاش وتجسس میں کھوگیا ہوں میں
اگرنہیں ہوں توکیونکر،جوہوں توکیاہوں میں
بچوں میں تجسس کا مادہ بہت زیادہ ہوتا ہے۔بچہ ہر واقعہ اور شے کی جزئیات سے واقف ہوناچاہتاہے۔ اس میں جاننے کی خواہش بدرجہ اتم موجود ہے اور وہ ہمہ وقت کسی نہ کسی جستجومیں رہتاہے۔بقول خاطر غزنوی
اک تجسس دل میں ہے یہ کیا ہوا کیسے ہوا
یہی وہ مادہ ہے جوبچوں کو آگے بڑھنے اورترقی کرنے میں مدد دیتاہے۔ اس کا مفیداور مثبت استعمال ہونا چاہئے۔بچہ کوسوال کرنے پر کبھی نہ تو جھڑکا جائے نہ ہی سوال کرنے سے منع کیا جائے۔اس کے سوالات کا جواب تشفی بخش طریقے سے دیا جائے اور اگر کچھ امور بچے سے پوشیدہ بھی رکھنا چاہتے ہیں تو ایسا کرتے ہوئے بچہ کو یہ محسوس نہ ہونے دیاجائے کہ اس سے کچھ چھپایاجارہاہے اس کا مطلب یہ نہیں کہ اسے سب کچھ بتادیاجائے لیکن حکمت و دانائی کامظاہرہ کیاجائے۔ اور اس کے سوالات کا رخ کسی اورجانب پھیر دیاجائے۔یہ ذہن میں رہے کہ صحیح سوال کرنا علم کی کنجی اور نصف علم ہے۔مشہور فلسفی فرانسس بیکن (Francis Bacon 1627) کے نزدیک جو جوزیادہ پوچھتا ہے وہ زیادہ سیکھتا ہے اور زیادہ تسکین پاتاہے۔ بچوں میں جذبہ تجسس کا مثبت استعمال بہت مفید اور علم کی ترقی میں کارآمد ہے۔
مطالعہ کی رغبت:
بچوں میں مطالعہ کی رغبت پیدا کی جائے۔ مطالعہ زندگی کی علامت ہے اور کتب سے دوری انسان کی موت ہے۔ مطالعہ سے علمی ترقی ہوتی ہے پھر اس کی مدد سے انسان کامیابیوں اور کامرانیوں کے زینے چڑھتا رہتاہے ۔کتاب بہترین رفیق ہے اور اس سے حاصل کردہ شے علم انسان کو سرشاررکھتا ہے:
سرورِ علم ہے کیفِ شراب سے بہتر
کوئی رفیق نہیں ہے کتاب سے بہتر
نہ یہ کہ بچوں کو مطالعہ سے نفور پیدا کیا جائے ۔جیسا کہ ہمارا معاشرتی رویہ ہے کہ جب بچہ کتابیں مانگتا ہے تو ماں باپ اس کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں۔ یہاں حقیقی زندگی کا ایک واقعہ بطور لطیفہ پیش خدمت ہے۔
ایک شخص سے اس کے بچے نے ڈکشنری منگوائی۔ ایک ہفتے بعد اس نے اپنے والد سے ایک اورکتاب کی خواہش ظاہر کی۔ اس کے والد نے اسے جھڑک کر خاموش کردیا اورغصے سے کہا پہلے جو کتاب لاکر دی ہے وہ تو مکمل ختم کرلے ۔پھر دوسری منگوالینا۔
عملی میدان کا انتخاب:
بچہ کی نفسیات سے آگاہی حاصل کرنانہایت ضروری ہے۔والدین بچوں کی صلاحیتوں ،دلچسپیوں کو مد نظر رکھ کر ان کے لئے تعلیم و تعلم کا انتظام کیاجاناچاہئے۔ ہمارے ملک میں بھیڑ چال ہے دوسروں کی دیکھا دیکھی ہم اپنے بچوں کے مستقبل کا فیصلہ کرتے ہیں ۔مثلاً کمپیوٹر کا دور شروع ہوا تو ہر ایک بچوں کو کمپیوٹر کی فیلڈ میں داخل کرنے کا خواہشمندنظرآنے لگا۔ یہ انتہائی غلط فکروروش ہے ، بچوں کی خواہش،دلچسپی اورانفرادی اختلافات کو پیش نظر رکھتے ہوئے اگر عملی میدان کا انتخاب کیا جائے گا بچہ اس میں شوق ،جذبے ، لگن اورمحنت سے کامیابی حاصل کرے گابصورت دیگرہ والدین کے دباؤ کے تحت وہ وقت توگزاردیں گے لیکن اس شعبہ میں کوئی نمایاں مقام حاصل نہیں کرسکیں گے۔
