خلافت الٰہیہ کے لیے دو بنیادی چیزیں
مفتی کلیم رحمانی
8329602318 Mob:
سورہ بقرہ کے بتیسویں رکوع میں اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے ایک تاریخی واقعہ کو بیان فرمایا ، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ جب جالوت بادشاہ نے بنی اسرائیل پر ظلم و ستم ڈھائے اور انہیں ان کے گھروں سے نکال دیا تو بنی اسرائیل نے وقت کے نبی حضرت شموئیل ؑ سے درخواست کی کہ ہمارے لیے کوئی بادشاہ مقرر کردیجیے تا کہ اس کی قیادت میں ہم اللہ کی راہ میں جنگ کریں تو حضرت شموئیل ؑ نے پہلے ان سے کہا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ جنگ فرض ہونے کے بعد تم جنگ نہ کرو؟
بنی اسرائیل نے کہا ہم اللہ کی راہ میں جنگ کیوں نہ کریں گے جب کہ ہم کو ہمارے گھروں اور بیٹوں سے نکال دیا گیا ہے۔ اس کے بعد حضرت شموئیل ؑ نے اللہ سے بادشاہ کے تقرر کی دُعا کی تو اللہ نے طالوت کو ان کے لئے بادشاہ مقرر فرمادیا۔ جب حضرت شموئیل ؑ نے بنی اسرائیل سے کہا کہ اللہ نے تمہارے لیے طالوت کو بادشاہ مقرر فرمایا ہے تو انہوں نے اس کے جواب میں کیا کہا اور حضرت شموئیل ؑ نے طالوت کی تقرری پر کیا دلیل دی اللہ نے اس کو یوں بیان فرمایا :
قَالُوْا اَنّٰی ےَکُوْنُ لَہُ الْمُلُکُ عَلَےْنَا وَ نَحْنُ اَحَقُّ بِالْمُلُکِ مِنْہُ وَ لَمْ ےُوْتَ سَعَۃَّ مَّنَ الْمَالِ قَالَ اِنَّ اللّٰہَ اصْطَفٰہُ عَلَےْکُمْ وَ زَادَہٗ بَسْطَۃً فِی العِلْمِْ وَالْجِسْمِ
( البقرہ: ۲۴۷)
’’ بنی اسرائیل نے کہا اس کو ہم پر کیوں کر بادشاہت حاصل ہوگئی حالاں کہ اس سے زیادہ بادشاہت کے ہم مستحق ہیں اور اس کو مال کی وسعت نہیں دی گئی حضرت شموئیل ؑ نے کہا بے شک اللہ نے اس کو منتخب کیا ہے تم پر اور زیادہ فراخی دی اس کو علم اور جسم میں۔ ‘‘
مذکورہ واقعہ صرف واقعہ ہی نہیں بلکہ اس میں حکومتِ الٰہیہ کے قیام کے لئے ایمان کے بعد جن دو بنیادی چیزوں کی ضرورت ہے ان کا بھی ذکر ہے اور وہ دو چیزیں علم اور طاقت کی وسعت ہے اس لیے کہ جسم کی فراخی کا اطلاق طاقت پر ہوتا ہے ، اور ان دو چیزوں کے حکومتِ الٰہیہ کے قیام کے لیے ضروری ہونے کی دلیل یہ ہے کہ جب بنی اسرائیل کے افراد نے طالوت کی بادشاہی پر
اعتراض کیا تو وقت کے نبی نے طالوت کی بادشاہی پر علم اور جسم کی فراخی کی دلیل دی۔ اس سے معلوم ہوا کہ حکومتِ الٰہیہ کے قیام کے لئے علم اور طاقت کی وسعت ضروری ہے اور اسی سے یہ بات بھی واضح ہوئی کہ علم اور طاقت کی وسعت کا حصول دینی و ایمانی فریضہ و تقاضہ ہے اور اس سے صَرف نظر کرنا دینی و ایمانی فریضہ و تقاضہ سے صَرف نظر کرنا ہے۔
