اکستابی معذوری – Learning Disability
فاروق طاہر
حیدرآباد،انڈیا۔
,9700122826
دنیا ایک امتحان گاہ ہے یہاں ہر ایک کو امتحان سے گزر نا ہوتا ہے۔ہر شخص کسی نہ کسی آزمائش سے گزرتا ہے۔کوئی دولت شہرت اور اقتدار کے ذریعے تو کوئی غربت بھوک افلاس اور محکومی کے ذریعے توکوئی صحت تندرستی اور طاقت کے ذریعے تو کوئی بیماری اورمعذوری کی صورت میں آزمائش میں مبتلاہے۔
اول الذکر آزمائش سے سرخروئی نسبتاً آسان ہے لیکن دیگر آزمائشیں بہت سخت ہوتی ہیں جیسے بہت زیادہ غربت بھوک اور افلاس ۔ لیکن ان سب میں معذوری سب سے کڑی آزمائش ہے اور بالخصوص اکتسابی معذوری بہت زیادہ تکلیف دہ اور صبر آزما ہوتی ہے۔لفظ معذوری سے مراد مختلف قسم کی جسمانی،ذہنی یا فکری کیفیت ہوسکتی ہے جیسے نقل و حرکت کے نقائص ،بصری نقائص،سمعی نقائص،ذہنی صحت(نفسیاتی)معذوریاں، فکری معذوری اور اکتسابی معذوری(Learning Disabilities) وغیرہ۔اکتسابی معذوری بنیادی طور پراعصابی خلل کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔دماغ کے حصے مخ کبیر میں اگر نقص ہو تواکتسابی معذوری نمودار ہوتی ہیں۔مخ کبیر بنیادی طور پرزبان دانی،ذہانت اورفکری افعال کو سرانجام دیتا ہے اور مخ کبیر کو ذہانت کا مرکز بھی کہا جاتا ہے۔اکتسابی معذوری میں ڈسلیکسیا (Dyslexia)،آٹزم جیسے عوارض شامل ہیں۔اکتساب سے مربوط مسائل کے لیئے وسیع طو ر پر اکتسابی نقائص کی اصطلاح کا استعمال ہوتا ہے۔اکتسابی معذوری کوئی ذہنی معذوری نہیں ہے ۔اکتسابی معذوری کا شکار افراد سیکھنے کے عمل میں دشواری محسوس کرتے ہیں۔اکتسابی معذوری کا شکار بچوں کو کند ذہن اور کا ہل بھی نہیں کہا جاسکتا ہے۔اکتسابی معذوری سے متا ثر بچے دیگر بچوں کی طر ح ذہین،ہوشیار اور عقلمند واقع ہوتے ہیں۔اکتسابی معذوری کا شکار بچے استاد کی اکتسابی معذوری سے عدم آگہی کے باعث روزانہ کمرۂ جماعت میں استاد کی معلمانہ جہالت کا شکار بنتے ہیں۔اکتسابی معذوری کا شکار طالب علم اپنے استاد سے فریاد کر تا ہے کہ استاد جی اگر میں آپ کے پڑھائے جانے والے طریقے سے علم حا صل کرنے میں ناکام ہوجاتا ہوں تو کیا آپ مجھے اس طریقے سے پڑھائیں گے جس طریقے سے میں سیکھ سکتا ہوں۔طالب علم کی یہ فریا د قابل غور ہے اور اس امر کا اظہار بھی ہے کہ اکتسابی معذوری سے دوچار طلبہ میں صلاحیتوں کا فقدان نہیں ہوتا ہے بلکہ ان میں بھی صلاحیتیں بدرجہ اتم پائی جاتی ہیں۔اساتذہ کے لئے ضروری ہے کہ وہ اکتسابی معذوری کا شکار طلباء کی ضرورتوں اور تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے اپنی تدریسی فرائض انجام دیں۔اکتسابی معذوری سے متاثر طلبہ کی تعلیمی خدمات کی انجام دہی سے قبل اساتذہ کو تعلیمی معذوری سے واقفیت ضروری ہے۔اگر اساتذہ اکتسابی معذوری سے آگہی نہیں رکھتے ہیں تب اکتسابی معذوری سے متاثر طلبہ کی تعلیمی ترقی مجروح ہوجاتی ہے۔1978میں گراس میان(Gross Man) نے اکتسابی معذوری جیسی اصطلاح سے تعلیمی دنیا کو متعارف کروایا۔گراس میان کے مطابق اکتسابی خرابی سے مراد ہر وہ شئے جیسے ذہنی(Mental)،ادراکی نقائص (Perception handicap)،اعصابی خرابیاں(Neurological Dysfunctioning)،نا پختگی(Immaturity) جذباتی مسائل (Emotional Problems)،برتاؤ کے مسائل (Behaviourial Problems) سماجی ثقافتی مسائل جو اکتسابی عمل میں مانع و حائل ہوتی ہیں۔
