افسانہ : نقشۂ قہر :- ڈاکٹر صفیہ بانو.اے.شیخ

Share
ڈاکٹر صفیہ بانو.اے.شیخ

افسانہ : نقشۂ قہر

ڈاکٹر صفیہ بانو.اے.شیخ

آج کی تازہ خبر کہتے ہوئے اخبار والا میرے گھر کے باہر سے نکل رہا تھا میں نے اُسے آواز دے کر کہاکہ اے اخبار والے ایسی کیا تازہ خبر ہے ؟جو تو چیخ چیخ کر خبر اور اخبار دونوں بیچ رہا ہے ۔اخبار والا مجھ سے مخاطب ہو کر کہنے لگا صاحب آپ کو پتہ نہیں کیرل میں قدرتی قہر نازل ہوا ہے ۔

تم کونسی دنیا میں جی رہے ہوں ؟ اپنے ہی پڑوسی راجیہ کی خبر نہیں رکھتے ہوں۔ حیدرآباد سے کیرل کا فاصلہ بہت کم ہے بہر حال اس آجکل اخبار میں ساری تفصیل دی جاچکی ہے اور تمہیں اِسے خریدنا ہے یا پھر انٹرنیٹ پر ہی دیکھ لوگے ؟کیا زمانہ آگیا ہے ہم دنیا سے جڑ گئے لیکن اُس کے باوجود بھی ہم اپنے ہی پڑوس میں کیا ہورہا ہے اس بارے میں ہمیں جاننے کی فرصت ہی نہیں ۔ میں نے اخبار والے سے کہا کہ یہ لو پانچ روپے اور مجھے ایک اخبار دے دو ۔ اخبار کی سرخیوں میں بس یہی لکھا ہوا تھا’ کیرل میں قدرتی قہر ‘ ۔ اخبار پڑھنے کے ساتھ مجھے چائے کی طلب ہوئی میں نے اپنی بیوی انیتا سے کہا کہ مجھے ایک کپ چائے بھیجوانا ،لیکن انیتا ٹیلی وژن میں اتنی گُم ہوچکی تھی کہ اُس نے میری آواز تک نہ نہیں سُنی ۔ جب میں اُس کے قریب گیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہ نیوز چینل پر بتائی گئی کیرل کی خبر کو دیکھ اور سُن کر پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھی جیسے ہی اُس نے مجھے دیکھا وہ تو میرے گلے لگ کر رونے لگی ۔کیونکہ اُسے اتراکھنڈ کا منظر یاد آنے لگا۔ میں اُسے سمجھانے لگا ہم قدرتی قہر کو نہیں روک سکتے مگر ہاں آج سے ہم یہ وعدہ ضرور کرتے ہیں کہ ہم وہ کام وہ چیزیں استعمال نہیں کریں گے جس کے سبب قدرت کا قدرتی پن غائب ہوجائے ۔
یہ سارا واقعہ شام کے چار بجے ہوا۔ میں نے انیتا کو بہت سمجھا یا،اچانک تھوڑی ہی دیر کے بعد اسکول سے میرے دونوں بچے رام اور راج آگئے اور انیتا کی دنیا پھر سے چار کونوں میں قید ہوگئی ۔میں ایک مصور تھا اسلئے میں جب بھی ایسے حالات کو سنتا ہوں یا دیکھتا ہوں میرے ہاتھ برس پکڑنے پر مجبور ہوجاتے ہے میں نے کیرل میں آئے قدرتی قہر کو تصویروں میں قید کیا ، کسی گاڑی کو ڈوبتے ہوئے دکھایا تو کسی میں ہوائی جہاز سے ریسکیو کرتے ہوئے بتایا ،تو کسی تصویر میں گھروں کو تیرتے ہوئے بتایا ،تو کسی کو بارش میں بھیگتے ہوئے بتایا ، لیکن سب سے زیادہ میں اُس تصویر کو دیکھتا ہوں جو ایک ماں اپنے دو معصوم بچوں کے ساتھ مکان سمیت ڈوبتی جارہی تھی اُس کے ہاتھ بچاؤ بچاؤ کہہ رہے ہوں ایسا بنایا گیا اکثر تصویریں بولتی ہیں میں نے سُنا تھا لیکن آج دیکھ بھی رہا ہوں۔ ان سبھی تصویروں کو بہت سنبھال کر رکھا ۔ حیدرآباد شہر میں ایک پینٹننگ اسٹوری کا نمائشی پروگرام ہونے والا تھا،حالانکہ اس خبر کو آئے پانچ روز ہوچکے تھے ، لیکن جب سے کیرل میں قدرتی قہر کا منظر دیکھا ہے بس دن رات تصویر پر تصویر بنائے جارہا ہوں ۔