علم کی وسعت کا مطلب ہے اللہ کی مرضی و نا مرضی کو پورے طور پر جاننا اور اس کی مرضی کو زمین پر نافذ کرنے اور نامرضی کو زمین سے ختم کرنے کے طریقوں سے واقف ہونا۔ اور اللہ کی مرضی اور نامرضی کو پورے طور پر جاننے کا علم ہمیشہ اللہ کی نازل کردہ کتابوں اور اس کے بھیجے ہوئے رسولوں کی تعلیمات میں رہا ہے، لیکن اب چوں کہ قرآن مجید اور محمد ﷺ کی تعلیمات کے علاوہ دُنیا میں کوئی اور اللہ کی کتاب اور کسی نبی کی تعلیمات صحیح حالت میں باقی نہیں رہی ، اس لیے اللہ کی مرضی اور نامرضی کو پورے طور جاننے کے لیے قرآن اور احادیث رسول کا علم ضروری ہے ، اور چوں کہ علم کی وسعت میں اللہ کی مرضی کو زمین پر نافذ کرنے اور نامرضی کو زمین سے ختم کرنے کے طریقوں کا علم بھی شامل ہے ، اور زمین پر اللہ کی مرضی کا نفاذ اور نامرضی کا خاتمہ حکومتِ الٰہیہ کے ذریعہ ہوتا ہے، اس لیے حکومتِ الٰہیہ کے قیام و بقا کے لیے مزید جس علم کی ضرورت پڑے اس کا حاصل کرنا بھی دینی فریضہ ہے جسے عرفِ عام میں عصرِ حاضر کا علم کہا جاتا ہے، اور خود آنحضور ﷺ نے عصرِ حاضر کے علم کی ضرورت و اہمیت کو محسوس فرما کر اس کے تقاضے کو پورا کیا، مثلاً ایک روایت میں فرمانِ رسول ﷺ ہے :
عَنْ زَےْدِ ابْنِ ثَابِتٍ قَالَ اَمَرَنِیْ رَسُولُ اللّٰہِ ﷺ اَنْ اَتْعَلَّمَ السُّرْےَانِےَۃَ وَ فِیْ رِوَاےَۃٍ اَنَّہٗ اَمَرَنِیْ اَنْ اَتَعَلَّمَ کِتَابَ ےَھُوْدَ وَ قَالَ اِنَّی مَا اٰمَنَ ےَھُوْدَ عَلٰی کِتَابٍ قَالَ فَمَا مَرَّبِیْ نِصْفُ شَھْرٍ حَتّٰی تَعَلَّمْتُ فَکَانَ اِذَا کَتَبَ اِلٰی ےَھُوْدَ کَتَبْتُ وَ اِذَا کَتَبُوْا قََرَأْتُ لَہٗ کِتَابَھُمْ ۰ ( ترمذی )
’’ حضرت زید بن ثابتؓ کہتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ ﷺ نے سُریانی زبان سیکھنے کا حکم
دیا ، اور ایک دوسری روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے مجھے یہود کا رسم الخط سیکھنے کا حکم دیا اور فرمایا کہ مجھے یہود کی کسی تحریر پر بھروسہ نہیں ہے، حضرت زید بن ثابتؓ کہتے ہیں کہ پندرہ دن نہیں گزرے تھے کہ میں نے یہود کا رسم الخط سیکھ لیا، پس آپ ﷺیہود کی طرف جو کچھ لکھنا چاہتے میں لکھ دیتا اور جب ان کی طرف سے آپ ﷺ کے پاس کوئی خط آتا میں آپ کو پڑھ کر سُنا دیتا۔ ‘‘
لیکن عصرِ حاضر کے علم کے متعلق یہ بات واضح رہے کہ قرآن و حدیث کی فکر کے تابع رہنا چاہیے گویا کہ اصل قرآن و حدیث کا علم ہے اور عصر حاضر کا علم ذریعہ و سبب ہے، اگر عصر حاضر کا علم قرآنی فکر سے آزاد ہوتو اسلام میں نہ اس کی کوءٍٍی حیثیت ہے اور نہ کوئی ضرورت۔
