’’ بیٹیاں پھول ہیں ‘‘: چند تاثرات :- عبدالعزیز ملک

Share
ڈاکٹر عزیز ملک

’’ بیٹیاں پھول ہیں ‘‘:چند تاثرات

عبدالعزیز ملک
شعبہ اردو جی سی یونیورسٹی
فیصل آباد

محمود شام کا تخلیقی سفر ساٹھ کی دہائی سے شروع ہو ااور وقت کی کشتی کھیتا بیسویں صدی کی دوسری دہائی کو عبور کر رہا ہے لیکن جس کی تلاش تھی وہ منزل ابھی نہیں آئی،اس لیے کہ انھیں خواہشِ منزل نہیں بلکہ خواہشِ سفر ہے ۔وہ محمود شام جو جھنگ کے ریگ زاروں سے نکلا اور کراچی کے پر ہجوم شہر میں سکونت پذیر ہوگیا

لیکن جھنگ کا چناب ،درختوں سے پھوٹتی کونپلیں ،سر کنڈے ، گلہری ،تتلیاں ، چڑیاں ،نیلگوں آسمانوں پراڑان بھرتے پرندوں کے گیت ،آنگنوں میں چمکتے چاند تارے ، قصبوں کی کچی گلیاں اور ان گلیوں میں زندگی سے لبریز اورانسانی جذبوں سے معمور جوانیاں محمود شام کے تخلیقی سفر کو ہمیشہ تقویت فراہم کرتے رہے ہیں۔یہ وہی خطۂ دلپذیر ہے جہاں شیر افضل جعفری نے اردو غزل کو نئے رویوں سے روشناس کرایا،سید جعفر طاہرنے کینٹوز کی صنف کو عروج بخشا ،رام ریاض نے اردو غزل کو نئی جہتیں عطا کیں اور صفدر سلیم سیال نے اردو شاعری میں نئے رجحانات کا اضافہ کیا۔دوسری جانب لاہور کے ادبی مرکز میں منیر نیازی ، افتخار جالب ، مبارک احمد ،راحت نسیم ، عباس اطہر،زاہد نسیم ،تبسم کاشمیری ،سعادت سعید اورجیلانی کامران اپنے اپنے انداز میں ادب کے شعری منظرنامے پر چھائے ہوئے ہیں۔اردو شاعری کی اس کہکشاں میں روشن ستارہ بن کر چمکنا آسان کام نہیں تھا،احساسات و جذبات کا اظہار تخلیقی قوت کا متقاضی تھا جس کا بیج محمود شام کی طبیعت میں اوائل عمری ہی میں فطرت نے ودیعت کر دیا تھا۔یہی وجہ ہے کہ آگے چل کر اردو شاعری میں انھوں نے کمال فن کا مظاہرہ کیا جس کا ثبوت ۱۹۶۹ء میں اشاعت پذیر ہونے والی ان کی طویل نظم ’کارڈیو سپازم‘ ہے جس میں انھوں نے اپنی بیماری کو آفاقی وسعت سے ہم کنار کیا ہے ۔اس کے علاوہ ’’آخری رقص‘‘،’’چہرہ چہرہ مری کہانی ‘‘،’’محلوں میں سرحدیں ‘‘،’’نوشتہ دیوار‘‘،’’قربانیوں کا موسم‘‘اور ’’جہاں تاریخ روتی ہے‘‘ان کے تخلیقی سفر کا حاصل ہیں ۔حال ہی میں ان کے مجموعوں سے انتخاب ’’ بیٹیاں پھول ہیں‘‘ مثال بپلیشرز ،فیصل آباد سے شائع ہواہے۔
