افسانہ : پرانی ڈائری
محمد قمر سلیم
ایسوسی ایٹ پروفیسر
انجمنِ اسلام اکبر پیر بھائی کالج آف ایجوکیشن
واشی ، نوی ممبئی
پہلا روزہ تھا۔شریبہ فجر کی نماز پڑھ کر سجدے میں پڑی مالکِ حقیقی سے لو لگائے ہوئے تھی۔وہ رو رو کر دعائیں مانگ رہی تھی۔ روتے رو تے اس کی حالت غیر ہو گئی تھی۔اچانک اس کی ایک دلخراش چیخ نکلی اور وہ بڑبڑانے لگی ،
’’اے میرے پروردگار میں اس معصوم کا کیا کروں۔‘‘ اس کی چیخ سن کر صائمہ اٹھ گئی تھی اور بھوک کے مارے رونے لگی ۔ شریبہ نے خود تو دو تین گلاس پانی پی کر روزہ رکھ لیا تھا۔ گھر میں ایک دانا بھی اناج کا نہیں تھا اور نہ ہی بچی کے پینے کے لیے دودھ کا ایک قطرہ تھا۔اس نے ایک ایک کونا چھان مارا لیکن کچھ نہیں ملا۔صائمہ بھوک سے تڑپ رہی تھی۔ ماں کا کلیجہ پھٹا جا رہا تھا ۔ اس نے چھ مہینے پہلے ہی اس کا دودھ چھڑا دیا تھا۔ وہ شش وپنج میں تھی ۔ اس نے صائمہ کو اپنی چھاتی سے لگا لیا کہ شاید کچھ قطرے آبِ حیات کے اس کے منھ میں پڑ جائیں، پر اس کی چھاتی بھی سوکھی ہوئی تھی۔ صائمہ کچھ دیر تک تو منھ لگائے دودھ پینے کی ناکام کوشش کرتی رہی اور پھر بلکھ بلکھ کر رونے لگی۔ شریبہ کے ہاتھ پیر پھول رہے تھے۔ایک بار پھر وہ گھر کی ایک ایک چیز تلاش کرنے لگی۔ خوش قسمتی سے ایک مرتبان میں ایک پڑیا ملی اس میں شکر کے کچھ دانے تھے ۔ اس نے جلدی سے پانی کا گھول تیار کیا اور بوتل صائمہ کے منھ میں لگا دی۔صائمہ نے غٹاغٹ پوری بوتل خالی کردی اور مسکرا کے اپنی ماں کی طرف دیکھا ۔ماں کو مانو دنیا کی ہر خوشی مل گئی ہو۔
جلدی ہی شریبہ کو دوپہر کی فکر ستانے لگی۔اب وہ کیا کھائے گی۔وہ پریشان حال چاروں طرف چکر لگا رہی تھی، ظہر کا وقت ہوگیا تھا۔اس نے نماز ادا کی ۔ نماز پڑھ کر اس نے باہر جھانک کر دیکھا ، سامنے جامن کا پیڑ تھا ۔ اس سے جامنیں زمین پر گررہی تھیں۔اس کا چہرہ فرطِ مسرت سے لال ہو گیا۔وہ اپنا دوپٹا پھیلا کر جامن کے پیڑ کے نیچے کھڑی ہوگئی۔ تقریباًایک گھنٹے تک پیڑ کے نیچے کھڑی رہنے کے بعد اس کے دوپٹے میں ۲۵۔۳۰ جامنیں اکٹھی ہو گئی تھیں۔وہ خوش تھی ،مالک نے اس کی بیٹی کے کھانے کا انتظام کر دیا تھا۔دوپہر میں صائمہ نے کچھ جامنیں کھائیں جو باقی بچیں شریبہ نے سنبھال کے رکھ دیں۔وہ عصر کی نماز پڑھ کر اٹھی ہی تھی کہ نہ جانے کہاں سے اس کے دماغ میں خیال آیا کہ مسجد جایا جائے۔ خیال آتے ہی اس نے اٹیچی سے برقع نکالا ۔برقع بالکل نیا تھا۔اس نے یہ برقع اس وقت پہنا تھا جب وہ وداع ہو کر اپنی سسرال گئی تھی ۔ آج اس نے پھر وہ برقع پہنا۔ آنسو تھے کہ تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔ اس نے صائمہ کو گود میں اٹھایا اور تیزی سے مسجد کی طرف بڑھ گئی ۔ مسجدکے اطراف رونق ہی رونق تھی ۔ شریبہ سب کی نظروں سے بچتی ہوئی ایک کونے میں جاکر کھڑی ہو گئی ۔ اس کی قسمت کہ ایک نوجوان کا ادھر سے گذر ہوا، اس نے شریبہ کو ایک نظر دیکھا اور جیب سے پانچ سو کا نوٹ نکال کر شریبہ کے ہاتھ پر رکھ دیا ۔شریبہ نے جلدی سے مٹھی بند کر لی۔ وہ وہاں سے جانے کے لیے قدم بڑھا ہی رہی تھی کہ چونک گئی ، اس کے منھ سے بے ساختہ نکلا، ’’ارے یہ یہاں کیسے ‘‘
اس نوجوان نے بھی اسے دیکھ لیا تھا ۔شریبہ نے چھپنا چاہا لیکن وہ نوجوان اپنے ساتھی کے اس کی طرف ہی آرہا تھا۔ آتے ہی اس نوجوان کاساتھی شریبہ پر بری طرح برس پڑا ، ’’ تمہیں شرم نہیں آتی ہے مانگتے ہوئے‘‘
نوجوان نے کہا ، ’’ جانے بھی دے یار ، تجھے کیا پڑی ہے‘‘
’’ارے نہیں یار، یہ برقع پہن کرمسلمانوں کو بدنام کرتے ہیں۔ دیکھ اس کا برقع ! کہیں سے فقیر لگ بھی رہی ہے۔‘‘
اتنے میں دوسری عورتیں بھی آگئیں ، ایک نے شریبہ کا نقاب کھینچ دیا ۔ چہرہ کھلتے ہی نوجوان کے منھ سے نکلا ، ’بھابھی‘شریبہ پانی پانی ہو گئی تھی۔نوجوان بھی شرمندہ تھا۔ان لوگوں نے سب کو وہاں سے ہٹایا۔آنسوؤں سے شریبہ کا نقاب گیلا ہو گیاتھا ۔
وہ نگاہیں نیچے کیے ہانپتی کانپتی لمبے لمبے قدم بڑھاتی ہوئی گھر آئی اور دروازہ بند کر کے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔افطار کا وقت ہوگیا تھا۔اذان ہوئی اس نے پانی سے افطار کیا ۔ پھر نماز پڑھی ۔دو دن کی بھوکی تھی ۔بچے ہوئے جامن کھائے ۔ صائمہ کو بخار تھا۔ اس نے پانچ سو کا نوٹ دیکھا ، سوچا ڈاکٹر کے پاس لے گئی تو پورے پانچ سو خرچ ہو جائیں گے ۔صائمہ کو گود میں لیا ، کیمسٹ کی دوکان سے سیپٹران اور کروسن سیرپ لیا۔ جرنل اسٹور سے دال، شکر، چاول،آٹا، پتی، بچی کا دودھ لیا۔ماچس ، موم بتی ،کیروسن تیل لیا۔گھر کی بجلی کٹ چکی تھی ۔ گھر پہنچ کر صائمہ کو دوائی دی، دال روٹی خود کھائی اور صائمہ کو کھلائی۔ صائمہ سو چکی تھی۔
شریبہ بھی چٹائی پر لیٹ گئی لیکن آنکھوں میں نیند کہاں۔وہ سوچ سوچ کر روتی رہی ۔کیا یہی اس کا نصیب ہے؟کیا وہ منحوس ہے؟ وہ جتنا سوچتی اتنا ہی روتی۔یوں تو اس کا خوشیوں سے دور کا ہی واسطہ تھا اور جب خوشیاں ملیں تو درد ایسا دے کر گئیں کہ دل میں سمانا مشکل ہو گیا۔ اسے اپنی امی ، ابو اور شوہر رہ رہ کر یاد آرہے تھے ۔۔۔اس کی امی اس سے کہا کرتی تھیں کہ وہ بہت مرادوں کی اولاد ہے۔اس کی پیدائش شادی کے نو سال بعد ہوئی تھی۔اس کے والد کی خوشی کی انتہا نہ تھی۔جب وہ پیدا ہوئی تو اس کے والد نے تقریباً سات دن تک جشن منایا تھا۔ خوب مٹھائیاں تقسیم کی گئی تھیں۔ ہر روز دعوتیں، مبارکباد دینے والوں کا بھی تانتا بندھا ہوا تھا۔ روز ہی غرباء کو کھانے کھلائے جا رہے تھے۔ بہت بڑے پیمانے پر عقیقہ کیا گیا۔سات دن کے بعدپہلی بار اس کے ابواپنے کاروبار کے سلسلے میں باہر نکلے تھے کہ تھوڑی دیر میں ہی خبر آئی کہ ان پر فالج کا اثر ہو گیا۔اسپتال میں داخل کیا گیالیکن سب لاحاصل ۔اب گھر میں اپاہج بن کر پڑ گئے تھے۔ آہستہ آہستہ سب لوگوں نے کنارہ کر لیا۔کچھ ہی مہینوں میں کاروبار بھی بند ہوگیا۔اس کی ماں ٹیچر تھیں۔اب ان کی ہی آمدنی پر سارے خرچ چل رہے تھے۔جینا محال تھا۔لوگوں نے شریبہ کو منحوس کہنا شروع کر دیا ۔آتے ہی باپ کو کھاگئی۔ ماں کو بوڑھا کردیا وغیرہ وغیرہ۔ دونوں نے ہی رو رو کر برا حال کر لیا تھا اور ایک دوسرے کو دلاسہ بھی دیتے رہتے تھے۔بھولے بھٹکے ہی مہینے دو مہینے میں کوئی ایک دو رشتے دار آجاتے تھے۔ان کے آنے سے اور درد سوا ہوجاتا تھا۔ ہر کوئی حال دریافت کرنے کے بجائے بچی کو ہی منحوسیت کے لقب سے منسوب کردیتا تھا۔ شریبہ بڑی ہورہی تھی ۔ پڑھنے میں بہت ہوشیار تھی ۔ بارہویں میں نمایاں کامیابی حاصل کی ۔شہر کے سب سے اچھے گورنمنٹ کالج میں داخلہ مل گیا۔
عاقب سمبوسز کالج میں پڑھتا تھا۔وہ روز شریبہ کو آتے جاتے دیکھتا تھا۔شریبہ کی خوبصورتی اور شرافت پر وہ فدا ہو چکا تھا۔اس نے شریبہ کی طرف بڑھنے کی بہت کوشش کی لیکن ایسا لگتا تھا جیسے شریبہ اس زمین سے تعلق ہی نہیں رکھتی ہے۔وہ بھی دھن کا پکا تھا ۔کافی جدو جہد کے بعد وہ اسے اپنی طرف راغب کرنے میں کامیاب ہوہی گیا۔آہستہ آہستہ وہ ایک دوسرے کے قریب آئے ۔ عاقب نے اس سے اپنی خواہش کا اظہار کیا شریبہ نے صاف انکار کر دیا۔
’’نہیں عاقب! میں شادی نہیں کر سکتی۔ ہم اچھے دوست ہیں اور اچھے دوست رہیں گے۔‘‘
مجبوراً عاقب اپنے بڑے بھائی راغب کے ساتھ اس کے گھر گیا۔ اس کی ماں سے بات کی ۔پیاسے کواور کیا چاہیے تھا جب کنواں خود اس کے پاس آگیا تھا۔اس کی ماں نے کہا ، ’’بیٹا، میں شریبہ کو سمجھا لوں گی۔ آپ اپنے ماں باپ کو لے کر آئیے۔‘‘
ادھر جیسے ہی عاقب نے اپنے گھر میں شریبہ کے بارے میں بتایا، ہنگامہ برپا ہوگیا۔
’’برخورر دار تمہیں بھری دنیا میں یہی ایک لڑکی ملی ہے۔ تم اپنے رتبے کو بھی بھول گئے ۔ کم سے کم خاندان کا ہی خیال کر لیا ہوتا۔‘‘ باپ نے کہا۔
’’بیٹا ، تم تو مخمل میں ٹاٹ کا پیوند لگا رہے ہو۔یہ شادی ممکن نہیں ہے۔‘‘اس کی ما ں بولیں۔
’’بھیا، آپ کے لیے لڑکیوں کی کیا کمی ہے۔میری ہی کتنی سہیلیاں آپ سے شادی کرنے کے لیے تیار ہو جائیں گی۔‘‘
’’ارے اس میں اتنا بڑا کیا مسلۂ ہوگیا۔اگر اس کی پسند ہے تو شادی کرنے میں کیا قباحت ہے۔ وہ ہمارے گھر رہے گی۔ وہ بھی بڑی بن جائے گی۔‘‘ اس کا بڑا بھائی راغب بولا
’’جی ہاں ، پھر دنیا کہے گی بیٹے میں کوئی عیب تھا اسی لئے کسی خاندانی لڑکی نے شادی نہیں کی۔ آپ تو اپنی رائے نہ ہی دیں تو اچھا ہے۔‘‘ اس کے والد نے کہا۔