اس سے معلوم ہوا کہ اسلام کے نزدیک عصر حاضر کا وہی علم قابل قبول ہے جس سے دین کی کوئی خدمت و ضرورت انجام پاتی ہو۔ لیکن یہ المیہ ہی ہے کہ آج دنیا میں عصر حاضر کے جس علم کو غلبہ حاصل ہے وہ قرآنی فکر سے بالکل آزاد ہے اور اس علم سے باطل کی خدمت و ضرورت ہی انجام پارہی ہے اور ستم ظریفی یہ کہ بہت سے مسلمان اسی عصری علم کو سب کچھ سمجھ رہے ہیں اور قرآنی علم سے بالکل بیگانہ ہوگئے ہیں جبکہ مسلمانوں کے لئے دینی لحاظ سے عصری علم اسی وقت مفید ہوسکتا ہے جب کہ وہ قرآنی علم سے بہرہ مند ہو، ورنہ یہی علم انہیں دین سے دور کرے گا اور کفر سے قریب کرے گا چنانچہ آج جو مسلمان قرآنی علم کے بغیر عصری علم کے میدان میں قدم رکھے ہوئے ہیں ان کی فکر وعمل اسلام سے دور اور کفر کے قریب ہے اور مزید یہ کہ وہ قرآنی علم کو جہل سمجھتے ہیں اس لیے ضروری ہے کہ مسلمان پہلے قرآنی علم حاصل کریں پھر عصری علوم کی طرف توّجہ دیں۔
حکومتِ الٰہیہ کے لیے دوسری چیز طاقت ہے، طاقت سے مراد جسمانی و جنگی طاقت ہے اس لیے کہ حکومتِ الٰہیہ کے قیام و بقا کے لیے جنگی طاقت کی شدید ضرورت پڑتی ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اہلِ ایمان کو جنگی طاقت کی فراہمی کا حکم بہت تاکید کے ساتھ دیا۔
وَاَعِدُّوْا لَھُمْ مَا اسْتَطَعْتُمَ مِنْ قُوَّۃٍ وَ مِنْ رَّبَاطِ الْخَےْلِ تُرْھِبُوْنَ بِہٖ عَدُوِّاللّٰہِ وَ عَدُوُّکُمْ وَ آخَرِےْنَ مِنْ دُوْنِ ھِمْ لاَتَعْلَمُوْنَھُمْ اَللّٰہُ ےَعْلَمُ ھُمْ ( انفال : ۶۰)
’’ اور تیار کرو ان ( سے لڑائی ) کے لیے تم سے جتنی ( جنگی) قوت ہوسکے اور پلے ہوئے گھوڑے تاکہ اس کے ذریعہ تم اللہ کے دشمن اور تمہارے دشمن کو ڈرا سکو اور ان کے علاوہ دوسروں کو بھی جنہیں تم نہیں جانتے اللہ انہیں جانتا ہے۔ ‘‘
مذکورہ آیت کی تفسیر میں ایک مفسر قرآن مفتی محمد شفیع صاحب ؒ نے اپنی تفسیر معارف القرآن میں جو کلمات تحریر فرمائے ہیں وہ ملاحظہ ہوں : ’’ مِنْ قُوَّۃٍ‘‘ یعنی مقابلہ کی قوت جمع کرو اس میں تمام جنگی سامان اسلحہ، سواری وغیرہ بھی داخل ہیں اور اپنے بدن کی ورزش ، فنون جنگ کاسیکھنا بھی، قرآن کریم نے اس جگہ اس زمانہ کے مروجہ ہتھیاروں کا ذکر نہیں فرمایا بلکہ قوت کا عام لفظ اختیار فرما کر اس طرف بھی اشارہ کردیا کہ یہ قوت ہر زمانہ اور ملک و مقام کے اعتبار سے مختلف ہوسکتی ہے اس زمانہ کے اسلحہ تیر، تلوار، نیزے تھے اس کے بعد بندوق توپ کا زمانہ آیا، پھر اب بموں اور راکٹوں کا وقت آگیا۔ لفظ قوت ان سب کو شامل ہے اس لیے آج کے مسلمانوں کو بقدر استطاعت ایٹمی قوت، ٹینک اور لڑاکا طیارے، آبدوز کشتیاں جمع کرنا چاہیے کیوں کہ یہ سب اسی قوت کے مفہوم میں داخل ہیں۔ اور اس کے لیے جس علم و فن کو سیکھنے کی ضرورت پڑے وہ سب اگر اس نیت سے ہو کہ اس کے ذریعہ اسلام اور مسلمانوں کے دفاع کا اور کفّار سے مقابلہ کا کام لیا جائے گا تو وہ بھی جہاد کے حکم میں ہے۔ ‘‘ ( معارف القرآن جلد ۴، صفحہ ۲۷۲)