اکتسابی معذوری کا شکار بچے اشیاء کو عام بچوں سے مختلف طریقے سے دیکھتے ،سنتے اور سمجھتے ہیں۔جس کی وجہ سے وہ نئے معلومات اور مہارتوں کو سیکھنے اوربرؤے کار لانے سے قاصر ہوتے ہیں۔ عام طور پر اکتسابی معذوری میں پائی جانے والی خرابیوں میں پڑھنے میں دشواری ،لکھنے میں دشواری،ہجے کرنے میں تکلیف ،ریاضی کو سمجھنے میں دشواری اور استدلال کی کمی شامل ہیں۔اکتسابی معذوری کو ہر گز ذہنی معذوری(Mental Retardation)اور حرکی نقائص(Sensory dysfunction) پر محمول نہیں کیا جاسکتا ہے۔ہر اسکول میں 8تا 10 فیصد طلبہ اکتسابی معذوری کا شکار ہوتے ہیں۔ان میں کچھ معمولی نوعیت کے اور کچھ سنگین نوعیت کے ہوتے ہیں ۔اکثر موقعوں پر اکتسابی معذوری کا شکار طلبہ اساتذہ کی توجہ حا صل کرنے میں بھی ناکام رہتے ہیں یا پھر اساتذہ ان کے مسائل کو قابل اعتنا ء ہی نہیں سمجھتے ہیں۔تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ اکتسابی معذوری کا شکار طلبہ میں عام بچوں کی طرح تعلیمی دلچسپی اور حصول علم کی پیاس شدت سے پائی جاتی ہے لیکن کمرۂ جماعت کی روایتی تدریس کی وجہ سے وہ تعلیمی پیش قدمی سے محروم ہوجاتے ہیں۔ اغلاط پر غور و خوص کرنے اور اصلاحی طریقہ کار اختیار کرنے کے بجائے اساتذہ کی ڈانٹ پھٹکار اور عتاب کی وجہ سے اکتسابی معذوری کا شکار طلبہ حصول علم کے سفر میں قابل قدر پیش رفت کرنے میں ناکام ہوجاتے ہیں۔اساتذہ بچوں کے تعلیمی تقاضوں کو نظرانداز کرتے ہوئے جب ان کی عزت نفس کو بھی مجروح کردیتے ہیں تب وہ دباؤ کا شکار ہوکر تعلیم سے نفرت کرنے لگتے ہیں۔اکتسابی معذوری جو کہ پہلے ایک پوشیدہ نصابی معذوری کے طور پر نمودار ہوتی ہے آگے چل کر بچوں کے لئے نصابی،لسانی،سماجی اور نفسیاتی خسران کا سبب بن جاتی ہے۔طلبہ مطلوبہ تعلیمی اوصاف رکھنے کے باوجود جب حصول علم میں دشواری کا سامنا کرتے ہیں تب اس کو اکتسابی معذوری کی ایک علامت سمجھنا ضروری ہوجاتا ہے۔ینگ(Young)اورٹائر(Tyre)کے مطابق روایتی کمرۂ جماعت کی تدریس کے باوجود لسانی مہارتوں جیسے پڑھنے ،لکھنے ،ہجے اور دانشوارانہ صلاحیت کے حصول میں طلبہ اکتسابی معذوری کے باعث ناکام ہوجاتے ہیں۔اکستابی معذوری کا شکار طلبہ ذہین ہونے کے ساتھ ساتھ بہتر قوت تخیل کے حامل ہوتے ہیں لیکن نصابی سرگرمیوں کی انجام دہی میں ناکامی کے سبب بچوں کی صلاحیتوں اور نصابی مظاہروں میں ایک خلیج پیدا ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے ان بچوں کا تعلیمی طو ر پر پسماندہ طلبہ میں شمار ہونے لگتا ہے۔ اکثر اکتسابی معذوری کا شکار طلبہ میں تخلیقی صلاحیت ،فنکارانہ صلاحیتیں اور دیگر غیر معمولی اوصاف بدرجہ اتم پائی جاتی ہیں جس کے بل پر وہ ایک تخلیق کار ،فنکار ،مصور،سنگ تراش وغیر ہ بن سکتے ہیں۔