حقیقت آشنائی:
تصور ہمارے ادراکی تجربات کا نتیجہ ہے۔ جو ہم کسی شے یا فرد سے وابستہ کرلیتے ہیں ۔تصور حقیقت سے زیادہ خوش کن یاخوفناک ہوتاہے۔۔ بچوں میں یہ اور زیادہ اہمیت رکھتاہے۔ ابتدائی دور میں بچے کے تصورات کوسمجھنا مشکل ہوتا ہے۔ وہ انتہائی سوچ رکھتا ہے اور دوانتہاؤں پر سوچتاہے۔ بچے کا تصور شدید ہوتاہے ۔وہ اچھائی و برائی کے تصور اورتخیل میں بھی انتہا ئی درجہ تک سوچتا ہے۔لیکن بچوں کو بتدریج حقیقت آشناکیا جائے اورہر چیز کا صحیح و حقیقی رخ دکھایا جائے اوریہ باور کرانے کی کوشش کی جائے کہ غلطی ہر انسان سے ہوسکتی ہے۔کوئی شخص معصوم نہیں ہے ۔یعنی اس کے والدین سے بھی خطاہوسکتی ہے اچھے انسان کی خوبی یہ ہے کہ اپنی غلطی کا اعتراف کرلے تو اس سے تائب ہوجائے۔ گرے ہوئے دودھ پر آنسو بہانے ، رونے سے بہتر یہ ہے کہ آئندہ اس غلطی کا تدارک کر لیا جائے۔
آزادی اظہار:
بچے والدین سے آزادانہ تبادلہ خیال کرسکیں ۔بالخصوص اگروہ گھرسے باہر کی بات کریں تو انہیں نظرانداز نہ کریں ۔ توجہ سے ان کی سنیں ، اگر کوئی تنگ کررہا ہے تواسباب جاننے کی کوشش کریں کہیں ایسا نہ ہو کہ مجرمانہ ذہنیت رکھنے والے اور جرائم پیشہ افراد بچوں کو اپنا آلہ کار بنانے کی کوشش کریں ،کوئی فرد حسد اور رقابت کی وجہ سے بچوں کی تعلیم و تربیت پر منفی طورپر اثر اندز ہونے کی کوشش کرے، کوئی اسے بلیک میل کرکے اس کی شخصیت کو تباہ کردے اور اسے اپنے مذموم مقاصد کے لئے استعمال کرے ،بچہ کسی شخص کے خوف کی بناء پر کچھ ایساکام کرلے جس کی تلافی ناممکن ہو۔اس پر ڈر خوف نہ ہو کہ اگرمیں گھر میں ذکرکروں گا تو گھر والے سزادیں گے بلکہ وہ آزادی سے اپنے معاملات والدین کو بتاسکے۔ورنہ ان حالات سے دوچار ہونے کے بعد بچہ کی جسمانی، ذہنی،جذباتی اور سماجی نمو کا عمل سست ہوجاتا ہے۔اوروہ دل میں یہ حسرت لئے پھرتاہے کہ دل میں سینکڑوں باتیں ہیں لیکن کوئی میری سننے والا ہی نہیں ۔
سیکڑوں حرف ہیں گرہ دل میں
پرکہاں پائیے لبِ اظہار
جمالیاتی(aesthetic) ذوق :
بچوں کو صاف ستھرا ماحول میں رکھیں ۔اوران کی اس انداز سے رہنمائی کی جائے کہ ان کے اندر حسن وترتیب وتنظیم پروان چڑھے جس سے ان میں جمالیاتی ذوق اور نفاست طبع پیداہوگی۔ان کے اندر اشیاء کو صحیح مقام پر رکھنے کی خاصیت پیدا ہوگی۔حسن وجمال کا انحصار قیمتی وپرتعیش اشیاء پرنہیں۔ بلکہ حسن تو ایک ترتیب وتنظیم کا نام ہے جو خود اپنی جانب توجہ مبذول کرالیتاہے اگرچہ سادگی کا مظہر ہی کیوں نہ ہو۔
حسن ہر شے پہ توجہ کی نظر کاہے نام
بارہاکانٹوں کی رعنائی نے چونکایامجھ کو