شعری مجموعوں سے انتخاب ’’ بیٹیاں پھول ہیں ‘‘ دو حصوں پر مشتمل ہے ،پہلاحصہ غزلیات جب کہ دوسرا نظموں پر مشتمل ہے ۔ان کی غزل ولی دکنی اور سراج اورنگ آبادی کے جمالی طرز احساس ،میر تقی میر کی آہ اور سودا کی واہ سے لے کر میر درد کے تصوف،اقبال کی انقلابیت ،حسرت موہانی کی رومانویت اور فیض کے سماجی مسائل کے ان تما م رجحانات سے رس کشید کرتی ہے جو اردو شاعری کے اوائل سے لے کر عصرِ حاضر میں موجود ہیں ۔ یوں انھوں نے غزل کو ترفع بخشنے کی خاطر روایت کے طویل اور تھکا دینے والے فاصلوں پر خود کو محوِ سفر رکھا ہے۔ وہ جو ساٹھ کی دہائی میں صبحِ کاذب تاروں کی چھاؤں میں ننگے پاؤں تخلیقی سفر پہ نکلا تھا،اب فریب دیتی شام کی دہلیز پہ کھڑا ہے تو ماضی کے شعوراور مستقبل کی بصیرت سے مالا مال ہے۔
میری سانسوں میں گھلی تھیں تری صبحیں شامیں
تیری یادوں میں گزرتا ہوا عرصہ میں تھا
عہدِ رفتہ تھا ادھر اور اُدھر آیندہ
دونوں وقتوں کو ملاتا ہوا لمحہ میں تھا
محبتوں میں پرانا ہوں ،فیصلوں میں نیا
روایتوں سے جُڑی اک نئی صدی ہوں میں
ہے مجھ میں زندہ، گیا وقت،حال ،مستقبل
نہ جانے کتنے زمانوں کا آدمی ہوں میں
محمود شام کا یہ طویل تخلیقی سفر تکمیلِ ذات کے جن مراحل سے گزرا ہے اس کی تھکن کا احساس اسے ہو نہ ہو لیکن زندگی کی راہوں میں آگے بڑھنے اور رفعتوں کی تلاش میں نئی منزلوں کو عبور کرنے کا احساس اسے بہر حال ہے ۔اسے معلوم ہے کہ وہ وقت کے دریا میں ایک لمحہ تھکن اتارنے کو، چلتی کشتی کسی گھاٹ پہ اتار دیتا تو سفر رک جاتا۔اسے خود کو گرمِ سفر رکھنا ہے ،اپنے ہونے کا دوسروں کوا حساس دلانا ہے۔ اسی لیے تووہ اپنی ذات کی پنہائیوں میں اترا ہے ، خود فراموشی کے تجربات سے گزرا ہے اوروجودی کرب کو محسوس کیا ہے ۔ خود فراموشی کے تجربے میں وہ گم نہیں ہوا اس نے صدا دے کر خود کو جگایا ہے اور اپنے وجود کو وقت کی پیشانی پر ثبت کیا ہے :
کتنے سال رل جاتے ،میں اگر نہیں ہوتا
کس کی عمر بن پاتے ،میں اگر نہیں ہوتا
مجھ سے پہلے جو کچھ تھا ،مجھ سے بعد جو کچھ ہے
دونوں کٹ کے رہ جاتے ، میں اگر نہیں ہوتا
سانس میرے حصے کے ،لفظ میرے قصے کے
روپ کس طرح پاتے ،میں اگر نہیں ہوتا
سفر محمود شام کی غزل میں خاص استعارہ بن کر سامنے آتا ہے جس میں ہجر اور ہجرت دونوں کا احساس پنہاں ہے ۔ جھنگ سے لاہور ، لاہور سے کراچی اورکراچی سے دنیا کے مختلف شہروں کے سفر نے محمود شام کی ذات میں ایسا لاؤ روشن کیا ہے جس کے حرارت آمیز لمس نے ان کی غزل میں زندگی کی معنویت کوروشن کر دیا ہے ۔ اسے اس بات کا قوی احساس ہے کہ سفر کائناتی حقیقت ہے،اور یہ اس وقت ایک خوشگوار حقیقت کا روپ دھار لیتا ہے جب انسان اپنے آدرشوں اورتمناؤں کی پگڈنڈیوں پر قدم رکھتا ہے جو اسے ایسے خواب نگر میں لے جاتی ہیں جہاں انسانیت کے اجتماعی خوابوں کی روشن تعبیرجلوہ فگن ہے۔وہ زندگی کا سفر ہو ،ذات کی تکمیل کا سفر ہو ،شعری تخلیقات کا سفر ہو یا ماضی کے بطن میں اتر کر نئے جذبے اور احساس کشید کرنے کا سفر ہو ،محمود شام ہر سفر میں احساسِ ذمہ داری سے معمور ہے اور اس نے خوابوں کی تعبیریں تلاشنے اور تراشنے کا عمل جاری رکھا ہوا ہے۔