اسکولی تعلیم کے دوران منعقد شدنی امتحانات میں تعلیمی معذوری کی وجہ سے خراب مظاہرے کی بناء ہم قطعی طور پر نہیں کہہ سکتے ہیں کہ یہ بچے زندگی میں ناکامیوں کا شکارہوجائیں گے اور ایک ناکام زندگی گزاریں گے۔تھامس ایلوا ایڈسن اپنی سوانح عمر ی میں لکھتا ہے کہ اسکولی تعلیم کے زمانے میں وہ اکتسابی معذوری کا شکار تھا جس کی بناء پر اسکول کی ٹیچر نے اس کی والدہ کو خط لکھ کر ایڈسن کو اسکول بھیجنے سے منع کردیا۔جب ایڈسن کی ماں نے خط دیکھا تو اس کی آنکھوں سے آنسو نکل پڑے۔ماں کو روتا دیکھ کر ایڈسن پوچھتا ہے کہ وہ کیوں رو رہی ہے ۔ایڈسن کی ماں کہتی ہے کہ وہ اتنا ہوشیار ہے کہ اس کی ٹیچر اس کو نہیں پڑھا سکتی ہے۔آج سے وہ خود اپنے بیٹے کو پڑھائے گی۔ماں کی توجہ اور التفات کا ایڈسن پر اس قدر اثر ہوا کہ وہ اکتسابی معذوری کے باوجود دنیا کا ایک عظیم اور نامور سائنسدان بن گیا۔دس ہزار سے زائد ایجادات ایڈسن سے منسوب ہیں۔البرٹ آئنسٹائن کو کون نہیں جانتا، اس کا شمار دنیا کے فطین اور زیرک افراد میں ہوتا ہے۔البرٹ آئنسٹائن تعلیمی معذوری کے سبب ابتدائی جماعتوں میں اساتذہ کی غیر معمولی عتاب اور درشت رویہ کا شکار تھا لیکن اس کے ماموں کی توجہ اور شفقت نے اسے ایک نابغہ روزگار شخص بنا دیا اور نوبل انعام کا حقدار ٹھہرا۔ آگستے روڈون ایک معروف فرانسیسی آرٹسٹ تھااسکول میں اساتذہ اسے سب سے نکمہ طالب علم قرار دیتے تھے اساتذہ نے اس کے والدین کو مشورہ دیا تھا کہ اسے اسکول بھیجنے کے بجائے کوئی دوسرا کام سکھایا جائے۔امریکہ کے اٹھائیسویں صدر ووڈروولسن نے نو سال کی عمر کے بعد حروف لکھنا سیکھا۔اکتسابی معذوری کے باوجود اپنی صلاحیتوں کا لوہا ان افراد نے منوایا کیونکہ ان کو ایک مخلص اور شفیق استاد ماں ،ماموں وغیرہ کی شکل میں میسر ہوئے۔اکتسابی معذوری کے شکار طلبہ کو ایڈسن ،آئنسٹائن اور دیگر کی طر ح ایک مشفق اور ہمدرد استاد کی ضرورت ہے۔ اساتذہ ،والدین اور تعلیم سے وابسطہ افراد بچوں کے نصابی مظاہرے کے بل پر کوئی فیصلہ صادر نہ کریں جو کہ تعلیمی مقاصدکے مغائر ہوتے ہیں۔اساتذہ اگر اکتسابی معذوری سے واقف ہوجائیں تب وہ طلبہ میں پائے جانے والی اکتسابی معذوری کی نہ صرف شناخت کے قابل ہوجائیں گے بلکہ اس کے سد باب کے لئے بھی آگے آئیں گے۔اساتذہ طلبہ کی اصلاحی تعلیم(Remedial Education) کے ذریعے طلبہ کی زندگیوں میں عظیم انقلاب بر پا کرنے والی ذات بن سکتے ہیں۔
اکتسابی معذوری کی اہم قسمیں؛۔اکتسابی نقائص مختلف شکلوں میں ہمارے سامنے آتے ہیں مثلا پڑھنے میں پیش آنے والی دقت،لکھنے میں (املے کا) نقص ، تو جیہ واستدلال کا نقص،نقص قوت شامہ،علم الاعداد (Arithmetic)کا نقص وغیرہ ۔یہ نقائص دماغ کے بعض گو شوں کی غیرمتنا سب نشو نماء کی بناء پر پیدا ہو تے ہیں۔اکتساب سے جڑے نقائص میں ذیل کے پانچ نقائص قابل ذکرہیں۔