’’سنیے! اگر وہ لڑکی اس گھر میں آئی تو میں اس گھر میں نہیں رہوں گی۔‘‘ اس کی بھابھی غصے میں بولی۔
’’بس! عاقب چیخا ، مجھے کچھ نہیں سننا ہے۔‘‘ اس نے اپنے دونوں کانوں پر ہاتھ رکھ لیے۔پھر تھوڑے توقف کے بعد بولا، ’’میں شادی شریبہ سے ہی کروں گا۔جسے ملنا ہو ملے نہ ملنا ہو نہ ملے ۔ٹھیک ہے! میں اسے اس گھر میں نہیں لاؤں گا ۔‘‘یہ کہتا ہوا وہ گھر سے باہر نکل گیا۔عاقب کا بڑا بھائی اس کے ساتھ شریبہ کا رشتہ لیکر گیا۔ان لوگوں نے ساری بات شریبہ کی ماں کو بتا دی ۔ شریبہ کی ماں کے ماتھے پر فکر کی لا تعداد تہیں جم گئی تھیں۔ رشتہ جوڑے یا توڑے۔بہت سوچ کر اس نے کہا، ’’بیٹا، بہت بڑا فیصلہ ہے۔نبھا پاؤ گے۔‘‘
راغب نے برجستہ کہا ، ’’فکر نہ کریں ، میں سب سنبھال لوں گا۔‘‘
ایک سادہ تقریب میں عاقب اور شریبہ کی شادی ہو گئی۔عاقب نے اپنے باپ کی کوٹھی سے چند میٹر کے فاصلے پر ایک فلیٹ کرائے پر لے لیا۔شریبہ کے قدم جیسے ہی فلیٹ میں پڑے ادھر عاقب کے بھائی کو دل کا دورہ پڑ گیا۔ شریبہ کے ماتھے پر ایک اور منحوسیت کا داغ لگ گیا۔ ادھر عاقب نے سوچا تھا کہ ایک بار شریبہ گھر میں آ جائے گی، سب خود بہ خود ٹھیک ہوجائے گالیکن قسمت کے لکھے کو کون ٹال سکتا ہے۔ دوریاں اور بڑھ گئیں۔منحوسیت کا رنگ اور پکا ہونے لگا۔ وقت گزرتا رہا۔شریبہ کی بیٹی پیدا ہوئی۔عاقب نے بیٹی کا نا م صائمہ رکھا۔ بہت خوبصورت ننھی مننی پیاری سی۔تقر یباً تین چار مہینے نانی کے پاس رہنے کے بعد صائمہ اپنے فلیٹ میں آگئی۔ دادا دادی کی محبت نے جوش مارا ۔پوتی کی تڑپ نے فلیٹ میں آنے پر مجبور کر دیا۔ دادا دیکھ دیکھ کر بہت خوش ہو رہے تھے۔ دادی بلائیں لیے نہیں تھکتی تھیں۔بہت دیرتک دا دا دادی پوتی کے ساتھ کھیلتے رہے۔پوتی بھی ایسے کھیل رہی تھی جیسے بہت پرانی شناسہ ہو۔بیٹے کو حکم ہوا فوراً یہ فلیٹ چھوڑو اور کوٹھی پر آؤ۔ شریبہ کی مراد بر آئی۔ اسی دن وہ لوگ شفٹ ہوگئے ۔ زندگی معمول پر آنے لگی۔ عاقب کا بھائی بہت خوش تھا۔ساس سسر کو چھوڑ کر شریبہ سے سب ہی لوگ اکھڑے اکھڑے رہتے تھے لیکن صائمہ سب کی آنکھوں کی تاراتھی۔
وقت کی چکی میں شریبہ کو ابھی اور پسنا تھا۔ منحوسیت کے رنگ کو اور گاڑھا ہونا تھا۔وقت کی ایسی آندھی چلی کہ شریبہ کا سب کچھ چھن گیا ۔عاقب ایک حادثے کا شکار ہو گیااور شریبہ کو قسمت کے سہارے چھوڑ کر اپنے مالکِ حقیقی سے مل گیا۔ شریبہ کی دنیا اجڑ چکی تھی۔ سسرال والوں نے اس منحوس کو اس کے مائکے بھیج دیا۔اب رونا سسکنا ہی اس کی زندگی بن گئی تھی ۔اگر کوئی امید کی کرن تھی جو اسے جینے کا حوصلہ دیتی تھی وہ اس کی تین سال کی صائمہ تھی۔ابھی اس کی عدت کے دو مہینے بھی پورے نہیں ہوئے تھے کہ اس کی ماں کی وفات ہو گئی۔