اک سفر ختم ہوا ،شوقِ سفر باقی ہے
ابھی الفاظ برتنے کا ہنر باقی ہے
آسماں بھی رہگزر،حدِ سفر کچھ بھی نہییں
اب زماں ہو یا مکاں ،پیشِ بشر کچھ بھی نہیں
محمود شام ذات کی گہرائیوں میں اتر کر خو دکلامی کے انداز میں اپنی ہی ذات سے مخاطب ہوتے ،خود کو احساس دلاتا ہے کہ وقت کی تقسیم کچھ بھی نہیں سب فریبِ چشم ہے ،آدمی کی بے کراں آزادیوں پر بندشیں ،سر حدیں ،قومیں ، علاقے ،شہر ، گھر کچھ بھی نہیں ،عشق ،حیرت ، سرخ روئی ،زندگی ،شرمندگی ،جو ہے پہلی بار ہے ،بارِ دگر کچھ نہیں اور انسان اپنے باطن میں جھانک کر تو دیکھے نہ جانے نور کے کتنے سمندر زمانوں سے پرے موجود ہیں جنھیں وقت کی دیوار نے نظروں سے اوجھل کر رکھا ہے ۔وہ ان پر اسرار دنیاؤں کی کھوج کی دعوت دیتے ہوئے نگاہوں اور گمانوں سے پرے سوچنے اوردیکھنے کی تلقین کرتا ہے ۔محمود شام محض ذات کی گہرائیوں میں گم نہیں ہوا وہ اپنے خارج پر بھی بصیرت افروز نظر ڈالتا ہے ۔سماجی اور تہذیبی سطح پر رونما ہونے والی تبدیلیوں کاجاندارا حساس ان کی شاعری میں جابجا دکھائی دیتا ہے۔تہذیبی اقدار کی شکست و ریخت ،زندگی کے پُر لطف ذائقوں میں تلخیاں گھولنے والے عناصر ، ماحول میں جابجا پھیلی دہشت اور بھوک سے مرتے بے گھرانسان ان کی شعری کائنات کا حصہ بنے ہیں ۔ماحول میں خوف اور دہشت کا راج ہو تو زندگی کا بے ساختہ پن معدوم ہو کر رہ جاتا ہے ،معصوم بچوں سے شوخی ،شرارت اور چنچل پن چھن جاتا ہے اور وہ وقت سے پہلے خود پر بڑھاپے کی چادر اوڑھ لیتے ہیں ، یہ سارے منظر محمود شام نے اپنی شاعری میں مصور کیے ہیں :
بستیاں سہمی ہوئی ،ڈوبے ہوئے یاس میں گھر
لفظ بے معنی ،زباں گنگ ،قلم خوف زدہ
جہل کی کوکھ سے دہشت کے نکلتے لشکر
کھلبلی غرب میں ہے ،اہلِ عجم خوف زدہ
حکمتِ دہر ،سفارت کہ عساکر بے بس
ہو سنی گاگ کلیسا کہ حرم خوف زدہ
یہ دہشت اور خوف خواہ داخلی ہو یا خارجی انسان میں تخریبی قوتوں کو ابھارتا ہے لیکن محمود شام کے ہاں آندھیوں سے لبریز دھول اڑاتی زندگی سے تعمیر کا پہلو بر آمد ہوتا ہے اور اپنی نظموں اور غزلوں میں کردار کا روپ دھار کر عامل اور معمول کا کھیل پیش کرتا ہے جس میں ماحول کی رجائیت اس کی ذات کی عکاس بن کر جلوہ فگن ہوتی ہے ۔خود کلامی ہو یا خارج سے ہم کلام ہوتے ہوئے خطابیہ لہجہ یا کردار تخلیق کر کے ان سے خارجی فضا کی عکس بندی ،محمود شام کی شاعری میں یہ تینوں آوازیں سامعین سے حلقہ بگوش ہیں ۔وہ خود کلامی کے انداز میں جب خود سے مخاطب ہوتاہے تواس کی نفسی کیفیات بھی ان کے اشعارکاحصہ بن جاتی ہیں۔
