امریکی طلبہ میں اردو سیکھنے کا شوق

Share

محمد ریاض احمد
اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغؔ
سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے
حضرتِ داغ نے جب یہ شعر قلمبند کیا ہوگا اس وقت یقیناً ان کے ذہن میں یہ بات رہی ہوگی کہ زبان اردو کا ڈنکا صرف ہندوستان میں ہی نہیں بلکہ ساری دنیا میں بجے گا ، لوگ بلالحاظ مذہب و ملت رنگ ونسل ، ذات پات اور علاقہ ، محبت و مروت ، اتحاد و اتفاق ، انسانیت و ہمدردی اور انقلاب و حریت کی اس زبان کی طرف کھینچے چلے آئیں گے ، نتیجہ میں مشرق وسطی کے صحراؤں ، یوروپ کے گلستانوں ، آفریقہ کے لق و دق ریگستانوں میں اردو کا ترانہ گونجنے لگے گا ۔ حضرت داغ نے اپنے اس شعر کے ذریعہ دراصل سارے عالم میں اردو کی مقبولیت کی پیش قیاسی کی تھی جو بالکل درست ثابت ہوئی ہے ۔

اگر دیکھا جائے تو خود ہندوستان میں ہندی کو قومی زبان قرار دیئے جانے کے باوجود اردو سب سے زیادہ بولی جاتی ہے ۔ باالفاظ دیگر کام اردو کا اور نام ہندی کا ہے ۔ ہمارے ملک کے بیشتر ٹی وی چیانلوں ، بالی ووڈ کی فلموں وغیرہ میں زیادہ تر اردو ہی استعمال کی جاتی ہے لیکن متعصب ذہنوں کے باعث اگرچہ ہندوستان میں اردو کو اسکا مستحقہ مقام نہیں مل پایا تاہم آج اردو کی مقبولیت سرحدیں پار کرچکی ہیں جس کا ثبوت یہ ہے کہ دنیا میں بولی جانے والی تقریباً 6900 زبانوں اور بولیوں میں دس ایسی زبانیں ہیں جن کے جاننے ماننے اور بولنے والوں کی تعداد کروڑوں میں پہنچ گئی ہے ۔ حال ہی میں ہماری نظروں سے دنیا کی مقبول ترین زبانوں سے متعلق ایک رپورٹ گذری جس میں مندارین ، اسپینی ، انگریزی ، ہندی ؍ اردو ، عربی ، پرتگیزی ، فرنچ ، بنگالی ، روسی اور جرمنی کو دس فہرست زبانوں میں شامل کیا گیا ہے ۔ بعض ایسی رپورٹس بھی منظر عام پر آئیں ہیں جس میں کہا گیا ہیکہ دنیا میں مندارین کے بعد سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان ہندوستانی یعنی اردو ہے ۔ بہرحال اردو والوں کیلئے خوشی کی بات یہ ہے کہ ہندوستان میں تعصب و فرقہ پرستی کا شکار ہونے کے باوجود اردو سرحدوں کو عبور کرچکی ہے اور اس کی اپنے پیدائشی مقام سے کہیں زیادہ بیرونی ممالک میں پذیرائی کی جارہی ہے ۔ جن ممالک میں اردو کو تیزی سے فروغ حاصل ہورہا ہے ان میں امریکہ بھی شامل ہے ۔ امریکی یونیورسٹیز میں باقاعدہ اردو شعبے قائم کئے گئے ہیں ۔ مقامی طلباء و طالبات اردو سیکھ رہے ہیں اردو شاعری و ادب پر ریسرچ بھی کررہے ہیں ۔ امریکہ میں اردو کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہاں اردو کی بے شمار تنظیمیں کام کررہی ہیں جو مشاعروں و ادبی اجلاس کا اہتمام بھی کرتی ہیں ۔ یہاں تک کہ نوخیز نسل کو اردو لکھنا پڑھنا سکھانے کیلئے مختلف علاقوں کے تہذیبی و ثقافتی مراکز میں ادارے بھی چلائے جارہے ہیں ۔ اس معاملہ میں حیدرآبادی پیش پیش ہیں ۔ ہم بات کررہے تھے امریکی یونیورسٹیز میں اردو کے شعبوں کی تو اس سلسلہ میں عرض کرنا چاہوں گا کہ حال ہی میں یونیورسٹی آف ٹیکساس کے شعبہ اردو کے طلبہ نے اپنے استاذ پروفیسر اکبر حیدر کے ہمراہ ہندوستان کا دورہ کیا اور حیدرآباد بھی آئے ۔ یہاں ان لوگوں نے دفتر سیاست پہنچ کر ایڈیٹر سیاست جناب زاہد علی خان اور منیجنگ ایڈیٹر جناب ظہیر الدین علی خان سے ملاقات کی ۔ سیاست کی قومی وملی خدمات کا بغور جائزہ لیا ۔