شریبہ کی زندگی کا حلقہ اور تنگ ہو گیا۔ ہر کوئی اس منحوس کے سائے سے ڈرنے لگا۔محلے کی عورتیں اپنے بچوں کو اس کی نظروں سے بچا بچا کر رکھتی تھیں۔اب تو اسے بھی محسوس ہونے لگا کہ وہ منحوس ہے ۔اس کا یقین اس دن اور بھی پکا ہو گیاجب اس کے والد نے بھی آنکھیں موند لیں۔باپ کے مرنے کے بعد وہ تنہا ہوگئی تھی۔اس کی خواہشات تو دم تور ڑ چکی تھیں امید کی ایک کرن صائمہ تھی۔اس معصوم کو تو پالنا ہی تھا۔
تبھی دروازے پر کسی کی آہٹ سے اس کی آنکھ کھلی ۔ اس نے جلدی سے دروازہ کھولا دیکھ کر ششدر رہ گئی۔دروازے پر اس کی ساس اور جیٹھ کھڑے تھے۔
گھبرا کر بولی، ’’ امی آپ!‘‘
’’ہاں بیٹا، چلیے اپنے گھر چلیے‘‘
’’کہاں! امی‘‘
’’ارے بیٹا، ہمارے گھر‘‘
’’نہیں امی، میں اپنا منحوس سایہ کسی پر نہیں پڑنے دوں گی۔‘‘
’’شریبہ بیٹا! ہمیں معاف کر دیجیے۔ ہم آپ کو اس حال میں نہیں چھوڑ سکتے۔‘‘
’’امی اس گھر سے میرا رشتہ ختم ہو گیا۔ میں اب اس گھر کے لیے اجنبی ہوں۔‘‘
’’بیٹا، میں جانتی ہوں۔ میں آپ کو اپنی بہو بنانے آئی ہوں۔‘‘
’’کیا!‘‘
’’ہاں میں نے ثاقب کو تیار کرلیا ہے۔ وہ آپ سے شادی کرنے کے لیے راضی ہوگیا ہے۔ ‘‘
’’نہیں امی، مجھے کسی کی زندگی اجاڑنے کا کوئی حق نہیں ہے‘‘
’’نہیں بیٹا، آپ کون ہوتی ہیں کسی کی زندگی بگاڑنے اور سنوارنے والی۔ہر چیز من جانب اللہ ہے۔‘‘
اس کی ساس نے اسے اپنی بانہوں میں لے لیا۔وہ بہت دیر تک ان سے چپٹی ہوئی روتی رہی۔آنسوؤں کی لڑی
جاری تھی لیکن یہ خوشی کے آنسو تھے۔
سادگی کے ساتھ شریبہ اور ثاقب کی شادی ہو گئی تھی ۔ان سے کوئی اولاد نہیں تھی۔ صائمہ ہی ان کی اکلوتی بیٹی تھی۔ ثاقب نے صائمہ کو کبھی احساس بھی نہیں ہونے دیا کہ وہ اس کی بیٹی نہیں ہے ۔ صائمہ ثاقب کوچاچو ہی کہتی تھی۔ صائمہ بھی شادی کے لائق ہوگئی تھی ۔ ثاقب نے ایک اچھا رشتہ دیکھ کر اس کی شادی کردی۔ اس کا شوہر بیرون ملک میں اپنے ماں باپ کے ساتھ رہتا تھا۔ شادی کے بعد وہ لوگ چلے گئے تھے ، صائمہ اپنی ماں کے گھر آگئی تھی اور جانے کی تیاریوں میں مصروف ہو گئی۔ عید کے بعد اسے بھی بیرون ملک جانا تھا۔ آج ستائیسویں شب تھی ۔شریبہ کی جبیں سجدۂ شکر میں تھی تبھی صائمہ آئی، ’’ارے امی، سنو نا‘‘
ثاقب کے ہاتھ میں شریبہ کی پچیس سال پرانی ڈائری تھی ۔ وہ اس کی ورق گردانی کر رہا تھا۔ اس کی نظر ایک صفحہ پر رک گئی۔وہ پڑھنے لگا۔’’میری خواہش ہے کہ مجھے اپنے شوہر کا کاندھا نصیب ہو تاکہ میں جنّتی بن جاؤں اور کیا ہی اچھا ہو وہ رات شبِ قدر کی رات ہو۔‘‘
صائمہ کی کپکپاتی ہوئی آواز آئی ، ’’ چاچو! امی‘‘
—–
Md. Qamar Saleem
Flat No. 3
Plot no. 33, Sector-3
Vashi-Navi Mummbai. 400703
موبائل۔ 9322645061