(1) پڑھنے میں الجھن(Dyslexia ( (2)لکھنے میں الجھن یااملے کی دقت(Dysgraphia) (3)تصور قائم کرنے میں ناکامی(Revisualistion) (4) علم الا عداد میں الجھن(Dyscalculia)(5) جملوں کو پڑھنے میں الجھن (Dysphasia) اورجملوں کو لکھنے میں الجھن (Aphasia)
(1) پڑھنے میں الجھن(Dyslexia) :
ڈسلیکسیا تعلیم اور نفسیات میں استعما ل ہونے والی ایک اصطلاح ہے۔جدید ماہرین تعلیم اس اصطلاح کو تعلیم اور تدریس کے حوالے سے اکثر استعمال کرتے ہیں۔اس اصطلاح کوخاص طور پر لکھنے اور پڑھنے میں مشکلات کے زمرے میں استعمال کیا جاتا ہے۔Dyslexiaدو یونانی الفاظ Dysاور Lexia کا مرکب ہے۔Dysکا معنی غیر منظم اور Lexia کا مفہوم ہے الفاظ، یعنی ڈسلیکسیا کا مفہوم ہوا الفاظ کا غیر منظم اور غیر موزوں استعمال۔بعض ماہرین اس کو حروف کے اندھا پن (Word Blindness) سے بھی تعبیر کرتے ہیں۔ڈسلیکسیا طلبہ میں پایا جانے والا ایک ایسا عارضہ ہے جس کی وجہ سے طلبہ کو الفاظ یا د کرنے،تحریر کرنے اور پڑھنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور وہ پڑھنے ،لکھنے ،سننے ،بولنے،اور ہجے (Spelling)کرنے میں دشواریوں کا سامنا کرتے ہیں اور یہ معذوری عصبیاتی خرابی خاص طور پر بصری اور لفظی ارتباط (Visual-verbal association)میں کمی کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ڈسلیکسیا سے متاثر بچے کم از کم اوسط درجے کی ذہانت اور قابلیت کے مالک ہوتے ہیں۔ان میں یہ معذوری ذہانت یا قابلیت کی کمی کی بناء پر پیدا نہیں ہوتی ہے بلکہ ان میں الفاظ کے منظم اورموزوں استعمال اور فہم کی اہلیت ٹھیک طر ح سے پروان نہیں چڑھنے کی وجہ سے ہوتی ہے۔ اگر ڈسلیکسیا کی ابتد اء میں نشاندہی ہو جا تی ہے تو اساتذہ کی مناسب مدد اورنارمل پیئر گروپ کے اختلاط سے اس کو بہ آسانی حل کیا جا سکتا ہے ۔اس سلگتے تعلیمی مسئلے پر ہمار ے ملک ہندوستان میں ایک بہترین فلم تارے زمیں پر بھی بنائی گئی ہے جس میں اس معذوری کا کما حقہ احاطہ کرنے کے علاوہ تدارک اور سدباب پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ تارے زمیں کے رائٹر امول گپتا کا ایک قول میں یہاں نقل کرنا مناسب سمجھتا ہوں’’ مسئلہ بچوں کا نہیں نظام تعلیم کا ہے۔یہ بچوں کو مریض بنارہے ہیں۔آپ کسی بچے کو مار پیٹ کر قابل نہیں بنا سکتے ۔‘‘
(2)لکھنے میں الجھن یااملے کی دقت(Dysgraphia):
تحریر سے متعلق بچوں میں پائے جانے والی معذوری کو ڈسگرافیا کہا جاتا ہے ۔ڈسگرافیا سے متاثر طلبہ ٹھیک طور پر لکھ نہیں پاتے ہیں۔لکھنے سے متعلق یہ معذوری بصری اور حرکی افعال (Visual-Motor Act)میں ارتباط کے فقدان کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔بصری و حرکی افعال کے ارتباط میں نقص کے باعث یا داشت پر بھی خراب اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ڈسگرافیا کی وجہ سے بچے از خود لکھ نہیں پا تے اور ان کا خط بھی بہت شکستہ ہو تا ہے ایسے بچوں کو اصلاحی مشقوں Remedial Exercises))کے ذریعہ عام دھا رے میں لایا جا سکتا ہے