ملک کے ممتاز مزاح نگار جناب مجتبیٰ حسین کے ہمراہ تشریف لائے ان امریکی طلبہ سے ہم نے بات کی ۔ آپ کو بتادیں کہ کچھ برس قبل یونیورسٹی آف ٹیکساس نے اردو اور ہندی سیکھنے میں امریکی طلباء و طالبات کی دلچسپی دیکھتے ہوئے ہندی ؍اردو فلیگ شب پروگرام شروع کیا۔ اس پروگرام کے تحت تاحال کئی امریکی طلباء نے ہندی اور اردو سیکھ لی ہے اور وہ بڑی روانی کے ساتھ شستہ اردو بولتے ہیں ۔ اس مرتبہ مذکورہ فلیگ شپ پروگرام کے تحت اس کورس میں جن طلبہ نے حصہ لیا ان میں کارسن ، ناتھن اور دھارا شامل ہیں ۔ پروفیسر سید اکبر حیدر کے مطابق یہ چار سالہ کورس ہے جس کے تحت دو سال امریکہ میں ہی اردو اور ہندی سکھائی جاتی ہے اس کے بعد کورس کے تیسرے سال طلباء و طالبات کو ہندوستان کے مختلف مقامات کا دورہ کرایا جاتا ہے جن میں جئے پور ، لکھنؤ ، دہلی اور حیدرآباد شامل ہیں ۔ ان شہروں میں یہ امریکی طلبہ نہ صرف مختلف تعلیمی و ثقافتی اداروں کے دورے کرتے ہیں بلکہ ہندی اور اردو کی ادبی شخصیتوں سے ملاقاتیں بھی کرتے ہیں ۔ امریکی طلبہ کے اس وفد میں یونیورسٹی آف واشنگٹن کی محقق کیتھرین بھی شامل تھیں وہ زائد از دس برسوں سے حیدرآباد آتی جاتی رہتی ہیں ۔ ایک طرح سے حیدرآباد کیتھرین کا دوسرا گھر بن گیا ہے ۔ بڑے ہی پیارے انداز میں روانی کے ساتھ راردو بولنے والی کیتھرین کے خیال میں اردو میں جو مٹھاس ہے وہ کسی اور زبان میں نہیں ہے ۔ اردو کو دوسری زبانوں پر اس لئے برتری حاصل ہے کہ یہ ایک عوامی زبان ہے اور دنیا کے ہر حصہ میں رہنے والا شخص اسے بآسانی سیکھ لیتا ہے ۔ اردو ڈرامے ، شاعری خاص طور پر رومانی غزلیں ، سبق آموز نظمیں ، عزم حوصلے بڑھانے والے ترانے اور ہندی فلموں کے گانے (نغمہ) ہر کسی کو اپنی جانب بآسانی کھینچ لیتے ہیں ۔ کیتھرین کا کہنا ہیکہ حیدرآبادی تہذیب کی طرح اردو بھی سیکولرازم سے پُر ہے ۔ یہ ایسی زبان ہے جو مذہب ، ذات پات ، کالے گورے کے درمیان بھید بھاؤ نہیں کرتی سب کو اپنے دامن میں پناہ دیتی ہے ۔ ایک سوال کے جواب میں کیتھرین نے بتایا کہ انھیں حیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی میں پڑھنے کا موقع ملاہے ۔ چنانچہ گذشتہ دس برس کے دوران حیدرآباد میں ہوئی ترقی کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہیکہ حیدرآباد نے دس برسوں میں زبردست ترقی کی ہے ۔ خاص طور پر صحت انفارمیشن ٹکنالوجی اور تعلیم کے شعبے میں اس شہر کی ترقی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے ۔