مذکورہ آیت سے یہ بات بھی واضح ہوئی کہ اسلام میں جنگی سازو سامان جمع کرنے کا مقصد جہاں اسلام اور مسلمانوں کے دشمنوں سے جنگ کرنا ہے وہیں دشمنانِ اسلام کو مرعوب کرنا بھی ہے، مطلب یہ کہ اگر دشمنانِ اسلام مسلمانوں سے جنگ نہ کریں تب بھی مسلمانوں کو جنگی سازو سامان سے خالی نہیں رہنا چاہیے، بلکہ جنگی ساز وسامان ہمیشہ تیار رکھنا چاہیے تا کہ دشمنانِ اسلام مرعوب رہیں۔
حکومتِ الٰہیہ کے قیام و بقا میں علم اور طاقت کی اہمیت و ضرورت اس لیے بھی زیادہ بڑھ جاتی ہے کہ اللہ کے نبی حضرت شموئیل ؑ نے طالوت کی بادشاہی کے ثبوت میں یہ دوچیزیں بنی
اسرائیل کے اس اعتراض کے جواب میں ارشاد فرمائی تھی جس میں بنی اسرائیل نے کہا تھا کہ طالوت کو مالی فراخی حاصل نہیں ہے ۔ اس سے معلوم ہوا کہ حکومتِ الٰہیہ کے قیام و بقا میں اصل چیز علم اور طاقت کی وسعت ہے، اور ویسے بھی دیکھا جائے تو دنیا میں عام طور سے مالی وسعت علم اور طاقت کے تابع ہوتی ہے جو قوم صاحب علم اور صاحب طاقت ہوتی ہے وہ صاحب مال بھی ہوتی ہے ، اور جو قوم، صاحب علم اور صاحب طاقت نہیں ہوتی وہ صاحبِ مال بھی نہیں ہوتی۔ لیکن یہ المیہ ہی ہے کہ آج اُمّت مسلمہ نے مجموعی لحاظ سے مالی فراخی ہی کوسب کچھ سمجھ لیا ہے اور اسی کے حصول میں لگی ہوئی ہے اور علم و طاقت کے حصول سے منہ موڑے ہوئے ہے۔ یہ بات یقین کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ آج اُمّت مسلمہ مالی فراخی کے لیے جتنی کوشش کررہی ہے اگر وہ اتنی کوشش علم اور طاقت کے حصول کے لئے کرے تو بہت جلد اس کی مغلوبیت غلبہ سے بدل جائے گی اور پھر اسے مالی فراخی بھی حاصل ہوگی۔
تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ جب بھی اُمّت مسلمہ نے علم اور طاقت سے اپنا رشتہ جوڑے رکھا وہ دُنیا میں فاتح و غالب رہی اور دُنیا کو خزانوں کی مالک رہی، اور جب بھی اُمّت مسلمہ نے علم اور طاقت سے اپنا رشتہ توڑا مغلوبیت و ذِلّت اس کا مقدر رہی اور خود اپنے خزانوں کی کنجیوں سے محروم رہی۔ حکومتِ الٰہیہ کے قیام و بقا میں علم وجنگی طاقت دونوں ہی یکساں طور پر اہمیت رکھتے ہیں اگر ان میں سے کوئی ایک چیز ہو اور کوئی ایک نہ ہو یا دونوں میں ضرورت کے مطابق توازن برقرار نہ ہوتو ان میں ایک چیز کامل طور پر ہونے کے باوجود حکومتِ الٰہیہ قائم نہیں ہوسکتی، اور کہیں قائم ہو توباقی نہیں رہ سکتی۔ چنانچہ اسلامی تاریخ میں ایسے بہت سے واقعات ملتے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ جب علم اور جنگی طاقت میں سے صرف ایک چیز میں کمی واقع ہوگئی تو دوسری کے پورے طور پر ہونے کے باوجود صدیوں کی قائم حکومت منٹوں میں ختم ہوگئی، ہم یہاں صرف دو واقعات کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
۶۵۶ ھ میں تاتاریوں کے ہاتھوں بغداد کی تباہی کا واقعہ اسلامی تاریخ کا ایک سانحہ عظیم
ہے اور کیوں نہ ہو اس لیے کہ صدیوں کی قائم خلافت عباسیہ دنوں میں ختم ہوگئی اور بغداد و اس کے مضافات میں صرف ایک ہفتہ کے اندر ایک کروڑ چھ لاکھ مسلمان تاتاریوں کے ہاتھوں قتل ہوئے اور برسوں کی کوششوں کے بعد علمائے اسلام نے جو علمی سرمایہ کتابوں میں جمع کیا تھا وہ سب کا سب دریا برد کردیا گیا۔ لیکن یہ جہاں ایک سانحہ عظیم وہیں اُمّت مسلمہ کے لیے ایک تازیانہ عبرت بھی ہے، اور وہ ہے مسلمانوں کا جنگی طاقت کی طرف سے توجہ کم کرلینا اور پوری توجہ حصول علم کی طرف کرلینا، چنانچہ جب ہلاکو خاں کی قیادت میں تاتاری قوم نے بغداد پر حملہ کیا تو اس وقت بغداد کے مسلمان پوری دُنیا کے علمی امام شمار ہوتے تھے اور بغداد میں سینکڑوں کتب خانے تھے اور ہر کتب خانے میں لاکھوں کتابیں موجود تھیں ، دینی و عصری علوم کا کوئی شوشہ ایسا نہ تھا جو ان کی نوک قلم پر نہ آیا ہو، لیکن دوسری طرف جنگی بے توجہی کا یہ عالم تھا کہ جب چھوٹی سی تاتاری قوم نے بغداد پر حملہ کیا تو مسلمانوں کی طرف سے اسے کسی بڑی مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا، اور جب تاتاری بغداد میں داخل ہوئے تو مسلمان اپنے ہاتھوں میں قرآن لے کر تاتاریوں سے معافی کی بھیک مانگنے لگے لیکن انہوں نے کسی کو بھی نہیں بخشا ، گویا اس واقعہ کے ذریعہ تاریخ نے مسلمانوں کو یہ پیغام دیا کہ ایسے موقع پر مسلمانوں کے ہاتھ میں قرآن کے ساتھ ہتھیاربھی رہنا چاہیے، اور جو بھی ایسے موقع پر ہتھیار چھوڑ کر اپنے ہاتھوں میں صرف قرآن تھامے گا اس کا انجام وہی ہوگا جو اہل بغداد کا ہوا، لیکن ایسے موقع پر مسلمانوں کے ہاتھوں میں ہتھیار اسی وقت اُٹھ سکتے ہیں جب کہ پہلے ہی سے ہاتھوں نے ہتھیار اُٹھانے کی مشق کی ہو۔ بغداد کی تباہی کا یہ نتیجہ نکلا کہ وہ دریاے دجلہ جو کبھی مسلمانوں کے کارنامے اپنے ساتھ لے کر بہتا تھا مسلمانوں کے خون کو لے کر بہنے لگا اور اس میں مسلمانوں کا خون اتنا زیادہ گرا کہ اس کا پانی سرخ ہوگیا، ابھی پانی کی سرخی ختم نہیں ہوئی تھی کہ اس میں علمائے اسلام کے ہاتھوں لکھی ہوئی کتابیں اتنی زیادہ مقدار میں ڈالی گئی کہ ایک طرح سے کتابوں کا پُل بن گیا اور کتابوں کی روشنائی پگھلنے سے دریا کا پانی سیاہ ہوگیا اور کئی روز تک دریائے دجلہ بالکل سیاہ بہتا رہا، گویا دریائے دجلہ نے آئندہ آنے والے مسلمانوں کے لیے یہ پیغام چھوڑا