(3)تصور قائم کرنے میں ناکامی(Revisualistion):
بعض طلبہ پڑھے ہوئے اور لکھے ہوئے حروف کی صورت گیری یا تصور قائم کرنے میں ناکام رہتے ہیں ایسے طلبہ میں تصوراتی حافظے کی خامی پائی جاتی ہے۔ وہ بہ آسانی گفتگو کرسکتے ہیں لکھ پڑھ سکتے ہیں اور نقل بھی کرسکتے ہیں لیکن حافظہ کے بل پر حروف یا الفاظ کو نہیں لکھ پاتے ہیں۔
(4)علم الا عداد میں الجھن(Dyscalculia):
علم الا عداد میں الجھن Dyscalculia) ) کی بناء پر بچے معمولی حسا ب کتاب بھی نہیں کر پا تے ۔اگر اس کی ابتد اء میں نشاندہی ہو جا تی ہے تو اس پر بہ آسانی قابو پایا جا سکتا ہے۔ مذکورہ نقائص معمولی اور غیر معمولی قسم کے ہوتے ہیں معمولی قسم کے نقائص والے بچوں کو نا رمل بچوں کی جماعت میں ہی تعلیم دی جا سکتی ہے۔
(5)الفاظ اورجملے پڑھنے میں دقت کو(Dysphasia) کہاجاتا ہے ہیں۔الفاظ کی قرات میں ناکامی کی وجہ سے جملہ سازی،جملہ بندی بھی نہیں کر پاتے ہیں جس کو (Aphasia) کہاجاتا ہے ۔ چھپے ہوئے مواد کو بھی پڑھنے میں دقت کا سامنادیگر اکتسابی معذوری کی طرح اسکولی بچوں میں پائے جانے والی ایک اور اکتسابی معذوری ہے۔
اکتسابی معذوری کی علامات؛۔ عا م مشاہدے سے پتہ چلتا ہے کہ اکتسابی نقائص کا شکا ر طلبہ تختہ سیاہ سے اورکتا بوں سے الفاظ کو اپنے نو ٹ بک میں تحریر کر نے میں دقت محسوس کر تے ہیں کیو نکہ وہ الفاظ کو پڑھنے اور لکھنے میں تذبذب کا شکا ر ہو جا تے ہیں اور اسی بناء پر کسی حرف کا معکوس حرف تحریر کر تے ہیں۔ الفاظ و حروف کی شناخت میں تذبذ ب کی بناء پر عبا رت خوانی (پڑھنے )میں بھی دقت محسوس کر تے ہیں۔ایک مشفق و تجربہ کار استا د کی اگر رہبر ی میسر آجائے تو یہ طلبہ اپنے نقائص پر قابو پانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں اور سماج پر بوجھ بننے کے بجائے سما ج کا ایک فعال حصہ بن جا تے ہیں۔لیکن حقائق سے پتہ چلتا ہے کہ اکثر اکتسابی نقائص کا شکار بچے موثر رہبری کے فقدان کے باعث اپنا تعلیمی سفر منزل پر پہنچے سے پہلے ہی چھوڑ دیتے ہیں۔
اکتسابی معذور طلبہ کی تدریس کیسے انجام دی جائے؛۔بچوں کی اصلاحی تدریس کے فرائض کی انجام دہی سے قبل استاد بچوں کی مخصوص معذوری ،جذباتی ،برتاؤ کی خرابیوں کے علاوہ بچوں میں پائے جانے والی خوبیوں کا پتہ لگائیں۔بعض مرتبہ نقائص کی شناخت کے لئے پیشہ وار حضرات جیسے ماہرین تعلیم ،معالج ،ماہر امراض نفسیات اور اعصابی امراض کے ماہرین کی ٹیم کی ضرورت ہوتی ہے۔استعداد و مہارت کے معیار کی جانچ کے لئے مہارتوں اور استعداد کے امتحانات(Tests)کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔اکتسابی معذوری کا شکار طلبہ میں نصابی سرگرمیوں کی بہتری اور فروغ میں اساتذہ درج ذیل امور کو اختیار کرتے ہوئے فعال کردار انجام دے سکتے ہیں۔طلبہ میں اکتسابی مشقوں کو چھوٹے چھوٹے حصوں میں تقسیم کردیں۔ تاکہ ہر مشق کی تکمیل کے بعد طلبہ کو اطمینان اور مسرت کا احساس ہو سکے۔