انفارمیشن ٹکنالوجی اور اقلیتوں کے موضوع پر تحقیق کررہی اس امریکی ریسرچ اسکالر کا یہ بھی کہنا تھا کہ حیدرآباد اب کنکریٹ کے جنگل میں تبدیل ہوچکا ہے ۔ کامرس کے طالبعلم ناتھن نے بتایا کہ انھیں اس ہندی؍اردو فلیگ شپ پروگرام کا حصہ بننے پر کافی خوشی ہے ۔ وہ کہتے ہیں ’’اردو سیکھنے ، سننے اور بولنے میں کافی مزہ آتا ہے‘‘ ۔ اس طالبعلم نے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ اردو میں بہت مٹھاس ہے اور حیدرآباد میں جو اردو بولی جاتی ہے اس کا تو جواب ہی نہیں ہے ۔ ایک سوال پر اس امریکی طالبعلم نے بتایا کہ اسے حیدرآباد دیگر ہندوستانی شہروں کی بہ نسبت سب سے اچھا لگا ، یہاں کا موسم، یہاں کی آب و ہوا اور صاف صفائی کے انتظامات کا مقابلہ دارالحکومت دہلی بھی نہیں کرسکتی ۔ یہ شہر ہندوستان میں شاید مشترکہ تہذیب کی علامت ہے ۔ اس نے یہ بھی بتایا کہ دہلی میں صفائی کا کوئی معقول بندوبست نہیں حیدرآباد کی بات ہی کچھ اور ہے یہاں کی قدیم تہذیب کا مشاہدہ کرنے اور انواع و اقسام کے کھانے خاص کر بریانی کھانے کے بعد کوئی بھی شخض واہ حیدرآباد کہے بنا نہیں رہ سکتا ۔ اسی طرح یونیورسٹی آف ٹیکساس کے ہندی ۔ اردو فلیگ شپ پروگرام میں شامل ہندوستانی نژاد طالبہ دھارا کہتی ہیں کہ وہ شعبہ تعلیم میں کچھ کردکھانے کا ارادہ رکھتی ہیں ۔ اس لڑکی نے جس کے والدین گجراتی ہیں بتایا کہ ہندی اور اردو سیکھتے ہوئے انھیں اپنی تہذیب سے قربت کا احساس ہورہا ہے ۔ دھارا مستقبل میں کسی این جی او سے وابستہ ہو کر سماجی کاموں میں مصروف ہونے کا بھی منصوبہ رکھتی ہے ۔ اس نے بتایا کہ وہ تین برسوں سے ہندی اور اردو پڑھ رہی ہے اس دوران اس نے اقبال ،غالب ، داغ کو پڑھا ہے ۔ دھارا کو ہندوستان کے شہروں میں سب سے زیادہ جئے پور پسند آیا ، اس کی وجہ وہ بتاتی ہیں کہ وہاں انھیں بہت زیادہ اپنائیت کا احساس ہوا ۔ ہم نے اس بات چیت کے دوران غور کیا کہ کیتھرین ، ناتھن اور کارسن نے حیدرآباد کو ہندوستان کا سب سے بہترین شہر قرار دیا ۔

ان طلبہ نے ماہ لقا چندا بائی کے مقبرہ کا مشاہدہ بھی کیا ۔ اس بارے میں تفصیلات بتاتے ہوئے کارسن نے کئی ایک اشعار بھی سنائے ۔ ایک امرکی نوجوان کی زبان سے اردو اشعار سن کر بہت اچھا لگا ۔ دوسری جانب یونیورسٹی آف ٹیکساس میں تقابلی ادب کے پروفیسر اور صدر شعبہ اردو پروفیسر اکبر حیدر نے جو امریکہ میں فروغ اردو کی ایک چٹان کی حیثیت رکھتے ہیں بتایا کہ وہ 14 برسوں سے یونیورسٹی آف ٹیکساس میں خدمات انجام دے رہے ہیں ۔ انھوں نے بتایا کہ یونیورسٹی کی فلیگ شپ کورس میں کلاسیکی اور جدید روایات کا خاص خیال رکھا گیا ہے ۔ اس میں اردو ادب پر خصوصی توجہ مرکوز کی جاتی ہے ۔ پروفیسر سید اکبر حیدر اور ان کے طلبہ نے سیاست کی تعلیمی و سماجی تحریک کی ستائش کرتے ہوئے کہا کہ سیاست ایک اخبار ہی نہیں بلکہ ایک تحریک ہے جو اقلیتوں کی ترقی و خوشحالی یقینی بنانے کیلئے کام کررہا ہے ۔ اس امریکی وفد نے سیاست ایم ڈی ایف کے دوبدو پروگرام پر حیرت کا اظہار کیا اور کہا کہ دنیا میں یہ ایک طرح سے منفرد کام ہے۔ پروفیسر صاحب نے ایڈیٹر سیاست جناب زاہد علی خان سے اظہار تشکر کیا کہ انھوں نے امریکی طلبہ کو اپنے ادارہ کی خدمات سے واقف کروایا جس سے ان طلبہ کو حیدرآبادی تہذیب سمجھنے میں کافی مدد ملی ہے ۔ ڈاکٹر اکبر حیدر نے پدم شری مجتبیٰ حسین کو اردو کے سایہ دار درخت سے تعبیر کیا اور کہا کہ 2009 سے چلائے جارہے اس فلیگ شپ پروگرام میں مجتبیٰ حسین صاحب کا بھرپور تعاون حاصل رہا ہے ۔

روزنامہ سیاست
Article-Urdu learning by US students
Written by Md Riyaz Ahmed

Share
Share
Share