خود سے ملنے کو وقت مانگتا ہوں
اتنا مصروف ہو گیا ہوں میں
جونہی جغرافیے میں قید ہوا
وہیں تاریخ بن گیا ہوں میں
وہ داخلی صورتِ حال سے نکل کر خارجی صورت حال کو یوں بیان کرتا ہے کہ داخل سے خارج کے سفر میں بیرونی ماحول کے اثرات اپنے جملہ لوازمات کے ساتھ موجود ہوتے ہیں :
لاہور کی نظر ہو ،کراچی کی فکر ہو
میری غزل میں میرا وطن کیوں نہ سانس لے
سیراب کر دیں آنسوؤں سے ریگ زار کو
تھر کی فضا بھی مثلِ چمن کیوں نہ سانس لے
وہ کردار تخلیق کرکے مکالماتی انداز میں یوں محوِ کلام ہوتا ہے :
لوٹ آتا تھا بھولپن تیرا
میں ہٹاتا تھا ماہ و سال کی گرد
شہر کی روشنی ہیں اب وہ جنھیں
مل گئی تھی ترے جمال کی گرد
شاعری میں کردار نگاری کو انگریزی کے معروف نقاد ٹی ایس ایلیٹ نے شاعری کی تیسری آواز خیال کیا ہے۔پہلی آواز شاعر کی خود کلامی ہے، دوسری آواز میں شاعر سامعین سے مخاطب ہے اور تیسری آواز وہ ہے جس میں شاعر مکالمہ کرنے والے کردار تخلیق کرے یعنی ایک خیالی کردار دوسرے خیالی کردارسے محوِ گفتگو ہوتا ہے جیسا کہ مجید امجد کی نظم ’’آٹو گراف‘‘ یا’’ پنواڑی ‘‘میں صورتِ حال کو پیش کیا گیاہے۔مجموعی طور پر دیکھا جائے تو محمود شام کی غزل روحِ عصر کی ترجمان ہے جس میں معاملہ بندی بھی ہے ، کائنات کے اسرارو رموز بھی ہیں ، سماجی مسائل کا بیان بھی ہے اورمستقبل کی بصیرت بھی موجود ہے ۔انھوں نے ایک طرف دروں بینی کے مراحل سے گزرتے ہوئے ذات کے ہفت خواں بھی طے کیے ہیں اورخارجی سطح پر پھیلی زندگی کے متنوع رنگوں کو بھی شعری اظہار کے سانچوں میں ماہر فنکار کے مانند ڈھالا ہے ۔
شعری مجموعوں سے انتخاب ’’بیٹیاں پھول ہیں ‘‘کا دوسرا حصہ نظموں پر مشتمل ہے جس کی پہلی نظم کا عنوان ’’ بیٹیاں پھول ہیں ‘‘ ہے ا۔یہی وہ ہے جس سے اس مجموعے کاعنوان منتخب کیا گیاہے ، یہ نظم انھوں نے فرخندہ بیٹی کی رخصتی پر قلم بند کی تھی جو بیٹی سے باپ کے پدرانہ جذبے کی آشکار ہے ، اسی طرح ان کی ایک اور نظم’’منی کی خواہش ‘‘بھی اسی جذبے کی نمایندہ ہے ،یہ نظم اس وقت تحریر کی گئی جب فرخندہ بیٹی تین سال کی عمر میں کراچی سنٹرل جیل میں ان سے ملاقات کے دوران میں جیل کی کوٹھڑی دیکھنے کوبضد تھی ۔اس لمحے باپ پر جو کیفیت گزری اسے اس خوب صورتی سے منظوم کیا گیا ہے کہ یہ جذبہ محمود شام کا ذاتی جذبہ نہیں رہتابلکہ اجتماعی شکل اختیار کرجاتا ہے :ان کی نظم ’’ منی کی خواہش ‘‘سے چند سطریں :
’’وطن کی راہ میں سب حریت پرستوں کا
قفس کی چار دیواری مقام بنتا ہے
ہمارے گھر میں تو یہ سلسلہ ہے نسلوں کا