کہ جنگی طاقت بغیر ان کا خون و علمی سرمایہ پانی میں ملنے والا ہے۔ غرض یہ کہ بغداد کی تباہی کے عوامل میں سے ایک بنیادی عامل مسلمانوں کا جنگی طاقت سے بے توجہی برتنا تھا۔ حکومتِ الٰہیہ کے قیام و بقا میں مالی ذخیرہ اندوزی کتنی بے وقعت چیز ہوتی ہے اسی تباہی بغداد کے واقعہ سے اچھی طرح سمجھا جاسکتا ہے۔ بغداد پر قبضہ کرنے کے بعد تاتاریوں کے سردار ہلاکو خان نے اپنی قیدمیں گرفتار خلیفہ معتصم باللہ سے حکومت کے خزانوں کے متعلق پوچھا تو خلیفہ نے زیر زمین مدفون و ہ تما م خزانے بتائے جن میں سونے ، چاندی، ہیرے، جواہرات اور اشرفیوں کے انبار تھے اور جب خلیفہ نے بھوک سے بے تاب ہو کر کھانا مانگا تو اس نے اشرفیوں سے بھر ا ایک طشت خلیفہ کی خدمت میں پیش کیا خلیفہ نے کہا کہ میں اس کو کیسے کھاؤں تو اس وقت ہلاکو خان نے بطور طعنہ ایک حقیقت یاد دلائی کہ کاش ان اشرفیوں سے تو فوج تیار کرتا جو اس وقت تیری طرف سے لڑتی اور تیری حکومت کا دفاع کرتی۔ یقیناًً یہ ایک ایسی حقیقت کا اظہار تھا کہ خلیفہ معتصم باللہ کو اس کا شدت سے احساس ہوا ہوگا لیکن اس احساس نے اس وقت سوائے پچھتاوے کے کوئی اور فائدہ نہیں دیا۔
دوسرا واقعہ ہندوستان سے ایک ہزار سالہ مسلم دور حکومت کا خاتمہ ہے، جب یہ مسلم حکمراں ہندوستان آئے تو علمی اور جنگی دونوں طاقتوں سے لیس تھے لیکن جیسے جیسے ان کا اقتدار مضبوط ہوتا گیا ویسے ویسے علم کی طرف سے ان کی توّجہ کم ہوتی گئی ، اور صرف جنگی طاقت ہی کو انہوں نے توجہ کا مرکز بنا لیا بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ بعض حکمرانوں نے صرف اقتدار ہی کو مقصد سمجھ لیا جب کہ اسلام میں اقتدار ذریعہ ہے ، اور اصل مقصد نفاذ دین ہے، اس سوچ کا نتیجہ یہ نکلا کہ مسلم دور حکومت میں انسانوں کے سروں کی حفاظت کے لیے حکومت کی طرف سے ہزاروں قلعے تعمیر ہوئے، لیکن انسانوں کے دماغوں کی اصلاح و حفاظت کے لیے حکومت کی طرف سے چند درس گاہیں بھی تعمیر نہیں ہوئیں جن میں دینی و عصری علوم کی مکمل تعلیم ہوتی ہو۔ علم سے بے توجہی کا یہ عالم تھا کہ حکومت کے بڑے بڑے وزراء و فوجی سربراہان دین کے بنیادی عقائد سے ناواقف تھے، اور عصر حاضر کے لازمی تقاضوں سے نابلد تھے۔