ایک روز میں اپنے دوست منیش کے گھر گیا۔ اُس نے مجھے دیکھتے ہی گلے لگایا اور کہنے لگا کہ کیا ہوا تم بھی اس نمائشی پروگرام میں اپنا جلوہ دِکھا رہے ہوں یا نہیں ؟ میں نے اُسے ٹالتے ہوئے کہا میرا جی نہیں کر رہا ہے ،تم نے دیکھا نہیں کیرل میں قدرتی قہر ،ہاں لیکن پرکاش اُس سے تمہارے اِس نمائشی پروگرام سے کیا تعلق ہے؟ اور میں جانتا ہوں تم ایک حساس طبیعت کے مالک ہوں تمہیں کسی کا دکھ درد برداشت نہیں ہوتا ہے پرکاش میں چاہتا ہوں کہ تم پریکٹکل بنو ، قدرتی قہر آنا تھاسو آگیا ،لیکن تمہیں یہ بار بار موقع نہیں ملے گا میرے دوست ۔ میں نے منیش سے کہا ٹھیک ہے کوشش کرونگا ۔ منیش نے کہا پرکاش کوشش نہیں تمہیں کرنا ہی ہوگا ۔ پرکاش تم ایسا کروکے کہ تم نے ضرور کیرل کی اس قدرتی قہر منظروں کو تصویروں میں قید کیا ہوگا ،تم اِسی کو اسٹوری بنا کر پیش کردو ۔
منیش کے گھر سے نکل نے کے بعد میں نے نمائشی پروگرام میں حصہ لینے کے لیے ساری کاغذی کاروائیاں کرڈالی ۔ کچھ ہی دنوں کی بعد یہ پروگرام ہونے والا تھا ۔ میں نے اسٹوری کا نام ہی نقشۂ قہر رکھ ڈالا ۔ میں جانتا تھا لوگ کسی بھی حادثے پر اپنی ہمدردی جتاتے ضرور ہے لیکن اُس کا ساتھ کبھی نہیں دیتے ۔ آج نمائشی پروگرام ہوا ۔اور میری اسٹوری انعام کی حقدار ہوئی ۔ مجھے یقین تھا کہ لوگ حقیقت کو ضرور اپنائے گے ۔ لوگوں کی زبان پر یہی تھا کہ قدرتی منظر نقشۂ قہر کی تصویروں میں ایسا اترا جیسے وہ اُس وقت کی ہوبہو کی حقیقت بیان کررہا ہوں ۔ البتہ لوگوں نے سب سے زیادہ اُس تصویر کے ساتھ ہمدردی جتائی جو ایک ماں اپنے دو معصوم بچوں کو بچاؤ بچاؤ کہتے ہوئے مقام سمیت ڈوبتی جاتی ہے پروگرام ایسی جگہ منعقد کیا گیا تھا جہاں قدرت کے نظاروں کو نزدیک سے دیکھا جاسکتا تھا ۔اچانک بارش کی بوندوں نے قدرت کے نظاروں کو اور بھی خوبصورت بنا دیا ۔بارش رجھم جھم کرتے کرتے بہت تیز ہوگئی لوگ پہلے پہل گھبرائے لیکن پھر سب کو یہ احساس تھا کہ یہ لوگ ابھی ابھی بنائی گئی نئی اشوک پیلیس نامی عمارت میں ہے اسلئے لوگ اطمینان سے اس پروگرام کو انجوئے کر رہے تھے ۔