کہ سامراج سے لڑنا ملا ہے ورثے میں
مجھے خوشی ہے مری آنے والی نسلیں بھی
اسی مقام کو ہی دیکھنے کی خواہاں ہیں ‘‘
محمود شام کی نظمیں اس بات کی غماز ہیں کہ وہ خواب دیکھنے والاشاعر ہے،امن کا خواب ، محبت اور خلوص سے لبریز جذبوں کا خواب ، ہمدردی اور رواداری سے بھر پور معاشرے کا خواب ،وطن سے بے لوث محبت کا خواب ،پر امن اور پر سکون شہروں کا خواب ۔انھوں نے اپنی نظموں میں خوابوں کے شہر آباد کیے ہیں جہاں احمریں ہونٹوں پہ ہونٹ رکھنے کی بے باک خواہشیں مچلتی ہیں ،جہاں زندگی کے سبھی رنگ کرنسی کی رنگت سے مغلوب نہیں ،جہاں شورو غل سے بھری شاہراہوں پہ پیاسی آنکھوں، سلگتے لبوں اور تنہائی کی گرد اوڑھے زرد چہرے نہیں،کیوں کہ وہ اقدار،اخلاق ،حسنِ تکلم ،مروت اور محبت پر پختہ یقین رکھنے والا تخلیق کار ہے۔انھیں اس معاشرے سے سخت نفرت ہے کہ جہاں بستیوں کے نگہباں ہماری مناجات نہیں سنتے ،صرف اپنا کشکول بھرکر دن رات سنوارتے ہیں ۔محمود شام انھیں راکھشس کہ کر پکارتا ہے جو شہر کے چہار سو چھائے ہوئے ہیں ،جب بھی ان کا لہو بہتا ہے تو ایک اک بوند سے اور کئی راکھشس پیدا ہو جاتے ہیں لیکن وہ ان راکھشسوں کو آزاد نہیں چھوڑنا چاہتا ،وہ ان کے خلاف مخلوقِ خدا کواپنے لفظوں سے شعور بخشتا ہے اور ایک ایسے ’’آخری رقص‘‘ کی جانب صدا دیتا ہے کہ جہاں ہر شخص کو حق ہے کہ وہ چیخے ،ان کی نظم ’’آخری رقص‘‘ سے چند سطریں :
’’آج ہر ساز سے ہر تان سنو
ساز جو ٹوٹتا ہے ،ٹوٹے ،ٹوٹے
دم جو گھٹتا ہے ،گھٹے اور گھٹے
رنگ بھی پھیلتے ہیں تو پھیلیں
جسم کٹتا ہے تو کٹ جائے ،بکھر جائے
کوئی ہم رقص نہ رکنے پائے
کوئی بھی ساز نہ دبنے پائے ‘‘
محمود شام کی نظموں میں محبت کی دیوی منفرد اور مختلف انداز میں جلوہ فگن ہے ،کہیں تو وہ جمال آشنا پیکر میں ڈھل کر سامنے آتی ہے اورکہیں وہ حب الوطنی کے خوب صورت جذبے میں خود کو ظاہر کرتی ہے اور ان کا قلم وطن پر محبتوں اور عقیدتوں کے پھول نچھاور کرنے لگتا ہے جس کے نتیجے میں ’’سب کی زمیں ‘‘،’’جانِ وطن‘‘،’’معاہدہ روس ‘‘ ،’’آخری رقص‘‘،’’میں اپنے لہو کا پیاسا نہیں ہوں ‘‘، ’’شہر میں راکھشس‘‘اور ’’اعلیٰ سطحی میٹنگ‘‘ ایسی نظمیں تخلیق ہوئی ہیں ۔ ان کی شاعری کو اگر کلیت میں دیکھا جائے تو اس حقیقت کو رد کرنا ممکن نہیں کہ ان کی شعری کائنات معاشرتی استحکام ،امن و آشتی ، رواداری اور محبت کے حسین جذبوں کے گرد طواف کرتی ہے فکرو نظر اور تہذیب و سیاست کے تناظر میں یہ اسی خواہش کا سفر ہے جو بیسویں صدی میں حسرت موہانی ،ظفر علی خان ، فیض احمد فیض اور حبیب جالب ایسے شعرا کے ہاں ملتا ہے۔
—–

Share
Share
Share