مشق کی کامیاب تکمیل کا احساس طلبہ میں تحریک و ترغیب پیدا کرنے میں اہم کردار انجام دیتا ہے۔بچوں میں الفاظ کو لکھنے اور پڑھنے کے لئے وافرمشقوں کی فراہمی کو یقینی بنائیں۔الفاظ کی ترکیب ،الفاظ کو جوڑنے اور علیحدہ کرنے کی سرگرمیاں طلبہ کو تفویض کریں تاکہ ہجے کرنے(Spelling) کی استعداد کو پروان چڑھایا جا سکے۔طلبہ کے معیار کی سطح کو ملحوظ رکھتے ہوئے املا لیں اور مناسب تحریر ی قواعد سے نہ صرف طلبہ کو روشناس کریں بلکہ ان قواعد کو ان کے ذہن میں پیوست کردیں جس سے ان میں تحریر کی صلاحیت پروان چڑھے گی ۔طلبہ میں ادراکی صلاحیت کو فروغ دینے کے لئے منظر کشی اور اس کے اظہار کے مواقع فراہم کیئے جائیں۔الفاظ کو ٹھیک ٹھیک طریقے سے نقل کرنے اور ان کی ترتیب کو ملحوظ رکھنے کا اہتمام کریں۔ ٹھوس،نیم مادی اور تجریدی تصوراتی تدریس کے ذریعہ طلبہ میں علم الاعداد کی مہارت کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔حرکی ادراکی مہارتوں کے فروغ کے لئے اساتذہ پہلے اکتسابی طور پر معذور بچوں کو معاون تدریس اشیاء کے استعمال کے ذریعہ جیسے زاویوں،منحنی خطوط،اور دائروں کو اتارنے کی تربیت دیں اور پھر بعد میں معاون تدریس اشیاء کی مدد کے بغیر مذکورہ افعال انجام دینے کے لئے طلبہ کو تیار کریں۔اکتسابی معذوری کا شکار طلبہ کو تیز تیز اور بہت زیادہ لکھنے کا کام تفویض نہ کریں۔ابتدائی مراحل میں زبانی امتحان پر ہی اکتفاء کرنا بہتر ہوتا ہے۔تعلیم سے بچوں کو مانوس کرنے کے لئے پہلے ان میں اعتماد پیدا کرنا ضروری ہوتا ہے۔بچوں میں اعتماد پیدا کرنے کے لئے ان کے بہتر کام پر تعریف و توصیف سے کام لیں۔سزا و جزاء کے ذریعہ طلبہ کو متحرک و فعال رکھا جا سکتا ہے۔انفرادی ،اصلاحی ،اختراعی تدریسی طریقوں اور اسکول کے روزمرہ کی روایتی سرگرمیوں میں تبدیلی لاکر اکتسابی معذوری کا شکار طلبہ میں اکتساب کے عمل کو فروغ دیا جاسکتا ہے۔کھیل کھیل میں تعلیم والی سرگرمیوں جیسے الفاظ کا تجزیہ،اعادہ ،ترتیب و بندش اکتسابی معذور طلبہ میں تعلیم کے فروغ میں کلیدی کردار انجام دیتی ہے۔بچوں کی تعلیمی استعداد کے مطابق سہل اور ترمیم شدہ اصلاحی سرگرمیوں کو جو اکتسابی معذور طلبہ کے لئے سود مند ہو شامل تدریس کرنا ضروری ہوتا ہے۔اکتسابی معذور طلبہ کے لئے مستعمل طریقہ تدریس سے والدین کو آگا ہ کر نا ضروری ہوتا ہے تاکہ دونوں جانب سے بچے کی بہتر ی کو یقینی بنایا جائے۔والدین اساتذہ اور تعلیم سے وابسطہ افراد کی اجتماعی کاوشوں سے اکتسابی معذور طلبہ کی ناکامیوں کو کامیابیوں میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ہمہ جہت ترقی کو یقینی بناتے وقت اکتسابی معذور طلبہ کی تعلیمی ضروریات کا خاص خیال رکھا جا نا ضروری ہے۔طلبہ کو زندگی کے لئے معاون مہارتوں سے لیس کریں تاکہ وہ سماج کے لئے ایک کار آمد اور بہترین شہری ثابت ہوں۔اساتذہ اپنے فرائض کی بہتر انجام دہی اور تعلیمی خسارے سے پاک تدریس کو اختیار کرتے ہوئے اعلی اقدار کو پروان چڑھانے کے ساتھ اپنے فرائض سے عہدہ براں ہوسکتے ہیں۔