میری بیوی اپنی بہن کے لڑکے کی شادی میں اتراکھنڈ گئی ہوئی تھی حالانکہ یہ سارا پہلے سے ہی طے شدہ تھا میری بیوی انیتا نے رُکنے کا بہت اسرارکیا مگر میں نے اُسے جانے کے لیے کہا،لیکن وہ میری بات نہیں ٹالتی لیکن اس دن جانے کیوں اُسے کیا ہوگیا ہے کہ نہیں جانے کی ضد کر بیٹھی ہے حالانکہ اِس سے پہلے بھی میں اُس کے ساتھ اتراکھنڈ جاچکا تھا ۔اتراکھنڈ قدرت کا خوبصور ت علاقہ ہے اس علاقے کی خوبصورتی چاروں طرف پہاڑ اور جھرنے کے نظارے میری تصویروں میں ہمیشہ کے لیے قید ہیں ۔میری اور انیتا کی پہلی ملاقات بھی وہیں پر ہوئی تھی میں اپنے دوستوں کے ساتھ پہلی بار گھومنے آیا ۔مجھے اُس سے کب محبت ہوئی پتہ بھی نہیں چلا ۔میں اُس سے ملنے اچانک اُس کے گھر چلا گیا ۔انیتا کے ماتا پتا نے صاف کہہ دیا ہمارے یہاں لڑکا اور لڑکی رشتہ طے نہیں کرتے بلکہ گھر کے بزرگوں سے رشتے جڑتے ہیں۔ انیتا کافوٹو میں نے اپنے واہٹس ایپ کے ذریعے اپنے ماتا پتا اور بڑے بھائی آکاش کو بھیج دیا اورانہوں نے میری پسند کو منظوری دے دی حالانکہ شروع میں انیتا کے ماتا پتا راضی نہیں ہوئے کہااتراکھنڈ اور کہا حیدرآباد ۔ فاصلہ بہت تھا لیکن کسی بھی طرح راضی کرکے میں انیتا کو بیاہ کر حیدآباد لے آیا ۔
میں ابھی اُسی پروگرام میں ہی تھا کہ مجھے ایک فون آیا کہ تمہاری بیوی اور بچے اب اس دنیا میں نہیں رہے ۔ میں ہانپتے ہوئے بار بار یہی پوچھ رہا تھا آپ کون ہو؟ اور میری بیوی بچوں کو کیسے جانتے ہو ؟ اُس نے کہا کہ میں آج کل نیوز چینل سے بات کررہا ہوں اور ابھی آپ ٹیلی وژن چلا کر دیکھے کہ اتراکھنڈ میں شدید بارش کے سبب پہاڑوں میں لینس لائیڈ ہوا ہے پہاڑ کے بڑے بڑے ٹکڑے اتنی تیزی سے گرے کہ مکان کے مکان ملبے میں تبدیل ہوگئے ۔ میں نے فون کو بند کیا اور فوراً ٹیلی وژن کی اور بڑھا۔ میں نے ایک شخص کی طرف مخاطب ہو کر آج کل نیوز چینل کو لگانے کا اسرار کرنے لگا ۔ میں بہت گھبرایا ہوا تھا اسلئے اس نے میری حالت دیکھ کر پوچھ لیا ایسا کیا ہوا کہ تم اتنے گھبرائے ہوئے کیوں ہوں ؟ نیوز چینل کے لگتے ہی میں نے دیکھا کہ وہ ایک ویڈیو بار بار دِکھا رہے کہ ایک عورت اپنے دو معصوم بچوں کے ساتھ اوپری منزلہ پر تھی اچانک لینس لائیڈ ہونے پر وہ بچاؤ بچاؤ کہتے ہوئے زمین میں دھنستے گئے ۔ اب وہ ہمیشہ کے لیے موت کی نیند سو گئے۔میں اپنی بنائی ہوئی اُس تصویر کو یاد کرکے اپنی آنکھوں میں دیکھ رہا تھا کہ یہ تو نقشہ قہر ہوگیا میں نے اتفاقاًسے اُس تصویر کو بنایا تھا مگر وہ تصویر حقیقت کا روپ لے چکی تھی ۔ میں جتنا قدرتی قہر کو لے کر نہیں رویا آج میں اُس نقشہ قہر کو لے کر رو رہا ہوں جس نے میری زندگی میں قہر برپا ۔میں زور زور سے کہنے لگا کہ نقشۂ قہر …..! ہائے نقشۂ قہر ……………!ہائے نقشۂ قہر ……………..!
————–
Dr. Sufiyabanu . A. Shaikh
C- Ground Floor Tajpalace, Kumbharwada
380001. ,Jamalpur Ahmedabad
Mob: 9824320676

Share
Share
Share